Ticker

6/recent/ticker-posts

سیرت سید العالمین : نبی کا بچپن | پیارے نبی کے واقعات | حضور کی زندگی کے واقعات

نبی کا بچپن : سیرت سید العالمین | حضور کی زندگی کے واقعات | پیارے آقا کا بچپن

سید العالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے آباء و اجداد

حضرت عیسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ آپ علیہ السلام کو بنی اسرائیل (یہودیوں ) نے اپنی سمجھ کے مطابق صلیب پر چڑھوا کر قتل کر دیا تھا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو اپنی حفاظت میں اٹھا لیا۔ اور آپ علیہ السلام کے دھوکے میں بنی اسرائیل نے کسی دوسرے شخص کو صلیب دیکر قتل کر دیا تھا۔ اس سے پہلے بھی بنی اسرائیل بہت سے انبیائے کرام علیہم السلام کو ناحق قتل کر چکے تھے۔ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اُن میں مبعوث کر کے اللہ تعالیٰ نے اُن کو آخری موقع دیا تھا۔ لیکن ان بدبختوں نے یہ آخری موقع بھی گنوا دیا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے ’’امامت ‘‘کا مرتبہ چھین لیا۔ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے والے اور آپ علیہ السلام کے پیر وکاروں کو موقع دیا۔ انھیں اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں’’ نصاریٰ‘‘ فرمایاہے۔ اور یہ اپنے آپ کو’’ عیسائی ‘‘کہلواتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں لگ بھگ پونے چھ سو برس تک موقع دیا۔لیکن ان لوگوں نے غلو کیا۔اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو (نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ کا بیٹا بنا ڈالا۔ اس طرح یہ لوگ بھی نا کام ہو گئے۔ اس لئے جب اللہ تعالیٰ نے ان سے بھی ’’امامت ‘‘کا مرتبہ چھیننے کا ارادہ فرمایا تو بنی اسماعیل میں ہمارے پیارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔ اور’’ امامت‘‘ کا کام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت کو سونپ دیا

قبیلہ قریش

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جاننے سے پہلے ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قبیلہ قریش کے بارے میں کچھ تفصیل جان لیتے ہیں۔تاکہ آگے ہمیں سمجھنے میں آسانی ہو۔جس وقت مکہ مکرمہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ہوئی۔ اس وقت پورے مکہ مکرمہ میں قبیلہ قریش کے ہی خاندان رہا کرتے تھے۔اس سے پہلے ہم ان دو احادیث کا ذکر کر چکے ہیں۔ لیکن یہاں دوبارہ ذکر کر رہے ہیںتاکہ ادھورہ پن محسوس نہ ہو۔ صحیح مسلم میں ہے ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاـ: ’’ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کو چن لیا۔ پھر حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے بنو کنعانہ کو چن لیا، پھر بنو کنعانہ میں سے قریش کو بزرگی عطا فرمائی۔ پھر قریش میں سے خاندان بنو ہاشم کو فضیلت عطا فرمائی اور بنو ہاشم میں سے مجھے (نبوت اور رسالت کے لئے) چن لیا۔‘‘حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بے شک اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے بنو کنعانہ کو چن لیا،بنو کنعانہ میں سے قریش قبیلہ کو پسند فرمالیا ۔ قبیلہ قریش میں سے خاندان بنو ہاشم کو فضیلت عطا فرمائی اور بنو ہاشم میں سے مجھے چن لیا۔ ان دو احادیث سے یہ معلو م ہوا کہ کنانہ کی اولاد میں ہی قبیلہ قریش ہے۔آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلئہ نسب کو ایک بار پھر غور سے دیکھیں ۔جو ہم نے پہلے ذکر کر دیا ہے ۔اس سلسلئہ نسب میں آپ کو کنانہ کے بیٹے نضر اور نضر کے بیٹے مالک اور مالک کے بیٹے فہر کا نام دکھائی دے گا،اکثر روایات سے ثابت ہوتا ہے فہر کا لقب قریش تھا۔


قریش نام کیوں؟

اوپر ہم نے بتایا کہ فہر بن مالک کا لقب قریش تھا۔اور فہر بن مالک کی اولاد قریش کہلائی ۔ یعنی فہر بن مالک کی اولاد سے قبیلہ قریش بناہے۔ اس کے علاوہ بھی قریش نام کیوںہے؟ اس سلسلے میں کئی روایات آئیں ہیں۔ کچھ ہم آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ امام شعبی کہتے ہیں کہ’’ قریش ‘‘بمعنی’’ تفتیش ‘‘کے ہے۔اس قبیلے کے لوگ غریب اور نادارلوگوں کو تلاش کرکے ان کی ضروریات پوری کیا کرتے تھے۔ اور حجاجِ کرام(حاجیوں) کے حالات دریافت کرکے ان کی مدد اور اعانت کرتے تھے۔ اس لئے ان کا نام’’ قریش‘‘ پڑگیا۔ زبیر بن بکار روایت کرتے ہیں کہ’’ قریش قرش‘‘ کی تصغیر ہے اور’’ قرش‘‘ ایک سمندری جاندار ہے جو تمام سمندری جانداروں کو کھا جاتا ہے۔ یہ تمام جانداروں پر غالب آجاتا ہے اور اس پر کوئی غالب نہیں آپاتا، گویا کہ’’ قرش‘‘ سب سے زیادہ قوی اور طاقتور ہے۔ چونکہ قریش قبیلہ پورے عرب میںدوسرے قبائل سے بزرگ و برتر اور زبردست قوت اور طاقت والا ہے ، اس لئے اسے قریش کہتے ہیں۔ ایک وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ قریش ، ’’تقرش ‘‘سے ہے۔ جس کے معنی کسب کرنے اور کمانے کے ہیں۔ یہ لوگ تجارت میں بہت مہارت اور دسترس رکھتے تھے اور اس میں ان کو عالمی شرت حاصل تھی۔ اس بنا ء پر یہ قبیلہ’’ قریش‘‘ کے لقب سے معروف ہوا۔ ( روض الانف) قبیلہ قریش میں بہت سے خاندان تھے، ان میں چند مشہور خاندان یہ ہیں۔ بنو عبد الدار ، بنو عبد مناف ، بنو عبد قصی ، بنو سہم ، بنو عدی ، بنو ہاشم ، بنو اُمیہ ، بنو نوفل ، بنو حارث ، بنو مخزوم ، بنو زہرہ ، بنو تمیم ، بنو اسد وغیرہ۔


حضرت اسماعیل علیہم السلام کی اولاد میں آخری رسول

سید الانبیاء صلی اﷲ علیہ وسلم کے والدین میں چونکہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے عدنان تک کا ہی ذکر فرمایا ہے ،اِس لئے ہم بھی عدنان تک ہی کا ذکر کریں گے۔لیکن چونکہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے خود اپنے آپ کو حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہم السلام کا بیٹا بتایا ہے اور فرمایا کہ میں اپنے والد حضرت ابراہیم علیہم السلام کی دعا ہوں ۔اِس دعا کا اﷲ تعالیٰ قرآن پاک میں سورہ البقرہ میں ذکر فرمایا ہے ،جس کا ذکر انشاء اﷲ ہم آگے کریں گے۔بہر حال تمام علمائے کرام کا اِس بات پر اتفاق ہے کہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہم السلام ہمارے پیارے رسول سید الانبیاء صلی اﷲ علیہ وسلم کے والدین ہیں۔اِس لئے ہم عدنان سے پہلے اِن دونوں مقدس ہستیوں کی اُس دعا کا ذکر کریں گے جو انہوں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے لئے کی تھی۔


بارگاہ میں مقام ِرسول ’’شفاعت کبریٰ‘‘کا انعام

 اﷲ تعالیٰ نے ایک اور انعام رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو’’شفاعت کبریٰ‘‘ عطا فرمایا ہے۔اﷲ تعالیٰ نے فرمایا:ترجمہ’’اُس دن شفاعت کچھ کام نہ آئے گی،مگر جسے رحمن حکم(اجازت)دے،اور اُس کی بات کو پسند فرمائے۔(سورہ طٰحہٰ آیت نمبر ۱۰۹؎،ترجمہ ،مولانا محمد جونا گڑھی)اِس آیت میں اﷲ تعالیٰ نے صاف صاف فرما دیا ہے کہ کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو اپنی مرضی سے قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں شفاعت کر سکے۔ہاں اﷲ تعالیٰ خود اجازت دے گا تو وہی شفاعت کر سکتا ہے۔اور آگے فرمایا کہ وہی شفاعت کر سکے گا جس کو اجازت دینے کے ساتھ ساتھ اﷲ تعالیٰ اُسکی بات کو پسند بھی فرمائے۔اور پورا قرآن پاک اس بات کا ثبوت ہے کہ اﷲ تعالیٰ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو اس کائنات میں سب سے زیادہ پسند فرماتے ہیں۔اور صحیح بخاری اور صحیح مسلم اور دوسری احادیث کی کتابوں ’’شفاعت کبریٰ ‘‘کی احادیث آئی ہیں۔کہ جب میدان حشر میں حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر آخری انسان تک تمام لوگ جمع ہوں گے ۔اور سب اِس انتظار میں کھڑے ہوں گے کہ اﷲ تعالیٰ ہماری طرف متوجہ ہوں۔لیکن اُس وقت اﷲ تعالیٰ بہت غضب ناک ہوں گے،اِسی لئے اُن کی طرف توجہ نہیں دیں گے۔سب لوگ خاموش کھڑے رہیں گے،اس طرح برسوں گزر جائیں گے۔جب لوگوں سے میدان حشر کی سختی ناقابل برداشت ہو جائے گی،تو اس سے نجات پانے کے لئے اور حساب کتاب شروع کرانے کے لئے تمام انبیائے کرام علیہم السلام سے باری باری درخواست کریں گے۔اور ہر نبی علیہ السلام معذوری ظاہر کریں گے ،تو تمام لوگ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر شفاعت کرنے کی درخواست کریں گے۔آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سب لوگوں کو لیکر اﷲ تعالیٰ بارگاہ میں سجدے میں گر کر اﷲ تعالیٰ کی حمد و ثناء کریں گے،اور اﷲ تعالیٰ شفاعت کی اجازت دیں گے تو تما م انسانوں کے حساب کتاب شروع کرنے کی درخواست کریں گے۔جسے اﷲ تعالیٰ قبول کر یں گے۔یہی ’’شفاعت کبریٰ‘‘ہے۔اس کے بارے تفصیل سے انشاء اﷲ آگے ذکر کریں گے۔


سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے خصوصی دعا

سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف اور فضائل کو حضرت ابراہیم علیہ السلام بہت اچھی طرح سے جانتے تھے۔اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے خصوصی دعا مانگی۔سورہ البقرہ کی آیت نمبر 129 کی تفسیر میں علامہ غلام رسول سعیدی لکھتے ہیں۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو دعا کی تھی کہ مکہء مکرمہ میں اہل مکہ میں سے ایک’’عظیم رسول‘‘بھیج دے۔اس سے مُراد حضرت سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور اس پر حسب ذیل دلائل ہیں(1)تمام مفسرین کا اس پر اجماع ہے کہ ’’اس رسول‘‘سے مُراد حضرت سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور یہ اجماع حجت ہے۔(2)حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔’’بے شک میں اللہ کے نزدیک ’’خاتم النبیین‘‘لکھا ہوا تھااور اُس وقت حضرت آدم علیہ السلام مٹی میں گندھے ہوئے تھے اور میں تم کو اپنی ابتداء کی خبر دیتا ہوں۔میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہوںاور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت ہوںاور میں اپنی والدہ محترمہ کا وہ خواب ہوں جو اُنہوں نے میری پیدائش کے وقت دیکھاتھا،ان سے ایسا نور نکلا جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے تھے(3)حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ دعا اہل مکہ کے لئے کی ہے اور مکہء مکرمہ میں اللہ رب العزت نے حضرت سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی اور نبی کو مبعوث نہیں فرمایا ہے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ دعا کی کہ مکہء مکرمہ میں اہل ِمکہ میں سے ایک ’’عظیم رسول‘‘مبعوث فرما۔


سید العالمین صلی اﷲ علیہ وسلم کی بشارت

علامہ محمد بن جری طبری لکھتے ہیں کہ معد بن عدنان بخت نصر کے زمانہ میں بارہ سال کے تھے ۔اُس زمانہ کے نبی ’’حضرت ارمیاہ علیہ السلام پر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے وحی نازل ہوئی کہ بخت نصر کو اطلاع کر دو کہ ہم نے اُسے عرب پر مسلط کیااور آپ علیہ السلام معد بن عدنان کو اپنے براق پر سوار کر الیں تاکہ معد کو کوئی صدمہ نہ پہنچے ۔کیونکہ میں ’’معد‘‘کی صلب سے ’’ایک محترم نبی ‘‘(صلی اﷲ علیہ وسلم ) پیدا کرنے والا ہوں، جس سے پیغمبروںکا سلسلہ (نبوت کا سلسلہ ) ختم کروں گا۔حضرت ارمیاہ علیہ السلام کی نگرانی میں معد بن عدنان نے تربیت حاصل کی اور پھر مکۂ مکرمہ میں آکررہائش پذیر ہو گئے ۔

نزار بن معد

معد بن عدنان کے بیٹے نزار بن معد چونکہ اپنے زمانے میں یکتا تھے یعنی اُن کی مثال کم تھی ،اِس لئے نزار اُن کا نام ہو گیا۔امام عبد الرحمن بن عبد اﷲ سہیلی فرماتے ہیں کہ جب ’’نزار بن معد‘‘پیدا ہوئے تو اُن کی پیشانی ’’سید الانبیاء صلی اﷲ علیہ وسلم ‘‘کے نور سے چکم رہی تھی۔والد محترم معد بن عدنان نے یہ دیکھا تو بہت مسرور ہوئے اور اِس خوشی میں سب لوگوں کی دعوت کی اور یہ کہا؛’’یہ سب اِس مولود کے حق کے مقابلہ میں بہت قلیل ہے۔‘‘اِس لئے ’’نزار‘‘نام رکھا گیا۔نزار اپنے زمانے کے سب سے زیادہ عاقل اور دانشمند تھے۔نزار بن معد کے چار بیٹے (۱) مُضر بن نزار ( ۲) ربیعہ بن نزار (۳) انمار بن نزار( ۴) ایاد بن نزارہیں۔

مُضر بن نزار

نزار بن معد کے بیٹے مُضر کا اصل نام ’’عَمرو‘‘ہے اور کنیت ابو الیاس ہے،مُضر اُن کا لقب ہے۔ترشی اور دہی آپ کو بہت پسند تھی ،اِسی لئے مضر کے نام سے مشہور ہو گئے۔آپ بہت ہی خوش الحان تھے اور سفر میں چلتے وقت اونٹوں پر حدی خوانی کرنا آپ ہی نے ایجاد کیا۔مضر کے دو بیٹے (ا)الیاس بن مضر (۲) عیلان بن مضرہیں۔امام محمد بن سعد مرسلاً روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا :’’مُضر کو بُرا مت کہو وہ مسلمان تھے۔‘‘

الیاس بن مُضر

مُضر بن نزار کے بیٹے الیاس بن مضر مکہ مکرمہ میں رہے۔خانہ کعبہ کی طرف ھدی بھیجنے کی سنت سب سے پہلے الیاس بن مضر نے جاری کی۔کہا جاتا ہے کہ آپ اپنی صُلب (پشت) سے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا تلبیۂ حج سنا کرتے تھے۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا :’’الیاس کو بُرا مت کہو وہ مومن تھے۔‘‘(فتح الباری)الیاس بن مضر کے تین بیٹے (۱) مدرکہ بن الیاس(۲) طابخہ بن الیاس ( ۳) قمعہ بن الیاس ہیں۔

مدرکہ بن الیاس

الیاس بن مضر کے بیٹے مدرکہ بن الیاس کا نام ’’عمرو‘‘ ہے۔ایک دن وہ اپنے بھائی کے ساتھ اونٹ چرا رہے تھے اور ایک جانور شکار کر کے اُسے پکانے لگے کہ کسی شخص نے اونٹوں پر حملہ کر دیا مدرکہ نے اپنے بھائی سے کہا کہ تم اونٹوں کو بچانے جاؤ گے یا کھانا پکاؤ گے؟بھائی نے کہا تم اونٹوں کی حفاظت کے لئے جاؤ۔مدرکہ گئے اور تمام اونٹوں کو حفاظت سے لے آئے اور رات کو جب گھر آئے تو تمام واقعہ اپنے والد الیاس بن مضر کو سنایا تو انہوں نے آپ کو مدرکہ(پا لینے والا) اور آپ کے بھائی کو طابخہ ( پکانے والا) کہہ کر پکارا ۔جب سے دونوں کے یہ نام پڑگئے۔مدرکہ کے دو بیٹے (۱) خزیمہ بن مدرکہ(۲) ہذیل بن مدرکہ ہیں۔

خزیمہ بن مدرکہ

مدرکہ بن الیاس کے بیٹے خزیمہ بن الیاس حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین پر ہمیشہ رہے۔حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ خزیمہ بن مدرکہ کا ملتِ ابراہیمی پر انتقال ہوا۔خزیمہ بن الیاس کے چار بیٹے (۱) کنانہ بن خزیمہ (۲) اسدبن خزیمہ ( ۳) اسدہ بن خزیمہ(۴) ہون بن خزیمہ ہیں۔

کنانہ بن خزیمہ

خزیمہ بن الیاس کے بیٹے کنانہ بن خزیمہ ملک عرب میں بہت مشہور ہوئے اور آپ کی اولاد ’’بنو کنانہ یا بنی کنانہ ‘‘کہلائی ۔اوپر جو صحیح مسلم کی حدیث میں ’’بنو کنانہ‘‘کا ذکر آیا ہے وہ انہی کنانہ کی اولاد ہے اور آپ کے نام پر آپ کی اولاد بنو کنانہ کہلائی۔کنانہ بن خزیمہ کا دبدبہ پورے ملک عرب میں تھا اور ہر علاقے کے لوگ آپ سے مشورہ کرنے کے لئے آتے تھے۔کنانہ بن خزیمہ کے چار بیٹے (۱) نضربن کنانہ (۲) مالک بن کنانہ( ۳) عبد مناۃ بن کنانہ (۴) ملکان بن کنانہ ہیں۔
نضر بن کنانہ


 کنانہ بن خزیمہ کے بیٹے نضر بن کنانہ بہت ہی خوب صورت اور دور اندیش تھے۔آپ نے مکہ مکرمہ میں بہت سے فلاحی کام کئے ہیں۔امام عبد الملک بن ہشام اپنی ’’سیرت النبی ابن ہشام ‘‘میں لکھتے ہیں کہ نضر بن کنانہ کو ’’قریش ‘‘کہتے ہیں،جو نضر بن کنانہ کی اولاد میں سے ہو گا اُس کو ’’قریشی‘‘کہیں گے اور جو اُن کی اولاد میں سے نہیں ہو گا اُس کو ’’قریشی ‘‘نہیں کہیں گے۔لیکن اکثر علمائے کرام کا اِس بات پر اتفاق ہے کہ فہر بن مالک کا لقب ’’قریش‘‘ہے۔نضر بن کنانہ کے دو بیٹے (۱) مالک بن نضر (۲) یخلدبن نضر ہیں۔


مالک بن نضر

نضر بن کنانہ کے بیٹے مالک بن نضر بھی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے والدین میں سے ہیں۔آپ کے والد نضر بن کنانہ اور آپ کے بیٹے فہر بن مالک نے ملک عرب میں بہت نام کمایا اور ’’قریش‘‘نام بھی انہی دونوں کی جانب منسوب کیا جاتا ہے۔مالک بن فہر کے کئی بیٹے ہیں ،لیکن اِن میں فہر بن مالک سب سے زیا دہ مشہور ہیں ۔بعض علمائے کرام کے مطابق صرف فہر ہی مالک بن نضر کے اکلوتے بیٹے ہیں اور فہر کی جو اولاد ہے وہی نضر کی بھی اولاد ہے۔

فہر بن مالک

مالک بن نضر کے بیٹے فہر بن مالک ہیں اور یہ بھی بتایا کہ’’ فہر‘‘ کا لقب’’ قریش‘‘ ہے۔ ان میں فہر بن مالک کا لقب قریش ہے۔ فہر نسب کے حوالے سے کنانہ کے پڑ پوتے ہیں۔ خاندانی روایات کے پیکراور قبائلی فضائل کے مظہر اتم تھے۔ قوت اور طاقت وراثت میں ملی تھی۔ اور شجاعت اوربہادری میں آپ کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ بڑے سے بڑا دشمن بھی مقابلے پر ٹھہر نہیں پاتا تھا۔ اور میدان چھوڑ کر بھاگ جاتا تھا۔فہر بن مالک کے چار بیٹے(۱) غالب بن فہر (۲) محارب بن فہر (۳) حارث بن فہر ( ۴) اسد بن فہر ہیں۔


یمن کے حکمراں کا مکہ مکرمہ پر حملہ

یمن کا حکمراں حسان ایک جاہ طلب ، توسیع پسند اور شان و شوکت کا دلدادہ متکبر شخص تھا۔ وہ تمام دنیا کے انسانوں کو اپنا فرماں بردار اور غلام دیکھنا چاہتا تھا۔ اس کے مزاج میں اتنی رعونت اور طبیعت میں اس قدر خشونت تھی کہ وہ اپنے درباریوں اور وزیروں کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھنا بھی گوارہ نہیں کرتا تھا۔ اس کے دماغ میں یہ خیال سمایا کہ یمن کو تمام دنیا کا مرکز بنانا چاہیئے۔ جہاں دنیا بھر کے لوگ حاضر ہوں اور اسے سلام کریں ۔ اور اپنا مقتدا اور خدامانیں۔ اُس نے دیکھا کہ مکہ مکرمہ لوگوں کا مرکز ہے۔ تو اس نے سوچا کہ خانہ کعبہ کے اینٹ اور پتھر اکھاڑ کر یمن میں لا کر لگائیں جائیں۔ اور ایک گھر بنایا جائے تو تمام لوگ مکہ مکرمہ جانے کی بجائے یمن آیا کریں گے۔ یہ سوچ کر اس نے فوج لے کر مکہ ٔ مکرمہ پر حملہ کرنے کے لئے روانہ ہوا۔

فہر بن مالک کی قیادت اور بہادری

ادھر مکہ مکرمہ میں فہر بن مالک کو خبر مل چکی تھی کہ حسان فوج لے کر مکہ مکرمہ پر حملہ کرنے آرہا ہے۔ اس لئے انھوں نے بھی مقابلے کی تیاری شروع کر دی۔ اور مکہ مکرمہ کے قرب و جوار کے تمام قبائل کو اکٹھا کر کے فوج کی تشکیل کی۔ اور میدان ِ جنگ میں آگئے۔ دونوں فوجوں میں زبردست جنگ ہوئی۔ اس جنگ میں فہر بن مالک نے بڑی ہوش مندی سے اور تدبر سے اپنی فوج کو لڑایا۔ اور خود بھی جوش وجذبہ اور بہادری سے لڑے۔ اور ایسی جنگی حکمت عملی اپنائی کہ حسان کو شکست ہو گئی۔ اور اسے گرفتار کر لیا گیا۔ وہ تین سال تک فہر بن مالک کی قید میں رہا۔ پھر یمن والوں نے فدیہ دے کر اسے چھڑا لیا۔ لیکن یمن پہنچنے سے پہلے ہی مر گیا۔( تاریخ کامل ابن اشیر)۔ اس کامیابی نے فہر بن مالک کی نیک نامی اور شہرت میں اضافہ کیا۔ اور تمام عرب نے اُن کی قیادت پر اتفاق کر لیا۔ اس طرح فہر بن مالک تمام عرب پر حاوی ہو گئے۔ اور مورخین بتاتے ہیں کہ اسی لئے آپ کو لقب قریش دیا گیا۔ کیوں کہ آپ تمام عرب قبائل میں سب سے زیادہ طاقتور ثابت ہوئے تھے۔

غالب بن فہر

فہر بن مالک کے بیٹے غالب بن فہر بہت مشہور ہوئے ۔آپ بہت ہی معاملہ فہم اور سمجھ دار تھے۔غالب بن فہر کے تین بیٹے (۱) لوی بن غالب (۲) تیم بن غالب (۳) قیس بن غالب ہیں۔اِن میں لوی بن غالب سب سے زیادہ مشہور ہوئے اور یہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے والدین میں سے ہیں۔

لوی بن غالب

غالب بن فہر کے بیٹے لوی بن غالب کی اولاد میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم تشریف لائے ۔لوی بن غالب انتہائی نیک اور ذمہ دار انسان تھے اور مکہ مکرمہ کا انتظام سنبھالتے تھے۔آپ کے پانچ بیٹے (۱) کعب بن لوی (۲) عامر بن لوی (۳) سامہ بن لوی (۴) عوف بن لوی (۵) حارث بن لوی ہیں۔


کعب بن لوی

لوی بن غالب کے بیٹے کعب بن لوی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے آبا و اجداد میں سے ہیں۔کعب بن لوی نے سب سے پہلے جمعہ کے دن جمع ہونے کا طریقہ جاری کیا۔آپ جمعہ کے روز لوگوں کو جمع کر کے خطبہ پڑھتے تھے۔سب سے پہلے اﷲ کی حمد و ثنا بیان کرتے کہ آسمان اور زمین اور چاند اور سورج یہ سب چیزیں اﷲ ہی کی بنائی ہوئی ہیں ۔پھر پند و نصائح کرتے ،صلہ رحمی کی ترغیب دیتے اور یہ فرماتے کہ میری اولاد میں ایک نبی (صلی اﷲ علیہ وسلم ) ہونے والے ہیں ۔اگر تم اُن کا زمانہ پاؤ تو ضرور اُن کی اتباع کرنا اور کہتے تھے :’’کاش میں بھی اُن (صلی اﷲ علیہ وسلم) کے اعلان نبوت کے وقت حاضر ہوتا ،جس وقت قریش اُن کے خلاف ہو ں گے۔‘‘کعب بن لوی کے تین بیٹے (۱) مُرّہ بن کعب (۲) عدی بن کعب ( ۳) ہصیص بن کعب ہیں۔
7.........


سیرت سید العالمین ﷺ
قسط نمبر 33
سيد العالمین ﷺ کا بچین
قسط نمبر 16

سيد البشر صلی اللہ علیہ وسلم اپنی والدہ کے ساتھ مدینہ منورہ میں

سيد البشر صلى الله علیہ وسلم کے داد حضرت عبدا لمطلب کی والدہ کا گھر مدینہ منورہ میں تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد حضرت عبداللہ شام سے تجارتی سفر کی واپسی پر بیماری کی وجہ سے اپنی دادی کے یہاں مدینہ منورہ میں ہی رک گئے تھے اور وہیں انتقال ہو گیا تھا اور وہیں" دارالنا بفہ میں دفن کر دیا گیا۔ جب سیدالبشر صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی والدہ کی آغوش میں رہتے ہوئے لگ بھگ سال دیڑھ سال گزر گئے تو سیدہ آمنہ نے اپنی خادمه ام ایمن اور سید البشر صلی اللہ علیہ وسلم کو لیا اور حضرت عبدا لمطلب سے اجازت لے کر تجارتی قافلے کے ساتھ دشوار گزار سفر کرتی ہوئی مدینہ منورہ پہنچیں اور دارالنابغہ میں قیام کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں لگ بھگ کئی ماہ گزارے اور بنو عدی بن نجار کے تالاب میں تیرنا سیکھا اور ساتھ ہی عسکری تربیت بھی حاصل کی۔

سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے تیرنا سیکھا

لگ بھگ پانچ ساڑھے پانچ برس کی عمر میں سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم اپنی والدہ محترمہ کے ساتھ مدینہ منورہ پہنچے اور کلی ماه قیام فرمایا۔ برسوں بعد جب آپ صلى الله عليه وسلم مدینہ منورہ ہجرت کر کے پہنچے اور وہیں رہائش اختیار کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بچپن کی باتیں اور وہ حالات و واقعات صحابہ کرام کو بتایا کرتے تھے جو یہاں گزر چکے ہیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے " دارالنا بغہ “ کو دیکھا تو فرمایا :"امی جان یہاں آکر قیام پذیر ہوئی تھیں۔ “ اور بنو عدی کے تالاب کو دیکھا تو فرمایا :" اس تالاب میں، میں نے تیرنا سیکھا ہے۔" بچین میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کلے عرصے مدینہ منورہ میں قیام کیا اس بارے میں کئی روایات ہیں۔ ان تمام روایات سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کم سے کم ایک ماہ ضرور مدینہ منورہ میں قیام کیا ہے۔ اس سے زیادہ عرصہ ہو سکتا ہے کم نہیں ہو سکتا۔ اب حقیقت کا علم تو صرف اللہ تعالی کو ہے۔
باقی ان شاء اللہ اگلی قسط میں


سیرت سید العالمین ﷺ
قسط نمبر 34
سید العالمین ﷺ کا بچپن قسط نمبر 17

سید العالمین ﷺ کا بچپن : یہودیوں نے رسول اللہ ﷺ کو پہچان لیا


انبیاء کے سردار صلی اللہ علیہ وسلم اپنی والدہ محترمہ کے ساتھ مدینہ منورہ میں رہ رہے تھے۔ مدینہ منورہ کے اطراف میں بنی اسرائیل ( یہودیوں ) کے کئی قبیلے آباد تھے اور وہ خرید وفروخت کے سلسلے میں اکثر مدینہ منورہ آتے رہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے توریت، زبور اور انجیل میں انبیاء کے سردار ﷺ کے بہت سے اوصاف بیان فرمائے ہیں اور بہت سی نشانیاں بتائی ہیں۔ ان یہودیوں نے مدینہ منورہ میں بچپن میں انبیاء کے سردار ﷺ کو دیکھا تو پہچا ن گئے۔ حضور ﷺ اپنے بچپن کے مدینہ منورہ میں پیش آنے والے واقعات کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’میں نے ایک یہودی کو دیکھاجو بار بار آتا جاتا تھا اور مجھے غور سے دیکھتا رہتا تھا۔ آخر کار اس نے مجھ سے سوال کیا:’’ اے بچے، تیر انام کیا ہے؟ ‘‘میں نے جواب دیا :’’احمد۔‘‘ ( یہ سن کر وہ بھونچکا رہ گیا) اس نے میری پُشت کو دیکھا ( جہاں مُہر نبوت لگی ہوئی تھی) پھر اس نے کہا :’’ یہ بچہ اِس اُمت کا نبی ہے۔‘‘ ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کا ذکر بھی اللہ تعالیٰ نے پہلے کی آسمانی کتابوں میں کیا ہے) پھر وہ یہودی میرے ماموئوں کے پاس آیا اور انھیں بھی یہ بات بتائی۔ میرے ماموئوں نے امی جان سے بات چیت کی( سیدہ آمنہ بشارات کے ذریعے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خوبیاں جانتی تھیں) اسی لئے میری فکر امی جان کو لاحق ہو گئی اور انھوں نے مکہ مکرمہ واپس جانے کا فیصلہ کر لیا۔‘‘ اسی طرح کا ایک واقعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خادمہ اُم ایمن رضی اﷲ عنہا بتاتی ہیں، آپ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں:’’ مدینہ منورہ میں قیام کے دوران ایک روز دو یہودی دوپہر کے وقت میرے پاس آئے، ایک نے کہا :’’ ذرا احمد (ﷺ ) کو باہر لائو۔‘‘ میں رسول اللہﷺ کو لے کر باہر آئی تو اُن دونوں یہودیوں نے رسول اللہﷺ کو بہت غور سے دیکھنا شروع کر دیا اور نشانیاں تلاش کرتے رہے۔ پھر ایک نے دوسرے سے کہا :’’یہ بچہ اِس اُمت کا نبی ہے اور یہ مدینہ منورہ اس کا ’’دارا لحکومت ‘‘ہوگا۔‘‘ تمام بنی اسرائیل (یہودی) اللہ تعالیٰ کی بیان کی ہوئی نشانیوں سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت اچھی طرح پہچانتے تھے۔ لیکن ان میں اکثریت بہت بد بخت تھی اور اکثریت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو انکار کیااور اس کی وجہ یہ تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بنی اسرائیل میں نہیں بلکہ’’ بنی اسماعیل‘‘ میں آئے۔ صرف چند نیک بخت اور خوش قسمت یہودیوں نے اسلام قبول کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے۔

سیدہ آمنہ کا انتقال

یہودیوں کی اسی کھوج خبر کی وجہ سے سیدہ آمنہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی فکر لاحق ہوئی کہ کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے۔ اسی لئے اپنی طبیعت خراب ہونے کے باوجود سیدہ آمنہ اپنے نور نظر صلی اللہ علیہ وسلم اور خادمہ سیدہ ام ایمن رضی اﷲ عنہا کو لے کر کسی قافلے کے ساتھ مکہ مکرمہ روانہ ہو گئیں۔ سفر کے دوران بیماری بڑھتی جا رہی تھی۔ آخر کار راستے میں ایک مقام پر آپ کی طبیعت اتنی زیادہ خراب ہو گئی کہ آپ سفر کرنے کے قابل نہ رہیں، اسی لئے وہیں رک گئیں۔ اُس مقام کا نام’’ ابوا ء‘‘ ہے۔ امام ابو نعیم نے اپنی معرکتہ الارا ٔ کتاب دلائل النبوۃ میں امام زہری ( بہت جلیل القدر تابعی) کی سند سے نقل کیا ہے کہ وہ حضرت اسما بنت رہم سے اور وہ اپنی والدہ سے روایت کرتے ہیں۔ وہ فرماتی ہیں :’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ محترمہ سیدہ آمنہ نے جس بیماری میں انتقال فرمایا، میں اُس میں موجود تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پانچ سال سے زیادہ لگ بھگ چھ سال کو عمر کے تھے اور پروان چڑھ رہے تھے۔ اُس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی والدہ محترمہ کے سرہانے تشریف فرما تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ محترمہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ ٔ انور کی طرف دیکھ کر یہ فرمایا:’’ اللہ تعالیٰ تجھے با برکت بنائے !اے اُس شخصیت کے بیٹے جو شدتِ موت سے انعام کرنے والے بادشاہ کی مدد سے محفوظ رہا جب قرعہ اندازی میں اس کانام نکلا تو ایک سو قیمتی اونٹ اس کے فدیہ کے طور پر دیئے گئے۔ اگر وہ بات سچی ہے جومیں نے خواب میں دیکھی ہے تو تُوجلال و اکرام والی ذات ( اللہ تعالیٰ) کی طرف سے مخلوق کی طرف مبعوث ہوگا۔تُو حلال و حرام کے بیان کے لئے اور احقاقِ حق او ر اسلام کے بیان کے لئے مبعوث ہوگا۔ جو تیرے مطیع و محسن باپ ( جد امجد) حضرت ابراہیم علیہ السلام کا دین ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے تجھے دوسرے لوگوں کی طرح بتوں کی تعظیم کرنے سے منع کیا ہے۔( یعنی تُو اور لوگوں کی طرح بتوں کی تعظیم مت کرنا)۔‘‘ اس کے بعد آگے سیدہ آمنہ نے کچھ دیر خاموش رہ کرفرمایا :’’ہر زندہ شخص کو مرنا ہے، ہر نئی چیز پرانی ہو جاتی ہے اور بڑی عمر کو پہنچنے والے کے لئے فنا ہے۔ میں فوت ہونے والی ہوں اور میرا ذکر باقی رہے گا۔ میں نے بھلائی ( یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ) چھوڑا ہے۔ میں نے ایک پاک بچے کو جنم دیا ہے۔‘‘ اس کے بعد سیدہ آمنہ کا انتقال ہو گیا۔ راوی کہتی ہیں:’’ پھر ہم نے ایک آواز سنی جو کہہ رہی تھی :’’ہم اُس نوجوان خاتون( سیدہ آمنہ) پر روتے ہیںجو نیکو کار اور امانت دار تھیں۔ حسن و جمال، پاک دامن اور وقار والی تھیں۔ حضرت عبداللہ کی زوجہ ٔ مبارکہ تھیں اور باوقار نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی والدہ ہیں۔ وہ نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم) مدینہ منورہ میں صاحب منبر ہوں گے۔ آپ ( سیدہ آمنہ) اپنی قبر مبارک میں جا گزیں ہوگئیں۔‘‘ وہیں مقامِ ابواء میں سیدہ آمنہ کو دفن کر دیا گیا۔

حضور کا بچپن : سیرت سید العالمین | رسول اللہ ﷺ اپنے دادا حضرت عبد المطلب کی کفالت میں

سیرت سید العالمین ﷺ
قسط نمبر 35
سید العالمین ﷺ کا بچپن قسط نمبر 18
رسول اللہ ﷺ اپنے دادا حضرت عبد المطلب کی کفالت میں
سیدہ آمنہ کے انتقال کے بعد اُن کی خادمہ اُم ایمن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر مکہ مکرمہ آئیں اور سیدہ آمنہ کے انتقال کی خبر دی۔ حضرت عبدا لمطلب رسول ﷺ کی ولادت سے پہلے اور بعد میں آپ ﷺ کے بارے میں یہودی اور عیسائی علماء سے سن چکے تھے اور تمام نشانیوں کو آپ ﷺ میں دیکھ چکے تھے۔ اس لئے حضور ﷺ اپنے دادا کی خاص توجہ کا مرکز بن گئے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے با برکت ہونے کا حضرت عبد المطلب کو پورا احساس تھا۔ اس لئے جب کوئی بہت مشکل کام ہوتا تھا تو اسمیں اپنے پیارے پوتے صلی اللہ علیہ وسلم کو شریک کر لیتے تھے اور وہ کام آسانی سے مکمل ہو جایا کرتا تھا۔

حضرت عبدالمطلب کی بے قراری

ایک مرتبہ حضرت عبدالمطلب کے اونٹ گم ہو گئے تھے۔ آپ نے اپنے تمام بیٹوں کو بھیجا مگر وہ ناکام واپس آئے۔ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک سات برس کے لگ بھگ یا کچھ ماہ زیادہ تھی۔ حضرت عبد المطلب نے اپنے پوتے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اونٹوں کی تلاش میں بھیجا کیوں کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے واقف تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو واپس آنے میں کچھ دیر ہو گئی تو حضرت عبد المطلب بہت بے قرار ہو گئے اور سب کچھ بھول کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی واپسی کی دعائیں مانگنے لگے۔ جب اور زیادہ دیر ہو گئی تو حضرت عبدالمطلب خانہ کعبہ کے پاس آئے اور رو رو کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں طواف کرتے ہوئے دعا مانگنے لگے :’’ اے اللہ !میرے شہسوار اور نور ِ نظر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو لوٹا دے۔ اے رب کریم ! اسے بھیج دے، اپنے نا چیز بندے پر احسان کر۔‘‘ وہ مسلسل دعاکرتے رہے، یہاں تک کہ اُن کے بیٹوں نے آکر اُنھیں بتا یا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) اونٹوں کو تلاش کر کے لے آئے ہیں۔

حضرت عبدالمطلب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت عزت کرتے تھے

حضرت عبدالمطلب اپنے پوتے سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا بہت خیال رکھتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر کھانا نہیں کھاتے تھے۔ حضرت عبد المطلب مکہ مکرمہ کے سب سے بڑے سردار تھے۔ اسی لئے خانہ کعبہ کے زیر سایہ آپ کے لئے مسند بچھائی جاتی تھی اور آپ کا کوئی بیٹا یا قریش کا کوئی بھی سردار ادب کی وجہ سے آپ کے ساتھ اس مسند پر نہیں بیٹھتا تھا۔ لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی تشریف لاتے تھے تو اس مسند پر آپ کے ساتھ بیٹھ جاتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کوئی چچا یا کوئی قریشی سردار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس مسند سے اتارنے کی کوشش کرتا تو حضرت عبد المطلب فرماتے :’’میرے بیٹے کو رہنے دو، اسے مسند سے نہ ہٹائو، اللہ کی قسم ! میرے بیٹے کی بہت بڑی شان ہے۔ ‘‘پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ساتھ بٹھا لیتے اور پُشت مبارک پر ہاتھ پھیرتے رہتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی معصومانہ حرکتیں دیکھ کر مسکراتے اور خوش ہوتے تھے۔

نبی کا بچپن : عیسائی عالم نے سرورِ کونین ﷺ کو پہچان لیا

سیرت سید العالمین ﷺ
قسط نمبر 36
سید العالمین ﷺ کا بچپن قسط نمبر 19
عیسائی عالم نے سرورِ کونین ﷺ کو پہچان لیا
اللہ تعالیٰ نے اپنی آسمانی کتابوں میں بار بار اور اتنی تفصیل سے سرورکونین صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر فرمایا ہے کہ ہر یہودی اور عیسائی عالِم ( احبار اورراہب) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت اچھی طرح پہچانتا تھا۔ بلکہ بہت سے یہودی اور عیسائی عالموں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کرنے اور نشانیاں بتانے کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا تھا۔ وہ لوگ ہر سمجھ دار آدمی سے’’ اس آخری رسول‘‘ ( صلی اللہ علیہ وسلم) کا ذکر کرتے رہتے تھے اور اُن کی نشانیوں کو بتاتے رہتے تھے۔ ایسے ہی ایک عیسائی عالم سے حضرت عبد المطلب کے تعلقات تھے اور وہ اکثر آپ کے پاس آتا رہتا تھا اور آپ کو بتاتار ہتا تھا کہ توریت اور انجیل میں ’’ایک ایسے نبی ‘‘(صلی اﷲ علیہ وسلم)کا ذکر ہے جس کی تمام صفات اللہ تعالیٰ نے ان کتابوں میں بہت تفصیل سے بیان فرمائی ہے۔’’ وہ نبی‘‘( صلی اللہ علیہ وسلم )حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولادمیں سے ہوگا۔ اب’’ اُس نبی‘‘ ( صلی اللہ علیہ وسلم) کے ظاہر ہونے کا زمانہ بہت قریب ہے۔ ایک دن وہ عیسائی عالم حضرت عبد المطلب سے بیٹھا باتیں کر رہا تھا کہ اچانک سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم آگئے۔ حضرت عبدالمطلب نے بڑے پیار سے سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑا اور اپنے بازو میں بٹھا لیا۔ وہ عیسائی عالم سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کو غور سے دیکھتا رہا۔ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں میں سرخ ڈوروں کو دیکھا، پھر پشت مبارک پر’’ مہر نبوت ‘‘دیکھی تو بے ساختہ بول اٹھا :’’ اے عبدالمطلب ! یہی’’ وہ آخری نبی ‘‘( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہے، بتائو یہ تمہارا کیا لگتا ہے؟‘‘ انھوںنے جواب دیا:’’یہ میرا بیٹا ہے۔‘‘ وہ بولا :’’یہ نہیں ہو سکتا، کیوں کہ ہماری کتاب میں اللہ تعالیٰ نے اس نبی کی ایک صفت یہ بھی بیان فرمائی ہے کہ وہ آخری نبی ’’یتیم ‘‘ہوگا۔ حضرت عبد المطلب نے فرمایا:’’یہ ’’یتیم‘‘ ہی ہے اور یہ میرا پوتا ہے۔‘‘ یہ سن کر وہ عیسائی عالم بولا:’’ اس کی حفاظت کرو،کیوں کہ بہت سے لوگ اس سے دشمنی کریں گے اور نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے۔ ‘‘حضرت عبدالمطلب نے قریب بیٹھے اپنے بیٹوں سے کہا :’’سُن رہے ہو، اپنے بھتجے کا خیال رکھنا، تاکہ کوئی دشمن اسے نقصان نہ پہنچا سکے۔‘‘

حضرت عبدالمطلب کا انتقال

حضرت عبدالمطلب اسی طرح بڑے پیار و محبت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پر ورش کرتے رہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک لگ بھگ آٹھ برس ہوئی تو حضرت عبدالمطلب کا بھی آخری وقت آگیا۔ اپنے آخری وقت میں انھوں نے تمام بیٹوں کو وصیت کی کہ وہ ہر طرح سے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا خیا ل رکھیں گے اور ابو طالب کی کفالت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دیا،کیوں کہ ابو طالب اور حضرت عبداللہ سگے بھائی تھے۔ یعنی دونوں حضرت عبد المطلب کی ایک ہی بیوی کے بیٹے تھے۔ اسی لئے انھوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ابو طالب کو ہی سونپا اور فرمایا :’’میرے مرنے کے بعد اپنے بھتیجے کو تنہائی کا احساس نہ ہونے دینا، اپنی اولاد سے بڑھ کر شفقت دینا۔ ہر آڑے وقت میں اس کے لئے جان لڑا دینا اور ہر میدان میں اس کی مدد کرنا۔‘‘ اس کے بعد حضرت عبدالمطلب کا انتقال ہو گیا۔

سیرت سید العالمین ﷺقسط نمبر 37

سید العالمین ﷺ کا بچپن قسط نمبر 20

ابو طالب کے گھر برکتوں کی بارش

ابو طالب اپنے پیارے بھتیجے صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر اپنے گھر آگئے اوراُن کے گھر میں بھی برکتوں کی اسی طرح بارش ہونے لگی جیسی سیدہ حلیمہ رضی اﷲعنہا کے گھر ہوتی تھی۔ ابو طالب اپنے تمام بھائیوں میں سب سے غریب تھے۔ اسکے باوجود وہ اپنے بھتیجے کے ہر آرام کا خیال رکھتے تھے۔ امام فخر الدین رازی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں۔ ابو طالب کہتے تھے:’’ مجھے میرے بھتیجے (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بات سے حیرانی ہوتی تھی۔ ہم لوگ کھانے سے پہلے اور بعد میںاللہ کا نام نہیں لیتے تھے۔لیکن میرا بھتیجا محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کھانے سے پہلے بسمہ اللہ الاحد (اللہ کے نام سے جو ایک ہے) کہتا تھا اور کھانے کے بعد الحمد اللہ کہتا تھا۔ میرے بھتیجے نے کبھی جھوٹ نہیں بولا ہے اور نہ ہی کبھی میں نے اسے کھل کر ہنستے ہوئے دیکھا ہے اور نہ ہی کبھی اس نے کھیل کود میں وقت ضائع کیا ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میں سب کا پیٹ بھر جاتا

بچپن ہی سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم قناعت پسند تھے اور خود سے کھانے کی فرمائش کبھی نہیں کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خادمہ سیدہ ام ایمن رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح اٹھ کر زم زم کے کنویں پر جاکر پانی پی لیتے تھے۔ پھر جب ہم کھانے کے لئے بلاتے تو فرماتے تھے۔ مجھے کھانے کی خواہش نہیں ہے۔‘‘ ابو طالب اور ان کی اولاد اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر کھانا کھاتے تھے تو کھانا ختم ہوجاتا تھا۔ لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے تو سب کا پیٹ بھر جاتا تھا اور کھانا ختم نہیں ہوتا تھا۔ابو طالب ہر وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتھ رکھتے تھے۔ یہ رغبت اتنی بڑھی کہ چچا بھتیجے کو ایکدوسرے سے محبت ہوگئی۔ ابو طالب اکثر کہتے تھے:’’ اے میرے بھتیجے تو بہت بابرکت ہے۔‘‘صبح کو جب دوسرے بچے اٹھتے تو آنکھوں میں کیچڑ بھری ہو تی تھی، بال بکھرے ہوتے تھے۔ مگرحضور صلی اللہ علیہ وسلم جب سوکر اٹھتے تھے تو بالوں میں تیل لگا ہوتا تھااور کنگھی کی ہوتی تھی اور آنکھوں میں سرمہ لگا ہوتا تھا۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ کی خاص رحمت

ابن عسا کر نے جلہمہ بن عرفطہ سے نقل کیا ہے، وہ کہتے ہیں:’’ میں مکہ مکرمہ (تجارتکے سلسلے میں ) گیا تو وہاں قحط پڑا ہوا تھا اور لوگ بارش کے لئے ترس گئے تھے۔ ہر کوئی اپنے بتوں سے دعا مانگ کر تھک چکاتھا۔ ایسے میںایک شخص نے مکہ مکرمہ والوں سے کہا :’’ ہمارے بڑے سردار کے پاس چلو۔‘‘ تمام لوگ ابوطالب کے پاس آئے اور کہا :’’اے ابوطالب قحط نے مکہ مکرمہ کو لپیٹ میں رکھا ہے، ہم اور ہمارے اہل وعیال کی بھکمری کا وقت آگیا ہے۔ آپ بارش کے لئے دعا کریں۔‘‘ ابو طالب سب کو لیکر خانہ کعبہ کی طرف چلے۔ ان کے ساتھ ایک نو عمر لڑکا بھی تھا۔‘‘ راوی کہتے ہیں۔’’ اس لڑکے کو دیکھکر ایسا لگتا تھا جیسے سورج بادلوں میں سے نکل رہا ہو۔ ابو طالب نے اس بے انتہا خوبصورت اور بہت ہی روشن چہرے والے لڑکے کو خانہ کعبہ کی دیوار سے پیٹھ لگا کر کھڑا کردیا۔اس جمیل و شکیل لڑکے نے دعا کے لئے اپنے ہاتھ اٹھا دیئے۔ آسمان پر بادلوں کا نام و نشان نہیں تھا، لیکن اسکے ہاتھ اٹھتے ہی بادل آکر جمع ہونے لگے اور ابھی اس بے انتہا حسین لڑکے کے ہاتھ اوپر ہی اٹھے کہ موسلا دھار بارش ہونے لگی۔ ابو طالب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اس واقعہ کے بعد کہتے تھے :’’ وہ روشن چہرے والا جس کے چہرئہ انور (کے صدقے) میں بارش عطاکی جاتی ہے۔ وہ یتیموں کو پناہ دینے والا ہے اور بیوائوں کا سہارا ہے۔
باقی ان شاءاللہ اگلی قسط میں

54 سیرت سید العالمین ﷺ


اُم المومنین سیدہ خدیجہ رضی اﷲ عنہا سے نکاح

سید الانبیاء صلی اﷲ علیہ وسلم سے جب نفیسہ بن منیہ نے عرض کیا کہ سیدہ خدیجہ رضی اﷲ عنہا نکاح کرنا چاہتی ہیں ۔امام عبد الملک بن ہشام لکھتے ہیں :سیدہ خدیجہ رضی اﷲ عنہا عقل مند اور ہوشیار عورت تھیں ۔اِس کے علاوہ اﷲ تعالیٰ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی عظمت کے طفیل اُن کے لئے بھی سرفرازیاں چاہتا تھا تو جب میسرہ نے انہیں وہ عظیم الشان خبریں سنائیں تو انہوں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں قاصد بھیجا اور لوگ کہتے ہیں کہ یہ کہلا بھیجا کہ اے میرے چچا کے بیٹے ! آپ ( صلی اﷲ علیہ وسلم ) کے ساتھ رشتہ داری ،اپنی قوم میں آپ ( صلی اﷲ علیہ وسلم ) کی بے مثال امانت داری،سچائی ،آپ ( صلی اﷲ علیہ وسلم ) کے حسن اخلاق اور مضبوط کردار کی وجہ سے آپ ( صلی اﷲ علیہ وسلم ) کی جانب میرا میلان ِ خاطر ہے ،پھر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے نکاح کی استدعا کی۔ (سیرت النبی ابن ہشام)سید الانبیاء صلی اﷲ علیہ وسلم نے اِس بارے میں اپنے چچاؤں سے مشورہ فرمایا تو انہوں نے اجازت دے دی اور حضرت حمزہ بن عبد المطلب رضی اﷲ عنہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا رشتہ لیکر سیدہ خدیجہ رضی اﷲ عنہا کے چچا کے پاس لے گئے جو انہوں نے قبول کیااور ایک تاریخ مقرر کرلی۔مقررہ تاریخ پر قبیلہ مضر کے رؤسا ،مکۂ مکرمہ کے شرفا اور امراء جمع ہوئے ۔سیدہ خدیجہ رضی اﷲ عنہا کی طرف سے اُن کے چچا عمرو بن اسد وکیل بنے اور ابو طالب نے نکاح کا خطبہ پڑھا اور بیس اونٹ مہر پر دونوں کا نکاح کر دیا۔ نکاح کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر پچیس 25سال تھی۔ اور سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر چالیس40سال تھی۔



ابو طالب کا خطبۂ نکاح

سید الانبیاء صلی ا ﷲ علیہ وسلم اور سیدہ خدیجہ رضی اﷲ عنہا کا نکاح ابوطالب نے پڑھایا اور اُس وقت ایک فصیح و بلیغ خطبۂ نکاح بھی ارشاد فرمایا:’’سب تعریفیں اﷲ تعالیٰ کے لئے ہیں جس نے ہمیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی کھیتی سے معد کی نسل سے اور مُضر کی اصل سے پیدا فرمایا ۔نیز ہمیں اپنے گھر کا پاسبان اور اپنے حرم کا منتظم مقرر کیا،ہمیں ایک ایسا گھر دیا جس کا حج کی جاتا ہے اور ایسا حرم بخشا جہاں امن میسر آتا ہے ،نیز ہمیں لوگوں کا حکمراں مقررفرمایا ۔حمد کے بعد میرا یہ بھتیجا جس کا نام محمد بن عبداﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم ) ہے ،اِس دنیا کے جس بڑے سے بڑے آدمی کے ساتھ موازنہ کیا جائے گا تو اِسی کا پلڑہ بھاری ہوگا۔اگر یہ مالدار نہیں ہے تو کیا ہوا ،مال تو ایک ڈھلنے والا سایہ ہے اور بدل جانے والی چیز ہے۔محمد( صلی اﷲ علیہ وسلم) جس کی قرابت کو تم خوب جانتے ہو ،اُس نے خدیجہ بنت خویلد کا رشتہ طلب کیا ہے اور ساڑھے بارہ اوقیہ سونا مہر مقررکیا ہے اور اﷲ کی قسم ! مستقبل میں اِس کی شان بہت بلند ہو گی ،اِس کی قدرو منزلت بہت جلیل ہو گی ۔‘‘اِس کے بعد ورقہ بن نوفل کھڑے ہوئے جو سیدہ خدیجہ رضی اﷲ عنہا کے چچا زاد بھائی ہیں اور جوابی خطبہ دیا:’’ سب تعریفیں اﷲ تعالیٰ کے لئے ہیں جس نے ہمیں ان عزتو اور انعامات سے نوازا جن کا ذکر آپ نے فرمایا ہے اور ہمیں وہ فضیلتیں بخشیں جن کو آپ نے گِنا ہے ۔پس ہم سارے ملک عرب کے سردار اور رہبر ہیں اور تم بھی اِن صفات سے متصف ہو۔قبیلہ کا کوئی فرد ان کا اانکار نہیں کرتا اور کوئی شخص تمہاری فضیلت کو رد نہیں کرتا۔ہم اپنا تعلق تم سے استوار کرنے میں بڑا اشتیاق رکھتے ہیں ۔ اے خاندان ِ قریش کے سردارو ! گواہ رہو ،میں نے خدیجہ بنت خویلد کا نکاح محمد بن عبد اﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم ) کے ساتھ کر دیا ہے۔‘‘اِس کے بعد ابوطالب نے کہا کہ میں یہ چاہتا ہوں کہ اِس اعلان ِ نکاح میں خدیجہ کے چچا بھی شریک ہوں ۔عمرو بن اسد نے کہا:’’اے قبائل ِ قریش !گواہ رہنا ،میں نے خدیجہ بنت خویلد کا نکاح محمد بن عبد اﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم )کے ساتھ کر دیا ہے اور اِس پر قریش کے سردار گواہ مقرر ہوئے ہیں۔‘‘(ضیا النبی) رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ولیمہ کی دعوت فرمائی اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک اونٹ اور ایک قول کے مطابق دو اونٹ ذبح فرمائے اور لوگوں کو دعوت ِ ولیمہ کھلائی۔(سیرت حلبیہ)
باقی ان شاءاللہ اگلی قسط میں

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے