کیا جماعت فجر کے درمیان سنت پڑھی جاسکتی ہے؟
محمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپ گڑھ
ہمارے ایک قریبی تعلق والے، جو ایک عرصہ تک طائف سعودی عرب میں رہے تھے، اور اب وطن واپس آچکے ہیں، چند مسائل میں، جب میں وطن میں رہتا ہوں وہ اکثر مجھ سے بحث و مباحثہ کرتے رہتے ہیں، اور احناف کے موقف کی شدت سے تغلیط کرتے ہیں اور بہت سے فقہی مسئلہ کو خلاف سنت اور خلاف شریعت سمجھتے ہیں۔ میں نے متعدد موقع پر مسئلہ کی حقیقت سے ان کو واقف کرایا، لیکن وہ کما حقہ مطئمن نہیں ہوئے، اور اپنے موقف پر اڑے رہے، پھر میں نے دلائل کی روشنی میں اور بعض سلفی محقق کی تحقیقات اور تحریروں کی روشنی میں مسئلہ کی حقیقت کو واضح کیا، تو اب وہ مطئمن ہیں اور اب ان کی نگاہ میں جو غلط فہمیاں تھیں وہ ختم ہوگئیں۔ ان میں سے ایک اہم مسئلہ ہے۔ جماعت فجر، کے درمیان سنت فجر پرھنے اور نہ پڑھنے کا تھا۔
اس سلسلہ بہت سے لوگ افراط و تفریط کے شکار ہیں۔ اکثر حنفی خاص کر دیہاتی لوگ اس مسئلہ میں غلو کے شکار ہوجاتے ہیں اور امام تشہد میں پہنچ جاتے ہیں، سلام پھیرنے کے قریب ہوجاتے ہیں، تب بھی بہت سے لوگ فجر کی سنت شروع کردیتے ہیں، خاص طور پر دیہاتوں میں اس مسئلہ میں لوگ بڑی شدت برتے ہیں۔ خاکسار نے بہت سے پڑھے لکھے اور بعض علماء کو بھی دیکھا، کہ وہ جماعت فجر کھڑی ہوجانے کے باوجود پہلی اور دوسری صف میں فجر کی سنت شروع کردیتے ہیں، جو بالکل ہی غلط اور خلاف شرع ہے۔ آج ہم اس سلسلے میں جو صحیح اور درست موقف اور مسئلہ ہے وہ قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔
شعور کی عمر میں پہنچنے کے بعد یہ مسئلہ پڑھا تھا کہ جب فرض نماز شروع ہوجائے تو سنت نہ پڑھی جائے، لیکن فجر کے بارے میں یہ پڑھا تھا کہ چاہے فرض نماز شروع ہو چکی ہو پھر بھی سنت ادا کر لینا چاہیے، بعد میں یہ معلوم ہوا کہ سلفی حضرات کے یہاں یہ درست نہیں ہے، ان کے یہاں جماعت فجر کھڑی ہوجانے کے بعد بھی دیگر نمازوں کی طرح سنت پڑھنا صحیح نہیں ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب فرض نماز شروع ہوجائے تو کوئی نماز نہ پڑھی جائے، آئیے اس سلسلہ میں صحیح رائے اور مسئلہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ درست ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب فرض نماز شروع ہو تو صرف فرض نمازیں ہی پڑھی جائیں، لیکن نماز فجر کا اس سے مستثنٰی ہونا ان صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے عمل سے ثابت ہے، جو شب و روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتے تھے، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ مروی ہے کہ فجر کی جماعت شروع ہوگئ، انہوں نے فجر کی سنت ادا نہیں کی تھی، لہذا پہلے سنت ادا کی پھر نماز میں شریک ہوئے۔
جاءنا ابن مسعود و الامام یصلی الفجر فصلی رکعتین الی ساریة ولم یکن صلی رکعتی الفجر ( مصنف عبد الرزاق : ۲/ ۴۴۴، حدیث نمبر ۴۵۲۱)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی رائے کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو بات عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو پسند ہو، مجھے اپنی امت کے لئے وہ بات پسند ہے۔ ۰۰رضیت لامتی ما رضی لھا ابن ام عبد ۰۰ ماضی قریب کے مشہور سلفی عالم علامہ ناصر الدین البانی مرحوم نے بھی اس حدیث کا صحیح و معتبر ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ ( دیکھئیے سلسلة الاحادیث الصحیحۃ حدیث نمبر ۱۲۲۵)۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما جن کو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے علم و تفقہ کی دعا دی تھی اور جو چند ممتاز فقہاء صحابہ میں ہیں، ان کے بارے میں بھی منقول ہے کہ وہ مسجد تشریف لائے، جب نماز فجر شروع ہوچکی تھی اور انہوں نے سنت ادا نہیں کی تھی، چنانچہ انہوں نے سنت فجر ادا کی پھر جماعت میں شریک ہوئے :
جاء عبد اللہ بن عباس والامام فی صلاة الغداة و لم یکن صلی الرکعتین فصلی عبد اللہ بن عباس الرکعتین خلف الامام ثم دخل معھم ( شرح معانی الآثار : ۱/ ۱۸۳)
حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ کا شمار فقہاء صحابہ کرام میں ہے، ان کے بارے میں بھی یہ منقول ہے کہ جب وہ مسجد تشریف لائے اور لوگ فجر کی جماعت میں تھے، تو یہ مسجد کے کسی کونے میں دو رکعت (سنت فجر) ادا کرکے پھر جماعت میں شامل ہوئے۔۔۔۔
فیصلی الرکعتین فی ناحیة من المسجد ثم یدخل مع القوم فی الصلاةشرح معانی الآثار : ۱/ ۱۸۳) اس سلسلہ میں حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ کے بعض ارشادات بھی منقول ہیں جن کی تفصیلات علماء کرام اور اہل علم مصنف ابن ابی شیبة :۲ /۵۷ حدیث نمبر ۶۴۲۱/ مصنف عبد الرزاق : ۲/ ۴۴ حدیث نمبر ۴۰۲۰ میں ملاحظہ کرسکتے ہیں۔
یہاں یہ بات بھی ذھن میں رہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا عمل در اصل رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات و فرمودات کی تشریح اور بیان و وضاحت کے درجہ میں ہے، کیونکہ یہ بات بالکل ناقابل قبول اور ناقابل تصور ہے کہ وہ( صحابئہ کرام ) شرعی احکام خاص کر عبادات میں اپنی طرف سے کسی بات کا اضافہ کر دیں گے، حالانکہ عبادات میں کسی بات کا اضافہ بدعت ہے اور دین میں نئ چیز شامل کرنا ہے۔
ان تفصیلات سے یہ بات پوری طرح واضح ہوگئ کہ دوران جماعت فجر سنت فجر پڑھنا یہ عمل صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے ثابت ہے، ایسا نہیں ہے کہ بعد کے لوگوں نے( فقہاء نے) اپنی طرف سے اس عمل کو رواج دے دیا ہے۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ فجر کی سنت کی اہمیت اور اس کی فضیلت دیگر سنتوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے اس سنت کے پڑھنے کا تاکیدی حکم ہے، بلکہ بعض روایات سے تو یہ بھی ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا : جس نے فجر کی سنتیں نہ پڑھی ہوں اس کو چاہئے کہ وہ سورج نکلنے کے بعد ان کو پڑھے۔ (جامع ترمذی)
اگر چہ احناف کا اس حدیث پر عمل نہیں ہے۔
فجر کی سنت کی اہمیت کا اندازہ ان احادیث سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ فجر کی دو رکعت سنت دنیا و مافیھا سے بہتر ہیں۔ ( صحیح مسلم)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فجر کی دو رکعت سنت نہ چھوڑو اگر چہ حالت یہ ہو کہ گھوڑے تم کو دوڑا رہے ہوں۔ ( ابو داود )
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سنتوں اور نفلوں میں کسی نماز کا اتنا اہتمام نہیں فرماتے تھے جتنا کہ فجر سے پہلے کی دو رکعتوں کا فرماتے تھے۔ ( صحیح بخاری / مسلم )
ان روایات کی بناء پر بھی علماء احناف یہ استدلال کرتے ہیں کہ اگر فجر کی جماعت کھڑی ہو گئ ہو اور رکعت ملنے کی امید ہو تو مسجد کے صحن میں یا کنارے کسی گوشے میں پہلے سنت ادا کرلے، پھر جماعت میں شریک ہو جائے۔ لیکن فجر کی جماعت چھوٹ جائے یا آخری رکعت ملنے کی امید نہ ہو تو پھر جماعت میں شریک ہو جائے اور سنت کو چھوڑ دے۔ والله اعلم بالصواب
ناشر / مولانا علاءالدین ایجوکیشنل سوسائٹی، جھارکھنڈ 9506600725
0 تبصرے