Ticker

6/recent/ticker-posts

مثنوی زہرِ عشق کا تنقیدی جائزہ | Masnavi Zehr-e-Ishq Ka Tanqeedi Jaiza

مثنوی زہر عشق کا تنقیدی جائزہ | مثنوی زہر عشق کی خصویات

زہر عشق، نواب مرزا شوق کی تیسری اور آخری مثنوی ہے اس کی تاریخ تصنیف میں اختلاف ہے۔ رشید حسن خان کے خیال میں یہ مثنوی (1861ء) کے قریبی زمانہ میں لکھی گئی۔ شاہ عبدالسلام کا خیال ہے کہ یہ مثنوی 1860ء اور 1882ء کے درمیان مکمل ہوئی۔ نظامی بدایونی نے سال تصنیف 1277ھ م 1860ء قرار دیا ہے۔ رشید حسن خاں ایک ذمہ دار محقق ہیں اس لئے ان کے دئیے ہوئے سنہ تصنیف یعنی 1861ء ہی کو مستند مانا جاسکتا ہے۔ اس مثنوی کا پہلا ایڈیشن شوق کی حیات میں 1862ء میں شائع ہوا۔ مطبع نول کشور نے اس کے دو ایڈیشن شائع کیے۔ ایک شوق کے انتقال سے دو سال قبل یعنی 1869ء میں اور دوسرا اسی سال جس سال شوق کا انتقال ہوا یعنی 1971ء میں شائع کیا۔ اس کے بعد اس مختصر سی مثنوی کو بڑی مقبولیت حاصل ہوئی اور پچاسوں ایڈیشن اس کے اب تک شائع ہو چکے ہیں ۔


مثنوی زہر عشق اور اسٹیج

اس دور میں کئی تھیٹریکل کمپنیوں نے اس مثنوی کو اسٹیج پر پیش کیا۔ ایک بار ایک کمپنی نے اسے لکھنؤ میں اسٹیج کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس مثنوی اور اس کی پیش کش سے متاثر ہو کر ایک لڑکی نے خودکشی کر لی۔ اس کے بعد حکومت ہند نے اس کو اسٹیج پر پیش کرنے کی ممانعت کر دی اور اسے عریاں قرار دے کر اس کی اشاعت پر بھی پابندی لگا دی۔ 1919ء میں اہل ذوق حضرات کی کوششوں سے پابندی اٹھا لی گئی تو نظامی بدایونی نے ستمبر1919ء میں اس مثنوی کا ایک شاندار ایڈیشن شائع کیا۔


مثنوی زہر عشق کا واقعہ

ایک بہت دولت مند تاجر تھا۔ اس کی ایک خوبصورت بیٹی تھی۔ اسے شعر گوئی کا ذوق تھا۔ لکھنے پڑھنے کا شوق تھا، ماں باپ کی بہت چہیتی تھی۔

سارا گھر اس پہ رہتا تھا قرباں
روح گر ماں کی تھی تو باپ کی جاں

نور آنکھوں کا دل کا چین تھی وہ
راحت جان والدین تھی وہ

ایک دن وہ خوبصورت لڑکی اپنی سہیلیوں کے ساتھ بام پر گئی تو وہاں ایک پڑوسی لڑکے سے آنکھ لڑ گئی دونوں ایک دوسرے کے عشق میں مبتلا ہو گئے۔ پڑوسی کی ’آتش ہجر ہو گئی دل سوز ‘ ماں باپ نے بیٹے کی جو یہ حالت دیکھی تو وہ تڑپ اٹھے۔ لاکھ سمجھایا کچھ اثر نہ ہوا۔ مارے شرم کے وہ ماں باپ سے حال دل بھی نہ کہہ سکا۔ سوداگر لڑکی نے ایک دن ایک خط شوق ماما کے ذریعہ لکھا بھیجا۔ ادھر سے بھی جواب خط گیا۔ اور یہ سلسلہ چلتا رہا۔ وعدے و عید ہوتے رہے۔ ایک دن وعدہ وفا ہوا۔ چھپ کے ملاقاتیں ہوتی رہیں ۔ دختر سوداگر کے گھر والوں کو اس کی خبر ہو گئی، انہوں نے لڑکی کو بنارس بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ یہ سن کر لڑکی نے سوچا کہ ہجر میں جینے سے موت اچھی ہے اور کہا کہ ’اس جدائی سے موت بہتر ہے‘۔ یہ ہماری آخری ملاقات ہے۔


زہر کھا کر سو رہوں گی زمانے کے
دو مہینوں سے طعنے سن رہی ہوں
موت بہتر ہے ایسے جینے سے

عاشق زار نے سمجھایا کہ ماں باپ کی بات مان لو، ماں باپ کا اولاد پر بڑا حق ہے۔ کیوں خدانخواستہ زہر کھانے کی بات کرتی ہو۔ معشوق نے ایک نہ سنی اور چلی گئی ادھر یہ خوف کہ جو کہا ہے وہی نہ کر بیٹھے۔ اتنے میں ایک سمت سے غل اٹھا دوست احباب نے ا کر خبر دی ایک سوداگر کے مکان سے یہ شور ماتم اٹھ رہا ہے۔ لڑکے کا دل بیٹھ گیا اس نے بھی زہر کھا لیا۔

مر گئی تھی جو مجھ پہ وہ گلفام
زندگی ہو گئی مجھے بھی حرام


لڑکے پر تین دن تک غفلت طاری رہی۔ اس نے خواب میں دیکھا وہ اپنی وصیت یاد دلا رہی تھی کہہ رہی تھی :

سن تو اے تو نے زہر کیوں کھایا
کچھ وصیت کا بھی نہ پاس آیا

ہوئے خود رفتہ ایسے حد سے زیاد
دو دہی دن میں بھلا دی میری بات

یہ کہہ کر رہ تو روپوش ہو گئی۔ عاشق کو ہوش آیا تو زہر کا کچھ اثر نہ رہا۔ لوگ مبارک باد دینے لگے۔

مثنوی زہر عشق کا قصہ کوئی نادر یا منفرد قصہ نہیں

مثنوی کا قصہ کوئی نادر یا منفرد قصہ نہیں ہے۔ یہ عشق کی وہ داستان ہے جس پر زمانے اور وقت کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔ ہماری داستانیں اور مثنویاں عموماً ایسے قصوں سے بھری پڑی ہیں ۔ اردو مثنویوں کی تاریخ میں عشقیہ مثنویوں کی روایت، نظامی بیدری کی کدم راؤ پدم راؤ سے لیکر گلزار نسیم سے گزرتی ہوئی زہر عشق تک پہنچتی ہے۔ سبھی مثنویوں کا آغاز عموماً حمد، نعت اور منقبت سے ہوتا ہے۔ زہر عشق میں شوق نے تین شعر حمدیہ لکھے ہیں ۔ دو نعت کے شعر ہیں اور دو شعر مدح حیدر میں ہیں ۔


جس طرح وجہی نے سب رس میں عشق پر گیارہ انشائیے لکھے ہیں اسی طرح ہمارے مثنوی نگار شاعروں بھی عشق کی شان میں رطب اللسان ہیں ۔ خاص طور پر میر تقی میر نے عشق کے تیر کا کاری لگنا، درد و ہجر کا تڑپ و اضطراب میں بدلنا، یہاں تک منزل فنا تک پہنچنا، سبھی کچھ ڈوب کر لکھا ہے۔ میر صاحب کی اس روایت کو شوق نے آگے بڑھایا (455) اشعار کی اس مثنوی میں منقبت کے بعد 14 شعر انہوں نے عشق کی تعریف میں لکھے ہیں ۔ اس کے بعد اس طرح قصہ شروع کرتے ہیں :

ایک قصہ عجیب لکھتا ہوں
داستان غریب لکھتا ہوں

شوق نے اردو کی دیگر مثنویوں کی طرح اپنی مثنوی کے ابواب یا عنوان ابواب نہیں لکھے ہیں ۔ اک دریا ہے کہ بہا جا رہا ہے۔ شاعر نے اپنی مثنوی کی ہیروئین کا نام لکھا ہے۔ فراق گورکھپوری نے شوق کے اس شعر سے نام اخذ کر کے ’’ماہ جبیں ‘‘ بتلایا ہے:

ایک دختر تھی اس کی ماہ جبیں
شادی اس کی نہیں ہوئی تھی کہیں


بس یہیں سے یہ داستان عشق شروع ہوتی ہے۔ عطا اللہ کا کہنا ہے کہ یہ کوئی من گھڑت کہانی یا قصہ نہیں ہے۔ یہ داستان عشق خود مرزا خاں شوق کی داستان عشق ہے۔ اس قصے میں کوئی مافوق الفطرت عناصر نہیں اور نہ کوئی قصہ در قصہ مثنوی کو آگے بڑھانے والی تکنیک استعمال کی گئی ہے۔ ایک سیدھی سادی مختصرسی داستان ہے جس میں کرداروں کی فوج ہے نہ مناظر کی بہتات۔ یہی وجہ ہے کہ مختصر سی نشست میں یہ مثنوی ختم ہو جاتی ہے اور ایک گہرا تاثر چھوڑ جاتی ہے مگر آج کی اس میکانکی دنیا میں جہاں آدمیوں کے جنگل میں آدمی خود نگر ہو گیا ہے، خود پرست اور خودغرض ہو گیا ہے، ایسے واقعات عشق صرف ایک جذباتی دیوانگی کے سواء کوئی حقیقت نہیں رکھتے۔


اس مختصر سے قصے میں ہیرو ہیروئین دونوں کے والدین اور ایک ماما کو پیش کیا گیا۔ آخر میں ہیرو کے چند دوستوں کا صرف تذکرہ آ جاتا ہے۔ ہیرو کا کردار اردو کی اکثر مثنویوں کی طرح بے عمل ہے، وہ عشق کر بیٹھتا ہے لیکن اظہار عشق کی جرأت نہیں کرتا۔ پہل لڑکی کی طرف سے ہی ہوتی ہے، بیمار ہو جاتا ہے، ماں کی ڈانٹ پھٹکار سن کر شرمندہ ہوتا ہے۔ لڑکی زہر کھا کے مر جانے کو ہجر میں جینے سے بہتر سمجھتی ہے اور وقت صبح بچھڑ کر گھر چلی جاتی ہے ۔ اس عاشق زار سے اتنا نہ ہوا کہ اسے زہر کھانے سے روک لیتا۔ وہ گئی اور وہ دیکھتا رہا۔ یہاں تک کہ اس کے مرنے کی خبر آئی کہنے لگا :

کہہ گئی تھی جو وہ کہ کھاؤں گی زہر
میں یہ سمجھا کہ ہو گیا وہی قہر

گو حیا سے نہ اس کا نام لیا
دونوں ہاتھوں سے دل کو تھام لیا

صرف اتنا کرتا ہے کہ جنازے کے ساتھ ساتھ جاتا ہے، قبر پر جا کر روتا ہے۔ زہر کھا کر خودکشی کرنا چاہتا ہے۔ اسے موت بھی نہیں آئی۔


مثنوی زہر عشق کردار نگاری

کردار نگاری کے اعتبار سے اس مثنوی میں محبوبہ (کہ جبین) کو چھوڑ کر کوئی ایسا نہیں جو ذہن پر دیرپا اثر چھوڑ جائے۔ لڑکی جرأت مند ہے، پڑھی لکھی ہے، صاحب ذوق ہے۔ اس کے کردار میں مضبوطی ہے۔ قوت فیصلہ ہے۔ وہ کمسن اور حَسین ہے ایک پر درد اور محبت بھرا دل رکھتی ہے جو محبت نباہنا جانتی ہے۔ وہ اظہار عشق میں پہل کرتے ہوئے خط میں حال دل لکھ کر بھیجتی ہے وہ جس طرح سے اظہار عشق کرتی ہے بالکل فطری ہے۔ اظہار عشق کرتے ہوئے اسے یہ احساس بھی ہے کہ :

سارے الفت نے کھودئے اوسان
ورنہ یہ لکھتی میں خدا کی شان

اب کوئی اس میں کیا ذلیل کرے
جس کو چاہے خدا ذلیل کرے

وہ اپنے آہنی عزم کے ساتھ عاشق سے ملنے بار بار جاتی ہے۔ آخری بار جاتی ہے اور نصیحت و وصیت کرتی ہے تو یہ منظر دل کو چھو جاتا ہے۔ اس منظر کے بارے میں پروفیسر خواجہ احمد فاروقی لکھتے ہیں کہ

’’یہ منظر نہایت دل دوز ہے اور اثر انگیزی کے لحاظ سے شاید ہی اس کی کوئی مثال اردو لٹریچر میں مل سکے‘۔


ماں باپ کی اکلوتی لڑکی لاڈ پیار میں پرورش پائی ہوئی۔ ماں باپ کی سرزنش کو برداشت نہیں کر پاتی اور موت کا فیصلہ کر لیتی ہے۔ ان ملاقاتوں میں کہیں بھی لڑکی نے اپنے محبوب سے گلہ نہیں کیا ہے۔ اس کی محبت پر اسے یقین کامل ہے اس لئے مرنے سے پہلے موت اور زندگی کے فلسفے پر اظہار خیال کرتی ہے تو اس یقین کے ساتھ جیسے اس کے بعد وہ بھی نہ جی سکے گا۔ اسے بس یہی خیال ہے کہ اس کے رونے دھونے سے کہیں وہ (لڑکی) رسوا نہ ہو جائے جو رسوائی سے بچنے کے لئے جان عزیز سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے کہتی ہے :

ذکر سن کر مرا نہ رو دینا
میری عزت نہ یوں ڈبو دینا


ہمارے ہندوستانی معاشرے میں عورت اپنا شریک کسی کو نہیں کر پاتی مگر اس لڑکی کا ظرف ملاحظہ ہو کہتی ہے :

رنج فرقت مرا اٹھا لینا
جی کسی اور سے لگا لینا

ہو گا کچھ مری یاد سے نہ حصول
دل کو کر لینا اور سے مشغول

مثنوی زہر عشق جذبات نگاری

اس مثنوی کی کردار نگاری کے بعد دوسری اہم خصوصیت جذبات نگاری ہے۔ اس کا اولین نمونہ ہمیں عاشق کے یہاں ملتا ہے جب وہ حُسن کا تیر کھا کر بے حال ہوتا ہے۔ وہ لاکھ بے عمل سہی رو تو سکتا ہے۔ فرط غم سے تڑپ تو سکتا ہے۔ بیٹے کا یہ حال دیکھ کر والدین کا بے چین ہونا، یہ مکالمہ خاصا طویل ہے مگر جذبات نگاری کا اعلا نمونہ ہے۔ ایسا ہی اعلا نمونہ ہمیں اس وقت ملتا ہے جب لڑکی جدائی کی رات شدت جذبات میں عاشق کو نصیحت وصیت کرتی ہے۔

دیکھ لو آج ہم کو جی بھرکے
کوئی آتا نہیں ہے پھر مر کے

ختم ہوتی ہے زندگانی آج
خاک میں ملتی ہے جوانی آج

دل میں لے کر تمہاری یاد چلے
باغ عالم سے نامراد چلے

کہتی ہے بار بار ہمت عشق
ہے یہی مقتضائے عزت عشق

چار پائی یہ کون پڑ کے مرے
کون یوں ایڑیاں رگڑ کے مرے


مثنوی زہر عشق کے متعلق ناقدین اور محققین کا خیال

شوق کے بعض ناقدین اور محققین کا خیال ہے کہ زہر عشق کی مقبولیت اس آخری ملاقات کے منظر کی وجہ سے ہے۔ گیان چند لکھتے ہیں : ’’ہیروئین نے دنیا کے فانی ہونے پر جو عبرت انگیز تقریر کی ہے اردو مثنویوں میں اس کا جواب نہیں ۔

ان اشعار میں وہ ساری کیفیات ہیں جس کی نظیر مشکل ہی سے کسی زبان کے ادب میں ملے گی۔ معصوم آنسوؤں کی بوندیں شعر کے قالب میں ڈھل گئی ہیں ۔

مثنوی زہر عشق کا زبان و بیان

زبان و بیان کے اعتبار سے شوق کی یہ مثنوی بے مثال ہے۔ اختصار کے باوجود مکالموں میں بڑی جان ہے۔ مکالمے کچھ طویل ہیں لیکن حسن بیان وار لطف زبان طوالت کو بوجھ نہیں بننے دیتے۔ لکھنؤ کی بیگماتی زبان، ان کے محاورے، ضرب الامثال پر شوق کو بڑی قدرت حاصل ہے۔ بیٹے کا حال زار دیکھ کر ماں کہتی ہیں :

میرے بچے کی جو کڑھائے جان
سات بار اس کو میں کروں قربان

اللہ امیں سے ہم تو یوں پالیں
آپ آفت میں جاں کو یوں ڈالیں

تیرے پیچھے کی تلخ سب اوقات
دن کودن سمجھی اور نہ رات کو رات



شوق نے جہاں بیگمات کی زبان کی ترجمانی کی ہے، وہیں انہوں نے لکھنؤ کی معاشرت کی بھی ہلکی سی تصویر کشی کی ہے۔ خصوصاً خواتین کے ٹونے رسمیں، مان پان، لباس، وضع قطع کو کامیابی سے پیش کیا ہے مثلاً

مثنوی زہر عشق میں تہذیب و معاشرت کی جھلک

مسجدوں میں روشنی کرنا، درگاہوں میں چوکی بھرنا، نظر بد سے بچنے کے لئے دانہ اتارنا، رائی لون نکالنا، جمعرات کو درگاہوں کو جانا، نو چندی کا میلہ، مارے غم کے بال کھلے رکھ کر میت کے ساتھ جانا، تربت پر جا کر قرآن پڑھنا، فاتحہ دینا، مٹی دینا، بن بیاہی لڑکی کے جنازے پر سہرا باندھنا، منت بڑھانا یہ اور ایسی کئی مثالیں مل جاتی ہیں ۔


زہر عشق حیرت انگیز اختصار کا نمونہ

زہر عشق حیرت انگیز اختصار کا نمونہ ہے۔ اس پر بھی ادائے مطلب کا جلوہ دکھاتی ہے۔ خوبی نظم اور عمدگی زبان لائق تحسین ہے۔ سوز و گداز کا مرقع ہے۔ روزمرہ محاورے کا لطف ہے۔ لکھنؤ کی لوچ دار اور مرصع زبان کے شوق نمائندہ شاعر ہیں ۔ سلاست و گھلاوٹ ہے۔ سادگی اور سلاست کا یہ حال ہے کہ بعض مصرعے اور اشعار ضرب المثل کا درجہ رکھتے ہیں مثلاً :

فرط غم سے نکل پڑے آنسو

جس کو چاہے خدا ذلیل کرے

غم اٹھانے کی اب نہیں طاقت

تاڑ جاتے ہیں تاڑنے والے

جائے عبرت سرائے فانی ہے
مورد مرگ ناگہانی ہے

اب نہ رستم نہ سام باقی ہے
اک فقط نام ہی نام باقی ہے

تھے جو مشہور قیصر و مغفور
باقی ان کے نہیں نشان قبور

ہر گھڑی منقلب زمانہ ہے
یہی دنیا کا کارخانہ ہے

موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے

عمر بھر کون کس کو روتا ہے
کون صاحب کسی کا ہوتا ہے


مثنوی زہر عشق انسانیت کا کلام

زہر عشق صرف حُسن بیان کا مرقع ہی نہیں انسان کا کلام ہے۔ اس میں کچھ کوتاہیاں اور کمزوریاں بھی ہیں ۔ اس کے حُسن کا نقش اتنا گہرا ہے کہ خامیوں کی طرف نظر نہیں جاتی۔ الفاظ میں ترنم اور بیان کے اثر نے ایسا جادو کر دیا ہے کہ خامیاں نظر ہی نہیں آتیں ۔ مثلاً یہ کہ انہوں نے ایک دو جگہ قافیہ کا التزام نہیں کیا۔ مثلاً یہ شعر

خاک میں ملتی ہے یہ صورت عیش
پھر کہاں ہم کہاں یہ صورت عیش

یہ ’صورت عیش‘ ردیف ہے تو قافیہ نہیں ملتا۔ جذبات نگاری میں ایک شریف لڑکی کو بازاری عورتوں کا مقام دے دیا۔ اشراف کی لڑکی کی زبان سے ایسے الفاظ کہلوا دیے جو شرفا میں کم سن لڑکیوں کی زبان پر تو آ ہی نہیں سکتے۔ واقعہ نگاری میں صرف لڑکی کے جنازے کا منظر ہے۔ دو تین جگہ ہی مکالمے ہیں تو یہ بھی طویل۔ یہ وہ خامیاں ہیں جن کی طرف خاص طور پر انگلی نہ اٹھائی جائے تو بہت کم کسی کی نظر جاتی ہے۔ دراصل مثنوی کے حُسن نے معائب کی پردہ داری کی ہے یہی اس مثنوی کا جادو ہے۔


یہ ایک معنوی حقیقت ہے کہ ہر تخلیق کار اپنے حالات زمانہ اور ماحول کا پروردہ ہوتا ہے۔ ایک شاعر کے ساتھ بھی اس کی اپنی افتاد طبع، شخصی تجربات، محسوسات اور مشاہدات کی ایک دنیا ہوتی ہے۔ اسی سے وہ اپنا ایوان سخن تعمیر کرتا ہے۔


مثنوی زہرے عشق کا پس منظر

جس زمانے میں شوق نے آنکھ کھولی وہ زمانہ لکھنؤ میں سکون و آشتی کا زمانہ تھا۔ بادشاہ شاعروں کی سرپرستی کرتے تھے۔ انعام و اکرام سے نوازتے تھے۔ 1783 میں شوق آصف الدولہ کے زمانے میں پیدا ہوئے واجد علی شاہ کو لٹ لٹا کر مٹیا برج جاتے دیکھا۔ ان کی طبیعت میں بلا کی جولانی تھی۔ اپنے حُسن مزاج سے ہم عصروں میں بہت مقبول تھے، شاعری کا ذوق تھا مگر دیر میں نام کمایا، آتش کے شاگرد تھے۔ کچھ غزلیں واسوخت اور تین مثنویاں فریب عشق، بہار عشق اور زہر عشق لکھیں ۔ ان تینوں میں زہر عشق کو ادبی اعتبار سے اہم مقام حاصل ہے۔ شوق کی غزلوں کے صرف 61 اشعار ملتے ہیں جن سے ان کے عہد اور مزاج سخن کی عکاسی ہوتی ہے۔ شوق نے صرف ایک واسوخت لکھی۔ شوق نے اپنی غزلوں میں محبوب کے اتنے ناز نہیں اٹھائے جتنی جلی کٹی اپنے واسوخت میں اس کے لئے لکھی ہے۔ واسوخت میں شوق کا رنگ خاصا نکھرا ہوا ہے۔ فریب عشق شوق کی سب سے پہلی مثنوی ہے، جو گلزار نسیم کے ٹھیک آٹھ سال بعد لکھی گئی ہے۔ اس مثنوی میں لکھنؤ کی روز مرہ زندگی کا ایک تاریک پہلو بڑے رنگین انداز میں پیش کیا ہے۔ مقصد اصلاحی ہے۔ ’’بہار عشق’‘ شوق کی دوسری مثنوی ہے۔ 1847ء میں منظر عام پر آئی۔ شوق کے بعض نقادوں نے لکھا ہے کہ زبان محاورے اور روزمرہ کے حساب سے اس مثنوی کی بڑی اہمیت ہے۔ مثنوی زہر عشق شوق کی معرکۃ الآرا مثنوی ہے جسے اردو کی چند اہم مثنویوں کے ساتھ رکھا جاسکتا ہے۔ اس کی تعریف اور تنقیص میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ اس کے باوجود متفقہ رائے ہے کہ یہ اردو کی ایک اہم مثنوی ہے جسے سحرالبیان اور گلزار نسیم کے ساتھ رکھا جاسکتا ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے