Ticker

6/recent/ticker-posts

آدابِ گفتگو : بات چیت کے طریقے Manners Of Conversation In Urdu

آدابِ گفتگو : بات چیت کے طریقے

آدابِ گفتگو
تحریر : نازیہ اقبال فلاحی
معلمہ : معہد حفصہ للبنات زھراء باغ بسمتیہ ارریہ، بہار
قدرت نے انسان کو بےشمار نعمتیں بخشی ہیں، انہیں میں زبان و بیان کی قوت بھی ہے، جو ایک عظیم الشان نعمت ہے، زبان سے نکلی ہوئی گفتگو انسان کی عقلی سطح اور اس کی اخلاقی فطرت کو بتاتی ہے، اور یہ بھی بتاتی ہے کہ اس شخص کی فضیلت اور شرافت کا معیار کیا ہے۔
آدمی کو چاہیے کہ جب کوئی بات کہے تو اچھی اور بھلی بات کہے، اور اپنی زبان کو خوبصورت اور باوقار گفتگو کا عادی بنائے، اس لیے کہ پاکیزہ اور عمدہ دوست اور دشمن سبھوں پر اثر انداز ہوتی ہے، اور اس کے بہترین نتائج سامنے آتے ہیں، شریفانہ گفتگو دوستوں کے درمیان محبت کی حفاظت کرتی ہے، ان کی دوستی کو مستحکم اور پائیدار کرتی ہے، اور شیطان کے ان تمام حربوں کو ناکام بنا دیتی ہے، جو پاکیزہ رشتوں میں دراڑ ڈالتے ہیں، جب کی دشمنوں کے ساتھ دلنواز گفتگو ان کی آتش عداوت کو بجھاتی دیتی ہے، اس سے ان کا غصہ ٹھنڈا پڑ جاتا ہے، یا ان کی دشمنی اور شرانگیزی کے انداز میں نمایاں فرق آ جاتا ہے۔

عمدہ گفتگو ایک مبارک خصلت ہے

عمدہ گفتگو ایک ایسی مبارک خصلت ہے، جو نیکیوں اور فضائل میں بےشمار ہوتی ہے، اس کو اختیار کرنے والا رب کی خوشنودی کا مستحق ٹھہرتا ہے، اور اس کے حصے میں ہمیشگی کی فرحت و نشاط لکھ دی جاتی ہے۔

نیک آدمی اپنے تمام معاملات میں اس بات کا لحاظ رکھتے ہیں کہ ان کے منھ سے کوئی زائد یا بےکار لفظ نہ نکلے، وہ احمقانہ اور متکبرانہ روش سے سخت اجتناب کرتے ہیں، تاکہ زبان بد کلامی کی عادت نہ ہو جائے، امام مالک کی روایت ہے کہ یحیٰی بن سعید نے انہیں بتایا کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام ایک مرتبہ خنزیر کے پاس سے گزرے تو اس سے کہا، سلامتی سے نکل جا، ان سے پوچھا گیا کہ آپ ایک خنزیر سے اس طرح سے گفتگو کرتے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ مجھے اندیشہ ہے کہ میری زبان بد کلامی کی عادت نہ ہو جائے۔

آدابِ گفتگو میں دوسروں سے مخاطب ہونے سے پہلے اپنی طرف جھانکا جائے

آدابِ گفتگو میں یہ بات بھی شامل ہے کہ دوسروں سے مخاطب ہونے سے پہلے خود اپنی طرف جھانکا جائے، اور اپنے آپ سے سوال کیا جائے کہ کیا یہ موقع گفتگو کے لیے مناسب ہے ؟ اگر جواب اثبات میں ملے تو بات کی جائے، ورنہ خاموشی اختیار کر لی جائے، بلا ضرورت گفتگو سے پرہیز کرنا بہت سے منافع کا سودا ہے۔

حضرت عبد اللّٰہ ابن عباس کہتے ہیں کہ پانچ باتیں ایسی ہیں جو کالی دھاری کے ٹانگوں والے گھوڑوں سے زیادہ قیمتی ہیں۔
پہلی بات
بے مطلب کی باتیں نہ کرو کیوں کہ یہ فضول اور لغو ہے، اور اس سے تمہارے گناہ میں پڑ جانے کا اندیشہ ہے۔

کام کی باتیں کرو، مگر اسی وقت جب اس کا موقع ہو۔
تیسری بات
کسی سمجھدار یا بےوقوف سے کج بحثی نہ کرو، اگر وہ سمجھدار ہے تو تم سے ناراض ہو جائے گا اور نفرت کرنے لگے گا اور اگر بےوقوف و جاہل ہے تو تمہیں نقصان پہنچانے کے درپے ہو جائے گا۔
چوتھی بات
اپنے بھائی کی غیر حاضری میں ان الفاظ میں اس کا تذکرہ کرو جو تم خود اپنی عدم موجودگی میں اس سے سننا چاہتے ہو اور اسے ان چیزوں سے بری قرار دو جن کے بارے میں تم چاہتے ہو کہ وہ تمہیں ان سے بری سمجھے۔
پانچویں بات
اس آدمی کا سا عمل کرو جو یہ سمجھتا ہے کہ احسان پر اسے انعام سے نوازا جائے گا اور جرائم پر اس کی گرفت ہوگی۔

آدابِ گفتگو کے تعلق سے یہ پانچ باتیں انمول ہیں

آدابِ گفتگو کے تعلق سے یہ پانچ باتیں گویا انمول ہیں، کوئی انسان مذکورہ صفات کو اپنے اندر اسی وقت پیدا کر سکتا ہے، جب وہ اپنی زبان کو قابو میں رکھتا ہو، لیکن اس کے برعکس جن کے اوپر زبانوں کی حکومت چلتی ہے، وہ پیچھے اور پستی میں ڈھکیل دئیے جاتے ہیں، اور انہیں ہر جگہ ذلت و رسوائی نصیب ہوتی ہے۔

در اصل شیطان انسانوں کی گھات میں لگا رہتا ہے، اور وہ اپنے مقصد کے لیے ہماری زبان کو اپنا ہتھیار بناتا ہے، سچ کہا گیا ہے کہ زبان شیطان کے ہاتھ میں پڑی ہوئی رسی ہے، وہ جدھر چاہتا ہے پھیر دیتا ہے۔

جب انسان اپنے معاملات پر قابو نہ رکھے تو اس کا منھ تمام منفی باتوں کی گزرگاہ بن جاتا ہے، اس لیے حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی بندے کا ایمان سیدھا نہیں ہو سکتا ہے جب تک کہ اس کا دل سیدھا نہ ہو جائے، اور اس کا دل سیدھا نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کی زبان درست نہ ہو جائے، گویا زبان کی اصلاح میں ہی ایمان اور دل کی سلامتی ہے۔

بعض لوگوں کی فطرت ہوتی ہے کہ وہ واہی تباہی بکتے رہتے ہیں، حالانکہ اس طرح فضول باتوں کی عادت ان کی عقل مردہ کر دیتی ہے، اسی لیے فرمایا گیا ہے کہ جب عقل بڑھ جاتی ہے تو باتیں گھٹ جاتی ہیں، یعنی بکواس، بےعقلی کی دلیل ہے اور لغو باتوں سے پرہیز کرنا کامیابی کی شرط اور کمالیت کی دلیل ہے، مشہور مقولہ ہے کہ جو جتنا بولے گا، اس سے اتنی ہی غلطیاں سرزد ہوں گی۔

کچھ لوگ بڑے ہی تند مزاج، ترش رو اور فحش گو ہوتے ہیں، یہ عادت بڑوں میں بھی ہوتی ہے، اور بچوں میں بھی، ایسے لوگوں کے ساتھ ایک شریف آدمی کا رویہ یہ ہونا چاہیے کہ وہ ان کی باتوں میں نہ الجھے، کیوں کہ اس سے نقصان ہی نقصان ہے، حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر حضرت ابوذر کو یہ نصیحت فرمائی کہ خاموشی اختیار کرو، یہ شیطان کو بھگانے کا ایک بہترین ذریعہ ہے، اور تمہارے دین کے معاملہ میں تمہارا مددگار ہے۔

ہمیں احساس ہو یا نہ ہو، مگر سچ یہی ہے کہ خاموشی کے موقع محل کا دھیان رکھنا اور بےکار باتوں سے بچنا آداب گفتگو کی کلید ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے