Ticker

6/recent/ticker-posts

غالب کے خطوط نگاری کی خصوصیات | مرزا غالب کی مکتوب نگاری، محاسن خطوط غالب

غالب کے خطوط نگاری کی خصوصیات | مرزا غالب کی مکتوب نگاری، محاسن خطوط غالب

مرزا غالب کی مکتوب نگاری سے اردو نثر کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے۔ جب مرزا غالب نے اردو میں مکتوب نگاری شروع کی تو ان کے سامنے اردو میں نثر نگاری کے دو انداز موجود تھے۔ ایک وہ انداز جو فارسی کے تتبع میں اختیار کیا گیا تھا اور دوسرا وہ اسلوب جسے فورٹ ولیم کالج کے نثر نگاروں نے رائج کیا۔ مرزا غالب کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے ان دونوں کے درمیان کا راستہ نکالا جس میں دونوں طرح کے انداز بیان کا حسین امتزاج نظر آتا ہے۔ جس میں سادگی بھی ہے اور رنگینی بھی، جو اصلیت سے مملو بھی ہے اور لطف انگیزی سے بھی پر ہے۔ انہوں نے مضمون کو بے اعتدالیوں سے بچانے کے لئے شوخی و ظرافت کا بھی خاص لحاظ رکھا۔ انہوں نے برجستگی اور بے ساختگی کے ساتھ ساتھ الفاظ اور جملے کی خوبصورت تراش خراش کو بھی پیش نظر رکھا۔

خطوط غالب کی نثر نگاری کی خصوصیات

مرزا غالب نے الگ سے کوئی نثری تخلیق پیش کر کے کوئی نیا کارنامہ انجام نہیں دیا۔ بلکہ ان کا جو بھی نثری کارنامہ ہے وہ ان کے خطوط ہیں اور یہی ان کا نثری سرمایہ بھی ہے۔ انہی خطوط میں انہوں نے اپنی اور اپنے معاصرین و احباب کی زندگی کی عکاسی کی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ایک طرف اگر ان کے کلام سے ان کی شخصیت کے چند پہلو نمایاں ہوتے ہیں، تو ان کے خطوط سے ان کی شخصیت کے تقریباً سب گوشے روشن ہو جاتے ہیں۔ ان کے خطوط میں ان کی زندگی کے شب وروز، ان کی خوبیاں، خامیاں اور ان کی زندگی کی خوشی اور غم سب ان خطوط میں موجود ہیں۔ گویا غالب کو ان خطوط کی مدد سے صرف ایک شاعر کی حیثیت نہیں، بلکہ ایک انسان کی حیثیت سے بھی سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔

مرزا غالب کی مکتوب نگاری، مرزا غالب کے خطوط

مرزا غالب کے خطوط کی یہ خوبی ہے کہ جب وہ اپنا مدعا بیان کرتے ہیں تو اس سے متعلق وہ سب کچھ کہہ دینا چاہتے ہیں اور اسی وجہ سے ان کی نثر میں سادگی، دلکشی، اور برجستگی پیدا ہو جاتی ہے۔ ان کی نثر میں جو اثر آفرینی پائی جاتی ہے اس کی ایک بڑی وجہ ان کا خلوص ہے۔ یعنی وہ جو کچھ بھی اپنے خطوط میں کہتے ہیں وہ ان کے دل کی آواز ہوتی ہے اور یہ خلوص اور صداقت ہی کا نتیجہ ہے کہ اظہار میں سادگی اور سلاست کا رنگ پیدا ہو گیا ہے۔

غالب کے خطوط میں بول چال کی زبان

غالب کے خطوط میں بول چال کی زبان ملتی ہے، یعنی وہ بھی اپنے عہد اور معاشرے سے یا ماحول سے الگ نہیں تھے۔ واقعہ یہ ہے کہ جب کوئی شاعر یا ادیب اپنی بات عام زبان میں کہتا ہے تو اظہار خیال کا سانچہ آسانی سے مل جاتا ہے۔ مرزا غالب کا تو مقصد ہی یہی تھا کہ مراسلہ، مکالمہ بن جاۓ، اس لئے انہوں نے اپنے مدعا کو بہت عام فہم اور گلو کے سانچے میں پیش کیا۔ انہوں نے حالات موقع اور مخاطب کو ملحوظ رکھا، یعنی جب بھی علمی بحث یا کوئی ادبی مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو اس موضوع پر گفتگو کرتے وقت فارسی و عربی کی ترکیبیں بھی استعمال کرتے ہیں۔ کہیں کہیں صنائع و بدائع کا استعمال کر کے طرز اظہار میں طاقت بھی پیدا کرتے ہیں۔ غالب کے خطوط میں عام معلومات اور کارو باری باتوں کے علاوہ واقعات کا ذکر، اشخاص، مناظر اور حالتوں کا وصف، تنقید و تقریظ اور عرائض موجود ہیں۔

خطوط غالب کے موضوعات، محاسن خطوط غالب

خطوط غالب کے موضوعات میں تنوع پایا جاتا ہے۔ دہ مخاطب کو دیر تک القاب و آداب میں الجھاۓ نہیں رکھتے بلکہ جلد ہی دھیمی دھیمی ظرافت اور ہلکی پہلی پھلکی گفتگو سے اپنے مدعا کی طرف آ جاتے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مخاطب سامنے بیٹھا ہو اور غالب اس سے باتیں کر رہے ہوں،۔

غالب کی مکتوب نگاری کی مثالیں

ان کے خطوط میں جزیات نگاری کی بھی اچھی مثالیں ملتی ہیں، جیسے نو بج گئے ہیں، بیٹا ہوا خط لکھ رہا ہوں "

"سورج نکلے بابو گڑھے کی سرائے میں پہنچا، چارپائی بچھائی، اس پر بچھونا بچھا کر حقہ پی رہا ہوں اور خط لکھ رہا ہوں " غالب کے مکتوبات میں استعارے کی مثالیں بھی ملتی ہیں، غرض ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ غالب صرف اپنی شاعری ہی سے مشہور نہیں ہوۓ بلکہ اپنے خطوط کے انداز تحریر سے بھی مشہور ہیں۔ ان کے خطوط کے مجموعے" اردو معلی اور " عود ہندی کو اردو نثر کی تاریخ میں ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔

اور پڑھیں 👇

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے