اردو میں داستان نگاری کی روایت کیا ہے | اردو کی اہم داستانیں کون کون سی ہیں
داستان گوئی کے فنی علامت کیا ہیں
اردو میں داستان نگاری کی روایت کیا ہے
اردو کی اہم داستانیں کون کون سی ہیں
فورٹ ولیم کالج اور اس سے باہر کون سی داستانیں لکھی گئیں
فارسی سے ترجمہ کی گئی داستانیں کون کون سی ہیں اور ان کی خصوصیات کیا ہیں
فورٹ ولیم کالج میں لکھی گئی اہم داستانوں کے نام کیا ہیں
18 ویں صدی کی داستانیں کون کون سی ہیں اور ان کے مصنف کون ہیں
فارسی سے ترجمہ ہوئی تاریخی داستانوں کے نام بتائے
داستانوں کی پانچ فنی خصوصیات بیان کیجئے
ابتدائی داستانوں میں سے پانچ کے نام بتائے
اردو میں داستان نگاری کا ارتقا
مختلف حوالوں سے داستان کی تعریف
قصہ مہر افروز و دلبر
سنگھاسن بتیسی
داستان کے موضوعات
سب رس کی ادبی و تاریخی اہمیت واضح کیجئے
دکن میں داستان کے ارتقاء کا جائزہ لیجئے
داستان کی اہمیت
قصہ کی تعریف
اردو میں داستان نگاری کی روایت کیا ہے
اردو میں داستان نگای کی روایت 17 ویں صدی سے شروع ہوتی ہے اور بیسویں صدی کے ربع اول تک قائم رہتی ہے۔ یہ فن اردو میں عربی و فارسی سے آیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو کی زیادہ تر داستانیں عربی ا ور فارسی سے ماخوذ ہیں یا بھر ان کا ترجمہ اردو میں کیا گیا ہے۔ چند طبع زاد داستانیں بھی لکھی گئیں لیکن وہ انگلیوں پر گنی جاسکتی ہیں ۔
داستانوں نے اردو کو بیانیہ دیا۔ اردو نثرکو مالا مال کیا اور اس میں اتنی استعداد پیدا کی کہ وہ زندگی کے کسی بھی شعبہ پرقلم اٹھا سکتی ہے ۔ داستانوں کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ وہ ہندستان کی مشترکہ تہذیب اور معاشرت کی بھر پور عکاسی کرتی ہیں۔ اردو میں زبان کا رچاؤ داستانوں ہی کا مرہون منت ہے ۔ داستانوں میں اردو نثر کے متعدد اسالیب محفوظ ہیں ۔ جو زبان کی عظمت کی گواہی دیتے ہیں۔
داستان گوئی کے فنی علامت کیا ہیں
داستانوں میں قصہ در قصہ اور ذیلی طور پر چھوٹے چھوٹے واقعات، حادثات اور حالات ہوتے ہیں۔ انھیں اگر الگ الگ کر کے دیکھا جائے تو اردومیں ناول اور افسانے کی فضا ہموار ہو چکی تھی ۔ اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ اردو میں افسانوی ادب کی اصناف کا غیر شعوری طور پر ارتقا ہو ر ہا تھا۔ اردو میں ناول اور افسانے کے فنی محاسن تو مغرب سے آۓ ہیں لیکن اس سلسلے میں ہمارے یہاں پہلے سے بہت کچھ موجود تھا۔
داستان نگاری کا فن اور اردو داستانیں | داستان کیا ہے
داستان کا فن ہمہ گیر ہے۔ اس میں قصہ کے تمام اقسام شامل ہوتے ہیں۔ اردو میں داستان کا لفظ عربی و فارسی کے مفہوم میں کہانی قصہ افسانہ اور داستان کے لیے استعمال ہوتا تھا لیکن مغربی ادب کے اثرات سے اس کے اصطلاحی معنی مقرر ہو گئے۔ اور کہانی ، ناول و افسانہ الگ معنوں میں استعمال ہونے لگا۔ آج انگریزی کا لفظ TALE کو اردو میں قصہ کے مترادف خیال کیا جا سکتا ہے۔ جس میں فرضی طور پر خیالاتی واقعات کا بیان ہوتا ہے اور ہماری روز مرہ کی زندگی سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں ہوتا ۔ دوسری قسم PARABLE ہے جس کے لیے اردو میں علامتی یا تمثیلی قصہ کہنا مناسب ہو گا ۔ ان کی ظاہری صورتوں کا کا معنی سے حقیقی تعلق نہیں ہوتا بلکہ سیدھے ساد سے لفلوں کی تہذیبی گہرے معنی پوشیدہ ہوتے ہیں۔ اردو میں اس کی بہترین مثال ’’ سب رس ‘‘ ہے۔ کہانی کی تیسری قسم FABLE ہے۔ معنوی انتہار سے یہ قصہ اور تمثل کے درمیان کی چیز ہے ۔ اس میں پرندوں اور جانوروں کے وسیلے سے کوئی داستان بیان کی جاتی ہے۔ اردو میں طوطی نامہ اس قسم کے قصّے کی واضح مثال ہے۔ چوتھی قسم کی کہانیوں کے لیے انگریزی میں ROMANCE کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ یہ سب سے اہم اور وسیع معنی میں استعمال ہوتی ہے۔ عشق ومحبت کے واقعات کے ساتھ ہرقسم کے حادثات و مہمات اس میں داخل ہوتے ہیں۔ رومان کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس میں کوئی مرتب پلاٹ نہیں ہوتا اس میں المیہ و طربیہ دونوں قسم کے واقعات خلط ملط ہو تے ہیں ۔ مرکزی قصے کے گرد چھوٹے چھوٹے قصے گردش کرتے ہیں ۔ عشق، مذہب اور جنگ رومان کے اہم عناصر ہیں۔ ان قصوں میں ما فوق الفطرت عناصر کا غیر معمولی دخل ہوتا ہے۔ اس لیے یہ بھی کہا گیا ہے کہ رومان میں اتفاقات و حوادث قسمتوں کو بنانے اور بگاڑنے میں اتنا حصہ لیتے ہیں کہ انسان کی زندگی کو منطق کو بے معنی اور بے حقیقت سمجھنے لگتا ہے۔ یہ ساری خصوصیات انگریزی اصطلاح رومانی یا رومانس میں پائی جاتی ہیں جسے ہم اردو میں داستان کہتے ہیں ۔
داستانوں کی فنی خصوصیات
داستان کے لیے ضروری ہے کہ اس میں کوئی مرکزی قصہ ہو خواہ اکہرا ہو یا قصہ در قصہ اور خواہ زندگی کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتا ہو۔ اس میں شاعرانہ تخیل کا دبیز پردہ پڑا رہنا ضروری ہے۔ داستانوں میں زندگی کی تصویر ہوتی ہے لیکن اس کا تعلق حال سے کم اور ماضی بعید سے زیادہ ہوتا ہے ۔ کرداروں کو جاندار بنانے کے لیے اس کے تانے بانے ایسے خیالی تاروں سے بنائے جاتے ہیں جس سے سننے یا پڑھنے والے کے ذہن وہوش کی رسائی سے بالاتر ہوں۔ پلاٹ اور کردار فرضی ہوتے ہیں لیکن ان میں حرارت ہوتی ہے۔
داستان کی فضا میں دوری کا وجود ضروری ہے جو زمانی اور مکانی دونوں قسم کی ہوتی ہے یہ خصوصیت داستان کے حس میں اضافہ کرتی ہے۔ داستان کی فنی خصوصیت میں طوالت بھی ضروری ہے۔ داستان کو طول دینے کے لیے مرکزی داستان کو ضمنی داستانوں کی مددا سے ٹھہرایا جاتا ہے۔یہ ٹھہراؤ سامعین یا قارئین پر گراں نہیں گذرتا بلکہ وہ اس سے ختم نہ ہونے کی دعائیں مانگتے ہیں، داستان مافوق الفطرت عناصر کے حیرت انگیتر مظاہرات پیش کرتے ہیں۔ یہ کبھی بھوت پریت اور دیوی پری کے دلکش افسانے ہوں گے تو کبھی ضمنی کہانیوں کی شکل میں حادثات اور مہلک جنگوں کی تفیل پر مشتمل ہوں گے اور کبھی عشق ومحبت کے عجیب و غریب واقعا ت، جنسی آسودگی اور لذت خیزی کا سبب بن کر ہمارے سامنے آئیں گی۔ غرض داستان پر رنگا رنگی اور ہمہ گیری اکثر ضمنی قصوں کی مدد سے ہی پیدا کی جاتی ہے۔
داستان کے موضوعات
عشق و محبت بھی داستان کا ایک اہم عنصر ہے بلکہ اکثر عشق و محبت ہی کی بدولت داستان وجود میں آتی ہے ۔ اور عشق ہی کی مہمات سر کرنے میں داستان میں طوالت و پیچیدگی کے ساتھ ساتھ عام انسانی زندگی کی دلچسپی کا سامان پیدا ہوتا ہے۔ داستان میں عشق و محبت کی شمولیت سے دو خاص اور اہم فائدے ہوتے ہیں پہلی باقاعدہ داستان میں رنگینی اور دلکشی کے ساتھ ساتھ وصال، ہجرت، حصرت و یاس، رقابت شکایت، امید و بهم خود رفتگی، مقاومت و مفادات سے رنگا رنگ موضوعات پیدا ہوتے ہیں دوسرے عشق کی بدولت اصل داستان کو دیر تک ٹھہرانے اور طول دینے میں مدد ملتی ہے۔ عشق و محبت کا عنصر مختلف طریقوں سے داستان میں چار چاند لگا دیتا ہے۔
داستان کی ایک اہم شرط
داستان کی ایک اہم شرط اس کا بیان ہے بیان جس قدر سادہ، مربوط مسلسل مؤثر اور دلکش ہوگا داستان اسی قدر مقبول ہوگی۔ اس لیے کہ داستان بنیادی طور پر کھنے لکھانے کا ہنر اور سننے سنانے کا فن ہے، جو حسن بیان کے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتا۔ طرز بیان کی اہمیت اس لیے اور بڑھ جاتی ہے کہ مواد اور موضوع سے بےنیاز رہ کر محض باتوں سے اپنا یاکسی اور کا دل بہلانا آسان کام نہیں ہے۔ طرز بیان کا فرق داستان کے فنی و ادبی مراتب میں بھی فرق پیدا کرتا ہے۔
داستان کی اہمیت
داستان نے انسان کے لیے عملی زندگی کا ایک ایسا ضابطہ مرتب کیا جس میں عیش و عشرت کی فراوانی ہے۔ جرات، ہمت، شجاعت اور مردانگی کے بدلے ابدی سکون و راحت کا انعام ہے ۔ مروت، محبت اور درد مندی کے بدلے جاوہ و ثروت ہے۔ عارضی سخت کوشش کے بدلے دائمی راحت ہے۔ اس دنیا کو مشاہدہ اور نکھرنے نے نہیں بلکہ تصور اور تخیل نے آباد کیا ہے اور ان کی تزئین میں ادبیت و شعریت نے اپنی ساری طاقت صرف کیں ہیں۔ اس لیے ہر طرف حسن و جماال کے جلوے ہیں اور یہی بات قاری کے لیے کشش کا باعث ہے۔ داستانوں نے کہانی میں دلچسپی اور ان دلفریبی کی کشمکش اور جد وجہد کی اور پھر باطل پر حق کی فتح، ان کی اور فطرت کے تصادم اور ہم آہنگی کی فضا بنائی اور اس طرح ایک ایسی دنیا بنائی جو حقیقت کی دنیا سے زیادہ سچی اور قابل یقین نظر آتی ہے۔ جو کچھ فطری نہیں و ہی یہاں فطری اور جو نا قابل یقین ہے وہ یہاں قابل قبول بن جاتا ہے۔ دنیا کی دوسری ترقی یافتہ اور شائستہ زبانوں کی طرح اردو میں بھی داستانوں کا سراغ منظوم داستان کی شکل میں کدم راؤ پدم راؤ " سے ملتا ہے جو آج سے تقریبا سارھے پانچ سو برس پہلے 1460 میں لکھی گئی لیکن نثری داستانوں کے آغاز سب رس (Sub Rus) کی تمثیل کو نظر انداز کر کے 1774 میں فارسی قصے چہار درویش کے اردو ترجمہ سے ہوتا ہے۔ اس کے بعد سرسید کی تحریک تک مختصر اور طویل سیکٹروں داستانیں لکھی گئیں ۔ لیکن باغ و بہار، آرائش محفل، رانی کیتکی کی کہانی، فسانہ عجائب، گل صنوبر، سروش سخن طلسم حیرت داستان امیر حمزہ اور بوستان خیال کو قبول عام کی سند ملی۔ آرائش محفل (1801 ) میں حیدر بخش حیدری نے حاتم طائی کی مہمات کا ذکر کیا ہے ۔ میرامن نے 1802 میں باغ و بہار لکھی جس میں چار درویشوں کی کہانی ہے۔ اسی سال انشا اللہ خان انشا نے رانی کیتکی کی کہانی لکھی۔ 1821 کو رجب علی بیگ کی فسانہ عجائب منظر عام پر آئی۔ نیم چند ہری نے 1826 کو گل صنوبر کو فارسی سے اردو میں منتقل کیا۔ رجب علی بیگ سرور نے ایک اور کتاب شگوفہ محبت‘‘ (1856) میں لکھی جس کا جواب قمر الدین نے سروش سخن کے نام سے تحریر کیا۔ جعفر علی شیون کا کوروی نے 1876 میں سروش سخن کے جواب میں طلسم حیرت لکھی۔ 1801 میں خلیل احمد خان اشک نے داستان امیر حمزہ جیسی عظیم داستان اردو کو دی اور اس کے جواب میں خواجہ امان نے بوستان خیال کے نام سے ایک طویل داستان کی بنیاد ڈالی۔
ان داستانوں میں آرائش محفل، گل صنوبر، سروش سخن طلسم حیرت و غیره رفته رفته پردہ فضا میں جارہی ہیں البتہ باغ و بہار، رانی کیتکی کی کہانی اور قسانہ عجائب آج بھی مقبول ہیں ۔ وہلوی تمدن کی آئینہ دار سے قطع نظر باغ و بہار کا اسلوب اتنا دلکش، ساده اور پرلفت ہے کہ موضوع اور نفس داستان سے عدم دلچسپی کے باوجود وہ ہمیشہ ہماری توجہ کا مرکز رہے گی۔ اس داستان کے ذریعہ ہی اردو زبان کو ایک معیاری اسلوب ملا ہے جس کے نقوش آنے والی نسلوں میں بالخصوص مرزا غالب ا و ر سرسید، حالی اور عبد الحق کے یہاں صاف صاف نظر آتے ہیں۔ رانی کیتکی کی کہانی اکہرے پلاٹ کی مختصر داستان ہے جس میں انشا نے یہ التزام کیا ہے کہ اس میں عربی و فارسی کا کوئی نقطہ نہ آنے پائے۔ مافوق الفطرت عناصر کم ہیں ۔ کہانی کے پاؤں شروع سے ہی داستان کی زمین پر جمے ہوئے ہیں اس لیے اسے داستان اور افسانے کے بیچ کی کڑی کہا جا سکتا ہے۔
فسانہ عجائب
فسانہ عجائب بظاہر طبع زاد نظر آتی ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔ مصنف نے مختلف حصوں کی مدد سے اس کا پلاٹ مرتب کیا ہے اس لیے پلاٹ بھی پیچیدہ ہو گیا ہے اور داستانوی عناصر کم ہو گئے ہیں ۔ فسانہ عجائب کی انشا پردازی ایک پر لطف اور دلکش نثری اسلوب کی بنیاد ڈالتی ہے جس کی جھلکیاں آگے چل کر محمد حسین آزاده ابو الکلام آزاد اور قاضی عبد الستار کے یہاں دیکھنے کو ملتی ہیں ۔
داستان امیر حمزہ
داستان امیر حمزہ اردو کی سب سے اہم اور طویل داستان ہے یہ داستان به شمول طلسم ہوشربا 46 جلدوں پر مشتمل ہے۔ہر جلد میں بڑی سائز کے ایک ہزار صفحات ہیں۔ بوستان خیال کا بھی یہی حال ہے۔ داستان جہازی مسافر کی نوزخیم جلدوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ خواجہ امان نے داستان کے دیباچہ میں اس فن کی خصوصیات بتاتے ہوئے لکھا ہے داستان کی ایک اہم بات یہ ہے کہ اس میں تاریخ گذشتہ کا لطف آئے اور اصل ونقل میں کوئی فرق نہ ہو۔ داستان کا پلاٹ پیچیدہ اور گنجلک ہے لیکن وہ زبردست انداز بیان رکھتی ہے۔ اپنی داستانوں کے بیانیوں میں اردو زبان جتنا فخر کرے کم ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا کی دوسری زبانوں میں اتنا بڑا سرمایہ محفوظ نہیں ہے جتنا اردو کی داستانیں محفوظ کیے بیٹھی ہیں ۔ داستانوں پر ایک تنقید یہ ہوئی ہے کہ وہ زندگی کی حقیقتوں سے دور دیووں اور پریوں کے کہانی قصوں ، طوطا مینا کی کہانیوں اور جھوٹ و مبالغہ کا انبار ہوتی ہیں ۔ ہوسکتا ہے کہ یہ بات کسی کے لیے درست ہو لیکن ان میں جو خواب و خیال پل رہے ہوتے ہیں ۔ اشاروں و کنایوں میں جو طوفان جاگ رہے ہوتے ہیں ۔ زبان و بیان کے دریاؤں میں جو بیانیہ ٹھاٹھیں ماررہا ہوتا ہے۔ وہ ہماری زندگی کا بیش قیمت سرمایہ ہے۔ ہماری تہذیبی زندگی اور اس کے رچاؤ کی جیتی جاگتی سچی تصویر ہمیں داستانوں ہی میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ کہا یہ بھی جاتا ہے کہ زبان کے محاورے پر قابو پانے کے لیے داستان کا مطالعہ ناگزیر ہوتا ہے۔
داستانیں قوت تخیل کا کارنامہ ہوتی ہیں ۔ ذہنوں میں تخیل کی قوت جتنی زیادہ ہوگی وہی ذہن بڑے تخلیقی کارنامے انجام دے گا۔ جن تحریروں میں قوت متخیلہ رنگ بھرتی ہے ان ہی میں رموز و کنایات اور علامات تخلیق پاتے ہیں ۔
ہزاروں سال پہلے ہم نے اپنے صحیفوں میں اڑن کھٹولوں کی علامتوں میں بیٹھ کر ساری کائنات کی سیر کی تھی ۔ یہی ذہن مجرد تخیل کی منزل پر پہنچنے پر آج راکٹ اور روشنی اور آواز سے بھی تیز جہازوں کی بات کرتا ہے ۔ تخلیقی قوت کی کا معجزہ ہے جس نے انسان اور کائنات کے تمام چھپے ہوئے خزانوں اور رازوں کو علامات اور تمثیلات میں سمودیا ہے۔ طسمِ ہوش ربا کے کرداروں کو لیجئے وہ کسی ایسے لفظ یا تمثیل کا پیکر ہوتے ہیں جن سے نہ صرف اس لفظ کے تمام ظاہری اور باطنی معنی تشریح اورتفصیل کے ساتھ سامنے آجاتے ہیں بلکہ ان کے تلازمات، کنائے ۔ رمزیت اور اس سے متعلقہ کیفیات اور اثرات پڑھنے والے کو اس طرح اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں کہ ہرلفظ پڑھنے والے ذہن میں زندہ ہو جا تا ہے ۔ مثال کے طور پر ملکہ بہار کے ذکر میں پیار سے متعلق بے معنی اور طلازمات پیدا ہو سکتے ہیں ان میں کوئی اضافہ ممکن نہیں ہے۔ بہار کو تمام رعنائیوں اور رنگینیوں کو طلسم ہوشربا کے مصنف نے مجسم کردیا ہے۔
اردو کی نثری داستانوں
اردو میں با قاعدہ لکھی جانے والی نثری داستانوں میں ملا وجہی کی سب رس ہے جو دکن میں 1635 میں لکھی گئی۔ عقل، عشق، حسن، دل نظر، خیال اور دیدار وغیرہ اس تمثیلی قصے کے اہم کردار ہیں ۔ یہ سلطان عبد اللہ قطب شاہ کی فرمائش پر لکھی گئی جو مقفیٰ اورمسجّع نثر کا اعلا نمونہ پیش کرتی ہے۔ اس کے علاوہ جن میں دکنی داستانوں کا ذکر ملتا ہے ، اس میں ابوافضل کے طوطی نامہ، ملا محمد قادری کا قصہ انار رانی کمتر شاہ کا بہروز سودا گر اور قصہ دل محمد ابراہیم بیجاپوری کی انوار سہیلی، سید حسن علی خان کا قصہ کام روپ و کام لتا وغیرہ اہم ہیں ۔ شمالی ہندستان میں قلم بند ہونے والی داستانوں میں عیسوی خاں کی قصہ مہر افروز دلبر، عطاحسین کی نوطرز مرصع ، مہر چند کھتری کی نوآئین ہندی اور شاہ عالم ثانی کی جا عجائب القصص کو اولیت حاصل ہے۔
قصہ مہر افروز
قصہ مہر افروز دلبر کا پلاٹ عام داستانوں جیسا ہے ۔ یہ قصہ طبع زاد ہے۔ اصل قصے کے درمیان ضمنی کہانیاں بھی بیان ہوئی ہیں ۔ معاشرت نگاری، جذبات نگاری منظر اور سراپا نگاری کے اعتبار سے بھی یہ داستان توجہ کے لائک ہے ۔ محمد عطا حسین خان تحسین کی داستان نو طرز مرصع کا قصہ بھی اسی کے قصہ چہار بیت سے ماخوذ ہے۔ تحسین نے نثر میں شعری محاسن پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ عربی و فارسی الفاظ کی کثرت اور قدیم پر تکلف اسلوب کی وجہ سے عبارت گنجلک ہوگئی ہے۔ ہر چند کھتری مہر نے ایک انگریز کو اردو سکھانے کی غرض سے مشہور فارسی قصہ سمن رخ اور آذر شاہ کو نو آئین ہندی کے نام سے تحریر کیا۔ یہ ایک مختصر داستان ہے جس کی زبان آسان اور طرز بیان سیدھا سادھا ہے ۔ اساتذہ کے اشعار کثرت سے نقل کیے گئے ہیں۔ زبان و بیان کی سادگی کے اعتبار سے شاہ محمد ثانی کی عجائب القصص بھی ہے جو انھوں نے بول کر لکھوائی کیونکہ غلام قادر روہیلہ کے ہاتھوں دو نابینا ہو چلے تھے۔ اس داستان کے بعد فورٹ ولیم کاج کی داستانیں شروع ہوتی ہیں ۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے حکم سے کلکتہ میں یہ کالج قائم ہوا جہاں میر امن، حیدر بخش حیدری ، شعر علی افسوی ، مرزا مظہر علی خان، کاظم علی خاں، خلیل علی خاں اشک، بہادر علی حسینی ، نہال چند لاہوری اور للولال جمال نے آسان قصے کہانیوں کے ترجمے کی روایت قائم کی ۔ یہاں جو داستانیں لکھی گئیں ان میں باغ و بہارہ تو تا کہانی ، آرائش محفل، بیتال پچیسی، سنگھاسن بتیسی، داستان امیر خسرو، نثر بے نظیر، اخلاق ہندی، مذہب عشق اور خرد افروز اہم ہیں۔
میر امن کی باغ و بہار
میر امن کی باغ و بہار فارسی سے ترجمہ ہے جو 1802 میں لکھی گئی، اس کی مقبولیت کی وجہ اس کا اسلوب ہے جو سادہ، با محاور ہ اور سلیس ہے۔ میرامن نے گنج خوبی بھی لکھی جو اخلاق محسنی کا ترجمہ ہے۔ اس میں حکایتیں نصیحتیں اور غیر مذہبی روایتیں ہیں ۔ حیدر بخش حیدری کی توتا کہانی میں محمد قادری کی طوطی نامہ کا ترجمہ ہے۔ اصل سنسکرت ہے اور 1804 میں میں چھپ کر منظر عام پر آئی ۔ حیدر بخش کی ’’ آرائش محفل‘‘ بے حد پسند کی گئی عبارت سلیس اور با محاورہ ہے۔ مرکزی کردار مشہور زمانہ حاتم طائی ہے۔ اس داستان کا اخلاقی پہلو قابل ستائش ہے اس داستان میں اختصار بیان ملحوظ رکھا گیا ہے، لفاظی اور جزیات نگاری سے پرہیز ہے۔ زبان سادہ اور آسان ہے۔ داستان لیلی مجنوں بھی حیدری کی یادگار ہے۔ فورٹ ولیم کالج میں داستان امیر حمزہ بھی لکھی گئی ۔ اسے خلیل علی خان اشک نے 1801 میں لکھا۔ یہ فارسی کے نسخے داستان امیر حمزہ کا سیدھا سادہ ترجمہ ہے۔ اشک کی دوسری کتاب گلزار چین بھی فارسی سے ماخوذ ہے۔ کالج کے ہیڈ منشی میر بہار در حسینی نے نثر بے نظیر 1802 میں مرتب کیا ۔ اس کا ماخذ میر حسن کی مثنوی سحر البیان ہے 1803 میں مصنف نے ایک اور کتاب اخلاق ہندی‘‘ کے نام سے لکھی۔ یہ پلج تنقر سے ماخوذ فارسی شکل کا اردو ترجمہ ہے، نہال چند لاہوری نے گل کرسٹ کی تحریک پر 1803 میں قصہ گل بکاؤلی کو مذہب عشق کے نام سے قلم بند گیا۔ حفیظ الدین احمد نے 1905 میں ابو الفضل کی عیار دانش کا اردو ترجمہ کیا۔
انیسویں صدی کی داستان
انیسویں صدی میں فورٹ ولیم کالج کے باہر انفرادی عدد پر جو داستان لکھی گئیں ہیں ان میں انشا اللہ خان انشا کی ’’رانی کیتکی کی کہانی ہے۔ یہ طبع زاد اور مختصر ترین داستانوں میں شمار ہوتی ہے۔ مصنف نے دیہی زبان میں لکھنے کو جو شرط اپنے اوپر عائد کر رکھی تھی اس کی وجہ سے انداز بیان کہیں کہیں مضحکہ خیز ہو گیا ہے۔ بر جستہ اور بر محل جملوں کی کمی نہیں ہے ۔ انشا کی وقت پسندی کا ایک نمونہ سلک گوہر بھی ہے جو نقطوں کے بغیر والے الفاظ میں لکھی گئی ہے مہجور لکھنوی نے 1805 میں ایک داستان گلشن نو بہارلکھی ۔ داستان میں لکھنو معاشرت کی بھر پور عکاسی کی گئی ہے ۔ مہجور کی دوسری کتاب انشا سے نور سن ہے جو حکاتیوں کا مجموعہ ہے۔ اس کی زبان صاف ستھری ہے البتہ تمہیدی جملے مقفیٰ و مسجع ہیں ۔ اس طرز میں سب سے بڑا نام مرزا رجب علی بیگ کا آتا ہے جنھوں نے فسانہ عجائب گلزار سرور اور شبستان سرور جیسی داستانیں لکھیں ۔ فسانہ عجائب طبع زادہے نیم چند کھتری نے گل صنوبر (1836 ) کو فارسی سے اردو میں ترجمہ کیا۔ باسط خاں نے گلشن ہند لکھی جو اس کے مختصر قصہ پندرہ سولہ تفلوں اور کل صنوبر کی داستان پر مشتمل ہے ۔ گلشن ہند کے علاوہ بنی ٹراٹن کی کتاب ’’نو بہار میں بھی گل صنوبر کا قصہ ملتا ہے ۔ اس کا اسلوب عام فہم اور روز مرہ کے قریب ہے ۔ شمالی ہندی کی مطبوعہ داستانوں میں قصہ اگر و گل‘‘ اس اعتبار سے اہم ہے کہ اس میں ہمیں سر کرنے کے لیے ہیرو کے بجائے ہیروئن کا انتخاب کیا گیا ہے۔ یہ داستان پہلے فارسی میں لکھی گئی، بعد میں اردو میں دکن اور شمال دونوں جگہوں پر لکھی گئی ۔ 1857 کے بعد مختصر داستانوں میں سروش سخن‘‘ اور ’’طلسم حیات‘‘ اہم ہیں ۔ سخن دہلوی نے فسانہ عجائب کو تالیف اور اپنی کتاب کو تصنیف قرار دیا ہے حالانکہ فسانہ عجائب طبع زاد ہے۔ سروش سخن میں بھی رنگین بیانی اور مقفیٰ و مسجع زبان ملتی ہے لیکن فسانہ عجائب سے کم ۔ جزیات نگاری اور علوم وفنون کی اصطلاحات بھی موخر الذکر پر زیادہ ہیں البت خن دہلوی کے یہاں اشعار کی کثرت ہے۔
انیسویں صدی کے نصف آخر میں قدردانوں کے بڑھتے ہوئے شوق اور امرا کی سر پرستی نے طویل داستانوں کو فروغ دیا۔ چنانچہ بوستان خیال اور داستان امیر حمزہ جیسی ضخیم داستان وجود میں آئیں ۔ بوستان خیال کے ابتدائی مترجم میں مرزا غالب کے بھتیجے خواجہ امان دہلوی بھی ہیں ۔ اس کی اشاعت 1880 سے انیسویں صدی کے اواخر تک نول کشور پر یس سے ہوتی رہی۔ اس دوران منشی تصدق حسین، احمر حسین قمر، محمد حسین خاں اور اسمعیل اثر نے داستان امیر حمزہ کے ترجمے کی ذمہ داری سنجالی ۔ کلکتہ، دلی اور لکھنو کے علاوہ رام پور میں بھی بہت سی داستانیں لکھی گئیں ۔ سلطنت اودھ کے زوال کے بعد داستان گو حضرات تلاش معاش میں لکھنؤ سے رام پور پہنچے اور اپنی پیشتنی خدمت کی انجام دہی میں مصروف ہو گئے ۔ وہاں درجنوں داستانیں لکھی اور ترجمہ ہوئیں ان میں لالہ انبا پرشاد رسا لکھنؤ کو چک با ہنر اور نوشیروان نامہ ، منشی غلام رضا نے طسمِ ہوش ر بائے بالمن، منیر شکوہ آبادی نے طلسم گوہر، ہادی مرزا علم الدین نے داستان امیر حمزہ ، جدید اور مرزا این الدین نے طلسم نو رنگ جہاں وغیرہ لکھیں۔ چھوٹی اور بڑی اور متعدد داستانوں کے کل صفحات کی تعداد تقریباً 80 ہزار ہے جو رامپور میں لکھی گئیں ۔ رامپور کی مطبوعہ داستانوں میں ایک بلبل نغمہ سنج مولفہ نواب کلب علی خال ہے جو 1864 میں شائع ہوئی۔
ستررہویں صدی عیسوی سے بیسویں صدی عیسوی کے ربع اول تک پہنچ کر داستان نگاری تقریبا موقوف ہوگئی۔ اس طویل عرصے میں جو داستانیں لکھیں گئیں ان میں سے بعض قدامت کے لحاظ سے کچھ قصے کے نکتہءنظر سے کچھ اسلوب کی انفرادیت کے سبب اپنے اثرات کے پیش نظر داستانی ادب کی تاریخ میں خصوصی اہمیت رکھتی ہیں سب ہی ( سیڑھو میں صدی ) اور نو طرز مرصع اور نو آئین ہندی ( اٹھارہویں صدی ) پر نظر پڑتی ہے تو اول الذکر پر تکلف اور بعد کی آسان نگاری کا نمونہ ہے۔ 1803 سے 1820 تک فورٹ ولیم کا دور کہہ سکتے ہیں جس میں باغ و بہار، اور آرائش محفل کو شہرت ملی۔ آسان زبان اور سید سے طرز بیان کالج کے تراجیم کی خصوصیات ہیں۔ اس زمانے میں کالج کے باہر لکھی گئی دوطبع زاد اور مختصر قصے رانی کیتکی کی کہانی اور سلک گوہر شامل ہیں۔ 1820 کے بعد متعدد کاوشیں منظر عام پر آئیں ان میں فسانہ عجائب اپنے انداز بیان کے لحاظ سے عہد آفریں ثابت ہوئی ۔ انیسویں صدی کے نصف اول تک اودھ پنچ کی داستانوں کا دور دورہ رہا۔ طویل داستانوں میں امیر حمزہ اور بوستان خیال کو مقبولیت حاصل ہوئی۔ عربی ادب کی مشہور زمانہ داستان الف لیلہ کا بھی ترجمہ ہوا۔ اس داستان کے کئی تر جمے بھی سامنے آئے۔ اردو داستانوں پر نظر ڈالیں تو بیشتر ترجمہ میں طبع زاد داستانوں میں رانی کیتکی کی کہانی ، سلک گوہر، فسانہ عجائب، سروش سخن اور طلسم حیرت کے نام لیے جاسکتے ہیں۔ مآخذ کے اعتبار سے بیشتر فارسی سے لیے گئے ہیں۔ اردو داستانوں میں زبان و بیان کے بھی کئی رنگ ملتے ہیں، سادہ، وقیقی ، روز مرہ اور مقفیٰ و مسجع عبارتیں ۔ سب رس، باغ و بہار، فسانہ، آزاد، داستان امیر حمزہ اور بوستان خیال اپنے رنگ کی نمائندہ داستانیں ہیں۔
اور پڑھیں 👇
Urdu Prem | اردو پریم
1 تبصرے
داستان کے حوالے پھر پور مضمون۔۔۔۔۔
جواب دیںحذف کریں