Ticker

6/recent/ticker-posts

روزہ کا مقصد حصول تقویٰ و پرہیز گاری ہے : خطاب جمعہ

روزہ کا مقصد حصول تقویٰ و پرہیز گاری ہے خطاب جمعہ

خطاب جمعہ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۷/رمضان المبارک

محمد قمر الزماں ندوی
جنرل سیکریٹری/ مولانا علاءالدین ایجوکیشنل سوسائٹی جھارکھنڈ 9506600725

دو ستو بزرگو اور بھائیو!
روزہ کا بنیادی مقصد قرآن مجید نے حصول تقویٰ بتایا ہے، ارشاد خداوندی ہے، ، یا ایھا الذین آمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون۔۔ اے ایمان والو! روزہ کو تم پر فرض کیا گیا جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا شاید کہ تم سب متقی بن جاو۔

دوستو! یہ سچ ہے کہ اگر روزہ دار روزہ کو اس کی روح اور شکل دونوں کیساتھ رکھے گا، تو بعید نہیں کہ وہ متقی پرہیز گار اور نیک صفت انسان بن جائے گا، جو اپنی پیدائش کا مقصد اور دنیا میں اپنی ذمہ داری کو سمجھ لے گا۔ تقویٰ بری اور غلط باتوں اور برے کاموں سے بچنے اور اللہ کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے اور اللہ کا ڈر اور خوف اپنے اندر پیدا کرنے کو کہتے ہیں۔۔

جہاں رمضان اور روزہ کی فرضیت کا ذکر ہے، وہاں خصوصاً تقویٰ کا ذکر ہے، گویا روزہ کا یہی مقصود ہے۔ اگر روزہ رکھ لیا دن بھر بھوکا پیاسا رہا، لیکن اپنے اندر تقویٰ خوف خدا، اور لحاظ نیز حلال و حرام کی تمیز پیدا نہیں کیا تو بس یہ سمجھے کہ روزہ دار ہوا میں تیر چلاتا رہا اور اندھیرے میں نشانہ لگاتا رہا۔

حضرات!
اسلام نے جتنی عبادتیں فرض کی ہیں، ان میں انسان کی تربیت اور اصلاح کا پہلو بھی ملحوظ ہے، روزہ بھی ان ہی عبادتوں میں سے ایک ہے، جس میں نفس کی تربیت اور تزکیہ کی غیر معمولی صلاحیت ہے، اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ تم پر روزے اس لیے فرض کیے گئے ہیں تاکہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو۔ تقویٰ یہ عربی لفظ ہے، یہ لفظ اور مادہ قرآن مجید بہت استعمال ہوا ہے اور اس کے حصول پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے۔ تقویٰ کے معنی انتہائی درجہ حفاظت کے ہیں، تقویٰ کے معنی بچنے خوف کھانے اور لحاظ کرنے کے بھی ہیں۔

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے تقویٰ کے بارےمیں دریافت کیا تو حضرت ابی بن کعب نے ایک مثال کے ذریعہ تقویٰ کو سمجھایا، حضرت ابی نے عرض کیا، ، کہ کیا آپ کبھی کسی خار دار راستہ سے گزرے ہیں؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، ہاں۔ حضرت ابی نے دریافت کیا کہ اس موقعہ پر آپ نے کیا کیا؟ فرمایا، ، میں نے پائیچے اٹھا لیے اور احتیاط سے کام لیا، حضرت ابی رضی اللہ عنہ نے فرمایا بس یہی تقویٰ ہے۔ گویا دنیا ایک راہ گزر ہے، جو خار دار جھاڑیوں سے گھری ہے، یہ جھاڑیاں خواہشات اور گناہوں کی ہیں، جو انسان کے دامن عمل سے لپٹ جانا چاہتی ہیں، متقی وہ شخص ہے جو اپنے ایمان اور عمل کے دامن کو خدا کی نافرمانیوں اور گناہوں کی نحوست سے بچا کر دنیا کا یہ سفر طے کرلے اسی طرح تقویٰ ایک جامع لفظ ہے، جو خیر کی تمام باتوں کو شامل ہے۔ متقی وہ ہے جو کچھ کہے اللہ کے لیے کہے اور جو کچھ کرے اللہ تعالیٰ کے لیے کرے۔

دوستو!
دنیا میں کوئی شخص اگر کسی پر کوئی فضیلت اور ترجیح رکھتا ہے، تو وہ صرف اور صرف تقویٰ کی بنیاد پر اس کے علاوہ حسب و نسب اور خاندان و نسل کی بنیاد پر کسی کو کوئی ترجیح اور برتری حاصل نہیں ہے۔ ان اکرمکم عند الله اتقاکم۔ خدا کا اعلان ہے کہ تم میں سے سے بڑا معزز اور مکرم اللہ کی نگاہ میں وہ ہے جو اللہ کا سب سے زیادہ لحاظ کرنے والا ہے۔۔۔

آج کی اس مجلس میں آئیے ہم تقویٰ کی حقیقت کو سمجھتے ہیں

حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: انک لست بخیر من احمر ولا اسود الا ان تفضلہ بتقویٰ ۔۔۔۔۔۔۔( مسند احمد۔۔۔۔) تم اپنی ذات سے نہ کسی گورے کے مقابلے میں اچھے ہو اور نہ کسی کالے کے مقابلے میں، البتہ تقویٰ کی وجہ سے تمہیں کسی پر فضیلت ہوسکتی ہے۔

اس حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حقیقت عیاں ہو گئ کہ فضیلت و برتری اور ترجیح و فوقیت کا اسلام میں اصل معیار تقویٰ ہے نہ کہ کوئ دوسری چیز۔ قرآن مجید نے بھی ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم ( درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ شریف وہ ہے جو تم سب سے زیادہ متقی ہے) سے اسی حقیقت کی جانب اشارہ کیا ہے۔ دل میں خوف خدا ہو اور زندگی کی تعمیر و تشکیل خوف خدا اور خشیت الہی کے ذریعہ سے ہوئی ہو، بس یہی چیز آدمی کو مکرم و محترم اور محبوب و معزز بناتی ہے اور اسے دستار فضیلت عطا کرتی ہے۔ مال و دولت رنگ و نسل یا زبان و وطن کی بنیاد پر کسی کو افضل اور اعلی و برتر سمجھنا کم فہمی بے عقلی ضلالت اور گمراہی ہے۔

علماء نے تقویٰ کی حقیقت بیان کرتے ہوئے لکھا ہے

تقویٰ درحقیقت ہوشمندی اور خدا ترسی کا نام ہے۔ خدا کا خوف و لحاظ زندگی کی تشکیل کی حقیقی بنیاد ہے۔ اگر زندگی کی تعمیر و تشکیل کے لئے یہ اصل اور بنیاد فراہم نہ ہو سکے تو زندگی بے کیف، بے مایہ بے وقعت، بے حقیقت اور بے آبرو ہوکر رہ جاتی ہے۔ اور صرف یہی ایک نقصان نہیں کہ زندگی وقار و عظمت شان و شوکت سے محروم ہو جاتی ہے بلکہ زندگی میں کچھ ایسے بگاڑ اور فساد پیدا ہو جاتے ہیں جن کی قباحتوں کو ہر شخص آسانی سے محسوس کرلیتا ہے۔ بدیانتی، ظلم و ستم، بے رحمی اور نا انصافی خدا سے بے خوفی اور نا خدا ترسی کے کڑوے کسیلے پھل ہیں جن کی بدمزگی اور کڑواہٹ کو سبھی محسوس کرتے ہیں۔ سچائ یہی ہے کہ زندگی کو سنوارنے بنانے اور اسے بامقصد اور با معنی بنانے والی چیز خدا کا تقویٰ اور خوف ہے۔ ایک زرخیز زمین بھی اس وقت تک بیکار محض ہے جب تک اس کی کاشت نہ کی جائے۔ زمین میں بیج پڑنے کے بعد ہی اس کی صلاحیت بروئے کار آتی ہے اور اس کی زرخیزی اور صلاحیت کو ہم ایک لہلاہتی ہرا بھرا اور سرسبز و شاداب فصل کی شکل میں دیکھنے لگتے ہیں۔ خدا کا تقویٰ وہ بیج ہے جو زندگی کی فصل کے لئے درکار ہے۔ اس بیج سے کوئی مستثنٰی اور علحدہ رہ کر دنیا اور آخرت کامیابی کی امید رکھے وہ خام خیالی ہے۔ اس بیج کے مہیا نہ ہونے کی صورت میں جھاڑ جھنکار کے سوا ہم کسی اچھی فصل کی امید نہیں رکھ سکتے۔ ( مستفاد کلام نبوت ۲/ ۱۴۲)

تقوی کیا ہے

تقویٰ یہ عربی لفظ ہے جو وقی یقی وقیا سے ماخوذ ہے، جس کے معنی بچانا، اصلاح کرنا، خیال و لحاظ کرنا، ڈرنا، خوف کرنا، اللہ کی بڑائی کرنا، بچنا، احتیاط کرنا، پرہیزکرنا، اور خوف خدا کے ہیں ۔ تقویٰ کا ذکر قرآن کریم میں تقریبا 242/ مرتبہ آیا ہے، اس سے ہم اور آپ تقوی کی اہمیت اور ضرورت کا اندازہ کرسکتے ہیں ۔ تقویٰ کے مفہوم و مطلب اور مرادکو سمجھنے سے قرآن پاک کی بنیادی تعلیمات کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے ۔

مولانا محمد منظور صاحب نعمانی رح اپنی کتاب .. اسلام کیا ہے ؟ ..میں تقویٰ اور پرہیز گاری کی حقیقت بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :

" تقویٰ اور پرہیز گاری کی تعلیم اسلام کی اصولی اور بنیادی تعلیمات میں سے ہے ۔ تقویٰ کا مطلب یہ ہے کہ آخرت کے حساب اور جزا سزا پر یقین رکھتے ہوئے اور اللہ کی پکڑ اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہوئے تمام برے کاموں اور بری باتوں سے بچا جائے اور اللہ کے حکموں پر چلا جائے ۔ یعنی جو چیزیں اللہ تعالی نے ہم پر فرض کی ہیں اور اپنے جن بندوں کے جو حق ہم پر لازم اور مقرر کئے ہیں ان کو ہم ادا کریں، اور جن کاموں اور جن باتوں کو حرام اور ناجائز کردیا ہے ہم ان سے بچیں، اور ان کے پاس بھی نہ جائیں اور اس عذاب سے ڈرتے رہیں ۔ قرآن و حدیث میں بڑی تاکید کیساتھ اور بار بار اس تقویٰ کی تعلیم دی گئ ہے ۔ (اسلام کیا ہے ؟ )

تقویٰ پر جو شخص چلتا ہے یعنی جو محتاط و احتیاط اور خوف خدا والی زندگی گزارتا ہے اسے متقی کہتے ہیں ۔مولانا ابو الکلام ازاد رح نے تقویٰ اور متقی کی تعریف یوں کی ہے :

" زندگی کی تمام باتوں میں ہم دیکھتے ہیں کہ دو طرح کے انسان پائے جاتے ہیں، بعض طبعیتیں محتاط ہوتی ہیں، بعض بے پرواہ ہوتی ہیں، جن کی طبیعت محتاط ہوتی ہے وہ ہر بات میں سمجھ بوجھ کر قدم اٹھاتے ہیں، اچھے برے، نفع نقصان، نشیب و فراز کا خیال رکھتے ہیں، جس بات میں برائ پاتے ہیں، جس بات میں اچھائی دیکھتے ہیں اختیار کر لیتے ہیں، جس حالت کو ہم نے یہاں احتیاط سے تعبیر کیا ہے اس کو قرآن تقویٰ سے تعبیر کرتا ہے ۔ متقی یعنی ایسا آدمی جو اپنے فکر و عمل میں بے پرواہ نہیں ہوتا ۔ ہر بات کو درستی کے ساتھ سمجھنے اور کرنے کی کھٹک رکھتا ہے، برائی اور نقصان سے بچنا چاہتا ہے اور اچھائی اور فائدے کی جستجو رکھتا ہے " ۔ (ترجمان القرآن جلد دوم صفحہ 2)

تقویٰ سے متعلق قرآن مجید میں واضح حکم ان الفاظ میں موجود ہے :


.. یا ایھا الذین آمنوا اتقوا اللہ حق تقتہ ولا تموتن الا و انتم مسلمون .. ( آل عمران 102) اے ایمان والو ! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جو اس کے تقویٰ کا حق ہے اور جان نہ دینا بجز اس حال کے کہ تم مسلم ہو ۔

اس آیت کا مطلب اور مفہوم یہ ہے کہ جیو تو قانون الہی اور تقویٰ کے ساتھ اور مرو اور جان دو تو قانون اسلام اور احکام شریعت کے مطیع رہ کر، زندگی اور موت دونوں کی منزلوں سے مسلمان کو اللہ کے تابع فرمان ہوکر ہی گزرنا ہے۔

روزہ کا بنیادی مقصد قرآن مجید نے حصول تقویٰ بتایا ہے، ارشاد خداوندی ہے، ، یا ایھا الذین آمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون۔۔ اے ایمان والو! روزہ کو تم پر فرض کیا گیا جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا شاید کہ تم سب متقی بن جاو۔

تقویٰ تمام امور کی جڑ اورایمان واسلام کا حاصل و خلاصہ ہے یہ ایک جامع لفظ ہے اس میں تمام اسلامی تعلیمات آجاتی ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ آدمی تمام منہیات سے اپنے آپ کو روکے اور تمام اوامر پر عمل کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعاؤں میں کثرت سے خدا سے حصول تقویٰ کے لئے دعا کرتے تھے اور صحابئہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی اس کی تلقین کرتے تھے۔ آپ دعا مانگتے تھے :

اللھم انی اسالک الھدی، و التقی و العفاف، و الغنی (مسلم )

اے اللہ! میں تجھ سے ہدایت پرہیز گاری پاکدامنی اور غنا کا سوال کرتا ہوں۔

لیکن تقویٰ، احتیاط اور خوف خدا کیسے پیدا ہو ؟ علماء نے لکھا ہے کہ تقوی، خوف خدا اور فکر آخرت پیدا ہونے کا سب سے زیادہ موثر ذریعہ اللہ کے ان نیک بندوں کی صحبت ہے جو خدا سے ڈرتے ہوں اور اس کے حکموں پر چلتے ہوں ۔ دوسرا ذریعہ دین کی اچھی معتبر اور مستند کتابوں کا پڑھنا اور سننا ہے ۔ اور تیسرا ذریعہ یہ ہے کہ تنہائی میں بیٹھ بیٹھ کر اپنی موت کا خیال کرے، اور مرنے کے بعد اللہ تعالی کی طرف سے نیکیوں پر جو اجر و ثواب اور گناہوں پر جو عذاب ملنے والا ہے اس کو یاد اور اس کا دھیان کیا کرے ۔

اور روزہ کا رکھنا حصول تقویٰ کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اس کی جانب تو خود قرآن پاک میں ارشارہ کردیا گیا ہے، ضرورت ہے کہ ہم روزہ اس ایمان و احتساب اور یقین کے ساتھ رکھیں جو ہمارے اندر تقویٰ اور لحاظ و خوف خدا پیدا کردے اور ہماری زندگی مومنانہ کرادر والی زندگی بن جائے نیز ہم ایک معیاری اور مثالی مومن بن جائیں۔

اللہ تعالٰی ہم سب کو ان حقائق کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور خوف خدا والی زندگی گزارنا ہم لوگوں کے لئے آسان فرمائے آمین

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے