Ticker

6/recent/ticker-posts

میر امن کی داستان نگاری | میر امن دہلوی حالاتِ زندگی اور ادبی خدمات | باغ و بہار کا جائزہ

میر امن کی داستان نگاری | میر امن دہلوی حالاتِ زندگی اور ادبی خدمات | باغ و بہار کا جائزہ

ارود زبان میں داستانوں کی روایت بہت پرانی ہے۔ اردو میں جتنی داستانیں لکھی گئیں اتنی دنیا کے دوسرے کسی ادب میں دیکھنے کو نہیں ملتی ۔ باغ و بہار سے قبل دکن اور شمال میں کئی داستانیں لکھی گئیں ۔ اس کا سلسلہ ’’سب رس ‘‘ سے شروع ہوکر اگر فسانہ آزاد کو داستان مان لیں تو اس پر آ کر ختم ہوتا ہے ۔ ناقدین ’فسانہ آزاد کو داستان اور ناول کے درمیان کی کڑی بھی کہتے ہیں ۔ میر امن کی باغ و بہار فورٹ ولیم کالج کلکتہ میں 1802 میں لکھی گئی ہے یہ فارسی قصہ چہار درویش کا اردو ترجمہ ہے اور اپنے اسلوب بیان کی وجہ سے بہت مشہور ہے۔ اس داستان میں دہلی کے روز مرہ کی بہترین مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ باغ و بہار سے قبل فرسی کے قصہ چہار ورویش کو عطاحسین خاں تحسین نے نو طرز مرصع کے نام سے اردو میں ترجمہ کیا تھا۔

باغ و بہار دہلوی معاشرت کی عکاسی کرتی ہے بحث کریں

اردو میں داستانوں کے مشہور ہونے کی وجہ اس کا بیانیہ ہے جو بادشاہوں شہزادوں اور نوابوں کو دل بہلانے کا سامان مہیا کرتا تھا۔ سماج کی نئی کروٹوں کے ساتھ اس کا رواج کم ہوتا چلا گیا ، لیکن اس کی قدر و قیمت میں کوئی کمی نہیں آئی ، داستانیں ہماری تہذیب کی آئینہ دار ہیں ۔ لباس، رسم و رواج، رہن سہن کا طریقہ، کھانے ، تفریح طبع کے لوازمات، چند نا پسند غرض زندگی کا رنگ داستانوں میں جھلکتا ہے۔ داستانوں میں زبان و بیان کے تمام طرز بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس لیے کہا گیا ہے کہ بغیر داستانیں پڑھے اردو زبان پر دسترس حاصل نہیں ہوسکتی۔ داستانیں اپنے عہد کی مزاج داں بھی ہوتی ہیں ۔ باغ و بہار کی ہر دلعزیزی کی یہی وجوہ ہیں جنھوں نے اسے ابتدا سے اردو نصاب کا حصہ بنایا ہے۔

میر امن دہلوی کا تعارف | میر امن دہلوی حالاتِ زندگی اور ادبی خدمات

میر امن کی پیدائش کب ہوئی

میرامن محمد شاہ کے عہد (1719 17485) میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ نثر نگار کے علاوہ ایک شاعر بھی تھے اور لطف تخلص کرتے تھے۔ میرامن کے واقعات زندگی تاریکی میں ہیں۔ باغ و بہار کے دیباچہ میں خود لکھتے ہیں کہ ان کے دس پانچ پشتیں دہلی میں گذری ہیں۔ ہمایوں کے عہد ہی سے بادشاہوں کے دربار سے ان کے آبا و اجداد وابستہ رہے ہیں۔ سورج مل جاٹ نے 1753 میں جا گیر ضبط کر لی اور احمد شاہ درانی کے حملے (1760) میں مکان تباہ ہو گیا۔ تنگ آ کر انھوں نے وطن کی سکونت ترک کر دی اور 1760 میں اپنے خاندان کے ساتھ عظیم آباد پٹنہ چلے آۓ۔

Mir Aman Ki Halat E Zindagi In Urdu | Short Note On Mir Amman In Urdu

1799 میں میر امن اپنے اہلِ خاندان کو چھوڑ کر وہ تنہا کلتہ چلے آئے۔ کچھ عرصہ تلاش روزگار میں رہے آخر کار نواب دلابر جنگ کے معلم مقرر ہوئے۔ دو برس گذار کر ملازمت ترک کردی اور میر منشی بہادر حسینی کے توسط سے ڈاکٹر گل کرسٹ تک رسائی حاصل کیا جنھوں نے فورٹ ولیم کالج میں ملازم رکھ لیا۔ میں اس شعبہ ہندوستانی سے منسلک ہو گئا۔ 14 مئی 1801 کو منشی کی حیثیت تقر عمل میں آیا اور 40 روپے ماہوار تنخواہ پانے لگے۔ وہ فورٹ ولیم کالج سے پانچ برس وابستہ رہے 1806 میں ایک انگریز طالب علم کو پڑھانے سے انکار کرنے پر ملازمت سے برطرف کردیے گئے ۔ سبکدوسی کے بعد بھی کلکتہ میں رہے اور وہیں وفات پائی میر امن نے فورٹ ولیم کالج کے زمانہ ملازمت ہی میں 1802 باغ و بہار اور گنج خوبی تصنیف کیں ۔

میر امن دہلوی کی تصانیف باغ و بہار کا جائزہ

باغ و بہار کا مآخذ عطا حسین خاں تحسین کا نو طرز مرصع ہے جو فارسی قصہ چہار درویش کا ترجمہ ہے۔ میر امن چہار درویش کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ابتدا میں یہ قصہ امیر خسرو اپنے پیر و مرشد نظام الدین اولیا کو زمانہ علالت میں ان کا دل بہلانے کے لیے سنایا کرتے تھے۔ میرامن فارسی زبان خوب جانتے تھے۔ انھوں نے مشہور کتاب اخلاق محسنی کا ترجمہ گنج خوبی کے نام سے کیا ہے۔ اس ترجمے سے دو سال پہلے انھوں نے جان گلکرسٹ کی فرمائش پر انگریز صاحبان کی تعلیم کے لیے قصہ چہار درویش کو عام بول چال کی زبان میں لکھا تھا۔ عطا حسین خاں تحسین اس فارسی قصے کو پہلے ہی اپنے زمانے کی اردو میں ترجمہ کر چکے تھے۔ قصے کی مقبولیت کے پیش نظر کلکرسٹ نے اسے عوام کی زبان میں لکھوایا۔ میرامن نے اس کے دیباچے میں لکھا ہے کہ

’’ یہ قصہ چہار درویش کا ابتدا میں امیر خسرو نے کہا تھا۔ اب خداوند نعمت جان گلکرسٹ صاحب نے ۔۔۔۔۔ لطف سے فرمایا کہ اس قصے کو ٹھیٹھ ہندوستانی گفتگو میں جو اردو کے لوگ ہندو مسلمان، عورت، مرد، لڑ کے ، بالے، خاص و عام آپس میں بولتے چالتے ہیں، ترجمہ کرو۔۔۔۔۔۔۔۔ موافق حکم حضور کے میں نے اس محاورے سے لکھنا شروع کیا جیسے کوئی باتیں کرتا ہے۔‘‘

’’باغ و بہار کے متن پر اپنی تحقیقی تصنیف میں رشید حسن خاں نے لکھا ہے کہ اس قصے کو امیر خسرو سے منسوب کرنا صحیح نہیں کیوں کہ جتنے لوگوں نے اسے فارسی اور اردو میں لکھا ہے، کسی نے امیر خسرو کا نام اس قصے کے ساتھ نہیں لیا، یہ میرا من کی اختراع ہے اور غلط ہے۔ امیر خسرو کا نام لینے سے لامحالہ اس قصے کے فاری میں تصنیف کیے جانے کی طرف ذہن جاتا ہے ۔ حسین نے اس قصے کو البتہ قاری سے اردو میں منتقل کیا تھا۔ مگر ان کے تر جمے بہ نام نو طرز مرصع‘‘ کی زبان بے حد گنجلک اور عربی فارسی ترکیبوں اور جملہ سازی سے بھری ہوئی ہے۔ مولوی عبد الحق اس قصے کے تعلق سے لکھتے ہیں کہ یہ بھی فارسی کا ترجمہ نہیں بلکہ تحسین نے اسے اپنے ڈھنگ سے لکھا ہے۔ میر امن نے اسے سامنے رکھ کر از سرنو اسے اپنی زبان میں لکھا جو عوام کی بول چال سے قریب ترہے۔ اس کتاب کے تر جمے یا تصنیف ہونے کے تعلق سے رشید حسن خان لکھتے ہیں۔


’’باغ و بہار میں وہ ایک قصے کو اپنے طور پر لکھتے ہیں اور اس کی جزئیات میں بھی دخل دیتے چلے جاتے ہیں اور قصے کو اس طرح لکھتے ہیں کہ اس کا قالب بدل جاتا ہے۔ اس عمل نے کتاب کو تصنیف کے درجے تک پہنچادیا ہے ۔‘‘
فورٹ ولیم کالج کاؤنسل نے جو کتابیں لکھوائیں، ان پر انعامات دینے کا بھی اس نے اعلان کیا تھا۔ باغ و بہار کی تصنیف پر میر امن کو پانچ سو روپے بطور انعام کاؤنسل کی طرف سے ملے تھے۔

میرامن کی داستان نویسی | Bagh O Bahar Ka Khulasa In Urdu

باغ و بہار اپنے نام کی مناسبت سے اردو نثر کی سدا بہار تخلیق ہے۔ اردو نثر کے ابتدائی زمانے میں جب مذہبی، تاریخی اور اخلاقی موضوعات پر نثر نگاری کی جا رہی تھی’’ باغ و بہار نے قصہ گوئی کی صنف کی اہم ہیئت داستان میں اپنی کلاسک جگہ بنائی۔ اردو نثر کا یہ سرمایہ آج بھی لسانی ، سماجی اور فنی مطالعہ کے لحاظ سے خاصا اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ انیسویں صدی عیسوی کا زمانہ اردو ادب میں داستان کے عروج کا زمانہ تھا۔ اس زمانے میں داستان گوئی کے سماجی اور فنی ادارے نے خوب ترقی کی خصوصاً لکھنؤ میں بہت سے داستان گو پیدا ہوئے جنھوں نے زبان و بیان تخیل کی پرواز تجسس سے پر بیان ، سحر وطلسم اور حسن وعشق کی رنگینی کے طول طویل قصے سناکر عوام و خواص کو دلچسپی کا سامان فراہم کیا۔ ” داستان امیر حمزہ، بوستان خیال‘‘ اور ’’الف لیلہ وغیرہ داستانیں اس گروہ میں مشہور ہیں ۔ ان داستانوں کے واقعات اور کردار اردو افسانے کی روایت میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ انیسویں صدی کے خاتمے پر یہ داستانیں زبانی روایت کا حصہ تھیں۔ پریس کے قیام کے بعد اپنا ایک لسانی لسانی اور تخیلی مزان رکھتی ہیں۔ اس زمانے میں کچھ مختصر داستانیں بھی وجود میں آئیں، خاص طور پر رجب علی بیگ سرور کی ’’فسانہ عجائب‘‘ اورحیدر بخش حیدری کی ’’ آرائش محفل ‘‘ اور میر امن کی ’’ باغ و بہار ”باغ و بہار جیسا کہ بتایا گیا، تدریسی مقصد سے لکھوائی گئی تھی ۔ یہ داستان چار درویشوں کے معروف قصوں کی وجہ سے عوام و خواص میں اپنی پہچان رکھتی ہے۔ اسے مختلف لکھنے والوں نے اپنے اپنے ڈھنگ سے لکھا ہے۔ میر امن کی داستان ان میں اپنی انفرادیت کی حامل ہے۔ سید احتشام حسین نے اردو ادب کی تنقیدی تاریخ میں لکھا ہے کہ

’’ اس کے تر جے ہندی اور اور یورپی زبانوں میں ہو چکے ہیں۔ وہاں کے نقادوں نے بھی اس کی ستائش کی ہے۔ اس کے پڑھنے سے عہد وسطیٰ کے ہندوستان کی سماجی حالت اور خصوصاً مسلمانوں کی ثقافتی زندگی کے بارے میں بہت سی باتیں معلوم ہوتی ہیں اور جاگیردارانہ سماج کے طور طریقے کھانا پینا ، لباس، و زیور، اخلاقی تصورات ہر مسئلے پر روشنی پڑتی ہے۔ اس میں سنسکرت اور بھاشا کے الفاظ بھی خوبصورتی سے لیے گئے ہیں۔ ‘‘

Bagh O Bahar Summary In Urdu

"باغ و بہار کی زبان روز مرہ اور محاوروں سے آئی ہوئی ہے اٹھار ہوئیں انیسویں صدی میں فارسی کے مشکل اسلوب کا چلن عام تھا۔ باغ و بہار نے اس اسلوب کے جادو کو توڑا اور ایک سادہ اور صاف لیکن پر اثر روایت کی تشکیل کی ۔ میرامن کی نثر میں جو حسن، طاقت، اور ذہن پر چھا جانے والی کیفیت ہے اس کی وجہ سے اسے جدید اردو نثر کا پہلا فن پارہ کہا جاتا ہے ۔ الفاظ کی تکرار متضاد اور مترادف لفظوں کے استعمال، محاوروں ، کہاوتوں، قافیوں اور صنعتوں کو جملوں میں شامل کر کے میرامن نے اپنا ایک ایسا اسلوب پیدا کیا ہے جو اپنے زمانے کے نثر نگاروں میں میر امن کو ایک انفرادی بیان دیتا ہے۔

Meer Aman Ki Dastan Bagho Bahar Ka Khulasa

باغ و بہار کی داستان روم کے بادشاہ آزاد بخت کے حالات بیان کرنے سے شروع ہوتی ہے۔ بادشاہ کو اولاد نہ ہونے کا غم ہے۔ اس غم میں وہ تنہائی اختیار کر لیتا ہے لیکن پھر وزیر کے کہنے پر دوبارہ حکومت پر توجہ دیتا ہے ۔ رعایا کی خبر گیری کے لیے وہ ایک رات میں روپ بدل کر نکلتا ہے اور ایک قبرستان میں جا پہنچتا ہے جہاں وہ چار درویشوں کو دیکھتا ہے اور چھپ کر ان کی باتیں سنتا ہے۔ ہر درویش اپنی زندگی کے حالات بیان کرتا ہے معلوم ہوتا ہے کہ حالات کے بارے میں ان درویشوں میں تین دروایش تو ( فارس ، ع عجم اور چین کے شہزادے ہیں اور چوتھا درویش ایک بڑے تاجر کا بیٹا ہے۔

سرگزشت آزاد بخت بادشاہ کی

ہر ایک کے حالات میں عام انسانوں سے لے کر شہر ادوں، بادشاہوں تک کے حالات ملتے ہیں ۔ ان میں حیرت انگیرز واقعات، حکایات اور کرداروں سے ہماری ملاقات ہوتی ہے۔ سماج کے مختلف طبقوں میں رہنے والے لوگ سامنے آتے ہیں۔ ان کے عادات و اطوار، طور طریق، جذبات و احساسات، کھانا پینا لباس زیورات ، فکری اور اخلاقی سلوک، حیوانی اور انسانی نفسیات کا اظہار غرض آدمی کے ہر طبیعی تنفسی برتاؤ کو داستان گو نے درویشوں کی زبانی بیان کیا ہے۔ چار درویشوں کے قصوں کے ساتھ اس میں خود بادشاہ آزاد بخت کا بھی پانچواں قصہ ہم سنتے ہیں جو بادشاہ ان درویشوں کو سنا تا ہے۔

باغ و بہار کا تنقیدی جائزہ | Bagh O Bahar Ka Tanqeedi Jaiza

داستان میں قصہ سنانے کی تکنیک یہ ہوتی ہے کہ ایک قصے سے دوسرا قصہ نکلتا جاتا ہے اور اس میں مختلف واقعات و کردار سامنے آتے ہیں گویا ایک جڑ سے کہانیوں کی کئی شاخیں پھوٹتی ہیں جن میں الگ الگ پھول ہے اپنی بہار و خزاں سے گزرتے ہیں باغ و بہار میں بھی اس تکنیک کو کام میں لایا گیا ہے۔ ہر درویش کی اصل آپ بیتی میں تمشلی اور حکایتی رنگ لیے چھوٹے چھوٹے قصے بھی شامل ہیں جو اگر چہ اصل واقعے کے ماجرے کو پروان چڑھانے میں مددگار نہیں مگر واقعے اور کرداروں سے معنوی طور پر جڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔ مثلاً چاروں درویش اپنے قصے کے خاتمے پر کسی وزیر زادی شہزادی یا خوبصورت عورت سے جدائی کے غم میں اپنے آپ کو ختم کرنے کے درپے ہوتے ہیں کہ ایک نقاب پوش آ کر انھیں منع کرتا ہے اور روم کے پادشاه ( آزاد بخت ) سے ملنے کے لیے کہتا ہے اس کے مطابق بادشاہ سے ملاقات کے بعد درویشوں کی ان کے محبوبوں سے ملاقات بھی ہو جائے گی ۔

Meer Aman Ki Dastan Mir Aman Dehlvi Bagh O Bahar Story In Urdu

دو درویشوں کے قصے سننے کے بعد بادشاہ قبرستان سے واپس اپنے محل میں آ جاتا ہے اور چو بدار کو حکم دیتا ہے کہ چار فقیر فلانے مکان پر وارد ہیں، ان کو بہ عزت اپنے ساتھ حضور میں لے آوے۔درویشوں کو محل میں بلا کر بادشاہ اپنا تعارف کراتا ہے اور پہلے اپنے حالات بیان کر کے بقیہ دونوں درویشوں کے حالات وہیں دربار میں سنتا ہے۔ اس کی خبر آتی ہے کہ بادشاہ کی ایک خواص سے بادشاہ کے بیٹا پیدا ہوا ہے۔ خوب خوشیاں منائی جاتی ہیں۔ مگر داستان کا اسرار ابھی باقی ہے، ہوتا یہ ہے کہ نئے پیدا ہونے والے شہزادے کو ہر مہینے پہلی جمعرات کو ایک بادل میں کوئی اٹھا لے جاتا ہے۔ یہ سلسلہ سال بھر چلتا ہے۔ تب بادشاہ ایک عرض لکھ کر بچے کے جھولے میں رکھ دیتا ہے کہ مہربانی ہوگی کہ اس بچے کو اس طرح لے جانے والا اگر خود کو ظاہر کرے جواب میں ویسا ہی خط ملتا ہے اور بادشاہ مع چہار درویش ایک ہوائی تخت پر سوار ہوکر پرستان جاتا ہے جہاں پریوں کے بادشاہ ملک شہباں سے ان کی ملاقات ہوتی ہے۔ وہ بتا تا ہے کہ اس شہزادے کو میں نے اپنی بیٹی کے لیے پسند کیا ہے۔ شہباں ہی کی کوششوں سے درویشوں کی محبوبائیں بھی مل جاتیں ہیں اور ان کا آپس میں نکاح کروادیا جاتا ہے ۔ ذیل میں دوسرے درویش کی سیر سے حاتم طائی کا ایک قصہ بیان کیا جاتا ہے جس سے لالچ اور جھوٹ سے پر ہیز اور صبر و قناعت پرعمل کا سبق ملتا ہے

باغ و بہار سے اقتباس : حاتم طائی کا ماجرا

’’ ایک روز ایک مصاحب دانا نے ، کہ خوب تواریخ داں اور جہاں دیدو تھا، مذکور کیا کہ اگر چہ آدمی کی زندگی کا کچھ بھروسا نہیں ، لیکن اکثر وصف ایسے ہیں کہ ان کے سبب سے انسان کا نام قیامت تک زبانوں پر بہ خوبی چلا جائے گا۔ میں نے کہا: اگر تھوڑا سا احوال اس کا مفصل بیان کرو، تو میں بھی سنوں گا اور اس پر عمل کروں ۔ تب و ہ شخص حاتم طائی کا ماجرا اس طرح سے کہنے لگا کہ حاتم کے وقت میں ایک بادشاہ عرب کا نوفل نام تھا اس کو حاتم کے ساتھ، سبب نام آوری کے، دشنی کمال ہوئی۔

بہت سا لشکر ، فوج جمع کرکر لڑائی کی خاطر چڑھ آیا۔ حاتم تو خدا ترس اور نیک مرد تھا؛ یہ سمجھا کہ اگر میں بھی جنگ کی تیاری کروں، تو خدا کے بندے مارے جائیں گے اور بڑی خوں ریزی ہوگی ، اس کا عذاب میرے نام لکھا جائے گا۔ یہ بات سوچ کر ، تن تنہا اپنی جان لے کر، ایک پہاڑ کی گھوہ میں جا چھپا۔ جب حاتم کے غائب ہونے کی خبر نوفل کو معلوم ہوئی؛ سب اسباب، گھر بار حاتم کا قرق کیا اور منادی کروادی کہ جو کوئی ڈھونڈ ڈھانڈ ھ کر پکڑ لاوے، پان سے اشرفی بادشاہ کی سرکار سے انعام پاوے۔ یہ سن کر سب کو لالچ آیا اور جستجو حاتم کی کرنے لگے۔

ایک روز ایک بوڑھا اور اس کی بڑھیا، دو تین بچے چھوٹے چھوٹے ساتھ لیے ہوۓ ، لکڑیاں توڑنے کے واسطے اس کے پاس، جہاں حاتم پوشیدہ تھا، پہنچے اور لکڑیاں اس جنگل سے چننے لگے۔ بڑھیا بولی کہ اگر ہمارے دن کچھ بھلے آتے ، تو حاتم کو کہیں ہم دیکھ پاتے اور اس کو پکڑ کر نوفل کے پاس لے جاتے ، تو وہ پانچ سو اشرفی دیتا، ہم آرام سے کھاتے ، اس دکھ دھند ھے سے چھوٹ جاتے ۔ بوڑھے نے کہا: کیا چڑ چڑ کرتی ہے ! ہمارے طالع میں یہی لکھا ہے کہ روز لکڑیاں توڑیں اور سر پر دھر کر بازار میں بیچیں، تب لون، روٹی میسر آوے؛ یا ایک روز جنگ سے باگ لے جاوے۔ لے اپنا کام کر۔ ہمارے ہاتھ حاتم کا ہے کو آوے گا اور بادشاہ سے اتنے روپے دلادے گا! عورت نے ٹھنڈی سانس بھری اور چپکی ہورہی ۔
ان دونوں کی باتیں حاتم نے سنیں ؛ مردمی اور مروت سے بعید جانا کہ اپنے کو چھپاۓ اور جان بچائے اور ان دونوں بے چاروں کو مطلب تک نہ پہنچاۓ۔ سچ ہے: اگر آدی میں زخم نہیں، تو وہ انسان نہیں اور جس کے جی میں دردنہیں وہ قصائی ہے۔

درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے گڑو بیاں

غرض حاتم کی جواں مردی نے نہ قبول کیا کہ اپنے کانوں سے سن کر چپکا ہور ہے، وہ باہر نکل آیا اور اس بوڑھے سے کہا کہ اے عزیز! حاتم میں ہی ہوں ، مجھے تم نوفل کے پاس لے چلو ۔ وہ مجھے دیکھے گا؛ جو کچھ روپے دینے کا قرار کیا ہے، تجھے دیوے گا۔ پیر مرد نے کہا: سچ ہے اس صورت میں بھلائی اور بہبودی میری البتہ ہے؛ لیکن وہ، کیا جانیے تجھ سے کیا سلوک کرے! اگر مار ڈالے، تو میں کیا کروں! یہ مجھ سے ہرگز نہ ہو سکے گا کہ تجھ سے انسان ، اپنی طمع کی خاطر، دشمن کے حوالے کروں۔ وہ مال کے دن کھاؤں گا اور کب تک جیوں گا! آخر مرجاؤں گا، تب خدا کو کیا جواب دوں گا؟

حاتم نے بہتیری منت کی کہ مجھے لے چل، میں اپنی خوشی سے کہتا ہوں اور ہمیشہ اسی آرزو میں رہتا ہوں کہ میرا جان و مال کسو کے کام آوے تو بہتر ہے، لیکن وہ بوڑھا کسو طرح راضی نہ ہوا کہ حاتم کو لے جاوے اور انعام پاوے۔ آخر لا چار ہوکر حاتم نے کہا: اگر تو مجھے یوں نہیں لے جاتا، تو میں آپ سے آپ بادشاہ پاس جا کر کہتا ہوں کہ اس بوڑھے نے مجھے جنگل میں ایک پہاڑ کی کھوہ میں چھپا رکھا تھا۔ وہ بوڑھا ہنسا اور بولا: بھلائی کے بدلے برائی ملے تو یا نصیب! اس رد و بدل کے سوال جواب میں آدمی اور بھی آن پہنچے، بھیٹر لگ گئی۔ انھوں نے معلوم کیا کہ حاتم یہی ہے؛ تُرت پکڑ لیا اور حاتم کو لے چلے ۔ وہ بوڑھا بھی افسوس کرتا ہوا پیچھے پیچھے ساتھ ہولیا۔ جب نوفل کے رو بہ رولے گئے، اس نے پوچھا کہ اس کو کون پکڑ لایا ایک بد ذات، سنگ دل بولا کہ ایسا کام سواۓ ہمارے گون کر سکتا ہے؟ یہ فتح ہمارے نام ہے، ہم نے عرش پر جھنڈا گاڑا ہے، ایک اورلن ترانی والا ڈینگ مارنے لگا کہ میں کئی دن سے دوڑ دھوپ کر جنگل سے پکڑ لایا ہوں ۔ میری محنت پر نظر کیجیے اور قرار ہے، سو دیجیے۔ اسی طرح، اثر فیوں کے لالچ سے، ہر کوئی کہتا تھا کہ یہ کام مجھ سے ہوا۔ وہ بوڑھا چپُکا ایک کونے میں لگا ہوا، سب کی شیخیاں سن رہا تھا اور حاتم کی خاطر کھڑا روتا تھا۔

جب اپنی اپنی دلاوری اور مردانگی سب کہہ چکے، تب حاتم نے بادشاہ سے کہا: اگر سچ بات پوچھو تو یہ ہے کہ وہ بوڑھا، جو الگ سب سے کھڑا ہے، مجھ کو لایا ہے۔ اگر قیافہ پہچان جانتے ہو، تو دریافت کرو اور میرے پکڑنے کی خاطر جو قبول کیا ہے، پورا کرو؛ کہ سارے ڈیل میں زبان حلال ہے۔ مرد کو چاہیے، جو کہے، سوکرے، نہیں تو جیبھ حیوان کو بھی خدانے دی ہے، پھر حیوان اور انسان میں کیا تفاوت ہے! نوفل نے اس لکڑ ہارے بوڑھے کو پاس بلا کر پوچھا کہ سچ کہہ اصل کیا ہے۔ اس بیچارے نے، سر سے پانو تک جو گزرا تھا، راست کہہ سنایا اور کہا: حاتم میری خاطر آپ سے آپ چلا آیا ہے ۔ نوفل یہ ہمت حاتم کی سن کر متعجب ہوا کہ بل بے تیری سخاوت! اپنی جان کا بھی خطرہ نہ کیا! جتنے جھوٹے دعوے حاتم کے پکڑ لانے کے کرتے تھے، حکم کیا ان کی منڈیاں کس کر؛ پان سو اشر فی کے بدلے، پان پان سو جوتیاں ان کے سر پر لگاؤ، کہ ان کی بھی جان نکل پڑے۔ وونہیں تر تر پیزار یں پڑنے لگیں ، کہ ایک دم میں سر ان کے گنجے ہو گئے۔ سچ ہے: جھوٹھ بولنا ایسا ہی گناہ ہے کہ کوئی گناہ اس کو نہیں پہنچتا۔ خدا سب کو اس بلا سے محفوظ رکھے اور جھوٹھ بولنے کا چسکا نہ دے۔ بہت آدمی جھوٹھ موٹھ ل بکے جاتے ہیں لیکن آزمایش کے وقت سزا پاتے ہیں۔ غرض ان سب کو موافق ان کے انعام دے کر ، نوفل نے اپنے دل میں خیال کیا کہ حاتم سے مخص سے (ایک عالم کو اس سے فیض پہنچتا ہے، اور محتاجوں کی خاطر جان اپنی دریغ نہیں کرتا، اور خدا کی راہ میں سر تا پا حاضر ہے ) دشمنی رکھنی اور اس کا مدعی ہونا آدمیت اور جواں مردی سے بعید ہے۔ وُوہیں حاتم کا ہاتھ بڑی دوستی اور گرم جوشی سے پکڑ لیا اور کہا: کیوں نہ ہو؛ جب ایسے ہو تب ایسے ہو۔ تواضع ، تعظیم کرکر پاس بٹھلایا اور حاتم کا ملک و املاک اور مال و اسباب جو کچھ ضبط کیا تھا، انہیں چھوڑ دیا۔ نئے سر سے سرداری قبیلہ کے کی اسے دی۔ اور اس بوڑھے کو پانچ سو اشر فیاں اپنے خزانے سے دلوا د یں ۔ وہ دعا دیتا ہوا چلا گیا۔

سوال :میرامن کی نثر نگاری سے متعلق اپنی واقفیت کا اظہار سیر تیسرے درویش کی “ کے حوالے سے فرمائیں ۔

جواب : میرامن دہلو) اردونثر کے مایہ ناز ادیب ہیں جن کی تصنیف زندہ جاوید اور انتہائی مقبول ترین ہوگئی ہے ۔ ڈاکٹر گلکرائسٹ کی دعوت پر میرامن فورٹ ولیم کالج کے شعبہ تصنیف و تالیف سے منسلک ہو گئے تھے ۔ انہوں نے امیرخسرو کی مشہور کتاب ” قصہ چہار درویش “ کا ترجمہ فارسی سے اردو میں ” باغ و بہار کے نام پیش کیا ہے ۔ یہ کتاب محض ترجمہ ہی نہیں ہے بلکہ عبادت آرائی ، روزمرہ کی زبان و محاورات کی ایسی حسین صورت گری ہے ۔ جو اردو ادب میں لازوال بن کر سامنے آئی ہے ۔ میرامن سے قبل قصہ چہار درویش کا اردو ترجمہ 1788ء میں جناب میرعطاحسین خان تحسین نے ” نو طرزِ مرضع کے نام سے پیش کیا تھا لیکن ان کی عبارت مقفی اور مسجع تھی ۔ اس سے مقابلہ میں میرامن کی تحریر اور انداز بیان کے سلاست اور رنگینیت زیادہ قابل قدر ثابت ہوئی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ادبی گل کاری مسلم ثابت ہوئی ہے وہ زیادہ مقبول ہیں ۔

سیر تیسرے درویش کی کہانی

سیر تیسرے درویش کی کہانی ایک ایرانی شہزادہ کی رو داد زندگی ہے جس کی جوانی کھیل کود اور سیر وشکار میں گذر رہی تھی ۔ ایک دن کسی سبزہ زار میں ایک خوش رنگ ہرن کو دیکھ کر زندہ پکڑنے کے خیال سے آگے بڑھا۔ ہرن جب اس کی گرفت سے باہر جانے والا تھا تو اس نے تیرمارکہ ہرن کو گھائل کر دیا اور اپنے شکار کو پکڑنے کے لئے آگے بڑھا ۔ لیکن ہرن اس کی نظروں سے اوجھل ہو چکا تھا۔ ایک پہاڑی گھاٹی میں کسی کے رونے کی آواز سن کر شہزادہ جاتا ہے یہ آواز ایک ۔ درد بھری آہ اور بد دعا تھی جس نے تجھے تیر مارا میری آہ کا تیرا اس کے کلیجے میں لگیو “ یہ سن کر شہزادہ بہت متاثر ہوا ۔ آگے بڑھ کر اس ضعیف آدمی سے اپنی غلطی کے لئے معافی طلب کی ۔ بزرگ نے معاف کر دیا ۔ رات گذارنے کے لئے ایک چارپائی پیش کی۔ وہ سیر و شکار کی تکان کے سبب نیند کی آغوش میں فوراً چلا گیا۔ جب حالت نیند میں کرب ناک رونے کی آواز سنی تو چونک کر اٹھ بیٹھا۔ دوسرے دلان میں اسی عمر رسیدہ بزرگ کو ایک حسین و جمیل صورت نہ تھی ۔ بلکہ ایک مجسمہ فرنگ تھی جس کا پرستار آنسو بہارہا تھا۔ یہ عجیب و غریب حالت دیکھ کر شہزادہ ایران نے مرد ضعیف سے رونے اور وارفتگی عشق کا سبب دریافت فرمایا ۔ ضعیف نے ایک سرد آہ بھری اور کہا یہ ناچیز ایک بڑا تاجر تھا ۔ عشق کے تیر سے گھائل ہو کر اس ویرانہ میں آج محبسمہ فرنگ کا پرستار ہے ۔ ایک مرتبہ سامان تجارت لے کر شہرہ فرنگ بغرض تجارت گیا تھا ۔ وہاں کی ایک حسین شہزادی نے سامان تجارت خریدنے کی دعوت دی ۔ بیش قیمت نادرات لے کر خدمت میں حاضر ہوا۔ لیکن اس کے حسن کے جادو سے ایسا بے خود ہوا کر تن من کا ہوشی جا تا رہا ۔ اس نازنین نے دام چکانے سے قبل ایک فرمائش پیش کی کہ ایک رقعہ اس کے عاشق تک پہنچا کر احسان اور انعام پانے کا مستحق بنوں ۔ چنانچہ حسب حکم اس کا نوشتہ لے کر ایک مظلوم شہزادے تک رسائی پائی لیکن بدقسمتی سے گرفتار ہوگیا۔ اسی دن پنجرے میں بندشہزادہ کاقتل کرنے کا حکم صادر کیا گیا تھا۔ شہزادی کو اپنے ہاتھ سے اپنے عاشق کا قتل کرنا تھا۔ یہ منظر بڑا دردناک تھا۔ لیکن شہزادی تلوار پھینک کر شہزادے کے گلے لگ گئی۔ جب وزیر کو حکم دیا گیاکہ معتوب شہزادہ کا قتل وہ خود کرے لیکن وزیر کوکسی نامعلوم شخص نے تیر مار کر ہلاک کر دیا ۔ اس منظر کی تاب نہ لا کر بادشاہ فرار ہو گیا ۔ شہزادی کی قدم بوسی کے بعد وطن واپس آکر ملک دتجارت چھوڑ کر اس کی بت تراش کر اس کا پرستار ہو گیا ہوں ۔ عمر رسیدہ مرد سے یہ واقعہ سن کر ایرانی شہزادہ ایسا بخود ہوا کہ ملک فرنگ جانے اور شہزادی کو دیکھنے کا متمنی ہو گیا ۔ ملک و جان کی حسرت دل میں باقی نہ رہی ۔ ملک فرنگ جا پہنچا۔ ایک تابوت کے جلوس کو دیکھ کر متاثر ہوا۔ ایک فرہنگ کے توسط سے ملکہ فرہنگ تک رسائی پائی ۔ ملکہ اپنے وجود سے تنگ آچکی تھی ۔ وہ شہزادہ ایران کے ساتھ فرار ہو گئی ۔ ایک وفادار سپاہی بہزاد خان کی مدد سے شہزادہ ایران واپس آ گیا۔ شاہ ایران نے اپنے شہزادہ کا استقبال لب دریا کیا ۔ اپنے والد سے ملنے کے بعد شہزادہ گھوڑے پر سوار ہو کر دریا پار کیا۔ میرے پیچھے ملکہ اور بہزاد خاں کا گھوڑا تھا۔ لیکن ناگہانی آفت ایسی آئی کہ طغیانی آب میں ملکہ اور بہزاد کے گھوڑے مع سوار بہہ گئے۔ اس طرح یہ تیسرا درویش ملک فرنگ کی داغ مفارقت میں درویشی اختیار کر کے صحرانوردی کے لئے نکل کھڑا ہوا اور اسی طرح دوران سفر ملک روم میں اس کی ملاقات اول اور دوم درویش سے ہوئی۔

اور پڑھیں 👇

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے