مولانا ابوالکلام آزاد کی مکتوب نگاری سے اپنی واقفیت کا اظہار کیجئے ۔ یا مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنے خط میں جو پیغام زندگی تحریر فرمائی ہے اس کی وضاحت کیجئے
سوال : مولانا ابوالکلام آزاد کی مکتوب نگاری سے اپنی واقفیت کا اظہار کیجئے ۔ یا مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنے خط میں جو پیغام زندگی تحریر فرمائی ہے اس کی وضاحت کیجئے
جواب : مولانا ابوالکلام آزاد ہمارے ملک کے مشہور سیاست دان مصنف مقر ر اور ز بردست اہل قلم تھے۔ ان کی اسلوب تحریر اور طرزادانے اردو ادب میں حیرت انگیز انقلاب بر پا کردیا۔ ان کی تحریر میں علمی شان اور بیان میں شوکت ورعنائی پائی جاتی ہے۔ وہ ۱۹۴۴ ء سے ۱۹۵۸ ، تک آزاد ہندوستان کے وزیر تعلیم رہے۔ مولا نا اردو کے بہترین انشاء پرداز ہوے ہیں ۔ان کی صحافت کی شان بھی نرالی تھی۔
’’الہلال اور البلاغ ‘‘ کے مدیر تھے۔ ان کے مکتوبات میں ہم حکمت و دانائی کے رموز پاتے ہیں ۔مولانا نے ایک خط جیب الرحمن خان شیروالہ کے نام ۱۴ جوان ۱۹۴۳ء کو قلعہ احمد نگر جیل سے تحریر فرمائی ہے۔ اس خط میں انھوں نے اپنے احوال بیان کرتے ہوئے زندگی کا فلسفہ پیش کیا ہے کہ انسانی زندگی میں بھی عمل کا جو درخت ہوتا ہے وہ پول پھل لاتا ہے۔ اس کی رکھوالی کی جاتی ہے اور جو بیکار ہو جا تا ہے ا سے چھانٹ دیا جا تا ہے ۔ انھوں نے بڑی خوش اسلوبی اور دلائل کے ساتھ مذکور و بیان کی وضاحت فرمائی ہے ،وہ لکھتے ہیں کہ ہم موسموں کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ ماحول میں بھی تبدیلیاں دیکھتے ہیں۔ موسم خزاں میں گرمی کے موسم کے رو پے درختوں سے بھر جاتے ہیں ان کی جگہ موسم بہار میں سبزی اور شادالی کا لباس زیب تن کرتے ہیں لیکن یہ سبز ہ صرف ان درختوں کو ہی نصیب ہوتا ہے جن کی جڑیں مضبوط زمین سے گئی ہوتی ہیں وہ اپنا حق خزانہ قدرت سے وصول کرنے کے حقدار ہوتے ہیں لیکن ان ڈالیوں کو فیض یاب ہونے کا موقع نہیں ملتا ہے ۔ جو درخت سے کاٹ کر علیحدہ کر دیے گئے ہیں ، ان ڈالیوں کا مصرف جلاون کے لئے ایندھن فراہم کرنا یا امارتی لکڑیاں مہیا کرنے میں ہوتا ہے . اس طرح ان کا وجود ہمیشہ کے ئے ختم ہو جا تا ہے ۔ قدرت کا یہ انتظام ہمارے لئے درس عبرت ہے اگر ہم موسم کی تبدیلیوں سے فیضیاب ہونے کے لائق نہیں بن سکے تو ہماری زندگی بھی سعی وعمل کے میدان سے باہر ہو جاۓ گی اس لئے ہر حساس فردزمانے کے تقاضہ کے مطابق اپنی حالت کو بدل کر میدان عمل میں سرگرم ہو جا تا ہے اورا پناحق وصول کرتا ہے ۔
اس مکتوب میں انھوں نے اجتماعیت کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ بناؤ اور بگاڑ کے فلسفہ کی خوبیوں کو سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ جب تک کوئی فرد یا قوم تعمیری کام انجام دیتی ہے ان کی تعمیر کی برکت کی وجہ کر ان کا وجود باعث فلاح ہوتا ہے ۔ وہ سر بلند اور سرفراز ہوتے ہیں لیکن جب ان سے تخ یبی عمل ظاہر ہوتی ہے تو اس کے نتیجہ میں ان کا وجود نا قابل برداشت ہو جا تا ہے ایسے لوگ عمل کے میدان سے بے دخل کر دیئے جاتے ہیں اس طرح مکتوب بصیرت اور حکمت اورط رموز سے لبریز ہے۔ موالا تا ابوالکلام آزاد نے مکتوبات کو بھی تبلیغ فکر کا ایک ذریعہ بنانے کی افادیت پر روشنی ڈالی ہے ، بےمقصد آداب والقاب اور احوال بیان کرنے کے مقابلہ میں مکتوبات اگر نظریہ حیات اور با مقصدا فکار کی ترسیل کا ذریعہ بن جائے تو یہ سب سے مفید ذریعہ ثابت ہوگی ۔
اور پڑھیں 👇
0 تبصرے