Ticker

6/recent/ticker-posts

اذان ہندی کے آئیڈیے پر ہمارا رویہ

اذان ہندی کے آئیڈیے پر ہمارا رویہ


تحریر : توصیف القاسمی (مولنواسی) مقصود منزل پیراگپوری سہارنپور موبائل نمبر 8860931450

ماہ نامہ ”زندگی نو“ کے مدیر جناب محی الدین غازی صاحب(پ 9/ دسمبر 1973 ) نے ہفتہ بھر پہلے اذان ہندی کا نظریہ پیش کیا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ ”اذان عربی“ کو علی حالہ برقرار رکھتے ہوئے اس سے پہلے یا بعد میں اذان کا ہندی ترجمہ بھی سنا دیا جائے، تاکہ غیر مسلم حضرات پر اذان کی اصل حقیقت واضح ہوجائے، مزید یہ کہ ان کا یہ بھی اصرار نہیں تھا کہ اذان کے ساتھ ہی ہندی ترجمے کو سابقہ یا لاحقہ بنادیا جائے، وہ درحقیقت اس بات پر زور دینا چاہتے تھے کہ اذان کا معنیٰ و مفہوم اتنا عام ہوجائے کہ مسلمان تو مسلمان غیر مسلم حضرات بھی اس سے واقف ہوجائیں ۔ انہوں نے بار بار کہا کہ یہ میری ذاتی رائے ہے ۔

محی الدین غازی صاحب کا مقصد صرف اتنا تھا کہ اذان ہندی کے ذریعے اسلام کا پیغام غیر مسلم حضرات کی مادری زبان میں ان کے سامنے آجائے ۔ محی الدین غازی صاحب نے اپنے مضمون میں اذان ہندی کی افادیت ضرور بتلائی مگر اپنے نظریے سے اختلاف کرنے والوں پر کسی بھی قسم کا کوئی حکم نہیں لگایا، نا اپنی رائے پر اڑے، ملت کی ہمدردی میں ان کی سمجھ میں ایک بات آئی جو انہوں نے پورے اخلاص و خیرخواہی کے جذبے کے ساتھ امت کے درمیان رکھ دی ۔

مذکورہ رائے آنے کے بعد بجائے اس کے کہ اس پر سنجیدہ غوروفکر کیا جاتا ؟ محی الدین غازی صاحب پر عجیب وغریب الزامات کی بوچھار ہونے لگی، ان کی ذاتی رائے کی وجہ سے پوری جماعت اسلامی کو مطعون کیا جانے لگا، فرقہ پرستی مسلک پرستی اور شخصیت پرستی کے زہریلے نشتر ایک دم سے عیاں ہونے لگے ہفوات و بکواس کا ایک لا متناہی سلسلہ چل پڑا ۔ کسی بھی نامانوس چیز پر ہمارے أہل علم حضرات ایسے ہی ردعمل دیتے ہیں جوکہ سراسر غیر علمی اور غیر مہذب طریقہ ہے ۔

آنئینِ نو سے ڈرنا، طرزِ کُہن پہ اَڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
 
راقم الحروف اذان کے بارے میں مذکورہ نظریہ کا حامی ہے ۔ آخر ہم کو غور کرنا چاہیے کیا ہم نے قرآن کریم کے تراجم نہیں کیے ؟ کیا احادیث کا ترجمہ نہیں ہؤا ؟ کیا پورا اسلامی لٹریچر غیر عربی زبانوں میں منتقل نہیں ہؤا ؟ کیا نمازوں کے بعد علاقائی زبانوں میں دعائیں نہیں مانگی جاتی ؟ جوکہ بعد کی ایجاد ہے ۔ کیا تفسیریں لوگوں کو ان کی زبان میں نہیں سنائی جاتی ؟ جوکہ ایک شدید ضرورت ہے ۔ کیا بدعت حسنہ کوئی چیز نہیں ہے ؟ کیا سفر کی وجہ سے نمازیں قصر نہیں کی جاتی ؟ کیا بربناء عذر نمازوں کو قضا نہیں کیا جاتا ؟ کیا نکاح متعہ کئی بار حلال اور کئی بار حرام نہیں ہؤا؟ کیا دین میں سختی سے زیادہ لچک نہیں رکھی گئی ؟ کیا قرآن کریم نے حرمت شراب کے بارے میں قلت نفع اور کثرت گناہ کی بات نہیں کی ؟ جس سے نفع و ضرر کو بنیاد بنا کر حکم لگانے کا اصول نکلا ۔ کیا افطار کے وقت گولہ داغنے کی روایت بعد کی ایجاد نہیں ہے ؟ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ترکی کے ڈکٹیٹر مصطفیٰ کمال اتاترک نے اذان کو تبدیل کرنے کا عمل شروع کیا تھا اس نظریے کے ڈانڈے وہیں سے ملتے ہیں ؟ جب ہم فکر عمیق اور وسیع مطالعے سے محروم ہوتے ہیں تو اسی قسم کے قیاسات لگاتے ہیں، مصطفیٰ کمال اتاترک نے اذان کو تبدیل کیا تھا جبکہ یہاں پر اذان کو علی حالہ برقرار رکھا گیا ہے، مصطفیٰ کمال اتاترک نے پورے اسلام کو موڈرنائز کرنے کی کوشش کی تھی جبکہ زیرِ بحث ”نظریہ“ اسلامی احکام و قوانین کو عام فہم کرنے کا پس منظر لیے ہوئے ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم اسلامی احکام و نظریات کو روایت پرستانہ نظر سے دیکھتے ہیں نگاہ مقصدیت سے نہیں ۔ اگر دعوتی نقطۂ نظر سے کچھ دن یا کچھ شہروں میں یا مستقلاً ایک آدھ وقت کی اذان ”ہندی ترجمے“ کے ساتھ دے دی جائے تو کیا حرج ہے ؟ مفتی تقی عثمانی صاحب نے خواتین کی تعلیم کے تعلق سے امارت اسلامی افغانستان کو خط لکھا اس میں یہ جملہ بھی مذکور ہے کہ ” مخالف پروپیگنڈے کی عملی تردید بھی اہم مقاصد میں سے ہے“ ۔ اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے جنونی ہندو جس طرح کی غلط فہمیاں پھیلا رہے ہیں اور پھر ان غلط فہمیوں کی بنیاد پر تشدد و نفرت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، ان چیزوں کو دیکھتے ہوئے غلط فہمیوں کے ازالے کے لئے باقاعدہ ایک پلیٹ فارم ہونا چاہیے اور ”اذان کے ساتھ ہندی ترجمہ“ پروپیگنڈے کی عملی تردید ہی کی ایک صورت ہے ۔
 
27/ اپریل 2022 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے