Ticker

6/recent/ticker-posts

منشی ہرگوپال تفتہ کے نام غالب کا خط کا خلاصہ اور سوالات و جوابات

منشی ہر گوپال تفتہ کے نام غالب کا خط کا خلاصہ اور سوالات و جوابات


آج کی تحریر میں ہم حصہ نثر باب اول سبق مکتوب نگاری کے تحت مرزا غالب کی خطوط نگاری مکتوبات غالب کا مطالعہ کرنے جا رہے ہیں۔ منشی ہر گوپال تفتہ کے نام این سی ای آر ٹی کی بارہویں جماعت NCERT Class 12 Urdu میں شامل ہے اس لیے اس کا مطالعہ کرنا ہم سب کے لیے بے حد ضروری ہے۔ غالب کا خط بنام منشی ہرگوپال تفتہ سے این سی ای ار ٹی کے امتحان میں اکثر سوالات پوچھے جاتے ہیں اس لیے اس تحریر میں ہم مرزا غالب کی مکتوب نگاری منشی ہرگوپال تفتہ کے نام کا خلاصہ اور سوالات و جوابات بھی پیش کریں گے۔

تعارف سبق

آج کے سبق میں ہم مکتوب نگار کے مختصر تعارف کو بیان کرتے ہوئے مرزا غالب کے خطوط منشی ہر گوپال تفتہ کے نام اور اس خط سے متعلق سوال و جواب پیش کریں گے۔

تعارف مکتوب نگار

غالبؔ کا اصل نام مرزا اسد اللہ خاں بیگ غالب ہے۔ غالب 27 دسمبر 1797 میں آگرہ میں پیدا ہوئے۔ غالبؔ بچپن ہی میں یتیم ہوگئے اور ان کی پرورش ان کے چچا مرزا نصر اللہ بیگ نے کی۔ جب غالب کی عمر آٹھ سال ہوئی تو ان کے چچا بھی انتقال کر گئے۔ 1810 میں تیرہ سال کی عمر میں غالبؔ کی شادی مرزا الہی بخش خاں کی بیٹی امراؤ بیگم سے ہوئی۔

شادی کے بعد مرزا غالب نے اپنے آبائی وطن کو خیر آباد کہہ کر دہلی میں سکونت اختیار کر لی۔ 1850 میں بہادر شاہ ظفر نے مرزا غالب کو نجم الدولہ دبیر المک نظام جنگ کا خطاب عطا کیا اور خاندان تیموریہ کی تاریخ لکھنے پر مامور کیا۔ 15 فروری 1869  کو غالب نے وفات پائی۔

غالب نے شاعری کا آغاز سن1807 میں کیا اور بطور شاعر بے پناہ شہرت حاصل کی۔ جبکہ نثر نگاری کا آغاز غالب نے فارسی نثر سے کیا۔ فارسی نثر میں غالب کی مشہور کتب پنج آہنگ، مہر نیمروز اور دستنبو اہمیت کے حامل ہیں۔ جبکہ اردو نثر نگاری میں غالب کا سب سے بڑا کارنامہ ان کے خطوط ہیں، جن کے ذریعے غالب نے اردو کو ایک منفرد نثری اسلوب سے روشناس کروایا۔

غالب مکتوب نگاری مکتوبات غالب

غالب کے مکتوب اردو ادب کا اہم سرمایہ ہیں جو نہ صرف ان کی ذاتی زندگی کے عکاس ہیں بلکہ ان کے زمانے کے سماجی ماحول اور سیاسی حالات کو جاننے میں بھی نہایت کارآمد ہیں۔غالب کی تحریر واقعہ نگاری منظر نگاری جذبات نگاری اور طنز و مزاح کا بھر پور عنصر لیے ہوئے ہے۔

منشی ہر گوپال تفتہ کے نام غالب کا خط کا خلاصہ

غدر یعنی انگریزوں کے خلاف 1857 کی ہونے والی بغاوت کے دوران دہلی شہر بہت تکلیف دہ اور مایوس کن حالات سے دوچار ہو رہا تھا۔ غالب نے اس خط کے ذریعے اس عہد کے دہلی شہر کی سماجی زندگی کے ساتھ ساتھ وہاں کے سیاسی حالات کا بھی نقشہ کھینچا ہے۔ انگریز حکمرانوں کے قابض ہونے کے بعد دہلی شہر اجڑنے کے بعد دوبارہ سے آباد ہو رہا تھا اور یہ ایک طرح سے غالب کی لیے دوسرا جنم تھا۔ جہاں پھر سے دہلی کی پرانی روایات لوٹنے لگی تھیں۔ دہلی کے لوگ یہاں کے حکام کا اجازت نامہ پانے کے بعد یہاں دوبارہ سے بسنے لگے تھے۔ مجرموں کو سزائیں دی جارہی تھیں۔ غالب اس وقت قلعہ میں شعری اصلاح کی ملازمت پر معمور تھے۔انہوں نے ان تمام حالات کو خط کے ذریعے منشی ہرگوبال تفتہ کے نام لکھا ہے۔

منشی ہر گوپال تفتہ کے نام سوالات و جوابات

سوال نمبر ١

دوسرا جنم ہم کو ملا اس سے غالب کی کیا مراد ہے؟

جواب: دوسرا جنم ہم کو ملا سے غالب کی مراد غدر یعنی 1857 کی بغاوت کے بعد دہلی کے حالات ہیں۔ غدر سے قبل دہلی شہر میں ادب پروری کا دور دورہ تھا۔ مگر غدر کے واقعہ سے دہلی کا ماحول یکسر بدل گیا۔ پرانے معاملات، میل ملاپ کا ماحول نہ رہا لیکن کچھ عرصہ بعد جب دہلی کے حالات دوبارہ سے معمول پر آنے لگے۔ میل ملاپ بڑھنے لگا اور خط و کتابت ہونے لگی تو غالب نے ان حالات کو دوسرا جنم قرار دیا۔

سوال نمبر ٢

مفصل حال لکھتے ہوئے ڈرتا ہوں غالب نے یہ بات کیوں لکھی؟

جواب : مفصل حال لکھنے سے ڈرتا ہوں غالب نے یہ بات اس لیے لکھی کہ انگریزوں کے دہلی پر قابض ہوجانے کے بعد دہلی کے حالات میں بہت تبدیلیاں دیکھنے کو ملی۔ قلعہ کے ملازمین پر بہت سختی تھی۔ ہر طرح کے معاملات پر باز پرس کیا جانا معمول کی بات تھی۔ غالب بھی چونکہ قلعہ کی ملازمت سے وابستہ تھے یہی وجہ ہے کہ وہ خط کے ذریعے مفصل حالات سے آگہی دینے سے ڈر رہے تھے۔

سوال نمبر ٣

اس فتنہ و آشوب میں ،میں نے کسی مصلحت میں دخل نہیں دیا سے آپ کیا سمجھتے ہیں؟

جواب : فتنہ و آشوب میں، میں نے کسی مصلحت میں دخل نہیں دیا سے مراد اس وقت کے دہلی کے پر آشوب یا ہنگامہ و فساد سے پر حالات میں غالب نے نوکری یا دیگر کسی بھی قسم کے حالات پر نہ تو کوئی اعتراض اٹھایا اور نہ ہی اس معاملے میں کسی سے صلاح و مشورہ کرنا اہم جانا اور جو ہے اسی کو غنیمت جان کر کام کو جاری رکھا۔

سوال نمبر ٤

گھر گھر بے چراغ پڑے ہیں اس کا کیا مطلب ہے؟

جواب: گھر گھر بے چراغ پڑے ہیں سے مراد گھر تو جوں جے توں موجود ہیں مگر ان میں بسنے والا کوئی موجود نہیں ہے۔بغاوت کے وقت بہت سے لوگ دہلی سے کوچ کر گئے جبکہ کچھ کو شہر بدر کر دیا گیا۔ جس کی وجہ سے شہر میں ویرانی کا سماں تھا۔ جب تک افسران کی جانب سے باقاعدہ آباد کاری کا پروانہ نہ ملتا ان گھروں میں بسنے والا کوئی نہ تھا۔

سوال نمبر ٥

مجرم سیاست پاتے جاتے ہیں”غالب اس جملے میں کیا کہنا چاہتے ہیں؟

جواب : مجرم سیاست پاتے جاتے ہیں سے مراد وہ تمام لوگ جو کسی طرح مجرم قرار پا رہے تھے ان کو سزائیں دی جا رہی تھیں۔

سوال نمبر ٦

اس خط کی روشنی میں غالب کے زمانے پر ایک نوٹ لکھیے۔

جواب : غالب کا عہد اٹھارویں صدی کا عہد ہے۔ جب دہلی شہر علم و فن، مہر و محبت اور دوستی کا گہوارہ ہوا کرتا تھا۔ بڑے بڑے نامور شاعر و ادیب حضرات دہلی سے وابستہ تھے۔ 1857 میں ہندوستان میں غدر کے بعد دہلی شہر کا پانسا پلٹا اور یہاں انگریزوں کے مکمل طور پر قابض ہو جانے کے بعد دہلی نے فتنہ و آشوب سے پر دور دیکھا۔غالب اس وقت دہلی میں مقیم تھے۔غالب نے ان حالات کا براہ راست سامنا کیا۔یوں 1857 کے بعد کے حالات کا بیان ان کے اس خط میں بھی ملتا ہے۔

سوال نمبر ٨

منشی ہر گوپال تفتہ کے نام لکھے گئے خط میں غالب نے کیا بیان کیا ہے؟

جواب : تفتہ کے نام لکھے گئے خط میں غالب نے 1857 ء کی بغاوت کا ذکر کیا ہے۔ اور اس ہنگامہ سے دہلی کی تباہی و بربادی کا حال بیان کیا ہے کہ کس طرح سے دہلی والے مایوسی کا سامنا کر رہے تھے۔ اُس وقت کی تمام حالات کی عکاسی غالب کے اس خط میں ملتی ہے۔

اور پڑھیں 👇

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے