Ticker

6/recent/ticker-posts

منقبت حضرت امام حسین علیہ السلام | امام حسین کی شان میں شاعری

امام حسین کی شان میں اشعار | حضرت امام حسین کی شہادت شاعری

حضرت امام حسین علیہ السلام شاعری منقبت
منقبت
ہرگز بھی وہ غلامِ حبیبِ خدا نہیں
جس کا غمِ حسین سے کچھ واسطہ نہیں

ابنِ علیؓ کے جیسا کوئی سورما نہیں
تیغوں کےساۓمیں بھی جودل باختہ نہیں

آنے کو یوں تو آۓ ہیں عابد بہت مگر
سجدہ کسی نے آپ کے جیسا کیا نہیں

ہو مثل آپ کے جو مہکدار یا حسین
صحنِ چمن میں گل کوئی ایسا کھلا نہیں

ہر سو رواں ہے آج بھی سکّہ حسین کا
سکّہ یزیدیوں کا کہیں پر چلا نہیں

یوں تو شہید لاکھوں ہوۓ ہیں یہاں مگر
رتبہ کسی کو آپ کے جیسا ملا نہیں

لرزه نہ بھوکا پیاسا بھی باطل کے سامنے
میرے حسین جیسا کوئی دل چلا نہیں

جیسے ہوۓ ہو سُرخرُو شبّیر جگ میں تم
تابِندہ ایسا کوئی ستارہ ہوا نہیں

جب سے دِکھا ہے چاند محرّم کا اے فراز
کس کی زباں پہ ذکرِ شہے کربلا نہیں

سرفراز حسین فراز پیپل سانہ مرادآباد


شان امام حسین امام حسین کے متعلق شاعری امام حسین کی شہادت پر شاعری

اسانیت حسین کی عالم پہ چھا گئی
راہِ نجات کیا ہے سبھی کو بتا گئی
۔
مظلومیت حسین کی کیا کیا سکھا گئی
صبر و رضا کا پاٹھ جہاں کو پڑھا گئی
۔
راہِ خدا میں جان لٹانے کے شوق میں
جننت مرے حسین کےحصّے میں آ گئی
۔
مٹّی میں مل کےرہ گیااس کا غرور سب
زینب کی آہ ظلمِ ستمگر کو ڈھا گئی
۔
نازل عزاب کیسے نہ ہوتا یزید پر
اصغر کی چیخ عرش ِ الٰہی ہلا گئی
۔
میدانِ کربلا میں وہ شبیر کی نماز
دنیا کو بندگی کا طریقہ بتا گئی
۔
جاہ و جلال دیکھ کے اکبر کا اے فراز
فوجِ ہزید خوف سے لرزے میں آ گئی
۔
سرفراز حسین فراز مرادآناد یو۔ پی


اشعار منقبت امام حسین محرم پر اشعار شہیدے کربلا شاعری

منقبت

کتنا عظيم تیرا گھرانا ہے اے حسین
تجھ پر نثار سارا زمانہ ہے اے حسین
۔
نا'نا کے دینِ حق کو بچانا ہے اے حسین
بچپن کا ا'پنے وعدہ نبھانا ہے اے حسین
۔
اسلام کی بقا کے لۓ تجھ کو شیر ِ حق
سجدے میں اپنے سر کو کٹانا ہے اے حسین
۔
شمرِ لعین ہو کہ عمر ابنِ سعد ہو۔
تیری ہی سمت سب کا نشانہ ہے اے حسین
۔
سجدے میں سر کٹا کے تجھ اپنے خون سے
کربل کی سر زمیں کو سجانا ہے اے حسین
۔
جس پر فدا' ہوۓ ہیں تِرے سارے جاں نثار
اس سر زمیں کا مان بڑھانا ہے اے حسین
۔
شیدا ہیں جوبھی تیرے انھیں دہرمیں"فراز
تا عمر تیرا سوگ منانا ہے اے حسین
۔
سرفراز حسین فراز پیپل سانہ مرادآباد


امام حسین کی شہادت شاعری اردو شاعری اور شہیدِ کربلا منقبت


زینب و شبیر و شبؔر ہیں قرارِ فاطمہ
اور امیرِ دینِ حق ہیں رازدارِ فاطمہ
۔
ساری دنیا پر عیاں ہیں شاہکارِ فاطمہ
ہوگئی یوں خلق ساری جاں نثارِ فاطمہ
۔
سارے عالم سے جدا ہے انکسارِ فاطمہ
یوں مناتے ہیں سدا ہم یادگارِ فاطمہ
۔
مرتبہ کیوں نہ ہو ان کا ارفع و عالی بھلا
سرورِ کون و مکاں ہیں غم گسارِ فاطمہ
۔
چادرِ تطہیر کی عظمت سمجھ پاۓ نہ جو
پھر بھلا سمجھیں گے کیسے وہ حصارِفاطمہ
۔
آپ ہیں سردارِ جننت عورتوں کی اس لۓ
مریم و حوؔا سے بڑھ کر ہے وقارِ فاطمہ
۔
اس لعیں کی ہونہ پائگی کہیں بخشش کبھی
کربلا میں جس نے لوٹا ہے قرارِ فاطمہ
۔
رو پڑا عرشِ بریں تھرؔا اٹھا فرشِ زمیں
لٹ رہی تھی کربلا میں جب بہارِ فاطمہ
۔
جو کئے ہیں آپ نے بابا کی اممت کے لۓ
رنگ لایئں گے وہی محشر میں کارِ فاطمہ
۔
ہم کہاں واقف ہیں انکی عظمتوں سےاےفراز
رب کو ہی معلوم ہیں بس اختیارِ فاطمہ
۔
خود کو سمجھیں گے مقدر کا سکندر ہم فراز
کاش مل جاۓ ہمیں خاکِ دیارِ فاطمہ
۔
سرفراز حسین فراز پیپلسانہ مرادآباد-یو۔ پی۔


منقبت حضرت امام حسین کی شان میں شاعری

ہر سمت یہ ہی ہوتا ہے چرچہ حسین کا
دنیا میں بے نظیر ہے سجدہ حسین کا
۔
کیوں کر نہ اوج پر ہو ستارا حسین کا
مثلِ قمر چمکتا ہے روضہ حسین کا
۔
شمرِ لعیں کا نام بھی لیتا نہیں کوئی
ہر اک زباں پہ اب بھی ہے قصّہ حسین کا
۔
کیوں کر نہ رنگ لاۓ دعا اس کی مومنو
جس نے دیا دعا میں وسیلہ حسین کا
۔
ہم گامزن ہیں یوں ہی شہِ دیں کی راہ پر
خلدِ بریں کو جاتا ہے رستہ حسین کا
۔
میں کیا کروں گا لے کے زمانے کی دولتیں
کافی ہے میرے واسطے صدقہ حسین کا
۔
دیکھا ہے جب سے چاند محرم کا اے فراز
ہر شخص پڑھ رہا ہے قصیدہ حسین کا
۔
سرفراز حسین فراز پیپل سانہ مرادآباد


نادراسلوبی۔ انڈیا

منقبت امامِ حسینؓ محرم شاعری | حسین شاعری

منقبت امامِ حسینؓ
لب پہ حق ہاتھ میں تلوار ہے۔رن پر نکلا
ثانئِ حیدرِ کرّار ہےرن پر نکلا
۔
یوں توشبّیرؓ نےایثار پہ ایثار کیا
کرنےاب آخری ایثار ہے رن پر نکلا
۔
کرناتھاحق بھی ادا رب کی وفاداری کا
کرناتھارب کابھی دیدارہےرن پرنکلا
۔
اس لئےآنکھوں میں تصویرِعلی اکبرؓہے
توڑکرلاشوں کی دیوار ہے رن پر نکلا
۔
سرخیوں نےیہ دکھایاہےلہوسےچھپ کر
آیتوں سےبھرا اخبار ہے رن پر نکلا
۔
عمراب کیوں نہ ہواسلام کی لمبی نادرؔ
دینِ اسلام کا دلدار ہے رن پر نکلا
نادراسلوبی۔ انڈیا


منقبت حضرت امام حسینؓ

راہِ حق میں سرکٹاکرقافلہ خاموش ہے
خاک اُڑاکےسرپہ اپنےکربلا خاموش ہے
۔
دیکھناہےیہ مثالی حق پرستی شئےہےکیا
سوچناہےکیوں مصیبت میں خداخاموش ہے
۔
آگ خیموں کولگادی سرسےچادرچھین لی
صبرکےاس امتحاں میں بھی حیاخاموش ہے
۔
کوفیوں نےاصغرِؓمعصوم کی تک جان لی
تیرکھاکرحلق پرننھادِیاخاموش ہے
۔
کس طرح رب کی مشیت کابیاں کوئی کرے
عابدِؓبیمارکےحق میں شفا خاموش ہے
۔
گربچاناہوتاان کوتوبچالیتاخدا
یہ وہ منزل ہےمشیت کی اداٴخاموش ہے
۔
حکمتِ رب سےمیں نادؔرکیاکہوں
فلسفہ جس کی سمجھ میں آگیاخاموش ہے
نادرؔاسلوبی۔انڈیا


لہو میں ڈوب گیا کربلا ، امام حسینؓ - امام حسین کی شہادت کربلا شاعری

لہو میں ڈوب گیا کربلا، امام حسینؓ
کہ جان لےکے رہا کربلا، امام حسینؓ
۔
تمام کنبے نے سر دے دیا وطن سے دُور
ہے غم کے بیچ گھرا کربلا، امام حسینؓ
۔
یزیدیوں کو رہے گا یہ تاقیامت یاد
بناہے درسِ بقا کربلا، امام حسینؓ
۔
بَلا کا زور لگایا یزید نے لیکن
تمہارے ہاتھ رہا کربلا، امام حسینؓ
۔
بچالیا ہے شہیدوں نے دین کواپنے
سمجھ میں آیا ۔ ہےکیا کربلا ، امام حسینؓ
۔
یہ دونوں حق کی صداقت کےہیں امیں نأدر
کبھی نہ ہوں گے جُدا کربلا ، امام حسینؓ
نادر اسلوبی۔ انڈیا


سلامِ حضرتِ امام حسینؐ

شبّیرؐ فقط کہہ کےیہ میدان میں آئے
جان جائے مگرفرق نہ ایمان میں آئے
۔
اسلام پسند اِس لیےدُہراتےہیں اِس کو
ہےواقعہ ایسایہ جوپہچان میں آئے
۔
شبّیرؐ نےوہ کرکےدکھایاہےجہاں کو
جوبات کسی کےبھی نہ امکان میں آئے
۔
شبّیرؐنے جیسےہی علَم حق کالیاتھام
اعمالِ یزیدی کئی میزان میں آئے
۔
حرؐ نےہےکیاجان کوایماں پہ نچھاور
مشکل ہےصفت ایسی اک انسان میں آئے
۔
اکبرؐکی وہ تلوار کا کیا زور بیاں ہو
تلوار کا یہ زور نہ طوفان میں آئے
۔
نسبت کاکرم جاننے یہ کافی ہےنادرؔ
شبّیرؐکااک نام جودیوان میں آئے
نادرؔ اسلوبی-انڈیا


سید خادم رسول عینی

منقبت در شان حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ

خوب ھے لہجہ مرے شبیر کا
ہر کہا عمدہ مرے شبیر کا
۔
باطلوں کے منھ میں تالا لگ گیا
عزم ھے پختہ مرے شبیر کا
۔
فخر سے کہتا ھے باغ خلد یہ
دیکھ لو رتبہ مرے شبیر کا
۔
اب دکھا سکتا نہیں آنکھیں ستم
سر پہ ھے سایہ مرے شبیر کا
۔
ہیں یزیدی گمرہی کے غار میں
ہر سو ھے غلبہ مرے شبیر کا
۔
فہم میں آیا نہیں کیوں اے عدو
صاف تھا خطبہ مرے شبیر کا
۔
کوئی بھی پہنچا نہیں سکتا ضرر
حق پہ ھے پہرہ مرے شبیر کا
۔
جسم میں اسلام کے جبہ ہے جو
اس میں ھے تکمہ مرے شبیر کا
۔
کس قدر حاوی یزیدیت پہ ھے
مختصر دستہ مرے شبیر کا
۔
مذہب اسلام کے پروان میں
ھے اہم حصہ مرے شبیر کا
۔
دیکھیے ظلم و جفا کی دھوپ میں
"عینی "ھے سجدہ مرے شبیر کا
از قلم : سید خادم رسول عینی


سلام : شبیر ضوفشاں کو ہمارا سلام ہو

شبیر ضوفشاں کو ہمارا سلام ہو
اسلام کی زباں کو ہمارا سلام ہو

اللہ کا کلام مع الصابرین کی
آیت کے ترجماں کو ہمارا سلام ہو

جس کے عمل سے دین میں پھر آگئی بہار
اس ماحیء خزاں کو ہمارا سلام ہو

ایسا نشاں کہ مٹ نہیں سکتا کبھی بھی وہ
سچائی کے نشاں کو ہمارا سلام ہو

جس سے ہدایتوں کی کرن پھوٹنے لگی
سورج کے اس مکاں کو ہمارا سلام ہو

عشاق ان کو مدح کے گل دے رہے ہیں یوں
سردار عاشقاں کو ہمارا سلام ہو

جس میں حسینی دیکے لہو کامراں ہوئے
اس ریت امتحاں کو ہمارا سلام ہو

تلوار اٹھائی کیسے بھلا میزبانوں نے
کوفے کے میہماں کو ہمارا سلام ہو

سبط رسول ، جس پہ ہوئے سجدے خود نثار
اس شاہ زاہداں کو ہمارا سلام ہو

خود رہ کے پیاسے دین کو سیراب کردیا
کربل کے تشنگاں کو ہمارا سلام ہو

شبیر کے لیے ہوئے قربان سب کےسب
شبر کے خانداں کو ہمارا سلام ہو

حر کو کیا معاف جگہ دے دی قلب میں
شفقت کے آسماں کو ہمارا سلام ہو

پیری میں بھی تھے ابن مظاہر جوان خوب
حق کے اسی جواں کو ہمارا سلام ہو

اصغر جنھوں نے جان دی اسلام کے لیے
چھ مہ کے پاسباں کو ہمارا سلام ہو

جو گوش حق میں گونجتی ھے "عینی" آج بھی
کربل کی اس اذاں کو ہمارا سلام ہو
۔۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی
یا حسین Ya Hussain لبّ بیک

منقبت در شان حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ

۔۔۔۔

واسطے حق کے سپہ سالار ہیں میرے حسین
نور حق کے اس طرح شہکار ہیں میرے حسین

آپ کی توصیف میں اشعار ہیں،میرے حسین
نور سے معمور یوں افکار ہیں، میرے حسین

خواب کے عالم میں بھی کوئی نہ چھیڑے شرع کو
واسطے دیں کے سدا بیدار ہیں میرے حسین

سر بلندی دائمی حق کو ملی جس کے سبب
حق بیانی کے وہی کہسار ہیں میرے حسین

پیار کا مرہم لگایا ہر دل بیمار پر
پرتو خلق شہ ابرار ہیں میرے حسین

عزم و استقلال میں ہے شان عالی آپ کی
چرخ استحکام کے معمار ہیں میرے حسین

دی شکست فاش باطل کو ہوئے گرچہ شہید
آسماں میں سرخیء اخبار ہیں میرے حسین

سب صحابہ کے دلوں میں آپ کی الفت رہی
آپ کے مداح چاروں یار ہیں، میرے حسین

دیکھ کر منظر تمھارے چہرہء پرنور کا
تم پہ قرباں پھول کے رخسار ہیں میرے حسین

اس میں آئےگا یزیدی خار کیسے بولیے
زیست کے گلزار کے سردار ہیں میرے حسین

غم‌ سب آگے اپنے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں کہ جب
ہر حسینی کے لیے غم خوار ہیں میرے حسین

رب نے فرمایا مودۃ آیت قرآن میں
سرور دیں کے قرابت دار ہیں میرے حسین

صرف دنیا میں نہیں جنت کے بھی وہ پھول ہیں
خوشبوؤں کے گنبد و مینار ہیں میرے حسین

باقر و موسی' و جعفر آپ کے شہزادے ہیں
کیوں نہ کہہ دوں مخزن انوار ہیں میرے حسین 

تربیت دی ہے انھیں شہزادیء سرکار نے
امتحاں کے واسطے تیار ہیں میرے حسین

کی تھی ہجرت طیبہ سے کوفے کی جانب شاہ نے
سنت ہجرت سے بھی ضوبار ہیں میرے حسین

کردیا مسمار شر کو جب یزیدی سر اٹھا
سب ہیں شاہد، ماحیء اشرار ہیں میرے حسین

خود عزیمت کا پرندہ آپ کا مداح ہے
یوں فضائل سے سدا سرشار ہیں میرے حسین

معرفت کا اک محل اونچا بنایا آپ نے
رب کی یوں پہچان کے معیار ہیں میرے حسین

کم سنی کی بھی روایت معتبر ان کی رہی
یوں محدث منفرد سرکار ہیں میرے حسین

تھے مشابہ سرور پرنور کے وہ، ہے حدیث
اس لیے اے" عینی "خوشبو دار ہیں میرے حسین
۔۔۔
از: سید خادم رسول عینی


آفتاب شاہ

کرتا ہے عشق میرا ماتم حسینؓ کا - امام حسین کی شہادت کربلا شاعری

میں ہوں حسینی دل ہے خادم حسینؓ کا
کرتا ہے عشق میرا ماتم حسینؓ کا

رویا نہیں کبھی جو قتلِ حسینؓ پر
مجرم ہےمصطفیٰ کا آثم حسینؓ کا

لڑنا ہے گر تجھے جو شکلِ یزید سے
بننا پڑے گا تجھ کو لازم حسینؓ کا

اوڑھا ہو جس نے خود پر پرچم حسینؓ کا
دکھتا ہے اس کو خود میں عالم حسین کا

جان و دلم سبھی کچھ ان پر نثار ہے
نانا ہے جن کا افضل ناظم حسینؓ کا
آفتاب شاہ


فرزانہ فرحت۔ لندن

منقبت در شان حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ

نذرانہ عقیدت
بار گاہ امام عالی مقام حضرت امام حسینؓ
از
ڈاکٹرفرزانہ فرحت ۔لندن

سچا ہوا تھا دیکھیے دعوی حسین کا
چمکا جو آسما ں پہ ستارا حسین کا

دلکش تھا پر وقار تھا پرنور تھا بہت
چہرہ وہ خا ک و خون میں لپٹا حسین کا

آنکھوں میں سوگواریاں ہو نٹوں پہ پیاس تھی
جب کربلا میں قافلہ اترا حسین کا

وہ مثلِ ماہتاب منور تھا کس قدر
کیسا تھا پرشکوہ سراپا حسین کا

دیکھا تھا آسمان نے نیزوں کے درمیاں
وہ تمکنت کے ساتھ گزرنا حسین کا

فرحتؔ میں خونِ دل میں ڈبو کر یہ انگلیاں
لکھنے لگی ہوں آج یہ نوحہ حسین کا
فرزانہ فرحت۔ لندن


میرے شہید شہیدے کربلا امام حسین پر شاعری

اُسے نہ مُردہ کہو جو شہید ہوتا ہے
وہی زمیں پہ نئے حق کے بیج بوتا ہے

اُسے فرشتوں کا رُتبہ دلایا جاتا ہے
پھر اُس پہ فخر کا سہرا سجایا جاتا ہے

زمیں پہ نور کی چادر بچھائی جاتی ہے
فلک کے تاروں سے محفل سجائی جاتی ہے

شہید ہو کے جو گردن کٹا کے جاتا ہے
وہ اپنے خون کے موتی لٹا کے جاتا ہے

جسے شہید کا رتبہ نصیب ہوتا ہے
مجھے یقیں ہے خدا کا حبیب ہوتا ہے
فرزانہ فرحت ۔ لندن


ڈاکٹر محبوب ارشد اشک

حضرت امام حسین علیہ السلام کی شان میں

زمانہ تاریک پر ہول کیا جی کے تھے نظارے
روپوش مہ آدمی عدل کے بھی تھے کیا ستارے
۔
گزر گہ پر چھائے!جگنو فضا میں کب تھا چمکتا
کہ شمعیں اخلاق بھی ٹمٹمائیں کیسا اجالا
۔
بھکتے رہرو اندھیرے میں رہبر کی لاج جاتی
اکٹرتی شب بڑھتی شب جال اب ہر جانب بچھاتی
۔
کہ کفر و الحاد کے ساتھ فکر و احساس الجھا
مگر شر تاریک تھا ،خیر پر بھی چھایا ، اندھیرا
۔
کہ حرمت کے گہرے دریا میں ڈوبا ڈوبا بشر تھا
جہنم کے جلنے میں شعلہ زن روح دیں مگر تھا
۔
چمک آئ کوہ فاراں پہ بڑھ مہر جبیں ہو
کیا شب نے بڑھ کے دھاوا سحر نوری میں گئ کھو
۔
پھٹی چادر تیرگی ، امن کی ہستی روشنی ہے
مقدر انساں کا چمکے ہنسی ہر جا زندگی ہے
۔
عرب کیا اور کیا عجم اس سے ہیں جلوے یہ مچلتے
تہہ ظلمت تھیں مناظر پہ وہ رنگ اپنا بدلتے
۔
حسین ع آئے جب تو معیار مرنے جینے کے بدلے
حدیں خیرو شر کی ، معیار کھانے پینے کے بدلے
۔
ہوئ سچی یاں سحر ، زیست کو ملتا آسرا ہے
ہوئے پیدا ، جو جہالت میں زندوں کا با خدا ہے
۔
رضا کی پر ہول چوٹی سے گذرے ہے یہ حسین اب
وفا کی پر خار وادی سے گذرے ہے یہ حسین اب
۔
حسین اب تھا مصلحت سے زمانہ سازی سے عار اب
وہی ٹھہری جیت آخر زمانہ جانے جو ہار اب
۔
وہ جس نے خون جگر دے کے کی ہے گلشن ملت
یہ جرات ہے عزم مومن کی دست فاسق نہ بیعت
۔
سلام اس پر دین کے واسطے دیدی اس نے جاں ہے
حسی ن سرنگیں کی دنیا کو دے دی اک داستاں ہے
۔
تباہی ، پستی ، غلامی ، نہیں ہوتی بے سبب ہے
بہت ہیں نام حسین اب حسینیت تو نہ اب ہے
ڈاکٹر محبوب ارشد اشک


سرفراز بزمی

حضرت حسین رضی اللہ عنہ | امام حسین کی شان میں شاعری

مجھے اس ذات سے وابستگی ہے
غلامی جس کے در کی قیصری ہے
۔
سناں پر سر رہا ہر سر سے اونچا
عدو نے بھی تری تعظیم کی ہے
۔
خیال عابد بیمار رکھیئے
لپٹ خیموں سے پھر اٹھنے لگی ہے
۔
دل موج فرات کربلا میں
لہو دو ، پھر لہو کی تشنگی ہے
۔
جسے سجدے کریں خنجر کے سایے
"وہ سجدہ آبروئے بندگی ہے "
۔
مقام حضرت بزمی پہ مت جا
غلام راکب دوش نبی ہے
سرفراز بزمی
سوائی مادھوپور راجستھان
9772296970


شہید کربلا پر پر سلام | سلام بہ حضور عالی مقام
مسالمہ

اے امیر باصفا شبان فردوس بریں
یہ مقام شرف و عزت آفریں صد آفریں
دید سے تیرے ، فزوں تر میرا ایمان ویقیں
اے ترے خوں سےقوی شیرازہ شرع متیں
۔
پاسدار آبروئے نعرۂ تکبیر سن !
قصر باطل کے لئے اے برق عالمگیر سن!
۔
چھڑگیا ہے پھر جہاں میں کربلائےخیر وشر
مبتلا آلام میں ہے امت خیر البشر
پھر کھلا ہے دختران فاتح خیبر کا سر
پھر پڑی ہے چادر زینب پہ شمروں کی نظر
۔
دیکھ کچھ تو اضطراب روح عثمان وعمر
الحذر ! اے ورثئہ بوبکر و حیدر الحذر !
۔
پھر جہاد زندگانی میں ہیں تیغیں بے نیام
پھر ا فق پر سامری ہے اور فرعونی نظام
دے قیامت خیز کوئ ایسا رحمانی پیام
سیرت فولاد ہو جائے ترا ہر تشنہ کام
۔
زنگ آلودہ نگاہوں کو سلامت کی دعا
سبزئہ نو رستہ کو دے سرو قامت کی دعا
۔
ظلمتوں کی بادشاہی ہے زمیں پر چار سو
حرمت اسلام پر آنے لگی شب خوں کی بو
پھر زمین کربلا نے ہم سے مانگا ہے لہو
ہم فقط اللہ ھو ، اللہ ھو ، اللہ ھو
۔
پھر بہائے اشک خوں اس آسمان پیر نے
پھر ہوئ سورج کو حیرت پھر کہا شمشیر نے
کانپتے ہاتھوں سے لکھا کاتب تقدیر نے
پھر مورخ کی زباں میں شور عالمگیر نے
۔
پاسدار آبروئے نعرئہ تکبیر نے
" زیر خنجر بھی کیا شکر خدا شبیر نے "
۔
تھی پیام موت ہر قیصر کو جن کی اک نظر
سطوت کسری تھی جن کے سامنے زیر و زبر
تھی جہا ں میں گوہر نایاب جن کی چشم تر
خون گردوں رورہا ہے آج ان کی آل پر
۔
مانتا ہوں میں کہ ہے کوتاہ بزمی کی نظر
اب کہا ں سے لاؤں ان اسلاف کا قلب و جگر
سرفراز بزمی
سوائی مادھوپور راجستہان



