Ticker

6/recent/ticker-posts

پنڈت برج نارائن چکبست کی حالاتِ زندگی، شاعری | برج نارائن چکبست کی نظم نگاری کا جائزہ

پنڈت برج نارائن چکبست کی حالاتِ زندگی، شاعری | برج نارائن چکبست کی نظم نگاری کا جائزہ

پنڈت برج نارائن چکبست کی پیدائش 19 جنوری 1882 کو فیض آباد میں ہوئی۔ فروری1926 میں ایک مقدمہ کی پیروی سے لوٹتے وقت بریلوی ریلوے اسٹیشن پر فالج کا دورہ پڑنے سے ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کی ابتدائی تعلیم فیض آباد ہی میں ہوئی۔ بعد ازاں ان کی تعلیم و تربیت لکھنؤ میں ہوئی۔ انھوں نے اردو اور فارسی زبان سیکھنے کے ساتھ ساتھ انگریزی تعلیم بھی حاصل کی۔ وہ کم عمری ہی سے بے حد ذہین تھے اور مطالعہ کا ذوق بھی نکھرا ہوا تھا۔

پنڈت برج نرائن چکبست کی حیات و خدمات

پنڈت برج نارائن چکبست نے 9 سال کی عمر ہی سے شاعری کا آغاز کیا۔ وہ نہایت حساس اور جذ باتی مزاج کے شاعر تھے۔ روایت کے بر عکس انھوں نے بھی اپنی شاعری کی ابتدا نظم سے کی۔ انھوں نے بہترین غزلین بھی لکھی ہیں۔ لیکن وہ نظم کے لیے مشہور و مقبول ہوۓ۔

پنڈت برج نارائن چکبست کی حالاتِ زندگی

پنڈت برج نارائن چکبست کے تمام کلام کو یکجا کر کے کالی داس گپتار ضا نے “ کلیات چکیست “ کے نام سے شائع کر دیا ہے۔ ان کی نثری تحریروں کا مجموعہ " مضامین چکبست“ کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔1918 میں رسالہ " صبح امید " بھی جاری کیا، جو ان کی صحافتی، ادبی اور سیاسی بصیرت کا ترجمان ہے۔

پنڈت برج نارائن چکبست کے والد کا نام

پنڈت برج نارائن چکبست کے والد پندت اُدت نارائن شیوپوری چکبست بھی شاعر تھے۔ وہ اپنا تخلص یقینؔ رکھتے تھے۔ ان کا خاندان فیض آباد سے ہجرت کر کے لکھنو پہنچ گیا اور وہیں اپنا مسکن بنا لیا۔

پنڈت برج نارائن چکبست کی تعلیم و تربیت

پنڈت برج نارائن چکبست نے 1905 میں کیننگ کالج سے بی۔ اے کیا۔ اور 1908 میں ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی، اور وکالت بھی شروع کر دی۔ وہ وکالت میں کم ہی عرصہ میں مشہور ہو گئے اور نامی گرامی و کیلوں میں شمار ہونے لگے۔ چکبست نے نامساعد حالت میں تعلیم حاصل کی۔ بچپن ہی میں والد کا سر سے سایہ اٹھ گیا۔

پنڈت برج نارائن چکبست کی شادی

پنڈت برج نارائن چکبست کی تعلیم کے دوران ہی شادی بھی کر دی گئی۔ ان کی شخصیت مختلف صفات کی حامل تھی۔ وہ شاعر بھی تھے اور ادیب بھی، صحافی بھی تھے اور دانش ور بھی۔ اردو شعر وادب کی تاریخ میں ان کا نام ایک محب وطن شاعر " کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے ان کا ادبی قد کافی بلند ہے۔ انھوں نے امن و شانتی، محبت و انسانی ہمدری، عدل و مساوات، طبقاتی ہم آہنگی اور باہمی تعلقات وغیرہ کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ چکبست کی شاعر میں حب الوطنی وطن پرستی، انقلاب اور جوش پایا جاتا ہے۔ انھوں نے اپنی شاعری میں قومی اتحاد کی بہترین مثالیں پیش کی ہیں۔ ان کی شاعری پڑھ کر ہندوستانی نوجوانوں کے دل میں وطن سے محبت اور انقلاب کا جذبہ پیدا ہوا۔

پنڈت برج نارائن چکبست ایک آزاد خیال اور ترقی پسند ذہن کے انسان تھے۔ قوم و سماج کی اصلاح اور ملک کی آزادی کے خواہاں تھے۔

پنڈت برج نارائن چکبست کا عہد غلامی کا تھا۔ انگریزوں کے استحصال اور ظلم و ستم کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے اور ان سب سے ان کا دل بہت مغموم ہو تا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنی بیشتر نظموں میں حب الوطنی اور وطن پرستی کو اپنا موضوع بنایا ہے۔

پنڈت برج نارائن چکبست کی شاعری کا آغاز

پنڈت برج نارائن چکبست نے شاعری کا آغاز حب الوطنی اور قومی ہمدردی سے کیا۔ انھوں نے صرف بارہ برس کی عمر میں ایک نظم "حب قوم " کے نام سے لکھی، جو کافی مشہور ہوئی۔ انھوں نے کسی استاذ شاعر سے اصلاح نہیں لی۔ 

پنڈت برج نارائن چکبست کی شاعری کے موضوعات

چکبست کے یہاں نہ صرف حب الوطنی یا قوم پرستی کے موضوعات ملتے ہیں بلکہ حکمت و فلسفہ، عشق و محبت، وصال و فراق کے موضوعات بھی ہیں، لیکن قومیت و وطنیت کے عناصر غالب ہیں۔ ان کے کئی اشعار ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔ انھوں نے اپنی نظموں میں ساج میں پہلے غلط عقائد، رسوم و رواج کاری ضرب لگائی ہے۔ انھوں نے اتحاد و اتفاق پر بھی بہت ساری نظمیں لکھی ہیں۔

برج نارائن چکبست کی نظم نگاری

چکبست نے اپنی نظموں میں انگریزی تہذیب پر کھل کر طنز کیا ہے اور ہندوستانی تہذیب کو اس پر فوقیت دی ہے۔انھوں نے قومی، سیاسی اور سماجی مسائل و موضوعات کو بھی اپنی نظموں میں خوب صورت انداز میں پیش کیا۔ انھوں نے تقریبا چو بن/ 54 نظمیں لکھی ہیں۔ ان اکثر نظمیں حب الوطنی قوم پرستی کا احاطہ کرتی ہیں۔انھوں نے آٹھ مرثیے بھی لکھے ہیں۔ ان کی اکثر نظموں کی ہیت مسدس میں ہیں۔ ان میں کسک اور درد والم حد درجہ دکھائی دیتے ہیں۔

پنڈت برج نرائن چکبست ؔ کی شاعری میں حب الوطنی کے عناصر

برج نارائن چکبست نے حب الوطنی سے سرشار، آپسی اتحاد و اتفاق، رواداری اور مشترکہ تہذیب و روایت سے مملو بہت ہی دل کش نظم " خاکت ہند " لکھی۔ اس کے ساتھ ہی ان کی نظمیں "آواز قوم، ہم ہوں گے عیش ہو گا، ہوم رول / وطن کا راگ " بھی قابل ذکر ہیں۔ ان کی نظم " مرقع عبرت اور جلوہ صبح تشبیہات و استعارات کا بہترین نمونہ ہیں۔

برج نارائن چکبست کے نظم نگاری کی خصوصیات

برج نارائن چکبست نے کشمیر پر بھی کئی نظمیں لکھی ہیں۔ چکبست نے رامائن کی کہانی کا اردو ترجمہ ایسے دور میں کیا جب اردو کو صرف مسلمانوں کی زبان سمجھی جاتی تھی۔ ان کی نظموں کی ایک اہم خصوصیت مظاہر قدرت مناظر قدرت کی عکاسی ہے۔ انھوں نے بڑی فن کاری سے مناظر کی ایسی تصویر کشی کی ہے کہ سارا منظر آنکھوں کے سامنے پھر جاتا ہے۔ ان کی نظموں کو ہندوستانی قومی شاعر ی احب الوطنی میں نمایاں مقام حاصل ہے۔

برج نارائن چکبست نے اپنی شاعری میں حالی کی بتائی ہوئی خصوصیات یعنی سادگی، اصلیت اور جوش کو مکمل طور پر بر تا ہے۔ ان کا کلام سادگی و اصلیت کا مرقع ہیں۔ ان کی بعض نظموں کے بند میر انیس کے مرثیے کی یاد دلاتے ہیں۔


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے