انتخابی منظر نامہ | Election Scenario
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
ملک کی پانچ ریاستوں اتر پردیش، پنجاب، اترا کھند، گوا اور منی پور میں رواں ماہ میں انتخابات ہونے ہیں، پنجاب کو چھوڑ کر سبھی ریاستوں میں بھاجپا حکومت میں ہے، اس کی جوڑ توڑ کے طریقۂ کارنے اسے اقتدار تک پہونچانے میں نمایاں رول ادا کیا ہے، اس وقت سب کی نظریں اتر پردیش پر لگی ہوئی ہیں، کیوں کہ یہ غلط بات لوگوں میں مشہور ہے کہ مرکزی حکومت کے اقتدار کا راستہ اتر پردیش سے گذرتا ہے اور جو پارٹی یہاں حکمراں ہوتی ہے وہی دہلی میں بر سر اقتدار آتی ہے،حالاں کہ اس کی حیثیت غلط فہمی سے زیادہ کچھ نہیں، اتر پردیش میں ملائم سنگھ، اکھلیش یادو، مایا وتی کی حکومت رہی لیکن مرکز میں بی جے پی اور اس کی حلیف جماعتیں راج کرتی رہیں،ا لبتہ یہ بات سچ ہے کہ یہاں پارلیامنٹ کی سیٹیں زیادہ ہیں اور اگر عوام مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے انتخابات میں الگ الگ ترجیحات کو سامنے نہ رکھے تو ارکان کی مجموعی تعداد پر اس کا اثر پڑتا ہے۔
کانگریس اور مایا وتی نے الگ الگ تال ٹھوک رکھا ہے
اس وقت اتر پردیش میں کانگریس اور مایا وتی نے الگ الگ تال ٹھوک رکھا ہے، بھاجپا اور سماجوادی پارٹی کی بنیاد مضبوط ہے اور اسد الدین اویسی کی ایم آئی ایم بھی بہت سارے حلقوں سے قسمت آزمائی کر رہی ہے، بظاہر مقابلہ بھاجپا اور سماجوادی پارٹی کے درمیان ہے، چند سیٹیں ایم آئی ایم کو بھی آجائے تو حیرت نہیں ہونی چاہیے، کانگریس میں پرینکا گاندھی وہاں سے وزیر اعلیٰ کا چہرہ ہیں اور ان کی محنت بھی اچھی ہے، انہیں اپنے بھائی راہل گاندھی کی بھی حمایت حاصل ہے، لڑکی ہوں، لڑ سکتی ہوں کہ پرینکا گاندھی کے نعرے نے خواتین میں ایک نیا جوش پیدا کیا ہے، بھاجپا کو اندرونی خلفشار کا سامنا ہے اور اس کے کئی قدآور نیتا سماج وادی میں جا چکے ہیں، اس بھگدڑ کا فائدہ بھی سماج وادی پارٹی کو دکھتا نظر آ رہا ہے ۔
پنجاب میں کانگریس کی حکومت ہے
پنجاب میں کانگریس کی حکومت ہے، موجودہ وزیر اعلیٰ چنئی کو ہی کانگریس نے اگلی حکومت کا سر براہ متعین کیا ہے، وہاں پارٹی کی جیت کے آثار واضح تھے، کسانوں کی تحریک میں پنجاب کا جو حصہ رہا ہے اس کا فائدہ بھی اس کو ملنا طے تھا، لیکن نوجوت سنگھ سدھو نے اپنی پارٹی کے خلاف جو محاذ کھول رکھا ہے،وزیر اعلیٰ کی کرسی تک نہیںپہونچنے کا جو انہیں صدمہ ہے اس سے پارٹی کمزور ہو رہی ہے، یہاں بھاجپا، اکالی دل بہوجن سماج پارٹی اور دو علاقائی پارٹیوں کے ساتھ عام آدمی پارٹی بھی قسمت آزما رہی ہے، سیاسی تجزیہ نگاروں کی رائے ہے کہ یہاں عام آمی پارٹی کی زمین بھی مضبوط ہے، اس لئے وہ کانگریس کو ٹکر دے سکتی ہے، بھاجپا اور دیگر پارٹیوں کی یہاں دال گلتی نظر نہیں آتی، سدھو سیاسی دانشمندی سے کام لیں تو یہاں پارٹی دوبارہ برسراقتدار آنے کے امکانات سے انکار نہیں کہا جاسکتا۔
اتراکھنڈ میں بھاجپا کی حکومت ہے
اتراکھنڈ میں بھاجپا کی حکومت ہے، لیکن بھاجپا کی قیادت اس سے مطمئن نہیں ہے، کم وقفہ ہیں، دو وزیر اعلیٰ یہاں برلے جاچکے ہیں، یہاں بھاجپا سے اقتدار صرف کانگریس ہی چھین سکتی تھی، لیکن عام آدمی پارٹی کے داخل ہو جانے کی وجہ سے بی جے پی کو فائدہ پہونچنے کا امکان ہے۔اور ہوسکتا ہے کہ یہاں مقابلہ سہ رخی ہوجائے۔
گوا میں بھاجپا کی حکومت
گوا میں بھاجپا کی حکومت گورنر کی مہربانی سے بن گئی تھی، یہاں اسمبلی کی صرف چالیس سیٹ ہے، ان سیٹوں سے زیادہ یہاں قومی اور علاقائی سیاسی پارٹیاں ہیں، بھاجپااور عام آدمی پارٹی کے علاوہ یہاں شیوشینا اور شردپوار کی ایس سی پی یہاں مشترکہ طورپر انتخاب لڑ رہی ہے، یہاں مقابلہ کثیر جماعتوں کے درمیان ہے، ترنمول کانگریس نے بھی یہاں امیدوار کھڑے کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اس معابلہ میں کانگریس کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے کیوںکہ یہاں کی روایت فرقہ وارانہ بنیادوں پر رائے دینے کی نہیں رہی ہے، یہاں رام مندر، جے شری رام اور گئو ماتا کے نعرے انتخابی دنگل میں ہلچل نہیں پیدا کرتے ہیں۔
منی پور بھی بھگوا دھاریوں کے ہاتھ میں
منی پور بھی بھگوا دھاریوں کے ہاتھ میں ہے، یہاں مسلمانوں اور مساجد کے خلاف حالیہ دنوں میں تحریک چلائی گئی تھی، اس کے اثرات یہاں موجود ہیں، یہاں مسلمانوں کی آبادی اس قدر نہیں ہے کہ وہ ارکان اسمبلی کے انتخاب پر اثر انداز ہو سکیں، بھاجپا کو اس کا فائدہ مل سکتا ہے۔انتخاب سے قبل ہی اکزٹ پول ٹی وی چینلوں پر آنے لگے ہیں، لیکن ان پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا، کیوں کہ میڈیا بکی ہوئی ہے اور فتح وشکست کے اس کے اعداد وشمار ماضی میں غلط ثابت ہوتے رہے ہیں، اس لیے کسی بھی تجزیہ کوحتمی اور آخری نہیں کہا جا سکتا، آخری مرحلہ میں رائے دہندگان کس نعرے سے متاثر ہوں گے، کہنا مشکل ہے، یہاں انتخابات میں ذات پات کا رول بھی نتیجہ خیزہوتا ہے، مسلمان کم ہوں یا زیادہ، ہمارا مشورہ ہے کہ اپنی آرا کا سوچ، سمجھ اور متحد ہو کر استعمال کریں تو ان کی قوت وطاقت محسوس کی جاسکتی ہے، ورنہ بکھرے ہوئے تاروں سے کیا بات بنے ۔
0 تبصرے