Ticker

6/recent/ticker-posts

علامہ اقبال کی نظم ایک نوجوان کے نام کی تشریح

علامہ اقبال کی نظم ایک نوجوان کے نام تشریح و خلاصہ

علامہ اقبال کی نظم ایک نوجوان کے نام کی تشریح
نظم ایک نوجوان کے نام علامہ اقبال کے دوسرے اردو شعری مجموعے بال جبریل سے ہے۔ بال جبریل علامہ اقبال کی وفات سے تین سال پہلے جنوری ۱۹۳۵ء میں شائع ہوا تھا۔ اگر ایک نوجوان کے نام کے عنوان سے بارے میں بات کی جائے تو معلوم ہوتا ہےگویا علامہ اقبال نے یہ نظم کسی خاص نوجوان کو مدِ نظر رکھتے ہوئے تحریر کی ہو مگر جس حکیمانہ نکتہ کی انہوں نے بات کی ہے اس سے پوری قوم مستفید ہو رہی ہے۔

نظم ایک نوجوان کے نام کی تشریح

علامہ اقبال نے نوجوانوں کے بارے میں، آل انڈیا مسلم کانفرنس کی سالانہ اجلاس کے موقع پر 21 مارچ 1932ء میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا:
میں ہندوستان کے سبھی بڑے شہروں میں خواتین اور لڑکوں کے ثقافتی ادارے تشکیل دینے کی تجویز پیش کرتا ہوں جن کا سیاست سے تعلق نہ ہو۔ ان کا بڑا مقصد نوجوانوں کی خوابیدہ روحانی صلاحیتوں کو بیدار کرنا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ان کو آگاہ کیا جائے کہ اسلام نے انسانی ثقافتی اور مذہبی تاریخ میں کیا کارنامے انجام دیئے اور مستقبل میں مزید کیا امکانات ہو سکتے ہیں۔

علامہ اقبال کی اس تجویز پر صدق دل سے عمل کرنا بےحد ضروری ہے تاکہ نوجوانوں کا مقصد درست ہو اور وہ مایوسی کے دلدل سے باہر نکل سکیں۔ علامہ اقبال نے اس نظم ایک نوجوان کے نا م کے عنوان سے نوجوانوں کو اپنے اندر عقابی حوصلے، روح اور شاہین کی طرح بلند پروازی حاصل کرنے جیسی اہم خصوصیات پیدا کرنے کی تلقین کی ہے۔

نظم ایک نوجوان کے نام کی تشریح

نظم ایک نوجوان کے نام دو بندوں پر مشتمل ہے۔ان میں کل ملا کر صرف چھ اشعار شامل ہیں پھر بھی یہ نظم بہت مشہور ہے۔ اس نظم کے کچھ اشعار بےحد شہرت حاصل ہے۔ یہ ہر خاص و عام کی زبان میں شامل رہتے ہیں۔ وہ مشہور اشعار اِسطرح سےہیں؀

ایک نوجوان کے نام نظم کی شعر بشعر تشریح :

پہلا شعر
ویسے تو علامہ اقبال نے اس نظم میں ایک نوجوان کو مخاطب کرتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن حقیقت میں یہاں ملتِ اسلامیہ کے تمام نوجوان مراد لیا گیا ہے۔ ان نوجوانوں کو نصیحت کرتے ہوئے علامہ اقبال کہتے ہیں کہ تیرے پاس عیش و عشرت کا تمام سامان میسر ہے۔ اور تجھے آرام پسندی کے سوا کسی اور چیز سے ضرورت بھی محسوس نہیں ہو رہی اور یہی وہ المیہ اور دردِ دل ہے جس پر میرا دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔

دوسرا شعر
اس شعر میں علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ اے نوجوانوں! تجھے بادشاہت بھی مل جائے تو بھی تجھ کو کچھ حاصل نہ ہوگا اس لئے کہ تیرے اندر نہ تو حیدر کرار حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ جیسی قوت ہے اور نہ ہی حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ جیسا استغناء ہی۔ یہ ایسی خوبیاں ہیں جو کسی بھی ملک کو مضبوط اور مستحکم بنانے میں معاون و مددگار ثابت ہوتی ہیں۔


تیسرا شعر
اے مسلمانوں! اگر تیری آرزو اسلامی زندگی کے نقطۂ کمال تک پہنچنا ہے تو مغربی علوم اور مغربی تہذیب دونوں سے یکسر قطع تعلق کرلو۔ مسلمانوں کی معراج تہذیبِ مغرب اختیار کرنے میں نہیں۔ اس کے لیے تجھے اپنے اندر استغناء کا رنگ پیدا کرنا لازم ہے۔

واضح ہو کہ صفت استغناء اقبال کے نظامِ افکار میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس کو اپنی ہر کتاب میں بڑے شدومد کے ساتھ پیش کیا ہے۔چونکہ استغناء یا بے نیازی کا رنگ صرف شان فَقر سے پیداہوسکتا ہے۔ اسی لیے علامہ اقبال نے اس کو اپنے فلسفہ کا سنگ بنیاد قرار دیا ہے۔ غور کیا جائے تو رنگ استغناء شان فقر ہی کا دوسرا رخ ہے۔ اب علامہ اقبال کے فلسفے کا خلاصہ چار سطروں میں پیش خدمت ہے۔

معراج سلیمانی، شان استغناء سے حاصل ہو سکتی ہے
شان استغناء، فقر سے پیدا ہوتی ہے۔
فقر، اتباع رسول اللہ ﷺ پر منحصر ہے۔
اتباع، عشق کے بغیر نہیں ہوسکتی۔

اس لیے ہر مسلمان کو عشق رسول ﷺ اختیار کرنا چاہئے۔ یہی ہے علامہ اقبال کا وہ پیغام جو انہوں نے 1914 سے 1938ء تک اپنی تصانیف کے ذریعے قوم کو دیا اور اسی پیغام کو عرف عام میں اقبال کا فلسفہ کہتے ہیں۔)

چوتھا شعر
علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ عقابی روح یعنی بلند ہمتی جیسی خوبی جب نوجوانوں میں پیدا ہو جاتی ہے تو اپنی منزل مراد کی معراج کو چھو لیتے ہیں

پانچواں شعر
علامہ اقبال نوجوان سے مخاطب ہیں کہ حالات بھلے ہی ناساز کیوں نہ ہوجائیں، نا امید نہ ہونا کہ اس سے افراد میں علم و عرفان کے جوہر زائل ہونے لگتے ہیں اور وہ اپنی ذات سے شناسائی اور معرفت الٰہی سے محروم ہوجاتے ہیں۔مومن کے لیے ضروری ہے کہ عمل کرتا رہے اور نتیجے کو اللہ پاک کی ذات پر چھوڑ دے۔

چھٹا شعر
آخری شعر میں علامہ اقبال پھر نوجوان سے مخاطب ہیں کہ اے نوجوان! جس طرح شاہین کسی ایسے مقام پر نہیں رکتا جہاں مصنوعی آرام اور آسائش ہو بلکہ وہ سنگلاخ چٹانوں پر بسیرا کرتا ہے۔ تو بھی شاہین کی مانند بن جا کہ جس کی عملی زندگی آرام اور عشرت کی متمنی نہ ہو بلکہ جفاکشی جس کا شعار ہو۔ بالفاظ دیگر علامہ اقبال مسلمان نوجوان کو یہ نصیحت کرتے ہیں کہ اگر تو اپنے اندر شانِ استغناء پیدا کرنا چاہتا ہے تو بادشاہوں کی غلامی اختیار کرنے کے بجائے اپنا رزق اپنی قوتِ بازو سے حاصل کر۔

(علامہ اقبال نے اس شعر میں شاہین کا استعارہ استعمال کیا ہے۔ علامہ اقبال شاہین کو اپنی بلند پرواز، تیز نظر، غیرت مند، بلند فطرت اور سخت کوشی کی وجہ سے بے حد پسند کرتے تھے اور یہی وہ خوبیاں ہیں جو وہ اپنے نوجوان میں دیکھنے کے خواہشمند تھے۔)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے