مولانا عتیق الرحمن سنبھلی : ماہنامہ الفرقان اور ندائے ملت کے سابق مدیر
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ(9431003131)
ماہنامہ الفرقان اور ندائے ملت کے سابق مدیر، انڈین مسلم فیڈریشن یو کے کے سرگرم رکن، اسلامک ڈیفینس لیگ یوکے کے بانی، حضرت مولانا عتیق الرحمن سنبھلی بن حضرت مولانا منظور احمد نعمانی بن صوفی احمد حسین (م رمضان ۱۳۶۸ھ) کا پنچانوے سال کی عمر میں دہلی میں مقیم ان کے صاحب زادہ مولانا عبید الرحمن سنبھلی کے گھر انتقال ہو گیا، انہوں نے ۲۳؍ جنوری ۲۰۲۲ء کو عشاء کی نماز سے قبل آٹھ بج کر دس منٹ پر آخری سانس لی، وہ کافی عرصہ سے بیمار چل رہے تھے، جنازہ ان کے آبائی شہرسنبھل لے جایا گیا، جہاں بعد نماز ظہر اگلے دن مفتی محمد سلمان منصور پوری استاذ حدیث مدرسہ شاہی مراد آباد نے جنازہ کی نماز مدرسہ انجمن سنبھل میں پڑھائی، اور ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں مقامی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی، پس ماندگان میں دو لڑکے اور دو لڑکیوں کو چھوڑا اہلیہ پہلے انتقال کر چکی تھیں۔
مولانا عتیق الرحمن سنبھلی کی پیدائش
حضرت مولانا عتیق الرحمن سنبھلی نے ۱۵؍ مارچ ۱۹۲۶ء کو اتر پردیش کے قصبہ سنبھل میں آنکھیں کھولیں وہ مولانا منظور نعمانی علیہ الرحمہ کے سب سے بڑے فرزند تھے، ابتدائی تعلیم کے حصول کے بعد انہوں نے دار العلوم دیو بند کا رخ کیا، وہاں وہ حضرت مولانا محمد سالم قاسمی اور حضرت مولانا محمد اسعد مدنی ؒ کے ہم درس رہے۔ ۱۹۵۰ء میں دار العلوم سے فراغت کے بعد اپنے والد کے مشہور رسالہ الفرقان سے وابستہ ہوئے، ۱۹۵۳ء میں وہ الفرقان کے مدیر بنا دیے گیے، انہوں نے مضبوط انداز میں ملت اسلامیہ کا موقف الفرقان میں پیش کیا، یہ موقف بے باکانہ ہو اکرتا تھا، جس کی وجہ سے الفرقان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا، ان کے الفرقان کے اداریوں کا مجموعہ’’ راستے کی تلاش‘‘ کے نام سے چھپ چکا ہے جو اہل علم میں مقبول ہے۔ ۱۹۶۲ء میں پندرہ روزہ ندائے ملت کا آغاز ہوا تو مولانا اپنے بھائی حفیظ نعمانی کے ساتھ اس کے دست وبازو بن گیے، ندائے ملت کے بے باکانہ اداریہ نے حکومت کے ایوانوں میں زلزلہ برپا کر دیا، نتیجہ یہ ہوا کہ حفیظ نعمانی نے نو ماہ کے لیے قید وبند کی صعوبت برداشت کی خود مولانا ڈیفنس آف انڈیا رول کے تحت چھ مقدمات میں ماخوذ ہوئے۔
مولانا بغرض علاج لندن گیے اور وہیں کے ہو کر رہ گیے
مولانا مرحوم مسلم مجلس مشاورت کے بانیوں میں سے ایک تھے، مسلسل تحریکی زندگی کی وجہ سے ان کی صحت خراب رہنے لگی، ۱۹۶۷ء میں مولانا بغرض علاج لندن گیے اور پھر وہیں کے ہو کر رہ گیے، سال میں ایک بار ہندوستان آنا ہوتا تھا، لیکن وہ مہمان بن کر ہی آتے تھے، لندن منتقلی کے بعد ان کا میدان عمل برطانیہ ہو گیا، او روہاں انہوں نے مختلف تحریکات میں بھر پور حصہ لیا، انہوں نے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اسلامک ڈیفنس لیگ کی بنیاد ڈالی، انڈین مسلم فیڈریشن لندن کے ذریعہ ہندوستانی مسلمانوں کو ہندوبیرون ہند میں مؤثر بنانے کے لیے جم کر کام کیا، ان کے مضامین فیڈریشن کے خبرنامہ ’’دی انڈین مسلم‘‘ میں اردو سے انگریزی ترجمہ کرکے چھپا کرتے تھے۔
مولانا عظیم صحافی تھے
مولانا عظیم صحافی تھے، ان کی انگلی زمانہ کے نبض پر ہوا کرتی تھی، وہ سیاسی اتار چڑھاؤ اور رست وخیز پر گہری نظر رکھتے تھے، اس لیے ان کے اداریے اقدامات کی نشان دہی بھی کرتے تھے، ان کے اداریہ نویسی کی خصوصیات کو ان کے اداریہ کے مجموعے ’’راستے کی تلاش ‘‘ میں دیکھا جا سکتا ہے، ان کے علاوہ جو کتابیں ان کی مقبول ہوئیں اور اہل علم کی نظر میں مباحثہ کا موضوع بنیں ان میں انقلاب ایران اور اس کی اسلامیت، واقعۂ کربلا اور اس کا تاریخی پس منظر، طلاق ثلاثہ اور حافظ ابن القیم، مجھے ہے حکم اذاں خاص طور پر قابل ذکر ہیں، ان کی آخری تصنیف محفل قرآن ہے، جو چھ جلدوں میں ہے اور تفسیر قران ہے، یہ تفسیر عصر حاضر کو سامنے رکھ کر لکھی گئی ہے، اس لیے مشکل مقامات کے حل کے ساتھ قرآن کریم پر کیے جانے والے اعتراضات کا منطقی اور مسکت جواب بھی دیا گیاہے، یہ تفسیر اہل علم کے لیے بہترین تحفہ اور نئی نسل کے لیے ان کے شکوک وشبہات دور کرنے کا بہترین ذریعہ ہے، مولانا کا جو اسلوب او ر تحقیق میں جو جزم واحتیاط تھا اس کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت مولانا مفتی عتیق احمد بستوی استاذ دار العلوم نے بجا لکھا ہے کہ
حضرت مولانا عتیق الرحمن سنبھلی زود نویس نہیں تھے
’’ حضرت مولانا عتیق الرحمن سنبھلی زود نویس نہیں تھے، اللہ نے ان کو جو طویل عمر عطا فرمائی اس کے اعتبار سے ان کی کتابیں اور ان کی تحریریں کم ہیں، لیکن وہ جو کچھ تحریر فرماتے تھے، طویل غور وفکر، گہرے مطالعہ اور وسیع تجربات کا خلاصہ ہوتا تھا، ہر لفظ بہت ناپ تول کر لکھتے تھے، ان کا ہر جملہ اور فقرہ بہت محکم ہوتا تھا، ان کی تحریریں لفاظی عبارت آرائی سے پاک ہوتی تھی، ان کا اسلوب نگارش سشتہ، سادہ اور بڑا عقلی ومنطقی ہوا کرتا تھا۔ آگے لکھتے ہیں: مولانا عتیق الرحمن سنبھلی کا مخصوص طرز نگارش ہے، اس میں سادگی اورپرکاری کے ساتھ معقولیت کا حسین امتزاج ہے، مولانا سنبھلی کی کوئی بھی تحریر سرسری اور سطحی نہیں ہوتی، بہت غور وفکر کے بعد موضوع میں ڈوب کر لکھتے ہیں۔(مولانا عتیق الرحمن سنبھلی- نقوش وتاثرات)
یہ عجیب اتفاق ہے کہ مولانا سے میری کوئی ملاقات ہندوستان میں نہیں ہوئی، اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں جب میرا آنا جانا لندن ہونے لگا تو کئی ملاقاتیں مختلف محفلوں میں وہیں ہوئیں، ایک دو دفعہ گھر بھی جانا یاد آتا ہے، میںنے ان ملاقاتوں میں مولانا کو متواضع، خاموش طبع اور غیر ضروری باتوں سے پرہیز کرنے والا پایا، ممکن ہے دوستوں کی مجلس میں گھل مل جاتے رہے ہوں، لیکن میرے ساتھ ایسا کچھ نہیں تھا، میں خود بھی بڑوں کی مجلس میں خاموش ہی رہا کرتا ہوں، مولانا بھی خاموش طبع تھے، ایسے میں گفتگو سے زیادہ اس ملاقات کا مطلب ایک دوسرے کو دیکھنا ہی ہوا کرتا تھا، کچھ عمر کا تفاوت بھی تھا جو بے تکلف ہونے سے ہر ملاقات میں مانع ہی رہا۔ اللہ رب العزت ان کی مغفرت فرمائے، پس ماندگان کو صبر جمیل دے اور امت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
0 تبصرے