حفیظ جالندھری

شہید کربلا امام حسین کی شان میں حفیظ جالندھری کا کلام |شہیدی شاعری

لباس ہے پھٹا ہوا، غُبار میں اٹا ہوا
تمام جسمِ نازنیں، چھدا ہوا کٹا ہوا
یہ کون ذی وقار ہے، بلا کا شہ سوار ہے
کہ ہے ہزاروں قاتلوں کے سامنے ڈٹا ہوا
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے
۔
یہ کون حق پرست ہے، مئے رضائے مست ہے
کہ جس کے سامنے کوئی بلند ہے نہ پست ہے
اُدھر ہزار گھات ہے، مگر عجیب بات ہے
کہ ایک سے ہزار کا بھی حوصلہ شکست ہے
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے
۔
یہ جسکی ایک ضرب سے، کمالِ فنّ ِ حرب سے
کئی شقی گرئے ہوئے تڑپ رہے ہیں کرب سے
غضب ہے تیغِ دوسرا کہ ایک ایک وار پر
اُٹھی صدائے الاماں زبانِ شرق وغرب سے
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے
۔
عبا بھی تار تار ہے، تو جسم بھی فگار ہے
زمین بھی تپی ہوئی فلک بھی شعلہ بار ہے
مگر یہ مردِ تیغ زن، یہ صف شکن فلک فگن
کمالِ صبر و تن دہی سے محوِ کارزار ہے
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے

دلاوری میں فرد ہے، بڑا ہی شیر مرد ہے
کہ جس کے دبدبے سے رنگ دشمنوں کا زرد ہے
حبیبِ مُصطفیٰ ہے یہ، مجاہدِ خدا ہے یہ
جبھی تو اس کے سامنے، یہ فوج گرد گرد ہے
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے
۔
اُدھر سپاہِ شام ہے، ہزار انتظام ہے
اُدھر ہیں دشمنانِ دیں، اِدھر فقط اِمام ہے
مگر عجیب شان ہے غضب کی آن بان ہے
کہ جس طرف اُٹھی ہے تیغ بس خدا کا نام ہے
یہ بالیقیں حُسین ہے، نبی کا نُورِ عین ہے
حفیظ جالندھری


ذکی طارق بارہ بنکوی

چشمِ رحمت ہو غموں نے ہے کیا حملہ حسین: اہل بیت کی شان میں شاعری

( یا حسینؓ )
چشمِ رحمت ہو غموں نے ہے کیا حملہ حسین
اے مرے رہبر مرے قائد مرے آقا حسین
۔
لا دو راہِ راست پر سرکارِ طیبہ کے طفیل
کاروانِ ایماں ہے میرا بہت بھٹکا حسین
۔
آپ ہی تو کلمہء طیب کے ٹھہرے پاسباں
آپ کے سر ہی بقائے دیں کا ہے سہرا حسین
۔
ہم تو سچا عشق بھی تم سے نہیں کر پائے ہیں
اور تم نے ہم سبھی کو خون دے ڈالا حسین
۔
آپ کے غم میں یونہی روتے رہیں گے عمر بھر
قبر کی ظلمت ہے ہم کو پُر ضیا کرنا حسین
۔
آپ کے مدِ مقابل آ کے مٹ بیٹھا یزید
کاش کے وہ جان لیتا آپ کا رتبہ حسین
۔
تشنگی تھی زخم تھے فاقہ تھا اور ہجرت بھی تھی
کون سا غم تھا نہ جس کو آپ نے جھیلا حسین
۔
کوئی بھی حالات ہوں کیسا بھی دور آئے "ذکی"
میرے ہونٹوں پر رہے گا یا علی اور یا حسین
۔
( ذکی طارق بارہ بنکوی )
سعادت گنج،بارہ بنکی، یوپی


سرکارِ کربلا مرے سرکارِ کربلا: منقبت امام حسین شہید پر شاعری کربلا شاعری

سرکارِ کربلا مرے سرکارِ کربلا

چشمِ کرم ہو میں بھی ہوں بیمارِکربلا
سرکارِ کربلا مرے سرکارِ کربلا
۔
اے شمر عین سجدے میں قتلِ حسین پاک
تجھ سے تو شرم کھا گئے کفارِ کربلا
۔
اس دشتِ نے نوا کو عطا کرکے اپنا خوں
شبیر نے بنا دیا گلزارِ کربلا
۔
دنیا میں جو نہیں تو قیامت میں ہی سہی
ہونا پڑے گا سب کو پرستارِ کربلا
۔
دے دے خدایا سب کو ہدایت مری طرح
ہاں کھول دے سبھی پہ تو اسرارِ کربلا
۔
اب قبر کے اندھیروں کی پرواہ کیا کریں
جب ساتھ ہے تجلئ انوارِ کربلا
۔
آلِ نبی پہ کرتے ہوئے ظلم اور ستم
حیوان بن گئے تھے ستم گارِ کربلا
۔
اک لب بھی تر نہ کر سکے اور ہوگئے شہید
کیسے بیاں ہو رنجِ علمدارِ کربلا
۔
مولا ترا "ذکی" بھی ہے دیوانہء حسین
اس کو بھی ہو زیارتِ دربارِ کربلا
۔
ذکی طارق بارہ بنکوی


اے حسین اے امام الامام السلام: امام حسین کی شان میں

( السلامُ علیکم یاحسین پاکؓ )
السلام السلام السلام السلام
اے حسین اے امام الامام السلام
آپ کے سر کٹانے میں یہ راز تھا
آیا نیزے پہ جیسے ہی سر مرحبا
عظمتِ سر کو پھر مرتبہ یہ ملا
آفتابِ قیامت کی حد بن گیا
راکبِ دوشِ خیرالانام السلام
اے حسین اے امام الامام السلام
اک طرف پیکرِ جبر و ظلم و جفا
ایک جانب ہے پرور دگارِ وفا
اُس طرف تھا ستم انتہا آشنا
اِس طرف تھی ابھی صبر کی ابتدا
اک طرف گمرہی اک طرف اک امام
اے حسین اے امام الامام السلام
کاسہء شمر میں ڈال دی سر کی بھیک
حرمتِ دستِ حق پر نہیں جانے دی
مرحبا مرحبا آفریں آفریں
اے گلِ فاطمہ اے چراغِ علی
پھر نہ کیوں یہ جہاں آپ کا ہو غلام
اے حسین اے امام الامام السلام
دیکھ کر اہلِ بیتِ نبی پر ستم
صرف ہم آپ کیا کل جہاں روپڑا
کیا شجر کیا حجر کیا چرند و پرند
یہ زمیں رو پڑی آسماں رو پڑا
آپ ہیں صبر کا احتشام السلام
اے حسین اے امام الامام السلام
خونچکاں زخمی پیکر تڑپتے ہوئے
سر پہ جاں لیوا دھوپ اور جلتی زمیں
سوکھے ہونٹوں پہ وہ العطش العطش
ہوتے ہیں جب یہ منظر تصور گزیں
پانی چھونا بھی ہوتا ہے اس دم حرام
اے حسین اے امام الامام السلام
اللہ اللہ وہ ذات ِ مقدس کہ جو
وارثِ ساقئ دونوں عالم بھی ہے
وہ کہ جس کے خود اپنے ہی گھر میں "ذکی"
آبِ کوثر بھی تسنیم و زمزم بھی ہے
کس زباں سے کہیں ہم اسے تشنہ کام
اے حسین اے امام الامام السلام

ذکی طارق بارہ بنکوی
سعادتگنج۔بارہ بنکی


محمد زاہد رضابنارسی

منقبت در شان امام حسین اردو میں

یا حسین 
نسبتِ آلِ پیمّبر کا کرشمہ دیکھیے: سلام
سلام
نسبتِ آلِ پیمّبر کا کرشمہ دیکھیے
خاک کے ذروں کو ہم دوشِ ثریا دیکھیے

زلفِ اطہر دیکھنا ہو یا جمال مصطفٰے
آئیے اِبن علی کا آکے چہرہ دیکھیے

ان کی عظمت خاک کا پتلا بیاں کیسے کرے
آگیا جنکے لیے جنّت سے جوڑا دیکھیے

کوئی جلوہ آنکھ میں ہرگز سماسکتا نہیں
جائیے اک بار جاکر ان کا روضہ دیکھیے

دامنِ ابن علی ہاتھوں میں میرے آگیا
مل گیا خلد بریں کا مجھکو رستہ دیکھیے

کربلا،اجمیروکلیر کی زمیں کہتی ہے یہ
آپ اک دن سیدوں کا آکے جلوہ دیکھیے

آج بھی ناد علی سے کانپتے ہیں مشرکین
آپ کو شک ہے توپھر کرکے وظیفہ دیکھیے

میں گدا ہوں ایسی سرکاروں کا اے "زاہد رضا"
دونوعالم میں ہے جن کا بول بالا دیکھیے
محمد زاہد رضابنارسی
9451439786


دین و حیات میں ہے اہم کیا بتادیا: امام حسین علیہ السلام پرسلام

سلام
دین و حیات میں ہے اہم کیا بتادیا
کرکے سناں کی چھاؤں میں سجدہ بتا دیا

اللہ کی قسم وہ جہنم میں جائے گا
جس نے مرے حسین کو مردہ بتادیا

طیبہ سے کربلا کا سفر کرکے آفریں
شبیر نے بہشت کا رستہ بتادیا

بیعت کی پھر تو کیوں ہے گزارش کرے یزید
شہ نے جب اپنا عزم و ارادہ بتادیا

قرباں ہیں اہلِ بیت کے بچے بھی دین پر
اصغر نے تیر کھا کے یہ جذبہ بتادیا

سر کے بھی مول دین ملے تو خرید لو
ابنِ علی نے کر کے یہ سودا بتادیا

فاسق لعیں یزید کی بیعت کریں قبول
ہم سے کبھی بھی ایسا نہ ہو گا بتادیا

"زاہد" نے پوچھا دیں سے جو جنت کا راستہ
شبیر کا ہے نقشِ کفِ پا بتا دیا
محمد زاہد رضابنارسی
9451439786


سلام: ہم کو ملی ہے دیں کی جو تابندگی حسین

ہم کو ملی ہے دیں کی جو تابندگی حسین
موجود اس میں آپ کی ہے روشنی حسین

جس شخص کو بھی آپ سے نسبت ہوئی حسین
قسمت میں اس کے خلد بریں لکھ گئی حسین

ان جانثاروں کو ہے ہمارا سلام شوق
کربل میں جن سے دین کی عزت بچی حسین

پیاسے تھے پھر بھی کوئی توجہ نہ دی ادھر
دریا نے دیکھی آپ کی دریا دلی حسین

بیشک وہاں پہ بارش انوار ہوگئی
جس جا بھی بزم پاک سجی آپ کی حسین

گرنے نہیں دی آپ نے دیوار صبر کی
گرچہ شدید ظلم کی آندھی چلی حسین

یہ الحسین مِنّی سے زاہد ہے آشکار
قاتل ہیں جو بھی آپ کے ہیں دوزخی حسین
محمد زاہد رضا بنارسی
9451439786


رشک چمن بنا ہے بیابانِ کربلا: کربلا شاعری امام حسین علیہ السّلام کی شہادت پر

کربلا
بیشک بہ فیض خون شہیدانِ کربلا
رشک چمن بنا ہے بیابانِ کربلا
۔
اسلام کو یہیں سے نئی زندگی ملی
ہے دوشِ مسلمین پہ احسانِ کربلا
۔
جن و بشر ، ملائکہ اس در کے ہیں غلام
دیکھیں تو آپ جاکے ذرا شانِ کربلا
۔
کثرت سے جیت سکتا نہیں ہےکوئی بھی جنگ
دیتا ہے یہ سبق ہمیں میدانِ کربلا
۔
مدت سے برکتوں کی میں کرتا ہوں جستجو
میرے بھی گھر پہ آئیے مہمانِ کربلا
۔
دیں کو یزید وقت بھلا کیا مٹائے گا
جاری ہے اس پہ ہر گھڑی فیضانِ کربلا
۔
سونا ادھر ادھر سے نکلتا ہے آفریں
گذرا جدھر جدھر سے بھی مہمانِ کربلا
۔
چشم کرم ہو گھیرے ہیں مجھ کو مصیبتیں
سلطانِ کربلا مرے سلطانِ کربلا
۔
مت پوچھئے ملی ہیں اسے کتنی عظمتیں
"زاہد" ہوا ہے جب سے ثنا خوانِ کربلا
محمد زاہد رضا بنارسی
دارالعلوم حبیبیہ رضویہ گوپی گنج,بھدوہی


سمیعہ ناز ملک۔ دبئی

امام حسین کی شان میں اشعار اردو میں

دلِ سیاہ کا ہر گز نہیں ہے چین حسین
جو حق شناس ہے وہ ہی کہے حسین حسین
۔
چراغِ پنجتنی کا یہی اجالا ہے
رِسالت اور امامت کا زیب و زین حسین
۔
مشارِق اور مغارِب کا جو امام ہوا
اسی کا لَختِ جِگر شاہِ مشرِقین حسین
۔
سوار دوشِ رسالت ص پہ جو امامت تھی
اسی بِناے اِمامت کا نورِ عین حسین
۔
کئے طویل جو سجدے تو یہ بتانے کو
نماز و روزہ و قرآن قبلتین حسین
۔
نجات کا ھے سفینہ بحکمِ شاہِ امم
جنابِ فاطِمہ زِھرا کا نورِ عین حسین
۔
ہر ایک چَشمِ بصیرت پہ آشکارا ھے
رسولﷺ پر بخدا ھے خدا کا دَین حسین ع
سمیعہ ناز ملک۔ دبئی


ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ

سلام حضرت امام حسین شہید کربلا پر شاعری

سلام
دکھوں کی تفصیل لکھنے بیٹھوں تو اشک اپنے تمام لکھوں
لہو میں ڈوبیں جو حرف سارے، امام تیرا سلام لکھوں
۔
وہ جس نے سجدے میں سر کٹا کے ہمیں نوازا بلندیوں سے
وفا کے سجدوں کے شاہ کو ہی میں آج شاہ و اما م لکھوں
۔
یہاں سکینہ کا، اصغر ،اکبر کا اور قاسم کا تذکرہ ہے
ورق ورق پر ہیں اشک پھیلے میں حرف حرف احترام لکھوں
۔
مجھے شہیدوں کا ذکر کرنا ہے سوچ کو معتبر تو کر لوں
قطار میں سارے لفظ رکھوں ،ملے جنہیں پھر دوام لکھوں
۔
ہماری گلیوں میں قتل کب تک روا رہے گا ،سوال پوچھوں
ہمارے ظلمت کدے میں کب ہو گا روشنی کا قیام لکھوں
۔
یہی تقدس ہے اب تو میرا،اسی سے نجمہ مری حفاظت
میں اپنی چادر کے چاروں کونوں پہ بی بی زینب کا نام لکھوں
طالب دعا — ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ


سلام بحضور امام عالی مقام

کربل والوں کے دم سے ہے، ہم کو پیارا ماتم
اپنے دکھوں میں اس جیون کا، بس ہے سہارا ماتم
۔
جہاں پہ مشکیزے پر تیر لگا تھا اک ظالم کا
کرتا ہو گا نہر ِفرات کا، اب وہ کنارہ ماتم
۔
جب تاریکی میں بی بی زینب کے دکھ کو سوچا
ان پلکوں پر چمک اٹھا تھا، ایک ستارا ماتم
۔
کربل کے دامن میں سیکھیں عشق کی رمزیں ساریں
نیزے پر ہے محو تلاوت، راج دلارا ماتم
۔
عشق نے ہجر ووصل کو جب اک جیساہی ملبوس کیا
کیا جانے پھر کون سے دکھ کاہے یہ اشارہ ماتم
۔
تپتی ریت پہ وہ ننھی معصوم سسکتی جانیں
جن کے لہو سے ظلم نے ہر اک دل میں ابھارا ماتم
۔
اپنا جیون تو شاہین بہے، بس اس دھارے میں
ایک کنارہ گریے والا، ایک کنارہ ماتم
۔
دعاؤں کی طالب ۔ ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ


شہزاد تابشِ

سلام حضرت امام حسین شہید کربلا پر

سلام
نذرانہء عقیدت
حسین ابنِ علی علیہ السلام
۔
میرا طریق نقش قدم ہے حسین کا
سر کٹ بھی جائے حوصلہ ٹوٹا نہیں کبھی
۔
رہتا ہوں سر بکف میں یزیدوں کے روبرو
تیر و تفنگ ہاتھ سے چھوٹا نہیں کبھی
شہزاد تابشِ
لاھور، پاکستان


محمد عمران تنہا

سلام شہید کربلا حضرت امام حسین کی شان میں

نجابتوں سے منور حسب حسینؑ کا ہے
طہارتوں سے مزین نسب حسینؑ کا ہے
۔
پناہ تجھ کو ملے گی کہاں یزیدِ لعیں
کہ شش جہات زمیں عرش سب حسینؑ کا ہے
۔
سناں کی نوک پہ سر آیتیں پڑھے اس کا
”مثیل کوئی زمانے میں کب حسینؑ کا ہے“
۔
حسینُ منی کا فرمان یہ بتاتا ہے
ادب رسولؐ کا یعنی ادب حسینؑ کا ہے
۔
ہم انکا ذکر محرم پہ کیوں کریں موقوف
ربیع الاول و ذی الحج رجب حسینؑ کا ہے
۔
امام ہیں بلا تخصیص رنگ و نسل کے وہ
عجم حسین کا لوگو عرب حسینؑ کا ہے
۔
میں کیوں کہوں انہیں مظلوم جاں بلب تنہا
فرات خود جسے ترسا وہ لب حسینؑ کا ہے
محمد عمران تنہا


علی حیدر لاہور

درود پاک ۔ درود شریف امام حسین اور شہیدان کربلا پر

اس کے استقلال پر مل کر سبھی بھیجیں درود
کربلا سے شام تک جس کا سفر نیزے پہ ہے
۔
سر برہنہ دیکھ کر تطہیر کی آیات کو
ایک چہرہ آنسوؤں سے تر بتر نیزے پہ ہے
۔
خون روتے ہی رہے سجاد منظر یہ دیکھ کر
شام تک جو زینب مضطر کی نظر نیزے پہ ہے
۔
خون روتی ہے آج ساری کائنات
محسن انسانیت کا جگر نیزے پہ ہے
۔
سنتا ہوں حیدر مسلسل جب اذانوں کی صدا
لگتا ہے کہ اب تک محمد کا پسر نیزے پہ ہے
التماس دعا ۔ علی حیدر لاہور


آفتاب عالم قریشی

سلام سید الشہداء حضرت امام حسین

کوئی جلا نہ سکا اس طرح وفا کے چراغ
درُونِ دشت جلے جیسے مصطفیٰ کے چراغ
۔
یزید کا تو کوئی نام بھی نہیں لیتا
چمک رہے ہیں زمانے میں کربلا کے چراغ
۔
حُسین کرتا ہے اپنے پرائے کی تفریق
کہِیں جلا کے دیے اور کہِیں بُجھا کے چراغ
۔
بہتّروں نے اندھیروں کو نُور کر ڈالا
برنگِ خونِ شہیداں جلا جلا کے چراغ
۔
تھی روشنی کی ضرورت جہانِ تِیرہ کو
سو رزم گاہ سے لائے گئے اُٹھا کے چراغ
۔
سلام کرتی ہے دنیا جنابِ زینب کو
کہ جن کے عزم نے روشن کیے حیا کے چراغ
۔
حُسینیوں نے بہر گام کردیے روشن
کہِیں نجومِ مودّت کہِیں وِلا کے چراغ
۔
حُسین تیرے لہو سے بچا ہے دِینِ نبی
کہ جس سے نُور فشاں ہو گئے خدا کے چراغ
۔
سلام عابدِ بیمار کے لیے عالم
اُسی کے دم سے ہیں روشن یہاں شفا کے چراغ
آفتاب عالم قریشی

منقبت حضرت امام حسین علیہ السلام | امام حسین کی شان میں شاعری

حیدر عباس

امام حسین کی شان میں میں منقبت

اے دعا تاثیر لکھ
خواب کو تعبیر لکھ

گر سفر ہے آرزو
پاؤں میں زنجیر لکھ

سیرتِ کرارؑ پڑھ
اسوۂ شبیرؑ لکھ

ایک جبڑا اک زباں
اک کماں اک تیر لکھ

ہے لبوں پر یا حسینؑ
یا خدا تقدیر لکھ

مسکراہٹ یک نفس
درد عالم گیر لکھ

ضبط کے اوراق پر
اشک کی تفسیر لکھ

نوک ِ خامہ کو سناں
لفظ کو شمشیر لکھ

لکھ ذرا نہر ِ فرات
اور پھر "بے شیرؑ" لکھ

حادثے لکھ بے خطا
بس مری تقصیر لکھ

دل کے نخلستان میں
گنگناتی ہیر لکھ

نفسِ کل عباس ہے
موت کی جاگیر لکھ

حیدر عباس


Manqabat Imam Hussain

اب کیا کہوں الحمد کہ یسین سکینہؑ
ہر سورۂ قرآن کی تدوین سکینہؑ

تقدیر ہے مقدور کہ مقدور ہے تقدیر
ہے بخت میں سلطانی۔عالین سکینہؑ

کب مشک جدا ہوتی ہے غازیؑ کے علم سے
لگتا ہے کہ عباسؑ کا ہے دین سکینہؑ

عصمت کے صحیفوں کی عبارت کا تکلم
منظومہء تقدیس کی تضمین سکینہؑ

توحید کی تبلیغ نے اعلان کیا ہے
پیغامِ خداوند کی تلقین سکینہؑ

محراب میں سر دیکھ کے یزداں کی طرف سے
شبیرؑ کو بخشی ہوئ تحسین سکینہؑ

تم لوگ تدبر سے پڑھو گے تو ملے گی
آیات کے ملبوس میں تسکین سکینہؑ

لاریب ! سند ہے مری بخشش کی جو کہ دے
عباس دعا کے لیے آمین سکینہؑ

حیدر عباس


یکم رجب المرجب

یومِ جشنِ نزولِ مولا امام باقر العلوم علیہ السلام کے موقع پر بالخصوص ولی العصر علیہ السلام اور تمام مؤمنین کی خدمت میں ہدیۂ تبریک پیش کرتا ہوں !

عصمت نصیب روشنی پھیلی ہے چار سو
زین العباؑء کے گھر میں تقدس ہے نور ہے
ہر علم کو بقاء کا وسیلہ عطا ہوا
ہاں باقرؑ العلوم۔خدا کا ظہور ہے

حیدر عباس


شبِ نزولِ مولا امام علی علیہ السلام


اعجاز کی طلسم نگاری شبِ نزول
کعبے میں کبریا نے اتاری شبِ نزول

مشکل کا وقت ہے مری مشکل کشائ کر
بنتِؑ اسدؑ علیؑ کو پکاری شبِ نزول

تقریب۔رونمائ ہے دلدل سوار کی
آغوشِ انما ہے سواری شبِ نزول

افلاک سے اتر کے زیارت کے واسطے
آئے ہیں مصطفیٰؐ کے حواری شبِ نزول

کعبے کے گرد چاند ہے چکر لگا رہا
خالق نے اس طرح سے سنواری شبِ نزول

اسلام کہ رہا تھا ترا شکریہ خدا !
پوری ہوئ مراد ہماری شبِ نزول

قصرِ کرم کی " بارہ دری " ہے کھلی ہوئی
یوں جوش پر ہے رحمتِ باری شبِ نزول

یہ جشن مرتضیٰؑ کے ملنگوں کی ہے نماز
عباس ہر طرف ہے خماری شبِ نزول

حیدر عباس


کہا حسینؑ نے سجدے میں شکریہ خالق !

ریاضِ عصمتِ دیں کا گلاب اصغرؑ ہے
حسینیت کا حسیں انتخاب اصغرؑ ہے

کہا حسینؑ نے سجدے میں شکریہ خالق !
مرا نصیب سکینہؑ, ربابؑ, اصغرؑ ہے

بجا کہ ظاہری پیکر میں کمسنی ہے مگر
علیؑ ولی کا مکمل شباب اصغرؑ ہے

کہیں زیارتِ تقدیسِ چہرۂ سرورؐ
کہیں تلاوتِ ام الکتاب اصغرؑ ہے

طواف کرنے چلا آئے مصر سے یوسفؑ
جمالِ اسم ِ رسالت مآب اصغرؑ ہے

صراطِ حق پہ چلاتے ہیں فارغ التحصیل
وہ یوں کہ حوزہء قم کا نصاب اصغرؑ کا

سوال یہ ہے کہ کوئ جواب ہے اس کا ؟
جواب یہ ہے کہ بس لاجواب اصغرؑ ہے

یہ ایک دشت میں گونجی صدا کہ سن عباس !
میں کربلا ہوں مرا انقلاب اصغرؑ ہے

حیدر عباس

***

حضرت علی اصغر علیہ السلام کی شان میں منقبت

کچھ ایسا معجزہ گر ہے رباب کا اصغر
نجات ِ نوع ِ بشر ہے رباب کا اصغر

نظر کے آئینہ خانے میں کیا اجالا ہے
کفیل ِ شمس و قمر ہے رباب کا اصغر

طہارتوں کی قسم کھا کے کہہ رہا ہے خدا
مقدسات کا گھر ہے رباب کا اصغر

کہ جس کی اولیں منزل کا نام سدرہ ہے
وہ رفعتوں کا سفر ہے رباب کا اصغر

صباحتوں نے قصیدے کہے ہیں عارض پر
بہشت ِ حسن ِ سحر ہے رباب کا اصغر

ہیں دسترس میں ازل سے امور ِ تکوینی
ولایتوں کا نگر ہے رباب کا اصغر

نبوتوں کے مصلّے ہیں جس کے سائے میں
اک ایسا سبز شجر ہے رباب کا اصغر

بس ایک موج ِ تبسم کے روپ میں عباس
وجود ِ فتح و ظفر ہے رباب کا اصغر

حیدر عباس


عزائے رفت کو بدعت بتا رہا ہے کوئی
محبتوں کی عمارت گرا رہا ہے کوئی

خدا کرے کہ دعا مستجاب ہو جائے
کسی مزار پہ آنسو بہا رہا ہے کوئی

یہیں کہیں مری منزل ہے لمحہ بھر ٹھہرو
یہاں چراغ ہوا میں جلا رہا ہے کوئی

ہوئی ہے حزبِ مخالف میں مخبری کیسے ؟
کہ صف میں ہوتے ہوئے بھی جدا رہا ہے کوئی

رئیسِ شہر ! ذرا ڈر خدا کی لاٹھی سے
کہ خالی ہاتھ ترے در سے جا رہا ہے کوئی

چھڑا ہوا ہے سر شام بانسری پہ الاپ
اداسیوں کا تسلسل بڑھا رہا ہے کوئی

یہ سانحہ مری بینائی ختم کر دے گا
بلا کا غم ہے مگر مسکرا رہا ہے کوئی

تمام شہر میں ہے جشن کا سماں عباس
لٹی انا کا جنازہ اٹھا رہا ہے کوئی

حیدر عباس


منقبت : مرنے پہ یا حسینؑ ہے جینے پہ یا حسینؑ

مرنے پہ یا حسینؑ ہے جینے پہ یا حسینؑ
سایہ فگن ہے دل کے مدینے پہ "یا حسینؑ"

لکھا ہے کائنات کو حیرت میں ڈال کر
عباسؑ نے فرات کے سینے پہ یا حسینؑ

کہتے تھے نوح ڈر نہیں طوفان کا مجھے
لکھا ہے میں نے اپنے سفینے پہ یا حسینؑ

چھاپا ہے اپنے ہاتھ سے پروردگار نے
انگشتری۔دیں کے نگینے پہ یا حسینؑ

ہر مشتری ہے دیدۂ حیراں لیے ہوئے
پھونکا ہے آنسوؤں کے خزینے پہ یا حسینؑ

کیوں خوف ہارنے کا ہو، کندہ رہے اگر
عباس زندگی کے قرینے پہ یا حسینؑ

حیدر عباس


شہزادی سکینہؑ کا نزولِ مقدس بالخصوص مولا صاحب العصرؑ اور تمام مومنین و مومنات کو مبارک ہو !

ایمان ہے سکینہؑ
ایقان ہے سکینہؑ

پیغامِ کبریا کا
اعلان ہے سکینہؑ

شبیرؑ رحل ہے اور
قرآن ہے سکینہؑ

تطہیر۔ فاطمہؑ کی
پہچان ہے سکینہؑ

محشر میں بخششوں کا
سامان ہے سکینہؑ

لا ریب عظمتوں کا
ایوان ہے سکینہؑ

مکتوبِ ہل اتی کا
عنوان ہے سکینہؑ

عباس عصمتوں کا
عرفان ہے سکینہؑ
حیدر عباس


03 شعبان

جشنِ ظہورِ مولا امام حسینؑ کے پر کیف موقع پر بالخصوص ولی العصرؑ اور تمام مؤمنین و مؤمنات کی خدمت میں ہدیۂ تبریک پیش کرتا ہوں !


کرو زمیں پہ چراغاں حسینؑ آئے ہیں
کہ لا الہ کے نگہباں حسینؑ آئے ہیں

جو مجھ سے چھینے گئے تھے ہنر ملیں گے مجھے
خوشی سے کہتا ہے فطرس کہ پر ملیں گے مجھے
تمھارا شکریہ یزداں ! حسینؑ آئے ہیں

کھلا ہے ایک دریچہ مؤدتوں کے لیے
یہ آبرو کا وسیلہ ہے آیتوں کے لیے
کہ بن کے ناطق۔قرآں حسینؑ آئے ہیں

متاعِ دیں کے لیے اور مال و زر کے لیے
کرم کی بھیک میسر ہے ہر بشر کے کے لیے
گلی گلی میں ہے اعلاں حسینؑ آئے ہیں

عجیب پھول کھلے ہیں بتولؑ کے گھر میں
کوئ بھی داغ نہیں ہے کسی بھی منظر میں
سجا ہوا ہے گلستاں حسینؑ آئے ہیں

صحابیوں سے یہ عباس کہ رہے ہیں علیؑ
خدا کے نام کا سکہ نہ رک سکے گا کبھی
یزیدیت ہے پریشاں حسینؑ آئے ہیں
حیدر عباس


04 شعبان : جشنِ نزولِ مولا باب الحوائج غازی عباس علمدار علیہ السلام

جشنِ نزولِ مولا باب الحوائج غازی عباس علمدار علیہ السلام کے خمار آگیں موقع پر بالخصوص ولی العصرؑ اور تمام مؤمنین و مؤمنات کی خدمت میں ہدیۂ تبریک و نذرانہء تہنیت پیش کرتا ہوں !

اسم ِ عباسؑ کی تسبیح فقط کافی ہے
خونِ شریان ِ ولایت کی حرارت کے لیے

انتخابِ صف ِ اربابِ کساء رہتا ہے
چہرۂ حضرتِ عباسؑ زیارت کے لیے

حیدر عباس


05 شعبان : جشنِ نزولِ مولا امام علی زین العابدین علیہ السلام

جشنِ نزولِ مولا امام علی زین العابدین علیہ السلام کے پر کیف موقع پر بالخصوص مولا ولی العصرؑ اور تمام مؤمنین و مؤمنات کی خدمت میں ہدیۂ تبریک و نذرانہء تہنیت پیش کرتا ہوں !

وقارِ خالقِ اکبر کی آبرو سجادؑ
وہ اس لیے کہ محمدؐ ہے ہو بہو سجادؑ

ہر ایک لفظ ہے قرآں کی آیتوں کا خمار
عجیب نہج پر کرتا ہے گفتگو سجادؑ

علیؑ علیؑ کی وہ رعنائیاں ہیں سانسوں میں
کلی کلی پہ چھڑکتا ہے رنگ و بو سجادؑ

شعورِ قلبِ رسالت میں جگمگاتی ہوئ
ضمیرِ فکرِ ولایت کی جستجو سجادؑ

نگر نگر کو الہٰی پیام دیتی ہوئ
روش روش پہ شریعت کی آرزو سجادؑ

مقدسات ہیں نازاں غرور کی حد تک
وہ اس لیے کہ ہے شبیرؑ کا لہو سجادؑ

قسم خدا کی قصیدہ زباں زباں عابدؑ
قسم خدا کی ترانہ گلو گلو سجادؑ

کلیدِ خانۂ اعجازِ کلمۂ "سبوح"
وجودِ سر ِ دل ِ کائناتِ "ھو" سجادؑ

مدبران ِ جہاں کو دکھائ دیتا ہے
بہ طرزِ منبر و محراب سرخرو سجادؑ

کسی بھی سمت سے ڈر کچھ نہیں مجھے عباس
کرم ترشتا رہتا ہے چار سو سجادؑ

حیدر عباس


07 شعبان : جشنِ نزولِ سرکار مولا قاسم علیہ السلام

جشنِ نزولِ سرکار مولا قاسم علیہ السلام کے پر مسرت موقع پر بالخصوص سرکار ولی العصرؑ اور تمام مؤمنین و مؤمنات کو ہدیۂ تبریک و نذرانہء تہنیت پیش کرتا ہوں !

در ِ قبول کھلا ہے جنابِ قاسمؑ سے
کہ حبس رت میں ہوا ہے جنابِ قاسمؑ سے

اسی لیے تو ہر اک سو بکھیرتی ہے حیات
کہ منسلک یہ صبا ہے جنابِ قاسمؑ سے

عروجِ عظمتِ ایماں پیام دیتا ہے
بلندیوں کی فضا ہے جنابِ قاسمؑ سے

قضاء کا ذائقہ شیریں ہے شہد سے لوگو
یہ درس ہم کو ملا ہے جنابِ قاسمؑ سے

وہ جس کا نام بتاتے ہو ارزق ِ شامی
ابھی تلک وہ خفا ہے جنابِ قاسمؑ سے

شبوں میں جاگنے والے چراغ عکسِ جبیں
سیاہیوں میں ضیاء ہے جنابِ قاسمؑ سے

علیؑ کی مدح میں جبریلؑ بولنے کے لیے
خیال مانگ رہا ہے جنابِ قاسمؑ سے

یہ زندگی یہ مراتب یہ زر تو کچھ بھی نہیں
ہمیں خدا بھی ملا ہے جنابِ قاسمؑ سے

مرا سخن میں کوئ بھی کمال کیا عباس
یہ حرف حرف عطا ہے جنابِ قاسمؑ سے

حیدر عباس
***

امام حسین کی شان میں کربلا شاعری

جب شہ مشرقین لکھتے ہیں
بسمِ رب الحسینؑ لکھتے ہیں

بابت ِِ مرتضیٰؑ ملائک سب
نقش پڑھتے ہیں نین لکھتے ہیں

بنتِ زہراءؑ کو کربلا والے
کبریائی کا چین لکھتے ہیں

ہم علیؑ کو بہ رنگِ ذوقِ ولاء
کعبہء قبلتین لکھتے ہیں

حسنِ اکبؑر کو یوسفِؑ کنعاں
زینتِ زیب و زین لکھتے ہیں

دھڑکنوں پر نجف نوشتہ ہے
سانس پر کاظمین لکھتے ہیں

جب بھی لکھیں عریضہ قائمؑ کو
ہم فقط یا حسینؑ لکھتے ہیں

جلد ِ قرآنِ عشق پر عباس
ہم زہیر ؓابنِ قین لکھتے ہیں

حیدر عباس


ایسا لگتا ہے مسافر کربلا جانے لگے نوحہ

عباس ثاقبؔ

28 رجب المرجب کی شب امام حسین علیہ السلام کی مدینہ سے روانگی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چھوڑ کر شہرِ مدینہ کربلا جانے لگے
بے وطن ہونے لگے، آلِ عباؑ جانے لگے


نوحہ گر اَلْحَمْد ہے، وَالنَّاس نے ماتم کیا
بال کھولے بَین کرتی جا رہی ہے ھَل أَتیٰ
رو رہی ہے أِنّما، اہلِ کسا جانے لگے


باندھ لیں زادِ سفر میں چادریں اور بالیاں
ایک جُھولا، اِک جوانی اور ماں کی سسکیاں
ایسا لگتا ہے مسافر کربلا جانے لگے


ماں کی تربت سے لپٹ کر زینبؑ و شبیرؑ نے
درد کے قرآن نے، قرآن کی تفسیر نے
آنسوؤں سے آخری بوسہ لیا، جانے لگے


قبرِ پیغمبرؐ پہ ثاقبؔ! جس گھڑی رو کر گرے
فاطمہ زہراؑ کے بچے، مرتضیٰؑ کے لاڈلے
دیکھ کر رونے لگی ان کو قضا، جانے لگے
عباس ثاقبؔ

شایانؔ
نہ پوچھو ہے دنیا میں کیا کیا حسنؑ کا
زمیں بھی حسنؑ کی زمانہ حسنؑ کا

فلک پر بھی جشِن والا ہو رہاہے
ملک پڑھ رہے ہیں قصیدہ حسنؑ کا

چلے آؤ خلدِ بریں جانے والو
کہ جنت سے ملتا ہے رستہ حسنؑ کا

پدر ُکِل ایماں ہے ماں فخرِ مریم
ہے دنیا میں افضل قبیلہ حسنؑ کا

صدا آئی قاسم کی کربوبلا سے
ہے جاگیرِ کربل میں حصہ حسنؑ کا

یہ لکھ کر قلم نے قلم توڑ ڈالا
قلم سے پرانا ہے رشتہ حسنؑ کا

کہاں جا رہے ہو ِفدک کے لُٹیرو
ہے گلزارِ جنت پہ پہرا حسنؑ کا

قلم سے برستے تھے الفاظ شایانؔ
کہ جب میں نے لکھا قصیدہ حسنؑ کا

محرم پر اشعار : غرورِ کفرِ یزیدی مٹا رہے ہیں حسین

شفیق مراد

غرورِ کفرِ یزیدی مٹا رہے ہیں حسین
مری زمین کو جنت بنا رہے ہیں حسین

مرے رسول کی نظروں کا فیض تو دیکھو
کہ مثل ِشمس و قمر جگمگا رہے حسین

میں جن حروف سے لکھتا ہوں داستانِ وفا
انہی حروف کو عنقا بنا رہے ہیں حسین

حسین آپ کی اس دل پہ حکمرانی ہے
وفورِ شوق سے ہم یہ بتارہے ہیں حسین

وہ بن کے رشد و ہدایت کے پیکرِ انمول
رموز دین محمد سکھا رہے ہیں حسین

غم حسین کی دولت سے سرفراز ہوں میں
مرے نصیب پہ اب مسکرا رہے ہیں حسین

یزیدِ عصر کے فتنوں میں گِھر رہا ہوں مراد
تبھی تو شانِ جلالی سے آرہے ہیں حسین

شفیق مراد

نظم : دامن کو آنسوؤں سے بھگوتی ہے کربلا

۔۔۔۔۔۔

دامن کو آنسوؤں سے بھگوتی ہے کربلا
اب تک غمِ حسین میں روتی ہے کربلا۔

اصغر شہید ہو گئے شدّت سے پیاس کی
اِک ماں کو آنسوؤں میں ڈبوتی ہے کربلا


چھینٹے لہو کے جو بھی تھے بکھرے زمین پر
اشکوں سے اُنکو آج بھی دھوتی ہے کربلا۔

روتی ہے یہ زمیں تو سسکتا ہے آسماں
کاندھوں پہ جب جنازوں کو ڈھوتی ہے کربلا۔

سجدوں کا تھا جنوں جنہیں نیزے کی نوک پر
تسبیح میں وہ نام پروتی ہے کربلا۔

مٹتا ہے جا کے تب کہیں دورِ یزیدیت
جب فاطمہ کے لال کو کھوتی ہے کربلا۔

حیران ہے عطیہ یہ جہاں سوچ سوچ کر
سینے میں کیسے غم یہ سموتی ہے کربلا۔

عطیہ نور
پرياگ راج ،اُتر پردیش

امام حسین پر اشعار : محرم پر اشعار

زاہد علی سلطان ایڈووکیٹ

اسلام کے علم کو اٹھایا حسین نے
دینِ نبی جو ہے وہ بچایا حسین نے

صدق و صفا لیے ہوئے ذکرِ خدا کے سنگ
عشقِ نبی کا پاٹ پڑھایا حسین نے

حق کی صدا کو یوں کوئی لے کر نہ چل سکا
حق جس طرح سے حق سے نبھایا حسین نے

وردِ خدا رہا رواں نیزے کی نوک پر
قرآن اس طرح سے سنایا حسین نے

قائم نماز کیا ہے کہ عظمت سجود کی
میدانِ کربلا میں بتایا حسین نے

دینِ محمدی کی حفاظت کے واسطے
سر اپنا کربلا میں کٹایا حسین نے

گھر بار چھوڑ چھاڑ کے دے کر شہادتیں
تختِ یزیدِ شان گرایا حسین نے

سب کچھ خدا کی راہ میں قربان کر کے یوں
پاسِ وفا ہے کیا یہ سکھایا حسین نے

زاہد علی سلطان ایڈووکیٹ


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے