Ticker

6/recent/ticker-posts

اردو صحافت کے دو سو سال اور اردو کی حفاظت کا مسئلہ

اردو صحافت کے دو سو سال اور اردو کی حفاظت کا مسئلہ


محمد قمر الزماں ندوی
جنرل سیکریٹری / مولانا علاءالدین، ایجوکیشنل سوسائٹی جھارکھنڈ

۲۷/مارچ۲۰۲۲ء کو اردو صحافت کے دو سو سال پورے ہونے پر ہر جگہ تقریبات صدی منعقد کی گئی، آج سے سے دوسو سال پہلے 27مارچ 1822ءکو شہر نشاط کلکتہ سے اردو صحافت کا آغاز ہوا تھا، اسی روز ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک ملازم پنڈت ہری ہردت نے پہلے اردو اخبار،، جام جہاں نماں،، کی اشاعت شروع کی تھی، اس زمانے میں ملک عزیز پر سامراج یعنی انگریزوں کا تسلط تھا اور باشندگانِ ہند کی بنیادی آزادی چھین لی گئی تھی۔ اس وقت ملک کو آزاد کرانے میں سب سے زیادہ رول اور کردار اردو صحافت اور اردو شاعری نے ادا کی،۔ اردو صحافت کا آغاز تو کلکتہ سے 1822ء میں،،جام جہاں نما،،سے ہوا، لیکن اس کا اصل بانکپن 1837ء میں،،دہلی اردو اخبار،،کی اشاعت کے ساتھ سامنے آیا، جو مولانا محمد حسین آزاد کے والد مولوی محمد باقر نے دہلی سے جاری کیا تھا۔

اردو بین الاقوامی زبان ہے

اردو برصغیر ہندو پاک کی ہی زبان نہیں ہے، آج یہ بین الاقوامی زبان کی حیثیت سے متعارف ہے، یہ گنگا جمنی تہذیب کی شناخت اور علمبردار ہے، اس زبان کی چاشنی اور مٹھاس کے سبھی قائل ہیں، اردو نثر اور نظم میں ملک و ملت کی تہذیب و ثقافت کا بڑا سرمایہ محفوظ ہے، لیکن افسوس کہ اردو زبان کے ذریعہ معاش حاصل کرنے والے خود اس زبان کے دشمن بنتے جارہے ہیں، اردو صحافت کے دوسال پورے ہونے پر ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہیے اور اردو زبان کی حفاظت کس طرح ہم کرسکتے ہیں اس پر غور و فکر کرنا ضروری ہے، اس سلسلہ میں چند گزارشات ذیل کی تحریر میں اردو بولنے والے کی گئی ہے، اس تحریر کو توجہ سے پڑھیں اور اس کی روشنی میں اردو زبان کی حفاظت و اشاعت کی کوشش کریں۔ م ق ن

سلیقہ سے ہواوں میں جو خوشبو گھول سکتے ہیں
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جو اردو بول سکتے ہیں

کسی بھی قوم کے لیے زبان کا مسئلہ بہت اہم ہوتا ہے، اس کو سرسری انداز میں نہیں لینا چاہیے، بلکہ اس کی حفاظت اور فروغ کے لیے ہمہ جہت جہد و جہد اور کوشش کرتے رہنا چاہیے۔، زبان کسی بھی قوم کے وجود و بقا کی ضمانت ہے، اور یہ اس کے تشخص اور تعارف کا بہترین ذریعہ ہے، جس قوم نے اپنی زبان کی حفاظت کرلی، اس نے گویا اپنے وجود و بقا کی گارنٹی اور ضمانت فراہم کرلیا۔۔ اسرائیلی (لوگ) برسہا برس دنیا میں ذلیل و خوار بھٹکتے رہے، ایک طویل مدت تک اس کا نہ کوئی علاقہ رہا اور نہ خطہ اور نہ حکومت، لیکن اس قوم نے اپنی زبان کا کبھی سودا نہیں کیا اور نہ ہی کسی زبان سے یہ متاثر ہوئے، اس نے ہیبرو (عبرانی) زبان اور اس کے رسم الخط کو باقی رکھا اور وہ اس کو مادری اور قومی زبان سمجھتے رہے، جس کا نتیجہ ہے کہ اس قوم کا آج وجود باقی ہے اور اس نے اپنا لوہا منوا لیا ہے ۔ وہ قوم جس کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر نہیں ہے، پوری دنیا کا ہیرو بنا ہوا ہے۔


کہا جاتا ہے اور یہ حقیقت بھی ہے کہ اگر کسی قوم کے وجود کو مٹانا ہو اور اس کی ملی اور تہذیبی شناخت کو ختم کرنا ہو،تو اس کی زبان اور اس کے رسم الخط کو مٹا دو، وہ قوم خود بخود مٹ جائے گی اور اس کی شناخت ختم ہوجائے گی۔۔

آج مسلمانوں کے خلاف بھی یہ سازش ہورہی ہے کہ ان کا رشتہ اردو سے کاٹ دیا جائے یا کم ازکم اردو کا رسم الخط بدل دیا جائے، تاکہ یہ زبان اپنی موت آپ مرجائے۔۔ اس کے لیے حکومت کے پاس جتنے حربے ہیں وہ سب استعمال کر رہی ہے۔ موجودہ قومی تعلیمی پالیسی جو کئی سو صفحات پر مشتمل ہے، اس میں اردو کا تذکرہ تک نہیں ہے اور اگر ہے بھی تواشارہ و کنایہ میں ہے۔ اسی طرح نظامیہ مدارس کے حوالے سے بھی کوئی گفتگو نہیں آئی ہے، جو آج اردو کی بقا، حفاظت اور فروغ کا سب سے بڑا ذریعہ ہے ۔

اردو زبان کی بقا و حفاظت کی کوشش

اس لیے اردو زبان کی بقا و حفاظت کی کوشش، آج ہم سب کو خود حل کرنا ہے، کیونکہ اس کی حفاظت سے ہمارا ایمان و عقیدہ محفوظ رہے گا ہماری ملی قومی اور دینی شناخت کی حافظت ہوگی، اس کے لیے ہم سب کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا اور اس کے لیے فکر مند ہونا ہوگا۔۔

ہندوستان بلکہ پورے بر صغیر میں ہماری علمی وراثت فارسی کے بعد بہت حد تک اردو زبان میں محفوظ ہے، اس زبان کے ذریعہ اسلام کی اشاعت بھی ہوئی ہے اور اس ملک کی تعمیر و ترقی اور آزادی میں بھی اردو زبان کا بڑا دخل رہا ہے، اس زبان نے دلوں کو جوڑنے اور سماج کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ زبان کسی ایک علاقہ اور خطہ کی نہیں ہے یا ایک مذھب والوں کی زبان نہیں ہے، بلکہ دنیا کے بہت سے ملکوں میں یہ زبان بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ ہندوستان کے بہت سے صوبوں میں اس کو دوسری زبان کی حیثیت حاصل ہے۔ اقوام متحدہ نے بھی بین الاقوامی زبان کی حیثیت سے اس کو تسلیم کیا ہے۔۔

اس زبان میں جو مٹھاس ہے اور چاشنی ہے، وہ عربی اور فارسی کے علاوہ کسی اور زبان میں نہیں پائی جاتی ہے۔ اردو کئی زبانوں کی زبان ہے اس اعتبار سے بھی اس کی ایک الگ پہچان اور شناخت ہے۔۔

لیکن افسوس کہ آج اردو زبان رو بزوال ہے، اس میں بہت زیادہ گراوٹ آگئی ہے، اردو کی روٹی کھانے والے خود اس سے بے اعتنائی برت رہے ہیں اور اس کا جنازہ نکال رہے ہیں۔ جو بہت افسوس کی بات ہے۔۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہ زبان زندہ رہے اور اس کے ذریعہ سے ہماری تہذیب، شناخت باقی رہے اور ہمارے علمی ورثہ کی حفاظت ہو تو ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اردو کے تحفظ کے لیے اور اس کی حفاظت کے لیے تن من دھن کوشش کریں اور اس زبان کو زندگی اور تابندگی بخشنے کے لیے وہ سب کچھ کریں، جو اس کے لیے ضروری ہے۔۔۔ انفرادی اور اجتماعی طور پر کیا کوششیں ہوسکتی ہیں ان میں سے چند باتیں ہم یہاں بیان کرتے ہیں۔

اردو کتابوں کے مطالعہ کا ہم سب اہتمام کریں، گھر والوں کو بھی اس کا پابند اور مکلف بنائیں۔

گھر میں یا ہم جہاں کہیں رہیں اردو بولنے کا اہتمام کریں، بلکہ اردو زبان میں ہی گفتگو کریں۔ اور گھر کے تمام افراد کو بھی اس کی تاکید کریں۔

گھر میں اردو کتابوں کا بڑا ذخیرہ رکھیں جس کے مطالعہ سے دینی اور ادبی معلومات میں اضافہ ہو۔

ہر گھر میں اردو کی کئی کئی لغتیں اور ڈکشنریاں ہوں۔ خاص طور پر فیروز اللغات، لغات کشوری، فرہنگ آصفیہ اور قومی لغات وغیرہ

کم از ایک اردو روزنامہ اخبار ایک ہفتہ واری اخبار اور ایک ماہنامہ مجلہ ضرور جاری کروائیں اور اہتمام سے اس کا سارے لوگ مطالعہ کریں۔

ادبی اور شعری نشستوں کا اہتمام بھی اردو، کے فروغ میں بہت موثر ہے اس لیے اس کا بھی اہتمام ہم سب کریں۔ اور وقفہ وقفہ سے ادبی پروگرام ضرور منعقد کریں۔

اپنی دکانوں کے بورڈ اردو میں بھی لکھوائیں۔ اور اس کی تشہیر کے لیے جو پمپلٹ شائع کریں اس کو اردو میں بھی لکھوائیں۔

ہر بڑی آبادی میں اردو لائبریری کے قیام کی فکر کریں، کیونکہ اس سے پڑھنے لکھنے اور مطالعہ کا ماحول بنے گا۔

اردو کے نام پر بحال ملازمین اور حضرات اساتذہ اردو زبان کی ترقی کے لیے ضرور کوشش کریں۔ کیونکہ وہ ان کی روزی روٹی کا ذریعہ ہے۔

جن محکموں میں اردو میں درخواست دی جاسکتی ہے اور وہاں اردو مترجمین بحال ہیں وہاں ضرور ہم اردو میں درخواست پیش کریں۔

جن اسکولوں میں اردو یونٹ نہیں ہے وہاں اس کے لیے بااثر لوگ کوشش کریں اور جہاں پہلے سے یونٹ موجود ہے لیکن اساتذہ نہیں ہیں، جگہ خالی ہے، اس جگہوں کے پر کرنے کے لیے جد و جہد کریں۔

اردو کی ترقی کے لیے جو کمیٹیاں اور انجمنیں ہیں وہ اردو کے فروغ کے لیے جی جان لگا کر کوشش کریں۔

جو لوگ اردو کی خدمت کر رہے ہیں، مصنف ہوں یا مولف ادیب ہوں یا شاعر مترجم ہوں یا صحافی ہم ان کی مالی اعانت بھی کریں اور ان کو اسناد اور طمغے سے بھی نوازیں تاکہ ان کی حوصلہ افزائی ہو اور وہ جی جان لگا کر اس کی خدمت میں مصروف رہیں۔۔

ہر گھر میں بچوں کے لیے بھی لائبریری قائم کریں جہاں ادب اطفال یعنی بچوں کے ادب پر جتنی کتابیں ہیں ان کو ضرور اکھٹا کرین۔ مائل خیر آبادی، طالب ہاشمی عقیدت اللہ قاسمی شفیع نیر حکیم سعید دھلوی اور ابو المجاہد زاہد بچوں کے مشہور ادیب ہیں۔ ان کی کتابوں کو خریدیں اور بچوں کو انہیں پڑھنے کا مکلف بنائیں۔

اپنے بچوں کو حفظ اس وقت کرائیں جب ناظرہ کے ساتھ اردو ٹھوس ہوجائے۔ اس سے پہلے حفظ میں داخلہ نہ کرائیں۔ نیز اپنے بچوں اگر کونونٹ میں پڑھا رہے ہیں تو اس کے الگ سے ان کی اردو کی تعلیم کا بھرپور انتظام کریں اس کے لیے اتالیق رکھیں۔

امید کہ ان گزارشات پر عمل کرنے کی ہم سب بھر پور کوشش کریں گے،اور اس زبان کو زندہ و تابندہ رکھنے سعی پیہم کرتے رہیں گے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے