Ticker

6/recent/ticker-posts

مولانا عتیق الرحمن سنبھلی رح۔ بلند پایہ مفسر اور محقق تھے

مولانا عتیق الرحمن سنبھلی رح۔ بلند پایہ مفسر اور محقق تھے

محمد قمر الزماں ندوی
جنرل سیکرٹری/ مولانا علاءالدین ایجوکیشنل سوسائٹی، جھارکھنڈ

گزشتہ رات ۲۳/ جنوری ۲۲ء قبل عشاء بلند پایہ محقق، مفسر اور ایک مرد باخدا حضرت مولانا عتیق الرحمن سنبھلی اس دار فانی سے دار باقی کی طرف کوچ کر گئے، وہ تقریبا پچانوے سال کے تھے، مشہور عالم دین حضرت مولانا محمد منظور نعمانی رح کے بڑے صاحبزادے تھے، دار العلوم دیوبند کے فاضل تھے، اور اس فکر کے ترجمان تھے،ان کے رفقاء درس اور معاصرین میں حضرت مولانا سالم صاحب قاسمی، مولانا سید اسعد مدنی، مولانا سلیم اللہ خان صاحب اور حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی ہیں، اس مبارک اور سنہری کڑی میں اب صرف اخر الذکر باقی ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو حیات خضر نصیب فرمائے اور امت کو ان کی ذات سے خوب خوب فائدہ پہنچائے آمین

مولانا عتیق الرحمن صاحب سنبھلی کی موت سے علمی اور تحقیقی دنیا میں ایک خلا ہوگیا

مولانا عتیق الرحمن صاحب سنبھلی کی موت سے علمی اور تحقیقی دنیا میں ایک خلا ہوگیا، مولانا ایک ممتاز علمی شخصیت اور کئی مشہور اور فکر انگیز کتابوں کے مصنف و مولف تھے، جن میں چھ جلدوں میں محفل قرآن کے نام سے ان کی مشہور تفسیر ہے، اس کے علاوہ مجھے ہے حکم اذاں لا الہ الا الله، واقعہ کربلا اور اس کا تاریخی پس منظر، تین طلاق اور علامہ ابن قیم رح، حیات نعمانی رح ہندوستان کا سب سے پہلے سفر نامہ حج، نیا طوفان اور اس کا مقابلہ، انقلاب ایران اور اس کی اسلامیت وغیرہ

یقینا یہ دنیا فانی ہے، اس جہان آب و گل میں کسی کو ثبات و استحکام نہیں ہے، ہر چیز فانی اور نقش بر آب ہے جو بھی یہاں آیا وہ ایک دن عالم جاودانی کی طرف کوچ کرگیا۔ لیکن بعض شخصیتں اور ہستیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جو بظاہر تو راہی ملک عدم ہوتی ہیں، مگر ان کے اعمال صالحہ کے نقوش لوح ہستی پر اس طرح مرتسم ہوکر رہ جاتے ہیں کہ ذکر خیر کی صورت میں باقیات الصالحات کا درجہ حاصل کرلیتے ہیں۔ لوگوں کے ذہن و ودل اور تصورات میں ان کے اوصاف حسنہ کے نقوش جھلملاتے رہتے ہیں۔ بالفاظ دیگر

دل کے آئینہ میں ہے تصویر یار
جب ذرا گردن جھکا ئی دیکھ لی

علماء نے لکھا ہے کہ اگر چہ انسانی جسم پیوند ہوکر معدوم ہوجاتا ہے، مگر زندگی کا جوہر عدم و فنا اور ضعف و انحطاط سے بالا تر ہے۔ علامہ اقبال نے بہت ہی خوب کہا ہے۔

تو اسے پیمانہ امروز و فردا سے نہ ناپ
جاوداں پیہم دواں ہر دم جواں ہے زندگی

میر تقی میر نے بھی روح حیات کے استحکام و ثبات کی طرف حسب ذیل الفاظ میں اشارہ کیاہے۔

موت اک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے چلیں گے دم لے کر

اور ایک ہندو شاعر نے موت و زندگی کے فلسفہ کو یوں بیان کیا ہے کہ

زندگی نام ہے، عناصر کا ظہور ترتیب
موت کیا ہے انہیں اجزاء کا پریشاں ہونا

مولانا عتیق الرحمن سنبھلی صاحب اپنے علم و عمل اور تحقیق و نظر کے آئینے میں حسب سابق جگمگاتے رہیں گے

مولانا عتیق الرحمن سنبھلی صاحب اپنے علم و عمل اور تحقیق و نظر کے آئینے میں حسب سابق جگمگاتے رہیں گے، کیونکہ ان کی زندگی دراصل بوقلمونی اور ہمہ رنگی سے عبارت ہے، حیات مستعار جہاں فرش گل ہے وہاں وادی پر خار بھی ہے۔ مولانا عتیق الرحمن صاحب کو ایک انسان ہونے کی حیثیت سے زندگی کی ان دونوں کیفیات سے سابقہ پڑا۔ جہاں ان کو سرپر بٹھانے والے قدر شناس ملے وہیں ان سے برسرپیکار مخالفین اور ناقدین کا بھی سامنا کرنا پڑا، ایسا ہونا ضروری اور لازمی تھا کیونکہ انہوں علم و تحقیق کی وادی پرخار کو اپنے لیے چنا تھا، جہاں اچھے اچھے اہل علم و تحقیق ٹھوکر کھا جاتے ہیں، ( خاص طور واقعہ کربلا اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا موضوع انتہائی حساس موضوع ہے)۔ اس میدان میں مخالفین کی مخالفت اور ناقدین کا نقد زندگی کا نمک ہے، اس کے بغیر زندگی بے نمک آٹے کی طرح بے مزہ اور بے کیف ہے۔

مولانا عتیق الرحمن صاحب سنبھلی رح کا شمار برصغیر ہندو پاک کے بڑے علماء اور اہل دانش میں ہوتا تھا

مختصر یہ کہ مولانا عتیق الرحمن صاحب سنبھلی رح کا شمار برصغیر ہندو پاک کے بڑے علماء اور اہل دانش میں ہوتا تھا، وہ ایک مدت تک الفرقان اور ندائے ملت کے مدیر رہے، وہ آبروئے صحافت تھے، انہوں نے ہمیشہ فن صحافت کی آبرو کو زندہ رکھا اور اس کے ذریعہ تقریبا نصف صدی تک ملک و ملت کی عظیم خدمت انجام دیتے رہے۔ ماہنامہ الفرقان کا معیار انہوں نے ہمیشہ بلند رکھا اور محقق علماء اور اہل علم کے مضامین کی اشاعت اور ان علماء کی شہرت اور نیک نامی کا ذریعہ بنے، مولانا کا اسلوب بھی بڑا نرالا اور اچھوتا تھا، قلم ✒ میں جان اور طاقت تھی، اپنی بات کو بہت محقق اور مستدل انداز میں پیش کرتے تھے۔ زبان و ادب کی لطافتوں سے بخوبی واقف تھے، آپ کی تحریروں میں بلا کی چاشنی اور غضب کی شیرنی پائی جاتی تھی،انگریزی زبان سے بھی خوب واقف تھے، دین کی خدمت کے لیے اس کو ذریعہ کے طور پر استعمال کرتے تھے۔

مولانا سنبھلی گزشتہ ربع صدی برطانیہ میں رہے

مولانا سنبھلی گزشتہ ربع صدی برطانیہ میں رہے اور علمی، دینی اور ملی کاموں میں بساط بھر لگے رہے۔ ان کی ایک اہم خصوصیت یہ تھی کہ وہ جمود فکر کے قائل نہیں تھے اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک فعال ذہن بخشا تھا، وہ جدید و قدیم کے سنگم تھے، جدت فکر اور ندرت خیال کا عنصر آمیزش شیر و شکر کی طرح ان کے ذوق و مزاج میں گھلا ہوا تھا۔ تدبر و تفکر اور تحقیق و تدقیق ہی دین حنیف کی روح ہے۔ اسلام ذہن انسان کو معطل و مقفل 🔒 نہیں کرتا، بلکہ جنبش و حرکت میں لاتا ہے، اور غور و تفحص کی دعوت دیتا ہے۔ یہی فکر فعال اور ذوق تحقیق تھا، جس نے اسماء الرجال کے فن کو وجود بخشا۔ بہر حال مبداء فیاض نے مولانا سنبھلی رح کو تحقیقی ذہن بخشا تھا، جو فن تفسیر، حدیث تاریخ و سیر اور مغازی میں ان کی غواصی اور نکتہ آفرینیوں سے آشکار تھا، اخذ و استنباط اور حجت و استدلال میں ان کی جلالی و جمالی کیفیات ناقابل فراموش ہیں۔ اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے عجیب آزاد شخص تھا۔ مولانا کی خدمت کا دائرہ وسیع اور ہمہ جہت رہا، مسلم مجلس مشاورت کے قیام میں بھی فعال کردار ادا کیا، ان کا شمار آزادی کے بعد کے اہم صحافیوں میں ہوتا تھا، مسلمانوں کے تعلیمی ملی اور سیاسی و سماجی مسائل پر خوب لکھا کرتے تھے اور مسلمانوں کے مسائل کے حل کے لیے ان کی تحریریں رہنما سمجھی جاتی تھیں۔ مولانا اپنی صحت کی خرابی کی بناء پر ۱۹۶۷ء میں برطانیہ منتقل ہوگئے، جہاں ان کی علمی خدمات اور مسلمانوں کے مسائل میں متحرک کردار کا سلسلہ جاری رہا۔ مولانا اپنے خلوص و سادہ معیار زندگی اور شرافت و وضع داری میں اسلاف کا نمونہ اور یاد گار تھے۔ اخیر میں علالت اور کبر سنی کی عوارض کی وجہ سے ہندوستان واپس آگئے اور اپنے صاحب زادے مولانا عبید الرحمن سنبھلی کے ساتھ مقیم تھے،جہاں کل عشاء سے قبل داعی اجل کو لبیک کہا۔ اللہ مغفرت فرمائے اور درجات کو بلند فرمائے نیز اہل و عیال اور جملہ متعلقین کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین

مولانا سنبھلی صاحب کو دو تین بار ندوہ میں دیکھا

راقم نے مولانا سنبھلی صاحب کو دو تین بار ندوہ میں دیکھا لیکن دور دور سے، ملنے اور مصافحہ کا ایک بار موقع ملا ہے، لیکن مولانا کی تحریروں کو پڑھنے کا خوب موقع ملا، الفرقان بھی اس کا ذریعہ تھا، اختر شیرانی کے واقعہ کو میں نے آپ ہی کتاب،،مجھے ہے حکم اذاں لا إله إلا الله،، میں پڑھا، جس کا عنوان تھا باخدا دیوانہ باش با محمد ہوشیار۔

مولانا سنبھلی رح کی کتاب واقعہ کربلا اور اس کا تاریخی پس منظر

مولانا سنبھلی رح کی کتاب واقعہ کربلا اور اس کا تاریخی پس منظر یہ کتاب علماء اور اہل علم کے درمیان مختلف فیہ اور متنازع رہی اور بہت سے علماء کے اس بارے میں تحفظات ہیں، لیکن وہیں دوسری طرف ایک تعداد ان لوگوں کی بھی ہے، جو اس کتاب کو الفرقان بین الحق و الباطل سمجھتے ہیں اور اس کتاب کو واقعہ کربلا کی حقیقت کو سمجھنے کے لیےایک رہنما کتاب قرار دیتے ہیں۔ میری نظر میں اگر ان کے قارئین اس کتاب سے ہٹ کر محفل قرآن اور ان کی دیگر علمی اور تحقیقی مضامین سے ان کا تعارف کرائیں تو یہ زیادہ بہتر اور مناسب ہوگا۔
نوٹ مضمون کا بقیہ حصہ کسی اور موقع پر ملاحظہ فرمائیں

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے