روزہ میں فقہی موشگافیوں اور اختلافی مسائل سے پرہیز کریں
محمد قمر الزماں ندوی
ان شاء اللہ امید قوی ہے کہ آج رمضان کے چاند 🌙کی روئیت ہوجائے، اور رات سے تراویح اور کل سے رمضان کا روزہ شروع ہوجائے، کیونکہ خلیجی ممالک میں آج پہلا روزہ ہے، گزشتہ رات سے تراویح شروع ہوچکی ہے۔ رمضان کا مہینہ خیر و برکت اور صبر و احتساب کا مہینہ ہے، اس مہینہ میں بندہ کی روزی میں اضافہ کردیا جاتا ہے، اس مہینہ کا پہلا عشرہ رحمت کا، دوسرا مغفرت کا، اور تیسرا عشرہ جہنم سے خلاصی کا ہے، یہ مہینہ مومن کے لیے نیکیوں کے کمانے اور اجر و ثواب کے حاصل کرنے کا مہینہ ہے، اس میں مومن بندہ عبادت و ریاضت ذکر و تلاوت اور قیام لیل اور اوراد و وظائف کے ذریعہ اتنا اپنے آپ کو چارج کر لیتا ہے کہ بقیہ گیارہ مہینے اس روحانیت کے اثرات و نقوش اس کی زندگی میں مرتب ہوتے رہتے ہیں۔ غرض یہ مہینہ اصلاح نفس و اصلاح حال کا مہینہ ہے۔ اس مہینے میں خدا تعالیٰ کی جانب سے اصلاح حال اور تربیت نفس کے لیے ماحول کو سازگار کردیا جاتا ہے۔ جنت کے دروازے کو کھول دیا جاتا ہے، جہنم کے دروازے بند کردئے جاتے ہیں اور سرکش شیاطین کو پابزنجیر کردیا جاتا ہے۔
لیکن اس کے باوجود ایک طبقہ ہے، جو اصلاح حال اور اصلاح نفس کے بجائے، اس مہینے کے شروع ہوتے ہی فقہی موشگافیوں اور غیر ضروری بحثوں میں الجھ جاتے ہیں، تراویح کی رکعت اور اس کی حیثیت کیا ہے، ان بحثوں میں الجھ جاتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو رمضان میں بھی مسلمانوں کو غیر ضروری بحثوں میں الجھائے رکھنا چاہتے ہیں، ان کو رمضان اور روزے کی روحانی ماحول سے لطف اندوز اور شاد کام ہونے سے زیادہ مزہ ان فروعی بحثوں میں آتا ہے۔
امام حسن بناء شہید( ۱۹۰۶ء-۱۹۴۹ء)
اونچے پائے کے عالم، مرشد اور مصلح گزرے ہیں، چودہویں صدی ھجری میں اٹھنے والی عظیم تحریک الاخوان المسلمون کے بانی ہیں، فقہی اور گروہی اختلافات کے سلسلہ میں ان کا ایک واقعہ قابل ذکر ہے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ وہاں ایک گاؤں میں تقریر کرنے گئے، رمضان کا مہینہ تھا اور گاؤں کے لوگ تراویح کے رکعتوں کے مسئلہ کو لے کر دو حصوں میں تقسیم ہوگئے تھے کہ آیا تراویح کی رکعتیں بیس ہیں یا آٹھ؟ ان کا اختلاف اس حد تک پہنچ گیا تھا کہ لڑائی جھگڑے کی نوبت آگئی تھی، ہر فریق یہ دعویٰ کر رہا تھا کہ وہی حق و سنت پر ہے۔ مگر جب انہیں حسن البناء کی آمد کا پتہ چلا تو اس نزاعی اور اختلافی مسئلہ میں ان کو حکم بنانے پر اتفاق کیا، جب یہ مسئلہ امام حسن البناء کے سامنے پیش ہوا تو انہوں نے ان سے سوال کیا کہ نماز تراویح کا حکم کیا؟ لوگوں نے جواب دیا سنت ہے۔ پھر پوچھا کہ مسلمانوں میں باہمی اخوت اور بھائی چارہ کا کیا حکم ہے؟ جواب ملا یہ ایک دینی فریضہ اور ایمان کا ستون ہے۔ اپنے حکیمانہ سوال کا جواب جب امام حسن البناء نے پالیا تو فرمایا کہ کیا یہ جائز ہوسکتا ہے کہ سنت کی خاطر ایک دینی فریضہ کو ضائع کردیا جائے؟ یاد رکھو! اگر تم اخوت، بھائی چارہ اور باہمی اتحاد پر قائم رہو، اور پھر تم میں سے ہر شخص آٹھ یا بیس رکعت میں سے جس پر اس کا دل مطمئن کو پڑھ لے تو اس لڑائی اور جھگڑے سے کہیں زیادہ بہتر ہوتا۔
اس واقعہ میں ان لوگوں کے لیے خاص طور پر سبق اور عبرت ہے، جو ہمیشہ تراویح کی رکعتوں کے بارے میں سوال اٹھاتے ہیں اور بحث و تحقیق کے کتابی مجلسی دائرے کو چھوڑ کر دیواری پوسٹر بازی سے کام لیتے ہیں، اور آج کے زمانے میں سوشل میڈیا پر پوسٹ کی بھرمار لگائے رہتے ہیں اور شاید یہ سمجھتے ہیں کہ یہ وقت کا اہم ترین مسئلہ ہے۔
آج جب کے دشمن ہر چہار جانب سے ہمارے اوپر یلغار کے لیے تیار ہے، اسلام کو بیخ و بن سے اکھاڑ دینے کے لیے ہر طرح کو کوششیں عمل میں لائی جارہی ہیں اور ہماری نئ نسل مذہب کے بنیادی تصورات سے غافل ہے، کیا ہمارے لیے یہ کسی طرح جائز ہوگا کہ ہم اپنی توانائیاں فروعی بحثوں میں ضائع کریں۔ ضرورت تو اس کی ہے کہ اس وقت مذہب کے مجموعی ڈھانچے اور دین کے مشترکہ اقدار کو پوری قوت سے پیش کیا جائے اور ہم اپنی پوری توجہ اسی اہم اہداف اور تقاضے کی طرف مرکوز کریں۔
نوٹ اس مضمون کا تعلق موجودہ حرمین شریفین کی تراویح کی دس رکعت سے نہیں ہے۔ دس رکعت تراویح جو حرمین میں دوسال سے ہورہی ہے، وہ ایک نئی چیز اور طرح ہے، جو بالکل غلط ہے، علماء کو اس پر نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔
0 تبصرے