Ticker

6/recent/ticker-posts

غالب کی ابتدائی زندگی، غالب کی شاعری کی خصوصیات | غالب کی غزل گوئی کی خصوصیات

غالب کی ابتدائی زندگی، غالب کی شاعری کی خصوصیات | غالب کی غزل گوئی کی خصوصیات

غالب کی ابتدائی زندگی Ghalib Ki Halat Zindagi in Urdu

مرزا اسد اللہ خاں نام تھا۔ پہلے اسد اور بعد میں غالب تخلص کرتے تھے۔۱۷۹۷ء میں اکبرآباد (آگرہ) میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم یہیں پائی۔شادی کے بعد جب کہ ان کی عمر صرف تیرہ برس کی تھی،مستقل طور پر دلّی میں رہنے لگے۔ غالب کی تعلیم اگر چہ باقاعدہ طور پر بہت کم ہوئی لیکن انہوں نے اپنی غیر معمولی ذہانت اور اپنے ذوق کی بنا پر فارسی زبان اور شاعری کا گہرا مطالعہ کیا۔ ان کے والد پہلے آصف الدولہ کے یہاں اور پھر حیدرآباد کی فوج میں ملازم تھے۔ والد کے انتقال کے بعد چچا نے ان کی پرورش کی۔ چچا کے انتقال کے بعد ایک جاگیر کے عوض سات سور و پی سالانہ کا پنشن غالب کو ملتا رہا۔ غالب نے کبھی ذاتی مکان نہیں بنایا۔ کرایہ کے مکان ہی میں گزارا کیا۔ اسی طرح وہ کتابیں بھی نہیں خرید تے تھے۔ کتب خانے سے منگوا کر پڑھتے تھے۔ غالب زندگی میں مالی اعتبار سے کبھی آسودہ نہیں رہے۔ ان کے اخراجات ہمیشہ آمدنی سے زیادہ تھے۔ ۱۸۵۷ء کے بعد وظیفہ بند ہو گیا تھا۔ اس سلسلے میں مقدمے کی پیروی کرنے کے لیے وہ دہلی سے کلکتہ گئے تھے۔ کیونکہ اس زمانے میں کلکتہ انگریزی حکومت کا پایہ تخت تھا۔ مالی منفعت کی توقع پر غالب نے بعض امراء اور انگریز عہد یدادوں کی شان میں قصیدے بھی لکھے۔ لیکن انہیں اپنی عزت نفس کا بھی بڑا خیال تھا۔ انہوں نے صرف ایسے لوگوں کی مدح کی ہے جن کا رتبہ اس زمانے میں بہت بلند تھا۔ غالب کی گفتگو اوران کی شخصیت میں بڑی جاذ بیت تھی، وہ بڑے ظریف طبع تھے۔ ان کے بے شمار لطیفے مشہور ہیں۔ان کے دوستوں کا حلقہ بہت وسیع تھا۔ جن میں ے ہر مذہب وملت کے لوگ شامل تھے۔ غالب کی زندگی میں رندی اور سرمستی کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ انہوں نے اپنے خطوط میں اپنی ساری خوبیاں اور خامیاں بیان کر دی ہیں۔ ذوق کے انتقال کے بعد بہادر شاہ ظفر نے غالب کو اپنا استاد مقرر کیا تھا۔۷۲ سال کی عمر میں ۱۸۷۹ء میں انتقال کیا اور حضرت نظام الدین اولیاء کے مزار کے احاطے میں دفن ہوئے۔

غالب کی غزل گوئی کی خصوصیات

غالب ایک ذہن اور صاحب فکر انسان تھے۔ ان کے کلام میں عشق و محبت کے مشاہدات و احساسات کے علاوہ حقایق حیات کے تعلق سے بڑی گہری بصیرت ملتی ہے۔ بیسیوں اشعار ایسے ہیں، جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ غالب صرف شاعر ہی نہیں بلکہ حکیمانہ بصیرت بھی رکھتے تھے۔ غزل کے اشعار میں جذبے کی حرارت کے ساتھ ساتھ فکر کی گہرائی، مشاہدات کی تازگی اور انفرادیت ہر جگہ نمایاں ہے۔ یہی خوبیاں ان کی شاعری میں عظمت پیدا کرنے کا باعث ہیں۔ غالب کو فارسی زبان پر بھی غیر معمولی عبور حاصل تھا۔ان کے اردو کلام میں فاری ترکیبوں کا استعمال کثرت سے ملتا ہے۔ لیکن اپنے آخری زمانے کے کلام میں انہوں نے فارسی ترکیبوں کے استعمال میں اعتدال کو ملحوظ رکھا اور فارسی تراکیب کی مدد سے اشعار میں گہرائی اور معنویت پیدا کی ہے۔ غالب کی غزل میں اسلوب آگے چل کر بہت مقبول ہوا اور انہوں نے بعد کے شاعروں پر اپنا گہرا اثر چھوڑا۔ فارسی تراکیب کی مدد سے غالب نے نہایت لطیف جذبات واحساسات کی بڑی کامیابی کے ساتھ ترجمانی کی ہے۔ غالب کے ابتدائی کلام میں مشکل الفاظ اور پیچیدہ تراکیب بڑی کثرت سے ملتی ہیں لیکن رفتہ رفتہ انہوں نے مشکل پسندی کو ترک کر دیا۔ اس کی جگہ خوش نما تراکیب اور سہل الفاظ کا استعمال جاری رکھا۔ غالب نے اپنے کلام میں حسن و عشق کے جذبات واحساسات بھی بیان کئے ہیں اور فلسفہ وفکر کی گہرائی اور گیرائی بھی ان کے کلام میں موجود ہے۔ اس کے علاوہ حکیمانہ افکار اور متصوفانہ خیالات کے ذریعہ بھی غالب نے اپنے کلام میں وسعت اور تنوع پیدا کیا۔ غالب نے اپنی فکر، اسلوب اور جدت طرازی کے ذریعے اپنے بعد کے بہت سے شعراء کو بھی متاثر کیا ہے۔ جوان کی عظمت کی دلیل ہے۔

غالب کی شاعری گوئی کی خصوصیات

غالب اردو کے ایک انتہائی نامور اور عظیم شاعر ہیں۔ ان کو سب سے زیادہ شہرت اور مقبولیت غزل گوئی ہی کی بدولت حاصل ہوئی۔ویسے غالب کو دیگر اصناف شاعری جیسے قصیدہ،مرثیہ اورسہرہ نگاری پر بھی قدرت حاصل تھی اور فارسی میں بھی انہوں نے اپنا زخیم سرمایہ چھوڑا ہے۔ غالب ابتداء میں بہت مشکل پسند شاعر تھے۔ وہ کلاسیکی شعرا کی تقلید میں پیچیدہ ترکیبیں، دقیق اور مشکل الفاظ، دوراز کارتشبہیں اور استعارے استعمال کرتے تھے جس کی وجہ سے عام لوگ غالب کے اشعار کا مفہوم سمجھ نہیں سکتے تھے۔ لیکن جوں جوں ان کا شعور پختہ ہوتا گیا،انہوں نے تقلید کو چھوڑ کر اپنا ایک منفرد رنگ اختیار کیا اور اس میں امتیاز بھی پیدا کیا۔

غالب ایک نابغہ روزگار شخصیت کے مالک تھے اور وراثت میں بھی انہوں نے خاندانی وقار اور عظمت پائی تھی۔ اس کا انہیں شدید احساس بھی رہا۔ لیکن زمانے کے بدلتے ہوئے حالات کا وہ بھی شکار ہوۓ اور بہت ہی مصیبتیں اور محرومیاں دیکھیں۔ اس کے باوجود انہوں نے حوصلہ اور ہمت نہیں ہاری، بلکہ وہ ان مسائل پر فلسفیانہ انداز میں سوچتے تھے۔ غالب کے ہاں فلسفہ وفکر کا بڑا گہرا شعور ہے۔ وہ متصوفانہ مضامین اور افکار سے متاثر تھے اور ان کو اپنی غزلوں میں پیش بھی کیا ہے۔ وہ خوش مزاج اورایک خوش طبع انسان تھے۔ زمانے کے آلام و مسائل کو بڑی دلیری کے ساتھ برداشت کر جاتے تھے۔ ان کی غزل گوئی کی ایک امتیازی خصوصیات حسن وعشق کے جذبات کی ترجمانی ہے۔ غالب کو حسن و محبت کے لطیف جذبات کو شعری پیکر میں ڈھالنے پر بھی کامل قدرت حاصل تھی۔ انہوں نے فلسفہ و فکر اور متصوفانہ افکار ونظریات، اخلاق اور حکیمانہ بصیرت اور عشق ومحبت کے جذبات کی ترجمانی کے ذریعے اپنی غزلوں میں ہمہ رنگی پیدا کی ہے اور صنف غزل کو بہت بلند مقام عطا کیا ہے۔

غالب کی شاعری کا عمومی جائزہ

غالب عہد متوسط کے شعراء میں اور عام حیثیت سے بھی اردو کے ایک نامور اور عظیم شاعر ہیں۔سب سے زیادہ شہرت انہوں نے ایک غزل گو کی حیثیت سے پائی ہے۔ لیکن دیگر اصناف شاعری جیسے قصیدہ، مرثیہ اورسہرہ نگاری میں بھی غالب کو کمال حاصل تھا۔ و ہ فی البدیہ شعر کہنے پر بھی قدرت رکھتے تھے۔ تصوف، فلسفہ، اخلاق اور حکیمانہ افکار کوبھی انہوں نے اپنی غزلوں میں پیش کیا ہے۔ وہ فطرتا ایک ظریف الطبع انسان تھے اور بات سے بات پیدا کر نے میں ان کو خاص ملکہ حاصل تھا۔ ابتداء میں غالب مشکل پسندی کی طرف مائل تھے۔ لیکن رفتہ رفتہ انہوں نے مشکل پسندی کو ترک کر کے سہل گوئی اور واضح طرز بیان اختیار کیا۔ غالب کے افکار بہت وسیع اور عمیق تھے اور غزل کا مروجہ معیار، ان کے افکار و خیالات کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا۔ اس لیے انہوں نے اردو غزل میں جدت پسندی سے کام لیتے ہوۓ غزل کے مضامین میں وسعت اور گہرائی پیدا کی اور اپنے فلسفہ وفکر اور حکیمانہ افکار و خیالات کے ذریعہ غزل میں چار چاند لگا دئیے ہیں۔ انہیں حسن وعشق کے لطیف محسوسات اور کیفیات کو الفاظ کے سانچے میں ڈھالنے میں بھی بڑی مہارت حاصل تھی اور حسن و عشق کا کوئی موضوع ایسانہیں ہے جس پر غالب نے طبع آزمائی نہ کی ہو۔ وہ ایک خوش طبع اور ظرایف انسان بھی تھے۔ زمانے کی تلخیوں اور محرومیوں پرکڑھنے کے بجاۓ وہ خوش مزاجی کے ساتھ سہہ لیتے تھے۔انہوں نے اپنی غزلوں میں دلّی کی تباہی و بربادی اور مغلیہ سلطنت کے زوال کے حالات کو بلیغ اشاروں اور کنایوں میں پیش کیا ہے اور شوخی و شرارت اور بذلہ نجی کے ذریعہ اپنے کلام کو سجایا ہے۔غرض کہ غالب ایک ایسے عظیم شاعر ہیں جنہوں نے اردو شاعری اور نثر نگاری اور بالخصوص غزل گوئی میں اپنی زندگی کوآ ئینہ بنا کر پیش کیا ہے اور اپنے بعد کے شعراء کے لئے نئے تجربات اور ادبی اجتہاد کا قابل تقلید نمونہ چھوڑا ہے۔

مجموعی طور پر غالب نے جہاں اردونثر میں اپنے دائمی نقوش چھوڑے ہیں، اسی طرح اردو شاعری کو بھی اتنا بلند مقام عطا کیا ہے کہ رہتی دنیا تک غالب کا نام بھی زندہ جاوید رہے گا۔

اور پڑھیں 👇

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے