Ticker

6/recent/ticker-posts

افسانہ ’’ جی آیا صاحب‘‘ کی روشنی میں سعادت حسن منٹو کی افسانہ نگاری کا جائزہ

افسانہ ’’ جی آیا صاحب‘‘ کا تجزیہ | سعادت حسن منٹو کی افسانہ نگاری کا جائزہ

سر مایہ ادب (حصہ نثر)
سوال : افسانہ ’’ جی آیا صاحب‘‘ کی روشنی میں سعادت حسن منٹو کی افسانہ نگاری کا جائزہ لیجئے۔ یا سعادت حسن منٹو کے فن افسانہ نگاری سے اپنی واقفیت کا اظہار کیجئے
جواب : سعادت حسن منٹوار اردو کے مشہورترین افسانہ نگار ہیں۔ ان کی شہرت کا انحصار ان کی فن کارانہ صلاحیت کی وجہ سے ہے۔ انھوں نے معاشرتی برائیوں کو اپنے افسانہ میں بیان کیا ہے۔ کبھی کبھی وہ چونکادینے والی چیزیں بھی لکھ دیتے تھے۔ جس سے معاشرت کے عزیز اصولوں اور روایتوں کی تضحیک ہوتی تھی۔ جس کی وجہ کر ان کے خلافہ زرتی طور پر خت احتجاج ہوتے تھے اور بعض اوقات ان پر مقدمات بھی چلے۔ اس سے ان کی شہرت کی ایک صورت پیدا ہوئی تھی۔ اس کے باوجود منٹو نے کئی عمدہ نمونے پیش کئے ہیں۔ بہت مئوثر کہانیاں لکھیں ہیں۔ بڑے بڑے نادر شاہکار تخلیق کئے ہیں۔ ان کی ذہانت اور تخلیقی جوہر سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ منٹو کے مجموعہ ٹھنڈا گوشت، اوپر نیچے درمیان، ؟ سوالیہ نشان، خالی بوتلیں خالی ڈبے، نیز ید سیاہ حاشیے، نمرود کی خدائی وغیرہ بہترین ادبی تخلیق ہیں۔

سعادت حسن منٹو کے فن افسانہ نگاری سے اپنی واقفیت کا اظہار کیجئے

جی آیا صاحب یہ ایک فقرہ ہے جو دس سال کی عمر کا ایک نوکر قاسم اپنے آقا کی پکار کے جواب میں کہا کرتا ہے۔ محمد قاسم بمبئی شہر کے ایک امیر ترین انسپکٹر کے گھر کا ملازم ہے، جو باورپی خانہ کے برتن صاف کرنے، جھاڑو دینے اور بازار سے سامان خرید کر لانے کے لئے نوکر رکھا گیا ہے۔ صبح سے آدھی رات تک لگا تار کام کرتا ہے۔ آرام بالکل اس کے لئے حرام ہے۔ نیند کا غلبا ور تھکان اکثر وہ محسوس کرتا ہے۔ اس کو کام سے نفرت اور اپنی زندگی سے موت بھلی محسوس ہونے لگتی ہے لیکن اس کا مالک قاسم کو غلام سمجھتا ہے اور دیر رات تک اس کو کام پر کام کرنے کے لئے مجبور کرتا ہے۔ کبھی بازار سے سوڈا کی بوتل لانے کے لئے دوڑایا جا تا ہے اور کبھی جوتا پالش کرنے کے لئے اور صراحی میں پانی بھر کر رکھنے کے لئے طلب کیا جاتا ہے، ایک بار شدت کی غنودگی کے عالم میں جوتا پالش کرتے ہوئے وہ سو گیا۔ اس کے ظالم آقا صبح اس کو ٹھوکریں مارکر، گالیاں دے کر جگاتا ہے، غریب نادان بچہ یک مرتبہ غلطی سے اپنی انگلی کاٹ کر چار دن کام سے فرصت پانے کی خوشی میں دوبارہ اپنی انگلی کو زخمی کر لیتا ہے۔ اس بار بھی اس کو کام سے فرصت مل جاتی ہے ۔ اس فرصت کو غنیمت جان کر تیسری بار تیز دھار والی بلیڈ سے اپنی انگلی کو زخمی بناتا ہے ۔لیکن اس بار زنم بہت گہرا تھا۔ بہت زیادہ خون نکل آیا تھا۔ اس مرتبہ اپنی دانست غلطی کے تکرار کی سزا میں ملازمت سے برطرف کر دیا جاتا ہے اس کو بقایا تنخواہ بھی نہیں دی جاتی ہے۔ مجبور بے سہارا لڑکا مالکن کو رخصتی کا سلام کرتا ہوا حسرت بھری نگاہ سے گھر کے پالتو طوطا کو دیکھتا ہے اور باہر نکل جاتا ہے۔ یہ زخم اس کی زندگی کے لئے خطرناک ثابت ہوتی ہے۔ وہ درد کی شدت سے لا چار ہوکر خیراتی اسپتال میں داخل ہو جاتا ہے، جہاں ڈاکٹروں نے مشورہ کر کے فیصلہ لیا کہ قاسم کی زندگی بچانے کے لئے اس کا ہاتھ کاٹ دینا ضروری ہے ۔

یہ المناک واقعہ پیش کر کے سعادت حسن منٹو نے سرمایہ دارانہ ذہن کی ظلم و بربریت کی عکاسی پیش کی ہے اور غریبوں کے خون اور زندگی سے اپنی شبستان میں انگڑائیاں لینے والی زندگی کی خدمت کی ہے ۔ یہ احساس دلایا ہے کہ ایک ملازم کو بھی نیند اور آرام کا حق ہوتا ہے۔ اس کو یہ حق ملنا چاہئے معصوم زندگی پر ظلم کرنے والے مہذب ترین لوگ یہیں سوچتے ہیں کہ جن مجبور لوگوں کی وجہ سے ان کے کپڑے جوتے، گھر کے برتن اور فرش کی چمک دمک باقی رہتی ہے ان کو بھی یہ حق ملنا چاہئے کہ وہ آرام کی دوگھڑی بتا سکیں۔

یہ افسانہ ظلم و ناانصافی کی ایک دردناک تصویر ہے۔ جو یہ احساس جگاتی ہے کہ ہمارے ملازم بھی انسان ہیں۔ وہ بھی حق رکھتے ہیں کہ ان کے ساتھ انسانیت کا سلوک کیا جائے ۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے