Ticker

6/recent/ticker-posts

اُردو قواعد یعنی اردو گرامر کی ضرورت و اہمیت پر مضمون

اُردو قواعد یعنی اردو گرامر کی ضرورت و اہمیت پر مضمون

اُردو زبان کی اوّلین قواعد کو ہالینڈ میں مرتب کی گئی تھی۔ اس کو مرتب کرنے والے کا نام جان جوشوا کٹلر تھا۔ یہ ڈچ شہری اٹھارھویں صدی کی ابتداءمیں ہندوستان آیا تھا اور گجرات کے شہر سُورت میں ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی کا مینیجر تجارت مقرر ہوا تھا۔ ہندوستان میں اس کے قیام کی تاریخوں سے یہ اندازہ لگا کر مولوی عبدالحق نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ ہندوستانی زبان کی یہ سب سے پہلی گرامر ۱۷۱۵ کے آس پاس میں لکھی گئی ہوگی لیکن اب سے کچھ ہی عرصہ پہلے محمد اکرام چغتائی نے یورپ جا کر جب تحقیق کی اس سے یہ ثابت ہوا کہ یہ کتاب ۱۷۱۵ نہیں بلکہ اس سے پچیس سال قبل ہی لکھی جا چکی تھی۔

اردو قواعد کی پہلی کتاب کب لکھی گئی

اردو قواعد کی یہ پہلی کتاب لاطینی زبان میں ہے اور ہندوستانی زبان کے لفظوں اور جملیں کی مثالیں رومن ( Roman ) رسم الخط میں دی گئی ہیں۔ اس کتاب کی اتنی اہمیت صرف اس لئے ہے کہ یہ اردو قواعد کی پہلی کتاب ہے ورنہ اس کتاب میں ہندوستانی زبان کا کوئی تفصیلی تجزیہ نہیں ملتا ہے۔

اردو قواعد اُردو گرامر کی دوسری کتاب

اردو قواعد کی دوسری اہم کتاب ۴۴-۱۷۴۳ کے آس پاس میں لکھی گئی تھی۔ اس کتاب کے مؤلف اِک جرمن مشنری بنجمن شلزے تھا۔ اس کتاب کوبھی اُردو قواعد کی پہلی کتاب کی شکل میں لاطینی زبان میں ہی لکھی گئی تھی لیکن اس میں ہندوستانی زبان کے الفاظ اُردو رسم الخط میں بھی شامل تھے۔ اس کتاب کے مصنف کی نظر میں لاطینی زبان سبھی زبانوں کی ماں ہے۔ اسی لئے وہ اُردو زبان کو بھی لاطینی قواعد کے اصولوں کے مطابق پرکھتا ہے۔ شلزے کی ہندوستانی زبان پر بنگالی کا اثر صاف طور پر نمایاں ہے اور بہت سے الفاظ اس نے اُردو یا ہندوستانی کے نام سے درج کئے ہیں لیکن وہ تمام الفاظ اصل میں بنگالی زبان کے ہیں۔

اُردو گرامر کی ابتدائی کتاب

اُردو گرامر کی ابتدائی کتابوں کے مصنف کے سلسلےمیں ایک اہم نام جان گلکرسٹ کا ہے۔ ان کی کتاب قواعدِ زبانِ اُردو اپنے دور میں اُردو گرامر کی مشہور کتاب ہے۔ اس کتاب کو لکھنے کا گلکرسٹ کا مقصد ایسٹ انڈیا کمپنی کے انگریز ملازمین کو ہندوستان کی مقامی زبان سے آشنا کرانا تھا۔ اس میں بھی اسما و افعال کا تجزیہ لاطینی، یونانی اور انگریزی زبانوں کے اصولوں کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔

انشا اللہ خان انشا پہلے ہندوستانی تھے جنھوں نے اُردو زبان کی قواعد کا گہرائی سے مطالعہ کیا اور دریائے لطافت کے نام سے اُردو گرامر کی پہلی کتاب لکھی جو پوری طرح سے ہندوستانی تھی۔ اردو گرامر کی تین کتابیں جو انیسویں صدی میں شائع ہوئی تھی اُن کتابوں کا نام اس طرح سے ہے:
۱ -مولوی احمد علی دہلوی کی کتاب ’فیض کا چشمہ‘: 1825
۲- سرسید احمد خان کا رسالہ اُردو صرف و نحو: 1842
۳- مولوی امام بخش صہبائی کی اُردو صرف و نحو: 1849

یہ سبھی کتابیں بھی پہلے کی طرح عربی اور فارسی قواعد کی طرز پر تحریر کی گئی ہیں اور اُردو زبان کو مستقل طور پر ہندوستانی زبان نہیں سمجھتی ہیں۔

اُردو گرامر کی کتاب مصباح القواعد فتح محمد جالندھری کی تصنیف ہے۔بیسویں صدی کے اوائل میں مقبول ہونے والی یہ اہم کتاب ہے۔یہ کتاب اردو قواعد کے لحاظ سے مشہور نہیں ہے بلکہ اس کی مقبولیت کی وجہ اس میں دیے گئے اشعار ہیں۔

اُس زمانے میں اردو زبان کا تعلق صرف شعراء و ادباء سے جوڑا جاتا تھا اور سوائے انشاء کے کسی نے بھی عوامی بول چال کو بحث مباحثے کا موضوع نہ جانا تھا۔ اس لئے فتح محمد جالندھری کی کتاب بھی اعلٰی و ارفع زبان کی خوبیاں بیان کرتی ہے۔ وہ کلاسیکی عربی کے عالم تھے اور اان کا کیا ہوا قُرآنِ پاک کا اُردو ترجمہ آج تک ایک سند کا درجہ رکھتا ہے۔عربی زبان سے اپنے گہرے شغف کی وجہ سے وہ اُردو زبان کا تجزیہ کرتے ہوئے عربی کے اثر سے کہیں بھی آزاد نہیں ہو سکے۔

اُردو کے پہلے قواعد نویس مولوی عبدالحق ہیں جنھوں نے اُردو کو ایک آریائی زبان کے طور پہ دیکھا۔ اپنی معروف کتاب قواعدِ اُردو کے دیباچے میں لکھتے ہیں:
اُردو خالص ہندی زبان ہے اور اسکا شمول آریاوی السنہ میں ہے، بخلاف اسکے عربی زبان کا تعلق سامی السنہ سے ہے۔ لہٰذا اُردو زبان کی صَرف و نحو لکھنے میں عربی زبان کا تتبع کسی طرح جائز نہیں، دونوں زبانوں کی خصوصیات بالکل الگ ہیں۔

مولوی صاحب نے آگے چل کر یہ بھی واضح کیا ہے کہ اُردو کے ہندی الاصل ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ اسکی گرامر کا موازنہ سنسکرت سے کیا جائے (جیسا کہ چند یورپی سکالروں نےکیا تھا) اس تمام تر جِدّت طرازی کے باوجود مولوی عبدالحق کی لکھی ہوئی گرامر بھی اسم، فعل اور حرف کی کلاسیکی تقسیم ہی پر استوار ہوئی ہے۔ ان میں بیسویں صدی کے ان رجحانات کی جھلک نہیں دکھائی دیتی جو مطبوعہ حرف کی بجائے صوتی اکائیوں کو بنیاد مانتے ہیں۔

صوتیاتی اصولوں کا ہلکا سا پرتو ہمیں ۱۹۷۱ میں شائع ہونے والی جامع القواعد میں نظر آتا ہے جس کے موّلف تھے ابواللیث صدیقی۔ تاہم اس کتاب میں بھی جدید لسانیاتی اصولوں کا تذکرہ محض حواشی میں نظر آتا ہے، اور اُردو جملے کے تجزیئے میں کلاسیکی اصول ہی کارفرما دکھائی دیتے ہیں۔

اس تمام پس منظر میں ڈاکٹر شوکت سبزواری کا یہ اعلان انتہائی حوصلہ افزا تھا کہ وہ اُردو زبان کو عربی، فارسی، انگریزی، لاطینی یا سنسکرت کی بجائے خود اُردو ہی کے اصولوں پہ پرکھنا چاہتے ہیں۔ مگر افسوس کہ عمر نے وفا نہ کی اور وہ اپنے تمام تر علمی سرمائے اور تحقیقی جذبے سمیت اس جہانِ فانی سے کُوچ کر گئے۔

ڈاکٹر شوکت سبزواری کے نا مکمل کام کو ۱۹۷۱ میں کراچی کے مکتبہ اسلوب نے ڈاکٹر قدرت نقوی کے حواشی اور مشفق خواجہ کے دیباچے سے آراستہ کرکے شائع کر دیا تھا۔ اس ادھورے کام میں بھی اُردو اسم کی بحث مکمل طور پر موجود ہے اور یہ شائقینِ اُردو کے لئے ایک گراں قدر تحفے کی حیثیت رکھتی ہے۔

زبان کو سیکھنے کے لیے دو چیزوں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے
(۱)
 زبان کے قواعد وگرامر
(۲)
پریکٹکل اور مشق، انہیں دونوں چیزوں کے ذریعہ ہم علم وفن کے سفر میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔

گرامر و قواعد کسے کہتے ہیں؟ ان کے فوائد کیا ہیں؟

کسی بھی زبان کو سیکھنے سکھانے میں گرامر وقواعد کا اہم رول ہے۔ سیدھی سی بات ہے کہ جن چیزوں کی مدد سے ہم کسی زبان کو سیکھ سکتے ہیں، اُسےصحیح طور پر بول سکتے ہیں، اس میں لکھ پڑھ سکتے ہیں بس انہیں کو گرامر کہتے ہیں۔ یوں تو گرامر کی بہت سی قسمیں ہیں لیکن ان سب کی اصل اور جڑصرف تین۳ چیزیں ہیں جن کو ہم اردو عربی اور فارسی زبان میں اسم فعل اور حرف کہتے ہیں اور انگریزی زبان میں Letter Verb Noun کے نام سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان تینوں کے علاوہ گرامر کی جتنی بھی قسمیں پائی جاتی ہیں ان کاتعلق کسی نہ کسی اعتبار سے ان تینوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ضرور ہوتا ہے اس لیے کہ انسان جو بھی لفظ اپنی زبان سے بولتا ہے وہ دو طرح کا ہوتا ہے۔ یا تو وہ موضوع ومعنی دار ہوگا یا پھر مہمل وبے معنی ہوگا، اگر وہ مہمل ہے تو گرامر کی اصطلاح میں ہم اسے حرف کہتے ہیں اور اگر وہ موضوع معنی دار ہو یعنی اس لفظ کا کوئی معنی اور مطلب ہو تو وہ بھی دو طرح کا ہوتا ہے۔معنی دار ہونے کے ساتھ ساتھ اس میں کوئی زمانہ (Tense) بھی ہوگا یا نہیں، اگر معنی دار ہونے کے ساتھ ساتھ اس میں کوئی زمانہ بھی ہو تو قواعد کی اصطلاح میں اسے فعل کہتے ہیں، اور اگر اس میں کوئی زمانہ نہ ہو تو اہل قواعد اسے اسم کے نام سے تعبیر کرتے ہیں، پھر انھیں تینوں ہی سے گرامر وقواعد کی ساری قسمیں بیتی ہیں مثلاً اسم سے اسم معرفہ (Proper noune)، اسم نکرہ (Common noun)، اسم ضمیر (Pronoun)، اسم جمع (Collective noun)، اور فعل سے فعل لازم (intransitive verb)، فعل متعدی (Transitive verb)، اسی طرح فعل ماضی (Past verb)،فعل مضارع وفعل حال (Present verb)، فعل مستقبل (Future verb)، فعل امر (Imperative verb)وغیرہ وغیرہ، اور حرف سے حرف جار (Preposition)، حرف عطف (Conjunction)، حرف تعجب (Interjection)وغیرہ، ان سب کے علاوہ گرامر کی اور بھی قسمیں ہیں ان سب کے الگ الگ نام بھی ہیں، ان کو پہچاننے اور ان کو استعمال کرنے کے الگ الگ طریقے ہیں آپ ان سب کو گرامر کی کتابوں سے مراجعت کرسکتے ہیں۔

اُردُو گرامر وقواعد کی ضرورت و اہمیت

کسی بھی زبان کو سیکھنے سکھانے، لکھنے پڑھنے کے لیے قواعد بہت ضروری ہیں۔ گرامر کا زبان کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔ یہ ایک دوسرے سے کبھی بھی علیحدہ نہیں ہوسکتے۔ لکھنے پڑھنے کے میدان میں قواعد وگرامر انسان کے ہاتھ پاؤں اور اس کی آنکھ کی طرح ہیں۔جس طرح ایک انسان بغیر آنکھ کے کچھ دیکھ نہیں سکتا، بغیر ہاتھ کے کوئی چیز پکڑ نہیں سکتا، بغیر پاؤں کے چل نہیں سکتا، ٹھیک اسی طرح ہم بھی لکھنے پڑھنے کے میدان میں گرامر کے بغیر بالکل بے بس ومجبور ہو جائیں گے۔ اس میں ایک قدم بھی چلنا ہمارے لیے مشکل ہوگا۔کسی بھی زبان کی گاڑی گرامر کی پٹری کے بغیر نہیں چل سکتی اس لیے مناسب یہی ہے کہ جس زبان کو ہم سیکھ رہے ہیں اس کی کتابوں (Text books)کو پڑھنے کے ساتھ ساتھ اس زبان کے گرامر سے بھی اچھی خاصی واقفیت ہونی چاہیے یا کم ازکم اتنی واقفیت تو ضرور ہونی چاہئے کہ ہم اس زبان کی کتابوں کو بحسن وخوبی سمجھ سکیں۔ اس زبان کا اپنی مادری زبان میں، یا اپنی مادری زبان کااس زبان میں ترجمہ کرسکیں یا کسی ترجمہ کے متعلق گرامر کی روشنی میں یہ فیصلہ کرسکیں کہ یہ ترجمہ صحیح ہے یا غلط۔ گرامر میں جب تک ہمارے اندر اتنی استعداد وصلاحیت نہ پیدا ہوجائے تب تک ہم کسی بھی زبان کو نہ تو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں اور نہ ہی اس کو لکھ پڑھ سکتے ہیں۔

کسی زبان کو سیکھنے کے لیے جس طرح قواعد ضروری ہیں، اسی طرح پریکٹس اور عملی مشق بھی ضروری ہے۔ مشق کے بغیر کسی بھی زبان میں عبور نہیں حاصل ہو سکتا، اور نہ ہی اس زبان کے قواعدمستحضر رہ سکتے ہیں، آج کے ٹکنالوجی دور نے پریکٹکل اور مشق کی افادیت اور اس کی اہمیت کو اور بھی نمایاں کردیا ہے،فن کمپوٹر ہی کو لے لیجئے آج کے دور میں ایک کامیاب فن مانا جارہا ہے۔ لوگ تیزی سے اس کی طرف سبقت کررہے ہیں۔ اس فن میں بھی اس کے بنیادی اصول وقواعد کے ساتھ ساتھ پریکٹکل ومشق پر بہت زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ اس فن سیکھنے اور سکھانے والوں کے رگ وریشے میں یہ بات رچ بس گئی ہے کہ بغیر پریکٹکل اور مشق کے ہم اس فن پر قابو نہیں پاسکتے۔ تو یہ بات صرف فن کمپوٹر ہی تک محدود نہیں ہے بلکہ دنیا کے تمام علوم وفنون کا یہی حال ہے۔دنیا کا کوئی بھی علم کوئی بھی فن بغیر پریکٹکل اور مشق کے مکمل طور پر نہیں سیکھا جاسکتا۔ اس لے ضروری ہے کہ جن کتابوں کو ہم زبان دانی کی حیثیت سے پڑھ رہیں یا وہ کتابیں جو کسی زبان کے سکھلانے میں ہماری معین ومددگار ثابت ہوں ان کے اسباق کو پڑھنے کے ساتھ ساتھ زبانی وتحریری مشق بھی کریں۔زبانی مشق کا طریقہ یہ ہونا چاہئے کہ سبق کے مضامین میں جو جملے ہیں ان کو مثبت۔ منفی اور سوالیہ جملہ بناکر خود ہی سوال کریں اور خود ہی اس کا جواب بھی دیں یا اپنے کچھ ساتھیوں کو اس کام کے لیے منتخب کرلیں ایک سوال کرے دوسرا جواب دے، مثلاً ہم عربی زبان سیکھ رہے ہیں تو اس کے اسباق کے جملوں کو ھل، متی، ماذا، أ، من وغیرہ لگا کر اس کو سوالیہ جملہ بناکر ایک دوسرے سے آپس میں سوال وجواب کریں۔ اسی طرح انگریزی زبان میں how, which, where, what.وغیرہ لگا کر آپس میں سوال وجواب کریں۔ تحریری مشق کا طریقہ یہ ہے کہ ہمارے اسباق میں جو بھی نئے نئے الفاظ آئیں ان پر دو چار جملے بنانے کا اہتمام ضرور کریں، اسی کے ساتھ ساتھ ہر سبق میں جو بھی اچھی اچھی تعبیرات ہوں کسی چیز کو بیان کرنے کے لیے جو خاص الفاظ ہوں ان پربھی جملے بنانے کا اہتمام کریں۔ اسی طرح سبق میں جس طرح کے جملے ہوں اسی سے ملتے جلتے جملے ہم اپنی ما دری زبان میں بنائیں اور انھیں جملوں کی عربی یا انگریزی بنائیں۔ نیز ایک سبق کے ختم ہونے کے بعد ا س میں جو مضمون ہو ہم اسی جیسا ایک دوسرا مضمون لکھنے کی کوشش کریں۔ مثلاً ہمارے سبق کا مضمون دہلی شہر سے متعلق ہے تو ہم لکھنو بمبئی یا کلکۃ کے متعلق لکھیں اس میں وہی الفاظ اور وہی تعبیرات استعمال کریں جو ہماری کتاب میں دہلی کے بارے میں آئیں ہیں۔ ایسا کرنے سے پریکٹس ومشق کے ساتھ ساتھ ہمارے اندر مضمون نگاری کا ملکہ بھی پیدا ہوتا رہے گا اور ہم بہت جلد ایک اچھے مضمون نگار بھی بن سکتے ہیں۔

گرامر وقواعد کی پریکٹس اور عملی مشق

اسباق کی تمرینات ومشق کے ساتھ ساتھ گرامر وقواعد کی پریکٹس اور عملی مشق بھی ہونی چاہئے۔ بغیر مشق کے گرامر ہمارے ذہن میں محفوظ نہیں رہ سکتے، جس کا لازمی اثر یہ ہو گا کہ ہمارے گرامر کی بنیاد کمزور ہی رہ جائے گی پھر آپ ہی بتائے کہ ہم کسی زبان کو مکمل طور پر کیسے سیکھ سکتے ہیں جب کہ کسی بھی زبان کو سیکھنے کا سب سے اہم ذریعہ گرامر ہی ہیں، اس لیے اسباق کی تمرینات کے ساتھ ساتھ گرامر کی تمرین اور اس کا اجراء بھی بہت ضروری ہے۔ گرامر کے اجراء کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے ہم گرامر کی کتاب سے گرامر کے کسی قاعدہ کو لیں،اس کو اچھی طرح سمجھ لیں، اور اس میں دی گئی مثالوں کو ذہن نشیں کرلیں اس کے بعد اپنی کتاب کا کوئی جملہ لے کر اپنے پڑھے ہوئے قاعدہ پر منطبق کریں یہ دھیان رکھتے ہوئے کہ ہمارا پڑھا ہوا قاعدہ اس جملہ کے کس لفظ پر منطبق ہو رہاہے، پھر اسی قاعدہ کو مد نظر رکھتے ہوئے، زبانی وتحریر دونوں اعتبار سے جتنے بھی جملے بناسکیں بنائیں جب ہم اس طرح سے مشق کرلیں گے تو ہمارا پڑھا ہواقاعدہ ان شاء اللہ کبھی بھی نہیں بھولے گا، مثلا ہم نے گرامر کی کتاب سے ایک قاعدہ پڑھا کہ اسم (Noun)کی دو قسمیں ہیں اسم معر فہ (Propernoun) اور اسم نکرہ (Commonnoun) اسم معرفہ کسی خاص شخص جگہ یا چیز کو کہتے ہیں، اور اسم نکرہ کسی غیرمتعین چیز یا جگہ کو کہتے ہیں اگر ہم اتناہی جان کر چھوڑ دیں تو عین ممکن ہے کہ اس قاعدہ کو بھول جائیں اس کو محفوظ نہ رکھ سکیں، لیکن جب اس قاعدہ کوہم نے اپنے جملوں میں استعمال کرلیا

مثلاً اسم معرفہ کے متعلق اس طرح کا جملہ بنالیا:
دہلی بہت بڑا شہر ہے۔
دہلی مدینة کبیرۃ۔
.Delhi is a very big city

کریم اچھا لڑکا ہے۔
کریم ولد جید۔
Karim is a good boy.

ہمالیہ بہت بڑا پہاڑ ہے۔
ہماله جبل کبیر۔
.The Himaliya is the biggest mountain

اس طرح اسم نکرہ کے متعلق جملہ بنا لیا:
حامد کے والد ایک ٹیچر ہیں۔
والد حامد مدرس۔
.Hamid s’ father is a teacher

لکھنؤ ایک بڑا شہرہے۔
لکناؤ مدینة کبیرۃ۔
.Lucknow is a big city

کوّایک پر ندہ ہے۔
الغراب طائر۔
Crow is a bird.

اس کے بعد ہم اپنے پڑھے ہوئے قاعدہ کو آسانی کے ساتھ نہیں بھول سکتے۔ اسی طرح ہم گرامر کا جو بھی قاعدہ پڑھیں اس پر دو چار دس جملے ضرور بنا لیا کریں اس سے ہم کو دو طرح کے فائدئے محسوس ہونگے ایک تویہ کہ گرامر میں ہماری استعداد پختہ ہوتی جائے گی،دوسرے یہ کہ جس زبان کو ہم سیکھ رہے اس کی نوک پلک بھی درست ہو جائے گی، اس سلسلہ میں اساتذہ کی رہنمائی بھی خاص اہمیت کی حامل ہے۔

اگر ہمارے اندرکسی چیز کے سیکھنے کا جذبہ ہے،ہم دنیا کا کوئی بھی علم وفن یا دنیا کی کسی بھی زبان کو سیکھنا جاہتے ہیں تو ہمیں دو چیزوں پر خاص طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہوگی،نمبر (۱) اس علم وفن کے قواعد واصول، نمبر (۲) پریکٹکل اورعملی مشق، انہیں دونوں چیزوں کے ذریعہ ہی ہم کسی زبان یا کسی علم وفن کو مکمل طور پر حاصل کرسکتے ہیں ان دونوں کے بغیر کسی زبان کو سیکھنا اگر محال نہیں تو نا ممکن ضرور ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے