Aligarh Tehreek In Urdu Aligarh Movement علی گڑھ تحریک کیا ہے
دکنی نثر کے بعد فورٹ ولیم کالج تک جتنی نثری کوششیں ہمارے سامنے ہیں ان میں عموما فارسی کا پر تکلف انداز ہی غالب نظر آتا ہے۔ سب سے پہلے فورٹ ولیم کالج کے ادیبوں نے اس قدیم انداز کو ترک کیا۔ ان ادیبوں میں خاص کر میرامن اپنی عام بول چال اور سادہ نثر کے لئے مشہور ہیں۔ لیکن ان ادیبوں نے ذات اور ماحول کی ترجمانی نہیں کی انہوں نے نہ شخصی ماحول کو ادب میں جگہ دی اور نہ اپنے زمانے کی پیچیدگیوں اور موضوعوں کو قابل توجہ خیال کیا۔ انہوں نے بس یہ کیا کہ قدیم موضوعات کو نئے طرز بیان سے روشناس کر دیا اور پر تکلف فارسی اسالیب سے اردو نثر کو آزاد کر کے جدید رجحانات کے لئے راستہ ہموار کیا۔ مرزا غالب جو سرسید کے معاصر تھے انہوں نے ایک قدم اور آگے بڑھا کرار دو نثر کو خالص شخصی تجربات کا ذرایہ بنایا۔
علی گڑھ تحریک اور سرسید احمد کا کارنامہ
سرسید احمد کا کارنامہ خاص ہے کہ انہوں نے اردو نثر کو اپنی زندگی کا ہی نہیں بلکہ اپنے وسیع معاشرہ کا ترجمان بنا دیا۔ انہوں نے نثر کو آسان و سادہ سہل اور عام بول چال کی زبان بنا کر اردو زبان کو بھی دوسری زبانون کے مقابل کھڑا کرنے ہونے کے لائق بنادیا۔سرسیدی علی گڑھ تحریک کے بانی اور رہنما تھے۔
علی گڑھ تحریک کی ادبی خدمات
علی گڑھ تحریک کو بظاہر صرف سیاسی اور محض تعلیمی تحر یک خیال کیا جا تا ہے۔ مگر واقعہ یہ ہے کہ یہ اس سے بھی زیادہ بہت کچھ ہے۔ یہ تحریک علمی و ادبی خدمات انجام دینے والی تھی۔علمی اس معنی میں ہے کہ اس تحریک کے زیر اثر فکر ونظر میں اہم انقلاب نمودار ہوا۔ اور مذاق تصنیف میں گہری تبدیلیاں پیدا ہوئیں۔ ملک میں مغرب سے استفادہ کرنے کے لئے جومیلان پیدا ہوا اس کے ماتحت جس طرح انداز نظر بد لے گئے اس طرح معانی اور موضوعات میں بھی تغیر پیدا ہوا۔ ہندوستان میں سرسید کے زمانے سے کچھ پہلے ہماری علمی تصانیف کا دائر ہ مذہبیات و تاریخ اور تصوف اور تذکرہ نویسی تک محدود تھا۔ تاریخ میں سرسری واقعہ نگاری کے سوا کسی فلسفہ زندگی کی تلاش نہ تھی۔ سرسید کی علمی وادبی تحریک نے سب رجحانات کو بدل ڈالا۔ اور ایک ایسے علمی مذاق کی بنیاد ڈالی جس میں ایک جانب حقیقت اور صداقت کی جستجو ہے تو دوسری جانب افادیت اور مقصدیت کی علمبر داری بھی۔ سچائی کی تلاش اور تکمیل زندگی۔ یہی دوا ہم بنیاد میں علی گڑ تحر یک کی روح ہیں اور اس سائنلقک نقطہ نظر پیدا کر نے کا سہراعلی گڑھ تحریک کے بانی سرسید کے سر ہے۔
علی گڑھ کی علمی تحریک
علی گڑھ کی علمی تحریک کا اجتماعی عمل ابتدا میں علی گڑھ سے دور غازی پور میں سائنٹفک سوسائٹی کے قیام سے شروع ہوتا ہے جو۱۸۶۳ء میں قائم ہوئی علی گڑھ تحریک اس علمی روح کی توسیع واشاعت کا نام ہے جو اس نامور سوسائی کی ترویج کا باعث ہوئی تھی اور علی گڑھ تحریک کے علم بردار سرسید اور ان کے رفقاء کے ہاتھوں انجام پایا جو ان کی تحریک کی اس علمی روح سے متاثر ہوۓ۔ ان نامور ہستیوں کی فہرست طویل ہے جنہیں ہم علی گڑھ تحریک کے اہم ارکان قرار دے سکتے ہیں۔ پہلے سلسلے میں حالی، شبلی، نذ یراحمد، شرر، وحیدالد بن سلیم، چراغ علی محسن الملک وغیرہ ہیں۔ دوسرے سلسلے میں مولوی عبدالحق مولانا ظفر جمیل خاں،حسرت سجادحیدر وغیرہ۔ تیسرے سلسلہ میں رشید احمد صدیقی،عبدالماجد دریابادی، ڈاکٹر عابد حسین، پروفیسر الیاس برکی وغیرہ۔
علی گڑھ تحریک اور فکری نُکتہ نظر
افکار کے نقطہ نظر سے علی گڑھ تحریک کا اس انقلاب میں بڑا حصہ ہے۔ جو انیسویں صدی کے آخر میں ہندوستان میں پورے طور پر رونما ہوا۔ ان مسائل میں حاضر سے لگاؤ جدیدیت کی طرف میلان مادی مسائل زندگی سے دلچسپی ترقی کا خیال اور ماضی کے مقابل میں مستقبل کی اہمیت کا احساس بھی علی گڑھ تحریک کے اثرات کا نتیجہ ہے۔ادبی لحاظ سے علی گڑھ تحریک کے اثرات اور بھی وسیع اور دور رس معلوم ہوتے ہیں۔ نہ صرف اسلوب بیان اور روح مضمون میں بلکہ ادبی انواع کے معاملہ میں بھی۔ ناموران علی گڑھ کی توسیعی کوششوں نے بڑا کام کیا اور بعض ایسی روایت کو فروغ دیا جو مغرب سے حاصل کردہ تھیں۔
علی گڑھ تحریک اور سرسید
علی گڑھ تحریک اور سرسید کی لگاتار کاوش کا نتیجہ تھا کہ ا نیسویں صدی کے آخیر تک آتے آتے اردو میں سائنس فلسفہ، مذہبیات، اخلاقیات کے علا ومختلف علوم وفنون سے متعلق کتابوں کا ایک بیش بہا ذخیرہ جمع ہو گیا۔ اگر خالص ادبی سطح پر ہی دیکھا جاۓ تو تنقید نگاری ناول نگاری، مقالہ نگاری، تاریخ نگاری،صحافت نگاری اور سوانح نگاری کا باضابطہ آغاز اور ارتقا بھی اس تحریک اور اس کے بانی سرسید کی بے پناہ کوششوں اور جاں فشانیوں کی وجہ سے منظر عام پر آیا۔
اردو ادب کا قاری سرسید اور ان کے رفقاء کار حالی، شبلی، چراغ علی، وقار الملک،نواب مشتاق حسین، مولوی محمد ذکا اللہ وغیرہ وغیرہ کے کارنامے اور کوششوں کو کبھی بھی فراموش نہیں کر سکتا۔ اور بغیر ان بزرگوں کے کارناموں کو یاد کئے بغیر ہمارے ادب کی تاریخ مکمل نہ ہوگی۔ مختصر یہ کہ اردو نثر پر علی گڑھ تحریک کے بےشمار اثرات ہیں جن سے ہم کبھی بھی چشم پوشی نہیں کر سکتے۔ بقول مولوی عبدالحق اُردو نثر میں جوانقلاب اور ترقی اس وقت ہم دیکھتے ہیں اور اس میں جو وسعت اوراد بی علمی صلاحیت پائی جاتی ہے دہ سرسید کا طفیل ہے۔
0 تبصرے