Ticker

6/recent/ticker-posts

تبصرہ : نام کتاب : مٹھی میں ریت مصنف: ڈاکٹر م-ق -سلیم – مبصرہ : جبیں نازاں

تبصرہ : نام کتاب : مٹھی میں ریت مصنف: ڈاکٹر م-ق -سلیم – مبصرہ : جبیں نازاں

تبصرہ
نام کتاب : مٹھی میں ریت
مصنف: ڈاکٹر م-ق -سلیم
(صدر شعبہ اردو شاداں کالج )
سن اشاعت : 2020
تعداد: 500
قیمت : 200 /لائبریریوں کے لیے 250
زیر اہتمام: بزم فروغ اردو تلنگا نہ
ملنے کا پتہ: سائبان اردو ہال 19-2-469 بیرون فتح دروازہ حیدر آباد 500053-(تلنگانہ)
فون نمبر: 09849406501
242/ srt،ہیرا پوریسڈنسی
چندولال باری دری، مصری گنج روڈ ، حیدر آباد 500064(تلنگانہ)
ہدیٰ بن ڈسٹری بیوٹر پرانی حویلی حیدرآباد 500002(تلنگانہ)
مبصرہ : جبیں نازاں

زیر تبصرہ کتاب " مٹھی میں ریت" م ق سلیم صاحب کے افسانچوں کا مجموعہ ہے جس میں 75 افسانچے ہیں - اس افسانچے کا محرک کووڈ 19 ہے -کورونا وبا نے جس طرح پوری دنیا کو اپنی زد میں لیا اور عوام الناس کی زندگی اور ذہن کو متاثر کیا - وہیں قلم کار کو بھی جھنجوڑ کر رکھ دیا - ویسے بھی قلم کار اور فن کار عام انسان سے زیادہ حساس مانا جاتا ہے ۔اور یہ حساسیت قلم کار کو قلم اٹھانے پر مجبور کرتی ہے - اور یہ مجبوری ہمیں نئی فکر اور اچھوتے خیال سے متعارف کرواتی ہے -
بہرحال ! افسانچے ( منی کہانی) کی ابتدا سعادت حسن منٹو سے ہوتی ہے ۔۔افسانچے کا موجد منٹو کو کہا جاتا ہے - جو درست بھی ہے " سیا ہ حاشیے " ااردو افسانوی ادب کا پہلا افسانچوں کا مجموعہ تسلیم کیا گیا ہے - منٹو کے بعد جوگندر پال نے عمدہ افسانچے تحریر کیے ' پرندے 'اور' نہیں رحمان بابو' کے نام سے ۔۔۔پچھلی صدی آخری دہائیوں میں الیکٹرونک کے انقلاب نے قارئین کو سہل پسند اور مصروف ترین بنا کر رکھ دیا ۔اور اس سہل پسندی نے عام قاری کے ہاتھوں سے کتاب چھین لی -جس کا اعلان پچھلی صدی کے 8ویں، 9ویں دہائی میں اردوکے ایک خادم نے اعلان کردیا کہ" اردو قاری کی موت ہوچکی ہے"
موبائل اور نیٹ کی عام انسان تک رسائی نے تمام شعبہ حیات کو متاثر کیا ۔۔ زبان وادب اچھوتا کیسے رہ سکتا تھا؟؟ لہذا یہاں قاری عنقا ہوگئے۔۔ موت تو اس کی ہوتی ہے ۔جو زندہ ہو ، یہاں تو قاری ہی نہیں ۔۔لہذا موت کا اعلان بھی ممکن نہیں -
بہر کیف!اردو ادب جدید ایجادات سے یوں روشناس اور مستفید ہورہا ہے ! شعری ادب خصوصاً صنف غزل خوب پھول پھل رہی ہے - سوشل سائیٹ پر شعرا شاعرات کی پیدائش روز افزوں ہیں - اچھی بات ہے - لیکن لمحہ فکریہ یہ ہے کہ کسی بھی صنف کے لیے مقدار نہیں معیار پیمانہ ہوتا ہے- لیکن افسوس کہ مقدار کے پیش نظر معیار گم ہوتا جارہا ہے -
خیر یہ الگ موضوع بحث ہے -یہاں بات افسانچے کی ہورہی ہے-

سہل پسندی اور عجلت پسندی نے اردو ادب کے دیگر اصناف مثلاً سفر نامے/ خطوط نویسی وغیرہ کی مانند صنف افسانہ سے صرف نظر کرتا ہوا محسوس ہورہا ہے - یہی وجہ کہ افسانہ نویسی سے دلچسپی کم ہوتی نظر آرہی ہے- افسانچے جس کثرت سے لکھے جارہے ہیں -افسانے لکھنے اور پڑھنے میں افسانہ نویس کے ساتھ افسانے کا قاری کسلمندی اور تھکاوٹ کا اظہار کرتا ہوا نظر آرہا ہے - کیونکہ اب افسانچوں کی دنیا سے نکل کر ہم مائیکروفکشن کی دنیا میں قدم رکھ چکے ہیں ۔۔نئی ایجادات خوش کن ہے - لیکن نئی ایجادات کے' عشق میں'سابقہ ایجادات کا 'تیاگ ' کہاں تک درست ہے ؟ ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے -

افسانچہ بظاہر پڑھتے ہوئے جتنا سہل لگتا ہے لکھنا اتنا سہل نہیں -یہی وجہ کہ نو آموز افسانچہ اس وقت لکھنے کی جرات کرتے ہیں جب تک کہ افسانہ نویس کی حیثیت سے اپنی پہچان نہ بنا لیں -ٹھیک اس طرح کہ جیسے غزل شعرا شاعرات کم ازکم ایک دو غزلوں کے مجموعے منظر عام پر آنے کے بعد رباعی کہنے کی طرف راغب ہوتے ہیں-
گویا افسانچے لکھنا ذرا دشوار ہے بہ نسبت افسانہ لکھنے کے - چند سطور میں کسی موضوع کی وضاحت نہایت چابکدستی کے ساتھ افسانچوں کے فارمیٹ میں پیش کرنا ہوتا ہے کہ راست طور پر قاری کے ذہن کو اپنے احساسات اور خیالات سے متاثر کرنے میں کامیاب ہوجائے !

م -ق- سلیم صاحب کورونا وبا کے تناظر میں اپنے احساسات اور جذبات افسانچوں کی شکل میں پیش کرتے ہوئے کسی حد تک کامیاب نظر آتے ہیں -
جو عام انسان کے بھی جذبات و احساسات ہیں انہی فکری تغیرات و پریشانیاں کا اظہار ہے "مٹھی میں ریت" -
"مٹھی میں ریت" کے ایک دو افسانوں کے سوا بہتر اور کامیاب افسانچے ہیں ۔۔
سچا مسلمان ،ملک الموت، انسان کی موت ، اچھے دن، ای پاس، پیاسا،پاگل ،مذہب ،پاگل کون ، واہ ری قسمت، باری کا انتظار ، قہر کس پر ، وغیرہ سمیت متعددافسانچے عام شہری کی پریشانیاں، بے بسی بےچارگی مزوردوں کی مشکلات ، غریبوں کی غربت تلے پنپنےوالے احساسات ، سیاسی رہنماؤں کا وہی پرانا انداز اس مشکل گھڑی میں بھی سیاست کا بازار گرم کرنا ۔۔سیاست کا چھیچھوڑا پن، مرتی ہوئی انسانیت ، پھلتی پھولتی حیوانیت کا عمدہ اظہار ہے ! انگریزی الفاظ کا استعمال رومن رسم الخط میں گراں گزرتا ہے اسے اردو رسم الخط میں برتا جاسکتا تھا ، اردو میں یہ اب عام چلن ہوچلا ہے ۔۔جس سے ہمیں گریز کرنا چاہئے !

خشونت سنگھ اپنے مضامین میں اردو اشعار کوٹ کیا کرتے تھے لیکن رومن رسم الخط میں ! یہ بدعت صرف اردو قلم کاروں کے یہاں پائی جاتی ہے- اور کسی زباں میں نہیں دیکھنے پڑھنے کو ملتی کہ غیر اردو زباں میں دوسری زباں کہ الفاظ اسی رسم الخط میں تحریر ہو،
'مٹھی میں ریت ' ساحر کے اس شعر سے ہوتی ہے

دنیا نے تجربات وحوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے لوٹا رہا ہوں میں

اس کے بعد پھر فاروق شکیل صاحب اور سمیع اللہ سمیع صاحب نے قطعہ تاریخ کہا مٹھی میں ریت کے لیے ۔۔
'پہلا زینہ ' کے عنوان سے صاحب کتاب نے افسانچے کی غرض وغایت پر مختصر لیکن جامع نکتہ پیش کیا ہے
ماہنامہ 'رنگ وبو' کے مدیر صاحب زادہ مجتبیٰ فہیم صاحب اور اسلم عمادی صاحب نے مضمون قلمبند کیا ہے
افسانچوں کے متعلق دیگر مشاہیرادب کی آرا بھی شامل کتاب ہے- 'واٹس ایپ اور فیس بک احباب کی رائے 'کے عنوان سے
مصنف نے انتساب
قلم کی جنبش اور شعور کی لرزش کے نام معنون کیا ہے!
امید کرتی ہوں ادبی دنیا میں "مٹھی میں ریت " کو خاصی پذیرائی ملے گی!
وصولی
غریب عوام کی پریشانی کو دیکھتے ہوئے
حکومت نے اعلان کیا ۔۔۔۔
لاک ڈاؤن کی وجہ سے غریبوں کو 12 کیلو چاول اور
1500روپئےکھاتوں میں منتقل کیے جائیں گے
عوام اسے بینک یا ای سیوا سے حاصل کرلیں گے
جب یہ لوگ پیسے حاصل کرنے بینک پہنچے تو بڑی مشکلوں کے بعد انہیں پیسے ملے
مگر واپسی کے وقت
پولیس والوں نے 500روپئے چالان کردیا
واہ ری حکومت
ایک طرف سے امداد
دوسری طرف سے وصولی!
_______________ ________

بھرم
حکومت کی طرف سے امداد بٹ رہی ہے
ہر کوئی قطار میں ٹھہرا امداد وصول کررہا تھا
وہ دور کھڑا --- اس کا نظار کر تارہا
آپنے چہرے کو کپڑے سے مکمل ڈھانک لیا
تاکہ لوگ دیکھ نہ سکیں اور یہ سمجھیں کہ کورونا سے بچنے کے لیے ایسا کیا ہے
مگر اس نے
اپنی عزت کی خاطر چہرہ ڈھانکا تھا
 ___________ __

کورونا کارڈ
کورونا نے کمال کردیا
حکومتوں کو فعال کردیا
کورونا ٹسٹ ضروری ورنہ کہیں داخلہ نہیں
پیدائش کا سرٹیفکٹ، کورونا ٹسٹ
اسکول میں داخلے پر کورونا ٹسٹ
کالج میں داخلے پر کورونا ٹسٹ
بلکہ
ہر جگہ کورونا سرٹیفکٹ کے بغیر داخلہ نہیں
سفر ہو یا حضر
اب حکومت آدھارکارڈ کی طرح
کورونا کارڈ بنائے گی
جن کے پاس کورونا کارڈ نہ ہوگا
وہ_------ ہوگا

ختم شد
Urdu Prem

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے