Ticker

6/recent/ticker-posts

سائنس کے فوائد اور نقصانات مضمون | Science Ke Fayde Aur Nuksan

سائنس کے فوائد اور نقصانات | Science Ke Fayde Aur Nuksan

موجودہ دور سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ دنیا کے ہر حصے میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے چھوٹے بڑے کرشمات دیکھنے کو مل رہے ہیں۔سائنسی ایجادات نے زندگی کو بہت آسان بنا دیا ہے۔ایسا لگتا ہے جیسی ساری دنیا ہماری مٹھی میں آ گئی ہو۔

پہلے لوگ ننگے گھومتے تھے۔پھل کھاتے پیڑ پر یا غاروں میں رہتے تھے۔پھر لوگوں نے اپنے جسم کو چھپانے کے لئے پتوں کا استعمال کیا۔دھیرے دھیرے کپڑوں کی بنائی شروع ہوئی۔آگ کی ایجاد ہوئی۔پانی کے استعمال کی جانکاری ملی۔باغبانی شروع ہوئی فصل لگایا جانےلگا تو گھر بنانے کی سمجھ آئی۔تاکہ وہاں رک کر فصلوں کی دیکھ بھال کر سکے۔پھر انسان نے سوچنا شروع کردیا۔لوگوں کے ذہن میں یہ بات سما گئی کہ ہمیں مسلسل جدوجہد کرتے رہنا ہے۔تاکہ نئی نئی چیزیں تیار کی جاسکے۔ زندگی آگے بڑھتی گئی اور لوگ ترقی کرتے گئے۔


انسانی ذہن فکر مند رہنے لگی۔کامیابی ملتی گئی اور لوگوں کی چاہت بڑھتی گئی۔لوگوں نے معدنیات کو زمین کے اندر سے کھود نکالا۔زمین کے اندر سے نکالی گئی چیزوں سے انسان کی بہت ساری ضرورتیں پوری ہونے لگیں۔لہذا لوگ اپنی عقل و ہنر سے نئی نئی حیرت انگیز چیزیں بنانا شروع کر دیا۔آمد و رفت کی گاڑیاں تیارکرنے کے بعد انہیں دوڑانے کی ضرورت پڑی۔جنگلوں اور پہاڑوں کو کاٹ کر سڑکیں بنوائی گئیں ریل کی پٹریاں بچھائی گئیں۔کل کارخانے لگائے گئے۔جنگلوں کو کاٹ کر بڑی بڑی عمارتیں بنوائی گئیں۔زمانہ آگے بڑھتا گیا انسان ترقی کرتےگئے۔ہوائی جہاز تیار کر ہوائی جہاز کو آسمان میں پرواز کرنا شروع کر دیا۔لوگ چاند پر گئے سیاروں کا پتہ لگایا۔

کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ اسلام اور علمائے دین سائنس اور ٹیکنالوجی کے خلاف ہیں۔غلط کہتے ہیں لوگ۔۔دوائیوں کی ایجاد نے بڑے سے بڑے امراض کو اپنی گرفت میں لینا شروع کر دیا۔لوگ بڑی سے بڑی جان لیوا بیماریوں سے ٹھیک ہو جاتے ہیں۔جب کہ پہلے زمانے میں معمولی سی بیماری لوگوں کی جان کی دشمن بن جاتی تھی۔دوائیاں سائنس کی ہی دین ہیں۔جن دوانیوں سے بیماریاں دور ہوتی ہیں انہیں ہم غلط کیسے قرار دے سکتے ہیں۔مذہب اس بات کی تعلیم نہیں دیتا کہ ہم جن چیزوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں ان کی مخالفت کریں۔ایک زمانہ تھا جب اسلام پوری دنیا میں سائنس میں سب سے آگے تھا۔سائنس کی کئی چیزیں مسلمانوں کی ہی دین ہیں۔افسوس۔۔۔مسلمان اپنی سائنسی اور علمی روش بھول گئے۔اور وہ مغربی ممالک سے پیچھے رہ گئے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان دوبارہ سائنسی علوم و فنون پر توجہ دیں۔ہم عبدالکلام صاحب کے سائنسی کارنامے کو کبھی فراموش نہیں کر سکتے ہیں۔

سائنس بھی علم کی ایک شاخ ہے اس کے بہت سارے فوائد ہیں

سائنس بھی علم کی ایک شاخ ہے۔ اس کے بہت سارے فوائد ہیں۔ یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ ان نعمتوں کو کس طرح استعمال کرے۔اگر صحیح استعمال کرتا ہے تو فائدہ ہی فائدہ ہے اور اگر غلط استعمال کرتا ہے تو خود نقصان اٹھاتا ہے۔

سائنسی ایجادا نے بڑے چھوٹے امیرو غریب ہر کسی کی زندگی کو آسان بنا دیا۔سائنسی ایجادات کے نتائج ہے کہ ہم دنوں کا سفر گھنٹوں میں اور گھنٹوں کا سفر منٹوں میں طے کر لیتے ہیں۔کسی بھی جگہ کی خبریں سن لیتے ہیں۔اپنے ملک کا سامان دوسرے ملک میں پہنچا سکتے ہیں دوسرے ملک کا سامان اپنے ملک میں لا سکتے ہیں۔سائنسی ایجادات نے ہمیں بہت کچھ دیا ہے لیکن معاشرے میں جو خرابیاں آرہی ہے اس پر بھی دھیان دینا ضروری ہے۔دنیا میں ہر چیز کے دو پہلو ہوتے ہیں۔اچھے اور برے۔۔۔سائنسدانوں نے قدرت کے نظام میں چھیڑ چھاڑ کی ہے اس سےفائدہ بھی ہوتا اور نقصانات بھی ہوتے ہیں۔

سائنس نے ہماری آنکھوں کو چکا چوند ضرور کر دیا ہے لیکن ہم روحانیت سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ آج انسانوں کی اہمیت ہی کیا ہے۔۔۔۔۔؟

سائنسی ایجادات اور اس کی ترقی

سائنسی ایجادات اور اس کی ترقیوں کی وجہ سے انسانی معاشرے میں بہت ساری خرابیاں آگئی ہیں۔ ان میں ایک اخلاقی گراوٹ ہے۔

وقت کی اہمیت کا کسی کو احساس نہیں۔موبائل نے چھوٹی بڑی خوشیاں چھین لی ہیں۔ہر کوئی موبائل کی دنیا میں مگن۔۔۔۔سائنسی ایجاد کی وجہ سے دنیا سمٹ کر رہ گئی ہے۔لیکن لوگ اپنوں سے بہت دور چلے گئے ہیں۔

آج ہم اپنے کام میں اس قدر محو ہیں کہ ہمیں وقت کا بھی احساس نہیں ہوتا۔گھڑی دو گھڑی کسی سے بیٹھ کر باتیں نہیں کر سکتے ہیں۔شہر کی بھیڑ بھاڑ چینخ و پکار والی زندگی میں سکون کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔کہاں گئے وہ سائے والے درخت جس کے نیچے کھڑے ہو کر ہم ایک دوسرے سے ملتے تھے۔ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں کھاتے تھے۔لوگوں کی خیریت لیتے تھے۔

ہر چیز میں ملاوٹ ہے۔پہلے موسم کے اعتبار سے پھل، پھول اور سبزیاں اگائے جاتے تھے۔اب وہ بات نہیں رہی۔سائنسی ترقیات کا اثر بہت ساری چیزوں پر پڑا ہے۔ اگر ہم کھانے کی بات کریں تو کچھ چیزیں ایسی ہیں جو سالوں بھر کھانے کو ملتی ہیں۔لیکن پہلے والا ذائقہ نہیں ہے۔ لوگ بیماریوں کے شکار ہو رہے ہیں لوگوں کی عمر گھٹتی جا رہی ہے۔

موبائل فون نے خط لکھنے کا حق چھین لیا

موبائل فون نے خط لکھنے کا حق چھین لیا ہے۔ ایک دوسرے سے ملنےکا کہیں آنے جانے کی خواہش ہی کیا ہوگی۔فون کے ذریعے ہر پل کی خبر مل جاتی ہے۔۔اب لوگ کتابوں کا مطالعہ نہیں کرتے ہیں۔ ٹیلی ویژن پر چلتی پھرتی تصویریں دیکھنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ لوگ دین سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔انٹرنیٹ اور موبائل فون کے ذریعے بچے پڑھائی کرتے ہیں۔اساتذہ کا خوف جو بچوں کے دلوں میں رہتا تھا وہ اب نہیں رہا۔طالب علم کو تہزیب و تمدن، اچھے اخلاق و عادات اور مذہب اور اس کے احکام کو سمجھانے والا کوئی نہیں ہے۔

شہر میں بڑے بڑے کل کارخانے ہیں۔ان کل کارخانوں سے نکلنے والے دھوئیں، موٹر گاڑیوں سے نکلنے والے دھوئیں کا آثر ہماری صحت پر پڑتا ہے۔ شہر کی آبادی بڑھتی ہی جا رہی ہے۔جیسے جیسے آبادی بڑھ رہی ہے لوگوں کی ضروریات بھی بڑھتی جا رہی ہیں۔شہر کی آب و ہوا خراب ہوتی جارہی ہے۔پیڑ پودے نہیں کے برابر ہیں۔جبکہ پیڑ پودے ہمارے لئے بہت ضروری ہیں۔آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پیڑ پودے ہوا کی گندگی کو اپنے اندر جذب کر لیتے ہیں۔ہوا میں گندگی کاربن ڈائی آکسائیڈ، سلفر ڈائی آکسائیڈ اور نائٹروجن آکسائیڈ کے بڑھنے سے ہوتی ہے گاؤں میں ان چیزوں کا خطرہ نہیں ہوتا۔شہر کے بنسبت گاؤں کے حالات بہتر ہوتے ہیں۔کیوں کہ گاؤں میں صاف ستھری ہوا ئیں ملتی ہیں۔۔گاؤں میں ڈھیر سارے پیڑ پودے ہوتے ہیں پیڑ پودے ہوا کی گندگی کو اپنے اندر جذب کر لیتے ہیں۔ یہ صرف جذب ہی نہیں کرتے بلکہ آکسیجن کا تناسب بھی بڑھا سکتے ہیں کیونکہ پودے اپنی غذا بنانے کے لئے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو استعمال کرتے ہیں اور آکسیجن کو خارج کرنے ہیں۔اتنا سب کچھ جانتے ہوئے بھی شہر کے لوگ پیڑ نہیں لگاتے ہیں۔شہر کے لوگ پیڑ پودے کو جنگل سمجھ کر کاٹ دیتے ہیں اور اس جگہ پر بڑی بڑی عمارتیں کھڑی کر دیتے ہیں۔ کل کارخانے لگاتے ہیں۔پیڑوں کو کاٹنا کہاں کی عقلمندی ہے۔ شہر والے بڑی شان سے کہتے ہیں جل ہی جیون ہیں لیکن جب تک پیڑ پودے نہیں رہیں گے پانی کہاں سے آئے گا۔جنگلوں سے بارش ہوتی ہے۔اور اگر بارش نہیں ہوگی تو ہریالی کہاں سے آئے گی۔ فصل کیسے اگائے جائیں گے۔ بہاروں کو کاٹا جارہا ہے ریل کی پٹریاں بچھائی جا رہی ہیں۔کل کار خانے سے زہریلی گیسیں نکلتیں ہیں اور وہی گیس ہمارے پھیپھڑے کے اندر جاتی ہے۔ اور لوگ طرح طرح کی بیماریوں کے شکار ہو رہے ہیں۔بڑھتی ہؤی آبادی بھی ایک بڑا مسءلہ ہے۔اس پر بھی روک لگانے چاہیے۔

گزشتہ تیس چالیس سالوں میں گلوبل وارمنگ کا مسئلہ پیدا ہوتا جا رہا ہے۔اس کی خاص وجہ ہے درجہ حرارت کا دھیرے دھیرے آگے بڑھنا۔کل کارخانوں اور موٹر گاڑیوں کے اضافے اور جنگلوں کی بے تحاشہ کٹنے سےکئی مسئلے سامنے آ رہے ہیں۔زمین کے درجہ حرارت بڑھنے سے سمندری برف کے ٹکڑے تیزی سے پگھلنے لگے ہیں۔کءی جزیروں کے ڈوب جانے کا اندیشہ ہے۔دنیا میں کچھ سرد ممالک ایسے بھی ہیں جہاں کافی گرمی پڑنے لگی ہے۔بہت سارے چرند و پرندے پیڑ پودے دنیا سے ختم ہوتے جا رہے ہیں۔طرح طرح کے جراثیم اور وائرس تیزی سے پھیلنے لگے ہیں۔کورونا وائرس اس کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ اس وبا نے پوری دنیا کو درہم برہم کر دیا۔ دنیا میں کئی طرح کی جان لیوا بیماریاں پیدا ہوگئی ہیں۔بے وقت طوفان آرہا ہے زلزلہ ہو رہا ہے۔سیلاب،۔۔۔گلوبل وارمنگ سے بچنے کے لیے ہمیں مسلسل کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔اور یہ صرف ایک ملک کے لوگوں کا فرض نہیں۔ دنیا کے تمام ممالک کے لوگوں کو آگے بڑھنا ہوگا۔اس بارے میں گہرائی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ہمیں چاہیے کہ ہم ان مسائل کو دور کرن
لے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائیں۔
Dr .Yasmin Akhtar
Lecturer
S.K Mahila College Begusara
Bihar
Mobile No. 62 9906 2182

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے