Ticker

6/recent/ticker-posts

یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے Yah Ibrat Ki Ja Hai Tamasha Nahin Hai

یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے


محمد قمر الزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپ گڑھ

قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں اس دنیا کی بے وقعتی، بے ثباتی اور ناپائیداری کو جگہ جگہ بیان کیا گیا ہے، اور اس کے عارضی اور فانی ہونے کی طرف متعدد مواقع پر اشارہ کیا گیا ہے۔ کہیں اسے دار الغرور کہا تو کہیں اسے متاع اور لہو و لعب قرار دیا ہے۔۔ روزانہ ایسے واقعات بھی پیش آتے رہتے ہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مکان۔ یہ کار یہ بنگلہ یہ ساز و سامان، جگہ زمین، جائداد اور عیش و عشرت کی چیزیں سب دھری کی دھری رہ جائیں گی اور انسان خالی ہاتھ اس فانی دنیا سے باقی دنیا کی طرف سدھار جائے گا۔۔۔۔اور اپنے ساتھ کچھ بھی نہیں لے جائے گا، اگر کوئی عمل کام دے گا تو وہ صرف صدقہ جاریہ، وہ علمی کام جو نفع بخش ہو اور جس کا فیض جاری ہو اور نیک و صالح اولاد اور بچے جو ان کے لیے دعائے خیر کریں گے۔۔


ابھی کچھ دنوں قبل، ایک مختصر تحریر نظر سی گزری تھی، جس کو پڑھ کر عجیب کیفت طاری ہوئی اور جس نے زندگی کی بے ثباتی اور ناپائیداری کو اچھی طرح سمجھا دیا اور اس یقین اور حقیقت کو اور مضبوط کر دیا کہ یہ دنیا فانی اور عارضی ہے، اس کے فریب اور رنگینی اور عیش و طرب سے کوئی دھوکہ نہ کھائے، انجام موت ہی ہے اور آخرت میں جواب دہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موت کے سوا دنیا میں کوئی حقیقت نہیں ہے، ۔۔۔۔۔۔۔۔

کر لے جو کرنا ہے آخر موت ہے

"دنیا کی مشہور فیشن ڈیزائنر اور مصنف "کرسڈا روڈریگز" نے کینسر کے مرض میں مبتلا ہونے کے بعد اپنے انتقال سے پہلے یہ تحریر لکھی ہے۔

محمد قمر الزماں ندوی

1۔ میرے پاس اپنے گیراج میں دنیا کی سب سے مہنگی برانڈ کار ہے لیکن اب میں وہیل چیئر پر سفر کرتی ہوں۔
2. میرا گھر ہر طرح کے ڈیزائنر کپڑے، جوتے اور قیمتی سامان سے بھرا ہوا ہے۔ لیکن میرا جسم اسپتال کی فراہم کردہ ایک چھوٹی سی چادر میں لپیٹا ہوا ہے۔
3. بینک میں کافی رقم ہے۔ لیکن اب اس رقم سے مجھے کوئی فائدہ نہیں ہو رہا ہے۔
4. میرا گھر محل کی طرح ہے لیکن میں اسپتال میں ڈبل سائز کے بستر میں پڑی ہوں۔
5. میں ایک فائیو اسٹار ہوٹل سے دوسرے فائیو اسٹار ہوٹل میں جاسکتی ہوں ۔ لیکن اب میں اسپتال میں ایک لیب سے دوسری لیب میں جاتے ہوئے وقت گزارتی ہوں۔
6. میں نے سینکڑوں لوگوں کو آٹوگراف دیے۔ آج ڈاکٹر کا نوٹ میرا آٹوگراف ہے۔
7. میرے بالوں کو سجانے کے لئے میرے پاس سات بیوٹیشنز تھیں - آج میرے سر پر ایک بال تک نہیں ہے۔
8. نجی جیٹ پر، میں جہاں چاہتی ہوں اڑ سکتی ہوں۔ لیکن اب مجھے اسپتال کے برآمدے میں جانے کے لئے دو افراد کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے ۔
9.اگرچہ بہت ساری کھانوں کی مقدار موجود ہے، لیکن میری خوراک دن میں دو گولیوں اور رات کو نمکین پانی کے چند قطرے ہے۔
یہ گھر، یہ کار، یہ جیٹ، یہ فرنیچر، بہت سارے بینک اکاؤنٹس، اتنی ساکھ اور شہرت، ان میں سے کوئی بھی میرے کام کا نہیں ہے۔ اس میں سے کوئی بھی چیز مجھے کوئی راحت نہیں دے سکتی۔
بہت سارے لوگوں کو راحت پہنچانا اور ان کے چہروں پہ مسکراہٹ بکھیرنا ہی اصل زندگی ہے ۔
"اور _ دنیا میں موت کے سوا کوئی حقیقت نہیں ہے"۔۔۔۔


اس لیے عقل مند اور دانا مومن وہی ہے، جو اپنی زندگی کا محاسبہ کرے، اور موت کے بعد کی زندگی کی تیاری کرے اور اس کے لیے توشہ و زاد راہ باندھے۔۔۔۔۔ اور دنیا کے بارے میں وہ یہ سمجھے کہ دنیا سرائے خانہ ہے، اس سے زیادہ اس کی حقیقت نہیں۔۔۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا مونڈھا پکڑ کر فرمایا، دنیا میں مسافر یا راہ چلتے ہوئے انسان کی طرح رہو، حضرت عبد اللہ بن عمر کہتے تھے۔۔ جب تم شام کرو تو صبح کا انتظار نہ کرو، اور صبح کرو تو شام کے منتظر مت رہو، اپنی تندرستی کو بیماری سے پہلے غنیمت جانو، اپنی زندگی کو موت سے پہلے غنیمت سمجھو۔۔( بخاری کتاب الرقاق ۶۴۱۶)


اس حدیث میں دنیا سے بے رغبتی برتنے کی تعلیم دی گئی ہے، مسافر کے پاس بقدر ضرورت ہی زاد راہ ہوتا ہے، اس لیے مومن کو بھی مادی ضرورت کی حد تک مادی اسباب رکھنا چاہیے۔۔

علماء نے اس حدیث کی تشریح میں لکھا ہے کہ "مسافر اور راہ گیر کے پاس نہ اپنا ٹھکانہ ہوتا ہے اور نہ پر امن قیام گاہ، اس کو ایک لمبا سفر طے کرنا ہوتا ہے، راستے پر خطر ہوتے ہیں، راہ زنی اور ڈاکہ زنی کا خوف لگا رہتا ہے، اس لیے مسافر اپنا سفر تیز گامی اور تسلسل کے ساتھ جاری رکھتا ہے تاکہ اپنی منزل تک خیریت سے پہنچ جائے، اہل ایمان کو بھی مسافر والی زندگی گزارنی چاہیے، دنیا کے عیش و راحت، حسن و جمال اور رنگینی و رعنائی میں کھونے کے بجائے ایک لمحہ کے لیے بھی اپنی حقیقی منزل سے غافل نہ ہونا چاہیے، مومن کو پوری دلجمعی اور مستعدی کے ساتھ آخرت کے سفر کی تیاری کرنی چاہیے۔۔۔

مومن کا حقیقی ٹھکانہ جنت ہے، لہذا اس کو دنیا کی غیر ضروری دوڑ بھاگ میں شامل نہیں ہونا چاہیے تاکہ آخرت کی فکر سے اس کا ذھن کبھی بھی آزاد نہ ہو۔۔ ارشاد خداوندی ہے۔۔۔ (اعلموا انما الحیوۃ الدنیا الخ الحدید ٢٠)


جان رکھو کہ دنیا کی زندگی لہو و لعب، زینت و آرائش اور مال و اولاد میں کثرت اور معیار زندگی کو اونچا کرنے کا باہم مقابلہ ہے۔ اس کی مثال اس بارش کی ہے جس سے فصل لہلہا اٹھے اور وہ کسان کے دل کو موہ لے پھر اس پر کوئی ایسی افتاد آ پڑے کہ وہ سوکھ کر زرد ہو جائے پھر ریزہ ریزہ ہو جائے۔۔۔۔۔۔

 نبیﷺ کا ارشاد ہے،، جو شخص دنیا سے محبت کرتا ہے، اس کی آخرت برباد ہوجاتی ہے اور جو آدمی آخرت کی فکر کرتا ہے اور اس فکر کی وجہ سے وہ دنیا میں نقصان اٹھاتا ہے، تو گویا اس نے پائدار اور ابدی فائدہ کے لیے یہ نقصان برداشت کیا۔۔ مشکوۃ۔۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نقل کرتی ہیں،، کہ رسول ﷺ نے فرمایا,, دنیا بے گھر کا گھر ہے، بے دولت کی دولت ہے، بے شعور انسان ہی دنیا جمع کرنے کی فکر میں لگا رہتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ ناشر / مولانا علاء الدین ایجوکیشنل سوسائٹی جھارکھنڈ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے