Ticker

6/recent/ticker-posts

اردو غزل : کس قدر لاجواب لگتی ہے، زندگی ایک خواب لگتی ہے ۔ حیدر عباس

اردو غزل : کس قدر لاجواب لگتی ہے، زندگی ایک خواب لگتی ہے ۔ حیدر عباس

کس قدر لاجواب لگتی ہے
زندگی ایک خواب لگتی ہے

تو مری خواہشوں کے قرآں میں
آیتِ انقلاب لگتی ہے

کوئ سیلاب آنے والا ہے
آنکھ زیرِ عتاب لگتی ہے

مفلسی پر غرور آتا ہے
بھوک جب بے حساب لگتی ہے

لذتِ جرم اس مقام پہ ہے
بے گناہی عذاب لگتی ہے

کیوں نہ روشن ہوں کرب کے موسم
چشمِ نم آفتاب لگتی ہے

پاس آ اے اداس تنہائ
تو مرا انتخاب لگتی ہے

وسوسوں کی بساط پر عباس
آب جو بھی سراب لگتی ہے

حیدر عباس

اردو غزل : جرم کا ارتکاب کر بیٹھے، ہم تجھے انتخاب کر بیٹے ۔ حیدر عباس

جرم کا ارتکاب کر بیٹھے
ہم تجھے انتخاب کر بیٹے

اس قدر فکر ہے غلو آمیز
خار و خس کو گلاب کر بیٹھے

دیکھ صحرائے چشم کو ہم بھی
آنسوؤں سے چناب کر بیٹھے

پھر سے سرزد ہوئ کتابِ غزل
پھر تجھے انتساب کر بیٹھے

بھول کر یاد کر لیا ماضی
اور حالت خراب کر بیٹھے

سلوٹیں روح کی تلاش کرو
زندگی ہم کتاب کر بیٹھے

خون روتے ہیں پاؤں کے چھالے
ہم کسے ہمرکاب کر بیٹھے !

خواب تھے جاذبِ نظر عباس
ہم مگر اجتناب کر بیٹھے

حیدر عباس

اُردو غزل : ان کہے کچھ سوال دل میں ہیں

ان کہے کچھ سوال دل میں ہیں
کیسے کیسے خیال دل میں ہیں

مل رہی ہے بہت پذیرائ
غم زدہ خد و خال دل میں ہیں

آنسوؤں سے جھلک رہی ہے شفق
آپ کے سرخ گال دل میں ہیں

عرس لگتے ہیں جب محبت کے
ڈالتے ہم دھمال دل میں ہیں

پھٹ رہی ہیں تمام شریانیں
کس قدر اشتعال دل میں ہیں

بے حسی ہے ضمیر کا زیور
رونقیں بے ملال دل میں ہیں

دھڑکنیں پڑھ رہی ہیں ناد علیؑ
ہاں اویسؓ و بلالؓ دل میں ہیں

میں سلامت رہوں گا اے عباس
زخم کچھ لازوال دل میں ہیں
حیدر عباس

اردو غزل : جب سینۂ قرطاس پہ اشعار لکھیں گے

جب سینۂ قرطاس پہ اشعار لکھیں گے
مصلوب سخن, فکر لب ِ دار لکھیں گے

جب روشنی موضوعِ سخن ہو گا ہمارا
سورج کی جگہ آپ کے رخسار لکھیں گے

لکھنا ہے ہمیں امن پرستوں کا قصیدہ
ہم لوگ قلم تھام کے تلوار لکھیں گے

ہم شام کی سرخی پہ نگاہوں کو جما کر
بر صفحۂ شب دیدۂ بیدار لکھیں گے

مزدور کو دیکھیں تو نکل آتے ہیں آنسو
احساس کے ماتھے پہ عزادار لکھیں گے

ڈر ہے نہ پگھل جائے تری سنگ طبیعت
کچھ لوگ لہو سے بھی تجھے تار لکھیں گے

افلاس میں دم توڑتے انساں کی لحد پر
ہم شہر کے حاکم کو خطا کار لکھیں گے

عباس ہمیں خود سے لگاؤ ہی نہیں تھا
ہم خود کو قسم کھا کے گنہگار لکھیں گے
حیدر عباس

اردو غزل : ہمارے نام سے دنیا میں جاہ چاہتے ہیں

ہمارے نام سے دنیا میں جاہ چاہتے ہیں
یہ جھوٹ ہے وہ ہمیں بے پناہ چاہتے ہیں

یہ خواہشوں کی نمو روکنا ضروری ہے
اب اس طرف سے کوئی انتباہ چاہتے ہیں

صف ِ عدو پہ قیامت انڈیلنے کے لیے
جو زخم کھا کے ہنسے وہ سپاہ چاہتے ہیں

ہم احتجاج کی جرأت دکھا نہیں سکتے
ہم اپنے شہر کی حالت تباہ چاہتے ہیں

سماعتوں میں اترتا سخن لہو میں گھلے
ہم آج واہ کے پردے میں آہ چاہتے ہیں

ہے دل حریص ِ تماشائے جشنِ فتح و شکست
قدم قدم پہ کوئی رزم گاہ چاہتے ہیں

ہر اک گریباں یہاں تار تار آئے نظر
ہر ایک سر کو بھی ہم بے کلاہ چاہتے ہیں

عجب مزاج کی وحشت ہے آج کل عباس
رخِ سحر کی بھی رنگت سیاہ چاہتے ہیں

حیدر عباس

اردو غزل : ملیں گے ایسے بھی شنگ لمحے

ملیں گے ایسے بھی شنگ لمحے
کریں گے حیرت کو دنگ لمحے

ترے تبسم سے مس ہوئے تو
اتار پائیں گے زنگ لمحے

یہ زندگی کتنی معتبر ہے
حسینیت کے ہیں سنگ لمحے

ترے لبوں پر شفق سجا کر
فضاء میں گھولیں گے رنگ لمحے

انا کے مقتل میں جان دیں گے
بغاوتوں کی امنگ لمحے

ہمارے دل میں دھڑک رہے ہیں
سناں دقیقے تفنگ لمحے

تمھارے اوقات زاہدانہ
مرا اثاثہ ملنگ لمحے

خزاں نے درہم بڑھا دیے ہیں
لڑیں گے خوشبو سے جنگ لمحے

اداس شاموں کے گیت گائیں
رباب سانسوں میں چنگ لمحے

کہیں سے عباس ڈھونڈ لاؤ
چناب سوچوں کے جھنگ لمحے

حیدر عباس

چشمِ احباب میں گھٹ جاؤں تو اور اچھا ہے : اردو غزل

چشمِ احباب میں گھٹ جاؤں تو اور اچھا ہے
تخلیے کو میں پلٹ جاؤں تو اور اچھا ہے

سرمئی سی یہ فضاء مجھ کو میسر ہے مگر
میں اندھیروں سے لپٹ جاؤں تو اور اچھا ہے

بیعتِ ظلم سے انکار کیا ہے میں نے
اور انکار پہ ڈٹ جاؤں تو اور اچھا ہے

کتنا اچھا ہے کہ میں پیکرِ غم ہوں لیکن
مثلِ خیرات جو بٹ جاؤں تو اور اچھا ہے

گرد آلود روانی ہے مری سانسوں کی
شہر کی دھول سے اٹ جاؤں تو اور اچھا ہے

ایک تو قافلہء دل سے شناسائی نہیں
دوسرا راہ سے ہٹ جاؤں تو اور اچھا ہے

اس نے دریا کی طرح کھول دیں بانہیں مجھ پر
اس کی بانہوں میں سمٹ جاؤں تو اور اچھا ہے

زیرِ خنجر ہوں میں عباس بغاوت کے سبب
ایسے حالات میں کٹ جاؤں تو اور اچھا ہے

حیدر عباس

جس نے آنا ہو ضرور آئے مگر آخرِ شب : غزل

جس نے آنا ہو ضرور آئے مگر آخرِ شب
دل حویلی کا کھلا کرتا ہے در آخرِ شب

"عالمِ ھو" پہ تصرف کا مزہ اپنا ہے
دیکھتا ہوں میں اندھیرے کا نگر آخرِ شب

یوں تخیل میں اترتا ہے وہ خاموشی سے
جیسے جنگل سے ستاروں کا گزر آخرِ شب

دیکھنا ہو جو سلگتی ہوئی سانسوں کا دھواں
محملِ زیست میں اے دوست اتر آخرِ شب

اس کو امیدِ سحر ہو بھی تو کیا فائدہ ہے
جس کی قسمت میں ہو تنہائی کا ڈر آخرِ شب

اتنا آوارہ طبیعت میں کہاں تھا پہلے
مسکراتا ہے بہت دیدۂ تر آخرِ شب

کیا سخاوت ہے کہ بوسیدہ مکانوں سے ادھر
چاندنی شہر پہ برسائے گی زر آخرِ شب

ختم کر دوں گا میں عباس غزل ہونے تک
ان تھکے ہارے چراغوں کا سفر آخرِ شب

حیدر عباس

غزل : خوش کن سخن کا بخت بنانے کی بات کر

خوش کن سخن کا بخت بنانے کی بات کر
لہجے کو مت کرخت بنانے کی بات کر

سورج کی تیز دھوپ ہے ہم سب کا مسئلہ
آ دشت میں درخت بنانے کی بات کر

ہلکی سی بھی نمی نہ دکھائی دے آنکھ میں
دل کو مزید سخت بنانے کی بات کر

مایوس رہزنوں کو تبسم کی دے زکوٰۃ
کچھ دل فریب رخت بنانے کی بات کر

اب کچھ تو بے لباس ہو پھولوں کا حوصلہ
ہر برگ لخت لخت بنانے کی بات کر

عباس زندگی ہے بقاء کی تلاش میں
نوک ِ سناں کو تخت بنانے کی بات کر

حیدر عباس

غزل : زخم اب مندمل نہیں ہوتے

زخم اب مندمل نہیں ہوتے
سو قویٰ مضمحل نہیں ہوتے

ان کی آنکھوں میں دھول اڑتی ہے
جن کے سینوں میں دل نہیں ہوتے

ظلم کرتی ہے کیوں خوشی مجھ پر
روگ کیوں مستقل نہیں ہوتے

سنگ زاروں کے حاشیہ بردار
زینتِ آب و گل نہیں ہوتے

بے سبب آنکھ نم نہیں ہوتی
معجزے بے علل نہیں ہوتے

زر کے بستر پہ سو رہے ہیں ضمیر
لوگ کیوں منفعل نہیں ہوتے

نیند تو مشترک نہیں ہوتی
خواب تو منتقل نہیں ہوتے

مر بھی جائیں تو ہم علیؑ والے
موت سے متصل نہیں ہوتے

بد زباں پتھروں پہ کیوں عباس ؟
آئینے مشتعل نہیں ہوتے ۔ !

حیدر عباس

غزل : اک دوسرے سے جائیں قرینے سخن کے مل

اک دوسرے سے جائیں قرینے سخن کے مل
مجھ سے مرے خیال کی تصویر بن کے مل

حد سے بڑھی ہوئی ہے مری پیاس آج کل
میں چاہتا ہوں مجھ سے سمندر پہن کے مل

پہچانتا نہیں میں تجھے اب تو رنج کیوں
کس نے کہا تھا نقش چھپا کر بدن کے مل

یعنی یہاں بھی شوخ سراپے ہیں چار سو
پردیس میں بھی زخم گئے ہیں وطن کے مل

منظر کو دے رہائی اندھیرے کی قید سے
پوشاک پر لپیٹ سلیقے کرن کے مل !

حبس اوڑھتی فضاء ہے سوالی بنی ہوئی
سانسوں میں آج گھول کے جھونکے پون کے مل

اس انعقاد ِ لمحۂ رخصت پہ موت سے
عباس زندگی کا علمدار بن کے مل

حیدر عباس

غزل : اس لیے قیس ہمیں اپنے قریں رکھتے ہیں

اس لیے قیس ہمیں اپنے قریں رکھتے ہیں
ہم بھی سنگِ در ِ جاناں پہ جبیں رکھتے ہیں

اچھی لگتی ہے ادا حد سے گزرنے والی
ہم محبت میں ہوس پر بھی یقیں رکھتے ہیں

یہ الگ بات کہ ہم بیچ نہیں سکتے بدن
یہ الگ بات خد و خال حسیں رکھتے ہیں

صاحبِ دل ہی نظر آئے سدا تیشہ بہ دست
عقل والے تو یہ انداز نہیں رکھتے ہیں

جن کی ہیبت سے لرزتے ہیں سلاطینِ زمن
ایسے ایسے بھی سخن خاک نشیں رکھتے ہیں

کیا بتائیں تمھیں زرخیز ہیں آنکھیں کتنی
جس سے اگتے ہیں ستارے وہ زمیں رکھتے ہیں

استعارہ ہے یہ احساس کی ہریالی کا
ہم انگوٹھی میں فقط سبز نگیں رکھتے ہیں

کیا تعلق میں خلاء اس کی بدولت ہے, نہیں
ہم بھی عباس خیال اور کہیں رکھتے ہیں

حیدر عباس

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے