Ticker

6/recent/ticker-posts

قلم کی طاقت و قوت اور اس کی تاثیر : قلم کی طاقت پر مضمون

قلم کی طاقت و قوت اور اس کی تاثیر : قلم کی طاقت پر مضمون


محمد قمر الزماں ندوی

قلم ✒ کی طاقت اور اس کی تاثیر کا دنیا نے اعتراف کیا ہے، اس کے ذریعے انسانوں نے تخت و تاج کو پلٹا ہے، حکومت و اقتدار اور سلطنت و ریاست کو حاصل کیا ہے، مخالف طاقتوں کو زیر و زبر کیا ہے، غلامی کو آزادی میں بدلا ہے، مظلوموں اور فریاد رسوں کو حقوق و انصاف دلایا ہے، بے راہ اور گمراہ کو راہ حق کی راہ نمائی کی ہے اور شر و فتن کے ماحول کو خیر و نیکی کے ماحول میں بدلا ہے۔

یقینا قلم ✒ علم و آگہی کا وسیلہ ہے، اس کی شہادت خود قرآن پاک نے دی ہے، بلکہ رب کائنات نے قلم کی قسم کھا کر اس کی عظمت و اہمیت کو لازوال کردیا ہے۔ اہل عرب کہتے ہیں کہ عقول الرجال فی اطراف اقلامھا، یعنی نوک قلم ہی لوگوں کی عقلوں کا پتہ دیتی ہے۔ اور یہ کہ۔،فی القلم حکمتان، بلاغة المنطق، و جلالة الصمت

یعنی قلم کی دو حکیمانہ شانیں ہیں، ایک تعبیر کی بلاغت، دوسری طرف خاموشی کا وقار۔ چنانچہ بظاہر خاموش رہ کر ہی قلم بلاغت کے موتی بکھیرتا اور فصاحت کے جادو جگاتا ہے۔


قلم کا استعمال آسمان پر بھی ہوتا ہے اور زمین میں بھی

قلم کا استعمال آسمان پر بھی ہوتا ہے اور زمین میں بھی، بلکہ زمین میں جوکچھ ہوتا ہے اس کی منصوبہ بندی بھی آسمان میں ہی ہوتی ہے۔

انسان کی ہدایت کو کاغذ و قلم سے جوڑنے کے لیے، سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی طرف سے، اقرء و ربک الاکرم الذی علم بالقلم علم الانسان مالم یعلم، کا حکم ہوا، یعنی پڑھو تمہارا رب بڑا کریم ہے، جس نے قلم کے ذریعہ علم سکھایا۔

اس امت کے لیے تعلیم بالقلم اللہ کی جانب سے ایک عظیم نعمت اور احسان ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے انبیاء کرام نے جو تعلیم دی وہ زبانی تھی جس کو محفوظ رکھنا مشکل تھا، اس لیے وہ تعلیم دیرپا نہیں رہ پاتی، بہت جلد منحرف ہوجاتی، یا اس پر نسیان کا پردہ پڑ جاتا۔ اللہ تعالیٰ نے دین کو محفوظ رکھنے کے لیے قلم اور تحریر کا طریقہ سکھایا۔ ایک صاحب قلم کی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ وہ اپنی تحریروں میں اعتدال اور عدل و انصاف کا دامن نہ چھوڑے، کسی قوم اور جماعت سے دشمنی ان کو انصاف اور راہ اعتدال سے نہ ہٹنے دے ہر حال میں عدل و انصاف سے کام لے۔


تعمیری ادب میں قلم کی شان اور بان اور نکھر جاتی ہے

تعمیری ادب میں قلم کی شان اور بان اور نکھر جاتی ہے اور قلم کے نقوش میں اگر خون جگر بھی شامل ہو تو وہ دو آتشہ بن جاتے ہیں، جو لوگ ادب برائے زندگی کے حامل ہوتے ہیں تعمیری اور فکری ادب کے لیے کام کرتے ہیں، ان کی تحریروں میں تاثیر زیادہ پائی جاتی ہے۔

لیکن افسوس کہ دنیا کے ادیبوں، شاعروں اور قلمکاروں میں کم لوگ ہیں جو قلم کی حقیقت اور عظمت کا صحیح ادراک کرسکے، ورنہ زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو زبان و قلم دونوں کے صحیح استعمال سے محروم رہے، وہ ادیب کہلانے کے باوجود علم و ادب کی بیخ کنی کرتے رہے اور قلم رکھتے ہوئے بھی قلم کی حرمت کو انہوں نے پامال کیا، بلکہ روشن خیالی اور ترقی کے نام پر اباحیت کو فروغ دیا، معاشرے کو خراب کیا، اخلاقی انارکی کو ہوا دی، اور اپنے قلم کی ریزش کا انبار نسل انسانی کے ایمان و عقیدے کو خراب کرنے، اخلاقی قدروں کو تاراج کرنے، ہوا و ہوس کو فروغ دینے اور سوسائٹی میں برائی اور اخلاقی گراوٹ کا ناسور پھیلانے کے لیے چھوڑ گئے، بعض نے خاموشی کے ساتھ ترقی اور اباحیت پسند ادب و شاعری کے عنوان سے پڑھے جانے والے لٹریچر کو مسموم کیا۔


لیکن ایسے ادیبوں شاعروں اور قلم کاروں کی فہرست بھی کم طویل نہیں جنہوں نے قدرت کے عطا کردہ بیان و تعبیر کی صلاحیت کی قدر کی اور قلم و قرطاس کے استعمال کا حق ادا کیا، دنیا و آخرت میں سرخ ہوئے، نیک نامی اور شہرت بھی ملی، دین کی ترجمانی کی اور ملت کی آبیاری کی۔۔ (مستفاد متاعِ قلم صفحہ ۹,۱۰)

محمد قمر الزماں ندوی

زبان و ادب کے شہسوار اور مشہور صاحب قرطاس و قلم علامہ شورش کاشمیری مرحوم نے قلم کی اسی طاقت اور تاثیر کچھ یوں اپنی شاعری میں بیان کیا ہے :

قلم کی طاقتپر شاعری

صفحئہ کاغذ پہ جب موتی لٹاتا ہے قلم
ندرت افکار کے جوہر دکھاتا ہے قلم

آنکھ کی جھپکی میں ہوجاتا ہے تیغ بے پناہ
آن واحد میں حریفوں کو جھکاتا ہے قلم

آندھیوں کا سیل بن کر عرصئہ پیکار میں
زلزلوں کے روپ میں محلوں کو ڈھاتا ہے قلم

دوستوں کے حق پشتیبان خود اپنے زور پر
دشمنوں پر دشنئہ و خنجر چلاتا ہے قلم

بندگانِ علم و فن کی خلوتوں کا آشنا
ان کے فکر و فہم کی باتیں سناتا ہے قلم

یادگاروں کا محافظ تذکروں کا پاسباں
گم شدہ تاریخ کے اوراق لاتا ہے قلم

محفلوں میں عشق اس کے بانکپن کا خوشہ چیں
محملوں میں حسن سے آنکھیں لڑاتا ہے قلم

شاعروں کے والہانہ زمزموں کی آبرو
دانش و حکمت کی راہوں کو سجاتا ہے قلم

اہلِ دل، اہلِ سخن، اہلِ نظر، اہلِ وفا
ان کے خد و خال کا نقشہ جماتا ہے قلم

برق بن کر ٹوٹتتا ہے خرمن اغیار پر
دوستوں کے نام کا ڈنکا بجاتا ہے قلم

ہم نے اس کی معرفت دیکھا ہے عرش و فرش کو
آسمانوں کو زمینوں سے ملاتا ہے قلم

زندئہ جاوید ہوجاتے ہیں اس سے معرکے
حشر کے آثار قوموں میں اٹھاتا ہے قلم

کانپتے ہیں اس کی ہیبت سے سلاطین، زمن
دبدبہ فرما رواوں پر بٹھاتا ہے قلم

حافظ و خیام و سعدی غالب و اقبال و میر
ماضی مرحوم میں ان سے ملاتا ہے قلم

شہسواروں کے جلو میں، ہفتمیں افلاک پر
سربکف اسلاف کے پرچم 🏳 اڑاتا ہے قلم

کیسی کیسی منزلوں میں رہنما اس کے نقوش
کیسے کیسے معرکوں میں دندناتا ہے قلم

شاعری میں اس سے قائم ہے خم گیسو کی آب
نثر میں اعجاز کے تیور دکھاتا ہے قلم

قطع کرنی پڑتی ہیں فکر و نظر کی وادیاں
تب کہیں شورش مرے قابو میں آتا ہے قلم

شورش کاشمیری مرحوم

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے