روس یوکرین تنازعہ آج انسانوں کو انسانیت بتانے کی ضرورت ہے
محمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپ گڑھ
روس یوکرین پر تابڑتوڑ حملہ کر رہا ہے، انسانیت کی ساری حدیں پار کر رہا ہے، آج جنگ کا آٹھواں دن ہے، مطلع اب بھی صاف نہیں ہے کہ یہ جنگ کب رکے گی اور خون خرابہ پر کب ویرام لگے گا، مصالحت کی ساری کوششیں ناکام ہوچکی ہیں، امریکہ جو پوری دنیا پر اپنی طاقت کا سکہ جما رکھا تھا، آج وہ بھی صرف زبانی لفاظی پر اکتفا کر رہا ہے،۔ جنگ کو روکنے کے لیے کوئی ٹھوس لائحہ عمل تیار نہیں کر رہا ہے، یوکرین میں کہرام مچا ہوا ہے، جان بچانے کے لیے لوگ میٹرو اسٹیشنوں اور بنکروں میں پناہ لے رہے ہیں، لیکن وہاں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ انسانیت سسک رہی ہے، بچے، جوان، مرد عورت بوڑھے بزرگ رو اور گڑگڑا رہے ہیں، جان بخشی کی روس سے بھیک مانگ رہے ہیں، روس سے فریاد اور گہار لگا رہے ہیں کہ ہم پر ترس کھائیے اور حملہ اور جنگ بند کر دیجئیے، لیکن روس اپنی طاقت اور گھمنڈ میں چور ہے اور کسی طرح جنگ بندی پر تیار نہیں ہے۔ پوری دنیا کے لوگ صرف تماشہ دیکھ رہے ہے، قصور کن کا ہے، غلطی کس ملک کی ہے، ؟ یہ تو عالمی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے بتائیں گے اور جو لوگ وہاں کے داخلی اور خارجی پالیسی پر نظر رکھتے ہیں، لیکن افسوس یہ کہ بے قصور عوام اور پبلک کی جانیں جارہی ہیں اور پوری دنیا تماشائی بنی ہوئی ہے، ہر ملک صرف اپنے اپنے مفاد کے لیے خاموش ہے، اقوام متحدہ صرف گھڑیال کے آنسو بہا رہا ہے اور جنگ بندی کے لیے کوئی اہم کردار ادا نہیں کر پارہا ہے۔ عالم اسلام کے حکمراں تو بے جان ہیں، ان کی تو کوئی طاقت ہی نہیں کہ ظلم کے خلاف اور اس سفاکیت اور درندگی کے خلاف کچھ لب کو جنبش دے سکیں ان کو عیش و عشرت سے کب فرصت ہے کہ وہ انسانیت کے لیے بولے اور چیخے اور درد کا اظہار کرے۔ یوکرین نے بھی ماضی میں عراق میں اور برما میں مسلمانوں کے خلاف سازشیں کیا ہے اور ان کو تباہ کرنے کے لیے وہ پیش پیش رہا، وہاں ہتھیاروں کی خوب سپلائی کی، آج اس کا انجام خود بھگت رہا ہے کیونکہ یہ دنیا تو مکافات عمل والی دنیا ہے جیسا کروگے ویسا بھرو گے۔
روس یوکرین پر تابڑتوڑ حملہ کر رہا ہے، انسانیت کی ساری حدیں پار کر رہا ہے
حقیقت یہ ہے کہ آج انسانیت ختم ہوچکی ہے، آدمیت کا فقدان ہے، انسان درندوں سے بڑا درندہ بنا ہوا ہے، اپنے ہی ہم جنس پر حملہ کر رہا ہے۔ اور درندگی کی ساری حدیں پار کرچکا ہے، اس لیے انسانیت کیسے زندہ ہو، آدمی میں آدمیت کیسے آئے ؟ آج اس کی محنت کی سخت ضرورت ہے۔
دوستو !!! اگر کسی کو یہ بتایا جائے کہ گنا میٹھا ہوتا ہے، مرچ کا ذائقہ تلخ اور کڑوا ہوتا ہے اور لیمو کھٹا ہوتا ہے تو لوگ تعجب اور حیرت کریں گے کہ صاحب !
یہ کوئی بتانے کی بات ہے؟ کون نہیں جانتا کہ گنا میٹھا ہوتا ہے مرچ کا ذائقہ کڑوا اور تلخ ہوتا ہے اور لیمو کھٹا ہوتا ہے، بات بالکل درست بلکہ سو فیصد درست اور مبنی برحقیقت ہے کہ اس کو بتانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے اور حیرت و استعجاب اور تعجب کرنے والے کا تعجب کرنا بالکل درست اور بجا ہے، لیکن کیا کیا جائے کہ آج دنیا میں انسان اپنی اصلیت کو کھو چکا ہے وہ اپنے مقام و مرتبہ کو اتنا گرا چکا ہے اور وہ اپنی حیثیت سے اتنا نیچے آچکا ہے کہ اس کو بتانا پڑ رہا ہے کہ تم انسان ہو تمہارے اندر انسانیت اور انس ہونا چاہیے، تم آدمی ہو تمہارے اندر آدمیت ہونی چاہیے تم مانو ہو تمہارے اندر مانوتا ہونا چاہیے۔ آج انسان اس مقام پر پہنچ گیا ہے اور اپنا اعتماد و اعتبار کھو چکا ہے کہ اس کو اس کے مقام و مرتبہ کے بارے میں بتانا پڑھ رہا ہے۔
آج دنیا میں کسی چیز کی کمی نہیں ہے، مال و دولت کی ریل پیل ہے، انسان مال و دولت زر زمین اور کوٹھی بنگلہ اور اسباب آرام اور آسائش دنیا کی ساری چیزیں اپنے اپنے ظرف اور اپنی طاقت کے اعتبار حاصل کر رہا ہے لیکن جس چیز کی آج سب سے زیادہ کمی ہے وہ کمی ہے انسانیت کی مانوتا، پریم، محبت، اور بھائی چارے کی اخلاق اور بلند کردار کی، آج اس کے برعکس سماج میں مفاد پرستی، خود غرضی، مطلب پرستی، رشوت ستانی، دھوکہ دھڑی، فراڈ، خیانت، جھوٹ، ظلم، کرپشن، اپنے لئے جینے اور مرنے کی عادت اور اتیاچار بلکہ حوانیت اور درندگی عام ہے۔ حضرت مولانا علی میاں ندوی رح فرمایا کرتے تھے کہ آج شیر کو شیر سے خطرہ نہیں ہے، بھیڑیئے کو بھیڑیئے سے خطرہ نہیں ہے درندہ کو درندہ سے خطرہ لاحق نہیں ہے لیکن آج انسان کو انسان سے خطرہ لاحق ہے انسان انسان سے ڈر اور گھبرا رہا ہے اس سے خوف اور خطرہ محسوس کر رہا ہے۔
مولانا روم نے مثنوی میں لکھا ہے
مولانا روم نے مثنوی میں لکھا ہے کہ ایک بوڑھے بزرگ میاں چراغ لے کر کچھ ڈھونڈ اور تلاش رہے تھے ایک صاحب دل نے پوچھا کہ چچا میاں اس بوڑھاپے میں رات کی تاریکی اور اندھیرے میں چراغ کی روشنی میں کیا کچھ تلاش کر رہے ہیں خیرت تو ہے؟ بوڑھے میاں نے جواب دیا کہ بیٹا ! برسوں سے انسان اور آدمی کو تلاش کر رہا ہوں لیکن افسوس کہ مجھے انسان نطر نہیں آرہا ہے تو اس شخص نے کہا کہ پوری دنیا انسانوں سے آباد ہے بھری ہوئی ہے اور آپ کہہ رہے ہیں کہ مجھے کوئی انسان نظر نہیں آرہا ہے تو چچا میاں نے جواب دیا بیٹا! آدمی اور انسان کی تو بھیڑ ہے اس کی تو کمی نہیں ہے، لیکن آدمیت، انسانیت اور مانوتا اس کے اندر مفقود ہے۔ ایسا انسان اور ان اوصاف اور خوبیوں والا انسان نہیں مل رہا ہے۔
ممکن ہے کہ یہ واقعہ محض ایک تمثیل ہو لیکن سچائی یہ ہے کہ یہ تمثیل اور یہ واقعہ آج کے حالات اور زمانے پر بالکل فٹ اور صادق آر رہا ہے۔
آج محسوس ہو رہا ہے کہ ملک کے ناگفتہ بہ اور پراگندہ حالات، روز بروز ہونے والے فسادات، انسانی جان و مال کی ارزانی اور انسانیت کے اعتبار و وقار کی گم ہوتی روایات نوشتئہ تقدیر بن گئ ہے، ملک کے مستقبل کے بارے میں ایک سوالیہ نشان دکھتا معلوم ہو رہا ہے۔ اس ملک میں جہاں غیر مسلموں کی اکثریت ہے یہاں مسلسل ایک دوسرے کے خلاف بدگمانیوں کا غبار پھیلایا جا رہا ہے، اور ایک نئ صف بندی کے ذریعہ مسلمانوں میں خوف و ہراس کا ماحول پیدا کیا جارہا ہے اور ان کے خلاف نفرت کا ماحول بڑھتا ہی جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں انسانی قدریں دن بدن مٹتی ہی چلی جارہی ہیں بلکہ ایک دوسرے کے خلاف انسانیت سوز واقعات معمول بنتے جارہے ہیں۔
ان حالات میں یقینا ہماری ذمہ داریاں دو چند ہو جاتی ہیں۔ آج ضرورت ہے کہ باہمی تعاون اعتماد اور امن و شانتی اور الفت ومحبت کا ماحول اور امن و امان کی فضا قائم کی جائے کیونکہ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو اس کے بغیر ہماری دینی تعلیمی، عائلی، سماجی اور مذہبی و معاشرتی کوششیں، ہماری مسجدیں اور عبادتیں، رفاہی ادارے اور انجمنیں سب خطرہ میں ہیں۔ ان میں سے کسی کے بھی تحفظ کی گارنٹی نہیں دی جاسکتی۔
حضرت مولانا علی میاں ندوی رح نے ملک کے موجودہ ستم ظریفانہ حالات کے پس منظر میں فرمایا تھا:
ہم لوگ اس جذبہ کو پیدا کرنا چا رہے ہیں، اور ان میں ان حقیقتوں کی پیاس پیدا کرنا چاہتے ہیں، کہ زندگی محض کھانے پینے کا نام نہیں، انسان کی زندگی محض مادی یا حیوانی زندگی کا نام نہیں، ہم ایک نیا ذوق لے کر ائے ہیں، آج کی مایوس دنیا میں یہ بات نئ ہے، دراصل یہ بات نئ نہیں، دنیا کے سب پیغمبر جو ہر قوم میں ائے، یہی پیغام لائے، اور سب سے زیادہ طاقت اور وضاحت کے ساتھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری طور پر یہ بات کہی، یہ حقیقت چوراہوں پر کہنے کے لائق ہے، لوگ پیٹ کے گرد چکر لگا رہے ہیں، اصل زندگی دم توڑ رہی ہے، انسانیت کی پونجی لٹ رہی ہے، ہم ایک صدا لگانے ائے ہیں، حق کی صدا، دنیا اس صدا سے نا مانوس ہے، مگر ہم دنیا سے مانوس نہیں۔
حضرت مولانا علی میاں ندوی رح نے اپنی آنکھوں سے ملک کے حالات کو دیکھا پرکھا اور سمجھا تھا اور اپنی بصیرت سے مستقل کے حالات ان کی نگاہوں کے سامنے تھے۔ اس لئے حضرت مولانا علی میاں ندوی رح اپنی نجی مجلسوں اور عوامی جلسوں میں سب سے زیادہ اس بات پر زور دیتے کہ انسانیت جو دم توڑ رہی ہے اسے زندہ کیا جائے۔
مولانا مرحوم جب پیام انسانیت کے اجلاس میں درندوں کو شرمسار کر دینے والے، انسانی قدروں سے محروم درندہ نما انسانوں کے حال پر جب فکر مندی اور اپنے درد و سوز غم و الم کا اظہار فرماتے، اور اس کے سنگین نتائج سے ملک کے محب وطن اسکالروں دانشوروں اور قائدین کو جھنجھوڑتے تو ایسا لگتا کہ وہ خون کے آنسو رو رہے ہیں اور اپنا کلیجہ اور جگر نکال کر رکھ دیں گے۔ اور ان کی یہ فکر مندی بالکل بجا تھی آج وہ سارے حالات ہمارے سامنے ہیں۔
ناشر/ مولانا علاءالدین ایجوکیشنل سوسائٹی جھارکھنڈ
0 تبصرے