Ticker

6/recent/ticker-posts

مضمون کی تعریف | مضمون نویسی کیا ہے؟ | مضمون نگاری کے اُصول | مضمون کی قسمیں | مضمون نگاری کا فن

مضمون کی تعریف | مضمون نویسی کیا ہے؟ | مضمون نگاری کے اُصول | مضمون کی قسمیں | مضمون نگاری کا فن

مضمون نویسی یا مضون نگاری اُردو ادب کی ایک نثری صنف ہے جس کے تحت کسی بھی طرح کے عنوان پر معلومات اکٹھا کرتے ہوئے اس کے تمام پہلوؤں پر تحریری شکل میں معلومات فراہم کرائی جاتی ہے۔ دلچسپی اور جامعیت کے ساتھ مواد کو ترتیب و تسلسل اور روانی کے ساتھ شگفتگی برقرار رکھتے ہوئے پیش کرنا اور کسی بھی موضوع پر ترتیب اور تسلسل کے ساتھ اظہار خیال کرنے کو بھی مضمون کہا جاتاہے۔

مضمون نگاری کی تعریف Mazmoon Nigari Ki Tareef in Urdu

مضمون نگاری کو انگریزی میں Essay کہا جاتا ہے ـ یہ اردو نثر کی غیر افسانوی صنف ہےـ مضمون نویسی کا آغاز اردو میں دہلی کالج کے قیام سے ہوتا ہےـ سر سید احمد خان اور ان کے ہمعصر دوستوں نےاس صنف کو مجید فروغ دیا تھا۔
مضمون کی تعریف : کسی موضوع پر خیالات کو ربط دے کر اور مسلسل انداز میں اس طرح بیان کرناکہ پڑھنے وال اس کو پڑھ مکمل معلومات حاصل کر سکے اور اثر قبول کرے، اسی کو مضمون کہا جاتا ہےـ

مضمون نویسی کے موضوعات

مضمون کی تعریف کرتے ہوئے مضمون نویسی کے موضوعات پر بھی تھوڑی بہت بحث ضروری ہے۔ اُردو مضون میں سائنس، ٹیکنالوجی، ادب، سیاست، مذہب، امراض اور علاج، سماج اور معاشرت، غرض کہ تمام طرح کے موضوعا ت پر معلومات فراہم کرائی جا سکتی ہے۔

اردو زبان میں مضمون نویسی کا آغاز

اردو زبان میں مضمون نویسی کا آغاز انگریزی ادب کے اثر سے ہوا ہے۔دلی کالج قائم ہونے کے بعد انگریزوں نے ۱۸۲۴ء میں علم و ادب کی ترقی پر غور کیا تو دہلی کالج کے ملازم ماسٹر رام چندر نے سب سے پہلے پہل مضمون نویسی کا آغاز کیا جن سے روشنی لے کر ماسٹر پیارےلال اور بعد میں شمس العلماء ذکاء اللہ نے مضمون نویسی کی روایت کو مجید فروغ دیا۔آگےچل کے سرسید احمد خان اور ان کے رفقاء نے بھی مضمون نگاری کو باقاعدہ فروغ دیا۔

مضمون کی قسمیں

مضمون کے موضوعات پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مضامین کی مختلف قسمیں ہیں مثلاً ادبی مضامین، تنقیدی مضامین و تحقیقی مضامین، علمی مضامین، معاشی مضامین، تاریخی مضامین، سیاسی مضامین، معاشرتی اور سماجی مضامین، سائنسی مضامین وغیرہ۔

مضمون کے اقسام

مضامین عموما تین طرح کے ہوتےہیں
(1) علمی مضمون
(2) ادبی مضمون
(3) صحافتی مضمون

علمی مضمون

کسی ایسے موضوع پرجب اظہار خیال کیا جایے جس سے متعلق معلومات اور مواد کی فراہمی ضروری ہے اور انداز سنجیدہ ہو تو اسے علمی مضمون کہتے ہیں ـ

علمی مضامین کی بنیاد علم اور افکار پر ہوتی ہےـ اس میں مضمون نگار متوازن انداز میں موضوع کےمثبت اور منفی تمام پہلووں کا احاطہ کرتا ہے اور وہ کچھ اسے نتائج برآمد کرتا ہے جن سے پڑھنے والا اتفاق کر سکےـ مثلا کسی مشہورشخصیت کی سوانح حیات سے متعلق کوئی مضمون یا کسی صنف سخن کی امتیازی خصوصیات سے متعلق کوئی مضمون یا کسی اخلاق موضوع سے متعلق مضمون نگار کی رایے سے مشتمل کوئی مضمون ان سب کو علمی مضامین کہا جایےگاـ

علمی مضمون کی مثال میں قاضی عبدالودود کے مضمون "غالب کا ایک فرضی استاد"کو پیش کیا جا سکتاہےـ علمی موضوعات کو محدود اور متعین نہیں کیا جا سکتا کوئی بھی ایسا موضوع جو فکر انگیز ہو اور مصنف کے نقطئہ نظر کو دلائل کی روشنی میں پیش کرتا ہو علمی مضمون کے دائرےمیں آتا ہےـ

کسی علمی موضوع پر اظہارخیال کرنےکے لیے یہ ضروری ہےکہا اس سے متعلق جو تحریریں ہیں اس کا مطالعہ کیا جایے اور مضمون نگار کی نگاہ میں اگر اختلاف کی کوئی گنجائش یا اسے کوئی نئی معلومات حاصل ہوگئی جب ہی وہ اس موضوع پر قلم اٹھایےگاـ اختلاف کی صورت میں مضمون نگار کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے نقطہ نظر کو مدلل انداز میں پیش کرےـ پہلے سے کہی ہوئی باتوں کو دہرانا یا ان کا خلاصہ پیش کر دینا علمی مضمون کی وقعت کو کم کر دیتا ہےـ اسی طرح بنیادی اور ٹھوس معلومات کے بغیر کسی موضوع پر قلم اٹھانا رسوائی کا سبب بن سکتا ہےـ

علمی مضامین کی عمدہ مثالیں علامہ شبلی نعمانی ، خواجہ الطاف حسین حالی، مولوی عبدالحق، محمود شیرانی، قاضی عبدالودود، مولانا امتیاز خان عرشیاور پروفیسر حنیف نقوی کے مضامین و مقالات میں ملتی ہے۔

ادبی مضمون

جب کسی ادبی موضوع پر اظہار کیا جایے تو اسے ادبی مضمون کا عنوان دیا جاتا ہے ـ عام طور پرادبی مضامین شاعری اور ادیبوں سے متعلق لکھے جاتے ہیں ـ مثلا اگر کوئی شخص مرزا غالب ، آتش اور داغ دہلوی جیسے شاعری کی غزل گوئی کی خصوصیات بیان کیے جائیں تو ایسے مضامین ادبی مضمون کا اطلاق ہوگاـ اسی طرح اگر نظیر اکبر آبادی، اکبر الہ آبادی ، علامہ اقبال یا اختر الایمان کی نظموں کے بارے میں کوئی مضمون تحریر کیا جایے تو بھی ادبی مضمون کا عنوان دیا جایےگاـ

علمی مضمون کی طرح ادبی موضوعات پر اظہار خیال کے لیے ضروری ہے کہ اصل موضوع سے متعلق ضروری معلومات فراہم کر لی جایےـ اس کے بعد قلم اٹھایا جایےـ

ادبی مضامین کی دوسری قسم وہ ہو سکتی ہے جسے ہم طنز و مزاح یا انشائیہ کا نام دے سکتے ہیں ۔ان مضامین میں اصل اہمیت ادبی پیرایے اظہار کی ہوتی ہے یعنی مضمون نگار کے لیے یہ ضروری ہوتا ہےکہ وہ اپنے دلکش انداز بیان کے ذریعے پڑھنے والے کو اپنی طرف متوجہ کرےـ اسی طرح کے مضامین میں طنز و مزاحسے بھی کام لیا جا سکتا ہےاور شعری و ادبی ذوق کی مدد سے عمدہ جملے اور ترکیبیں بھی استعمال کی جا سکتی ہیں ـ پطرس بخاری ، ابن انشا، رشید احمد صدیقی ،فرحت اللہ بیگ اور مشتاق احمد یوسفی کے مضامین اسی دائرے میں آتے ہیں ـ

اس طرح کے مضامین لکھنے کے لیے ادبی ذوق کی ضرورت ہوتی ہےـ جب تک کلاسیکی نثر و نظم کا با قاعدہ مطالعہ نا کیا جایےایسے مضامین نہیں لکھے جا سکتےـ

صحافتی مضمون

جس کا تعلق وقتی حالات یا کسی تازہ سیاسی یا معاشرے کے مسئلے سے ہو مثال کے طور پر ملک میں کسانوں کے خودکشی کا مسئلہ آج کل ایک سیاسی موضوع ہےاور اس کی سماجی اور اقتصادی اہمیت ہےکسان حکومت سے زراعتی مقاصد کے لیے قرض لیتا ہے عام طور پر یہ قرض سود کے ساتھ لوٹانا ہوتا ہے۔ کسان کی معاشی مجبوریوں کی وجہ سے قرض کی رقم اس سے خرچ ہو تا ہے اور جس طرح کا نفع اس کے ذہن میں تھا وہ بھی اسے حاصل نہیں ہو تا دوسری جانب قرض کی ادائیگی کا وقت آ جاتاہے۔اب ایک طرف اس کی روز مرہ کی ضروریات ہوتی ہیں جنہیں وہ پورا نہیں کر پاتا اور دوسری طرف سرکاری اہلکار ہوتے ہیں جو قرض کی واپسی کا تقاضا کرتے ہیں ان حالات میں میں مجبور ہو کر کسان خود کشی کر بیٹھتا ہے۔یہ اوراس طرح کے موضوعات جب کسی صحافی کے سامنے آتے ہیں تو وہ اس کے مختلف پہلوؤں کو سامنے رکھ کر اظہار خیال کرتا ہے کہ اس سلسلے میں کسی حد تک حکومت ذمہ دار ہے اور کسی تک خود کسان ذمہ دار ہے۔ اسی ناگہانی سیلاب کاآجانا یا خشک سالی کی صورت کا پیدا ہو جانا بھی کسان کے خود کشی کا سبب بنتا ہے۔ ان سوالات پر غور کرکے صحافی جو کچھ بھی لکھتا ہے اس پر صحافی مضمون کا اطلاق کیا جاتا ہے۔

اس تفصیلی گفتگو سے یہ بات معلوم ہوگئ کہ صحافتی مضمون لکھنے والے کے لیے حالت حاضر ہ سے واقف ہونا ضروری ہے۔اسی طرح صحافی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ جس موضوع پر اظہار خیال کرنا چاہتا ہے اس سے متعلق اعداد وشمار فراہم کرے ایسا نہ ہو وہ موضوع سے متعلق ضروری جزئیات کے علم رکھے بغیر اپنے مضمون میں کوئی ایسی بات لکھ جایے جو واقعی اور غیر تحقیقی ہو۔

اچھا صحافی سیاسیات، سماجیات، معاشیات اور دوسرے موضوعات سے متعلق معلومات کی بنیاد پر اس طرح اظہار خیال کرتاہے کہ اس سے پڑھنے والے کو رہنمائی بھی حاصل ہوتا ہے اور انہیں غور وفکر کا موقع بھی ملتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ شعر وادب کا مطالعہ بھی کرتا ہے تاکہ اس کے انداز بیان میں دلکشی پیدا ہو جایے اور پڑھنے والوں کو خشکی کا احساس نہ ہو۔ صحافی اپنی مضامین کے ذریعے سیاست دانوں کو تو متاثر کرتا ہی ہےاس کے علاوہ وہ ماہرین سماجیات اور ماہرین معاشیات بھی اس کے اثر قبول کرتے ہیں۔شعر و ادب کی روایت سے واقفیت کی وجہ سے اس کی زبان اغلاط سے پاک ہوتی ہےاور اس کا اسلوب بھی شگفتہ اور عام فہم ہوتی ہے۔

مضمون نگاری کی اہم شرطیں

سر سید احمد خان نے مضمون نگاری کے لیےتین طرح کے شرائط کو اہم ترین اور ضروری قرار دیا ہےـ

(۱) مضمون کا اندازِ پیشکش سادہ ہو ، اسلوب پیچیدہ اور پرتکلف نہ ہو یہ مضمون کا عیب ہےـ

(۱) مضمون کی دوسری اہم شرط یہ بتائی گئی ہے کہ جو بھی خیالات اور جس طرح کی باتیں مضمون کے ذریعہ بیان کی گئی ہوں ان میں دلکشی برقرار رہےـ صرف الفاظوں اور اسلوب کا دلکش ہونا مضمون کے لیے کافی نہیں بلکہ جاذبیت بھی ضروری ہے ـ

(۳) مضموننگاری کے لئے تیسری اور آخری شرط اس طرح سے ہے کہ مضمون نگار کے دل کی بات اور جذبات دونوں ہی پڑھنے والے کے دلوں تک پہنچ جائے، یہاں یہ وضاحت ہو جاتی ہے کہ مضمون میں جو بھی خیالات پیش کیے جائیں وہ اس طرح سے مربوط ہو جس طرح سے زنجیرکی کڑیاں ایک کے ساتھ دوسرا مربوط رہتی ہیں۔اگر کسی بھی مضامین میں خیالات میں بےربط ہو تو وہ مضمون کا عیب ہوگاـ مضمون کا ایک ایک پیراگراف اپنے اُوپر لکھے گئے پیراگراف سے فکری سطح پر ربط اور تسلسل کے ساتھ بیان کیا جانا چاہیےـ

مضمون کے اجزائے ترکیبی

مضمون کو عام طور پر تین حصّوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
١ تمہید جس میں مضمون کے موضوع کا تعارف کرایا جاتا ہے۔
٢ نفس ِمضمون جس میں مضمون کےموضوع کی مکمل تفصیلات پیش کی جاتی ہے۔
٣ خاتمہ

مضمون میں عام طورپر تین حصے ہوتے ہیں

(۱)تمہید (۲) اصل مضمون (۳) اختتام کا انجام

تمہید

مضمون لکھنے کی شروعات تمہید سے کیا جاتا ہے۔مضموننگاری میں تمہید کا دلچسپ ہونا ضروری ہے ۔جس سے کہ مضمون کے ابتدائی جملوں کو دیکھ پڑھنے والا مضمون کو مکمل طور پر پڑھنے کے لیے آمادہ اور مجبور ہو جائے اس طرح سے یہ بات واضح ہو گئی کہ مضمون کا ابتدائی حصہ تمہید ہےـ

تمہید کا حصہ

اگر غیردلچسپ اور خُشک ہوگا تو پڑھنے والے اُس كو نہیں پڑھنا چاہے گا۔ اچھی تمہید کامیاب مضمون کی دلیل ہوتی ہےـ اس کے لیے صرف انداز تحریر کی دلچسپی ہی نہیں بلکہ تمہید میں بھی دلچسپی اور دلکشی ضروری ہے۔ ساتھ ہی تمہید کو مضمون سے مربوط بھی ہونا چاہیے یہ نہیں کہ اندر کچھاورباہرکچھ۔ اچھی تمہید مضمون کو ایک الگ خصوصیات عطا کرتی ہے اس لیے کہ تمہید مضمون کی بنیادی شکل ہےـ

اصل مضمون

اچھی طرح سے تمہید لکھنےکے بعدمضمون نگار کو ان مسائل کی طرف رجوع کرنا چاہئےجس کے لیے مضون کی تمہید قائم کی گئی ہے ـ یہ مضمون کا اہم ترین حصہ ہوتا ہے جہاں قاری کو زیادہ متوجہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہےـ اس خاص حصے میں مضمون نگار کو مضمون سے متعلق اہم نقطئہ نظر کو تحریر کرنا چاہئے اور اس کے حق میں مناسب دلائل بھی پیش کرنا چاہئے ۔

مضمون نگار کو اس حصےمیں موضوع سے متعلق مختلف طرح سے تنقیدی جائزہ بھی لینا چاہیے۔ اس حصے کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ اس میں جزباتی پیرایے بیان سے پرہیز کیا جائے اور صرف اپنی ذاتی پسند اور ناپسندکی بنیادپر دلائل نہ قائم کیا جائے بلکہ منطقی استدلال کی روشنی میں ہی کسی نتیجےتک پہنچنے کی کوشش کرنی چاہئے

مضمون لکھتے وقت مضمون نگار کو مضمون کے اس حصے میں اصل مسئلےکے تمام پہلوں کو صفائی کے ساتھ بیان کرنا چاہئے اور جانبداری سے بھی پرہیز کرنا چاہئے۔یہی وہ حصّہ ہے جہاں قاری کے سامنے موضوع واضح طور پر پیش کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے قاری بھی رفتہ رفتہ مضمون نگار کا ہم خیال ہونےلگتاہےـ مضمون کا یہ اہم ترین حصہ ہے اس لیے یہ باقی حصوں سے طویل بھی ہو سکتا ہے اور ایک سے زیادہ پیراگراف پر مشتمل ہو سکتا ہے۔

اختتام

اختتام یا خاتمہ مضمون کا آخری حصہ ہے اور اس کو اختتامیہ بھی کہا جاتا ہے۔ مضمون کے اس حصے میں مضمون نگار کو مضمون میں شامل کیے گیےتمام پہلووں اور نقطوں کو کم سے کم الفاظ میں سمیٹتے ہوئے مضمون کا حاصل کلام بیان کرنا چاہئے۔مضمون کے درمیانی حصّے میں جتنے بھی تفصیلات بیان کئے گئے ہیں یا موضوع کے مختلف پہلووں کا جائزہ لیا گیا ہے ان سے برآمدہونے والے تمام نتائج کو اختتامیہ میں نہایت مئوثر انداز میں اختصار کے ساتھ پیش کرنا چاہئے۔

مضمون کا بہترین اختتامیہ وہ جس کو س ہےکہاس کو پڑھ کر پڑھنے والے کے ذہن میں کسی بھی طرح کا۔ شک یا تشنگی باقی نہ رہے اور موضوع کے متعلق مضمون نگار کے خیالات سے متاثر ہو اور مکمل اتفاق بھی رکھے۔ اختتامیہ میں جو بھی نتائج بیان کیے جائیں اگر ان کا اندازِ پیشکش واضح، اطمینان بخش اور مئوثر نہیں ہے تو پڑھنے والا ذہنی الجھنوں کا شکار ہو سکتا ہے اور یہ اختتامیہ کا بہت بڑا عیب ہے۔مکمل مضمون کو چند جملوں میں اس طرح سمیٹ لیا جائے کہ تمام ضروری پہلو واضح ہو جائے حالانکہ یہ کام دشوار ہےلیکن ایک اچھےاختتامیہ کے لئے یہ بےحد ضروری بھی ہے۔

مضمون کیسے لکھیں

بطور مڈل اسکول، ہائی اسکول یا پھرکالج اسٹوڈنٹ ہر کسی کا واسطہ ایک نہیں بلکہ بیشترمرتبہ مضمون نویسی سے پڑتا ہے اور زمانہ طالب علمی کے بعد پیشہ ورانہ زندگی میں بھی آئے روز ’رپورٹس‘ کی صورت مضمون ہی لکھ رہے ہوتے ہیں۔ بہت سے طالب علموں کو مضمون نویسی ایک مشکل اور وقت طلب مرحلہ لگتی ہے یا پھر کچھ طالب علم مضمون کے ابتدائیہ اور اختتام کے حوالے سے مخمصے کا شکار رہتے ہیں۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مشکل اور دقت طلب مرحلے کو آسان بنایا جائے، اس کے لیے آپ میں کسی خاص قابلیت کا ہونا ضروری نہیں بلکہ مطالعے اور مشاہدے کا اچھا ہونا اور ساتھ لکھنے کی امنگ کا ہونا بھی ضروری ہے۔

مضمون نویسی ہے کیا ؟

لفظ ’’Essay‘‘ لاطینی لفظ ’’Exagium‘‘ سے لیا گیا ہے، جس کے لغوی معنی کسی مسئلہ کو عام لفظوں میں پیش کرنا ہے۔ اس حوالے سے مضمون نویسی کی تعریف کچھ یوں ہوگی ’’یہ تحریر کا ایک ایسا چھوٹا سا ٹکڑا ہے جو کسی موضوع، خیالات یا واقعات پر معلومات کے اظہار کے ساتھ ساتھ ایک لکھاری کی رائے بھی بیان کرتا ہے‘‘۔

عام طور پرمضمون نویسی کی دو اقسام ہیں، روایتی اور غیر روایتی۔ روایتی مضامین،عام طور پر تعلیمی فطرت یا پھر سنجیدہ موضوعات سے نمٹنے کا درس لیے ہوتے ہیں جبکہ غیر روایتی مضامین ذاتی اور مضاحیہ عنصر پر مبنی ہوتے ہیں ۔

عنوان اور مواد کی تیاری

مضمون لکھنے کے پہلے مرحلے میں عنوان کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ جس عنوان پر مضمون لکھنے جارہے ہیں وہ بہترین اور دلچسپ ہے۔ اس حوالے سے اساتذہ، دوست احباب اور سینئر لکھاریوں کی رائے حاصل کی جاسکتی ہے۔اگلا مرحلہ تحقیق کا ہے، جس کے متعلق تعلیمی ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی بھی عنوان پر لکھنے سے قبل اس عنوان پر پہلے سے موجود کم ازکم 10مضامین لازمی پڑھیں، تاکہ آپ اپنی تحریر میں پختگی لاسکیں۔ مواد کے ذرائع اخبارات، میگزین، ریسر چ ورک، مختلف تنظیموں یا ذرائع کی جانب سےجاری رپورٹس اور انٹرنیٹ پر موجود آڈیو یا ویڈیو ز ہوسکتے ہیں۔

مضمون کا فارمیٹ

مضمون نویسی ایک تخلیقی عمل ہے، تاہم اسے لکھنے کا ایک خاص فارمیٹ ہوتا ہے یعنی ایک خاص بنیادی ڈھانچے کی پیروی کی جاتی ہے۔یہ بنیادی ڈھانچہ کچھ زریں اصول و قواعد پر مشتمل ہے، جن کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے علمی، ادبی، سیاسی، مذہبی، سنجیدہ یا مزاحیہ موضوعات پر مضامین لکھے جاسکتے ہیں ۔

تعارف

تعارف کسی بھی مضمون کا پہلا پیراگراف ہوتا ہے، جس میں لکھاری عنوان کا تعارف پیش کرتے ہوئے اپنے قاری سے رابطہ بناتا ہے۔ اس پیراگراف میں مضمون کی مختصراً اور جامع وضاحت پیش کی جاتی ہے۔ مضمون کاتعارفی پیراگراف ہمیشہ یہ سوچ کر لکھیں کہ اس کے ذریعےآپ لکھاری کو اپنی تحریر پڑھنےکے لیے رضامند کررہے ہیں۔ اگر اس پیراگراف کو پڑھنے سے قاری کی عنوان میں دلچسپی پیدا ہوگئی تو پھر وہ آپ کے مضمون کو اختتام تک ضرورپڑھے گا۔ لیکن پہلا پیراگراف لکھنےکے لیے اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ تعارف 4سے 6لائنوں سے زیادہ نہ ہو۔ تعارف کے حوالے چند تخلیقی نکات درج ذیل ہیں ۔

٭ آپ تعارفی پیراگراف کا آغاز اپنے عنوان سے مطابقت رکھتے ہوئے کسی مشہور اقتباس یا کہاوت سے کرسکتے ہیں۔

٭ ایک خاص ترکیب سوالات کی ہے، جس کے ذریعے آپ قاری کی تحریر میں دلچسپی بڑھاتے ہیں۔

٭بعض اوقات آپ عنوان کی تعریف سے بھی مضمون کا آغاز کرسکتے ہیں۔

متن /نفس مضمون

متن (Body) آپ کے مضمون کا ایک خاص حصہ ہے، جس کی اہمیت بیان کرنے کے لیےسینڈوچ کی مثال لی جاسکتی ہے۔مثلاً متن کی اہمیت سینڈوچ کے درمیان موجود گوشت کی سی ہے۔ یہ تعارفی اور اختتامی پیراگراف کے درمیان ایک ایسا خاص حصہ ہے جو جتنا جامع، واضح اور بیانیہ انداز میں پیش کیا جائے گا، مضمون اتنا ہی جاندار اور بہترین ثابت ہوگا۔ مضمون میں متن کسی ایک پیراگراف تک محدود نہیں ہوتا بلکہ اس کی وسعت آپ کے پاس موجود معلومات اوراعداد وشمار پر منحصر ہوتی ہے۔ نفس مضمون میں مناسب، شائستہ اور معقول انداز میں وجوہات پیش کی جانی چاہئیں، ساتھ ہی اس بات کا خاص خیال بھی رکھا جائے کہ یہ تمام تر معلومات مضمون کے عین مطابق ہوں۔ اگر کوئی دلیل آپ کے مضمون کا حصہ بن رہی ہے تو اس دلیل کا مصدقہ ہونا یا باقاعدہ تحقیق پر مبنی ہونا بھی بے حد ضروری ہے۔ عام طور پر متن لکھنے کے دوران اکثر لکھاری معلومات کی وضاحت صحیح طریقے سے نہیں کرپاتے، جس کی وجہ سے قاری الجھن کا شکار ہوجاتا ہے۔ لہٰذا متن لکھنے کے لیے آپ کے خیالات، معلومات اور اعدادوشمار کامنظم ہونا ضروری ہے۔

اختتامیہ

اختتامیہ، مضمون کا آخری پیرا گراف کہلاتا ہے، جو مضمون کا خلاصہ بیان کرتا ہے۔ بعض اوقات آپ کا اختتامیہ پیراگراف، تعارفی پیراگراف کے لیے ایک آئینہ ثابت ہوتا ہے، جس میں ان تمام سوالوں کے جوابات شامل ہوتے ہیں، جن کا ابتدا میں ذکر کیا گیا ہوتا ہے۔ اختتامیہ کی تعریف کچھ یوں بھی کی جاسکتی ہے کہ یہ مضمون کا وہ حصہ ہے جہاں آپ مصدقہ دلائل یا ٹھوس وجوہات کے ساتھ اپنا مؤقف پیش کرتے ہوئے مضمون کا اختتام کرتے ہیں۔ تمام نتائج کو تحریر کرتے وقت ایک خاص ربط کاہونا بھی ضروری ہے تاکہ آپ کے پیش کیے گئے مؤقف کی وضاحت ہوسکے۔

پروف ریڈنگ

مضمون لکھنے کے بعد آخری مرحلہ اس کو پڑھنے کا ہے۔ قاری کے پڑھنے سے قبل آپ اسے ایک بار خود پڑھیں۔مضمون میں جملوں کی ترتیب، ربط، حروف تہجی اور دیگر چیزوں کا بغور مطالعہ کریں۔ اس دوران آپ کو جہاں بھی کچھ بے ترتیبی یا بے ربطگی محسوس ہو، اسے ایڈیٹنگ اور پروفنگ کے ذریعے دور کردیں۔ بعض مضامین پروفنگ اور ایڈیٹنگ کی خامیوں کے سبب اپنا پیغام قاری تک درست انداز میں نہیں پہنچا پاتے، لہٰذا ضروری ہے کہ آپ اپنے مضمون کی اشاعت سے قبل اس میں موجود خامیوں پر ایک نظر ڈالیں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے