Ticker

6/recent/ticker-posts

کیا ہم بحیثیت امت محمدیہ اپنا فرض ادا کر رہے ہیں ؟

کیا ہم بحیثیت امت محمدیہ اپنا فرض ادا کر رہے ہیں ؟


مضمون نگار محمد قمرالزماں ندوی


محمد قمرالزماں ندوی
جنرل سیکریٹری/ مولانا علاءالدین ایجوکیشنل سوسائٹی، جھارکھنڈ

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ وعلی آلہ وصحبہ ومن والاہ، وبعد!


امت مسلمہ، خصوصا ملت اسلامیہ ہندیہ اس وقت تاریخ کے انتہائی نازک، مشکل اور کٹھن دور سے گزر رہی ہے، اس وقت مسلمان یہاں اپنے وجود و بقا کی لڑائی لڑ رہے ہیں، ان پر باطل طاقتیں ہر طرف سے حملہ آور ہیں، ان کے خلاف نفرت و تعصب اور حسد و عناد کی ہوائیں اتنی تیز ہیں کہ بظاہر انہیں کوئی راہ نجات نظر نہیں آرہی ہے، ان کی کشتی کو بھنور سے نکالنے کے لیے کوئی ناخدا اور ملاح نظر نہیں آرہا ہے، ایسا محسوس ہورہا ہے ہر طرف سے ہم گھر گئے ہیں، اور ہماری ناکہ بندی ہوگئی ہے، ناامیدی اور مایوسی نے ہمیں گھیر لیاہے۔۔۔ تو دوسری طرف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہماری قیادتیں منتشر اور متفرق ہیں، منتشر اور مذبذب قیادت نے مسلمانوں کو مایوس کردیا ہے، معاملہ اس قدر نازک اور حالات اس قدر سنگین ہیں، اس کے باوجود ایک پلیٹ فارم پر آنے اور کسی ایک نتیجہ پر پہنچنے کے لیے ہم تیار نہیں ہیں، اکثر تنظیمیں کریڈٹ لینے اور اپنی ہی نافعیت اور مرکزیت ثابت کرنے میں کوشاں ہیں۔

دوستو!!!
یہ اس امت کا حال ہے جن کے یہاں ناامیدی اور مایوسی عظیم گناہ ہے، آخر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنی عظیم امت، جس کے بارے میں علامہ اقبال نے کہا تھا، خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی، آج اس قدر بے بس، بے وزن اور لا چار کیوں ہے؟ آخر ذلت و پستی کے اس مقام پر یہ امت کیوں پہنچ گئی، ان کا رعب و دبدبہ اور وقار و تمکنت پر یہ زوال کیوں آگیا؟ ان کے شوکت و عظمت پر زوال کیوں آگیا اور گہن کیوں لگ گیا ؟ اس کا سیدھا جواب ہے کہ بحیثیت امت مسلمہ اور امت محمدیہ ﷺ ہم نے اپنے فرض منصبی کو انجام نہیں دیا، اس فرض کے ادا کرنے میں ہم نے دانستہ غفلت اور سستی سے کا م لیا، اور راہ فرار اختیار کیا، جس کا نتیجہ اور انجام آج ہمارے سامنے ہے۔

جب تک ہم بحیثیت امت محمدیہ اپنے فرض کو ادا نہیں کریں گے اور اپنا رول اور کردار پیش نہیں کریں گے، تو حالات بدلنا ناممکن ہے۔ آئیے ہم غور کریں کہ ہماری ذمہ داری کیا ہے اور ہمارا فرض منصبی کیا ہے؟

دوستو!!!!
اللہ تعالی نے اس امت کو اگرچہ تمام امتوں کے آخر میں رکھا ہے ؛لیکن یہ ’’مسک الختام‘‘ ہے، اور اپنی بہت ساری خصوصیات وامتیازات کی وجہ سے تمام امتوں پر فائق اور ممتاز ہے۔حدیث شریف میں ہے ’’نحن الآخرون السابقون یوم القیامۃ‘‘ کہ ہم دنیا میں وجود کے اعتبار سے تو آخری ہیں؛مگر دخولِ جنت یا گواہی کے لحاظ سے قیامت کے دن سبقت لے جانے والے ہیں۔(متفق علیہ)۔

امت مسلمہ ایک معتدل ومتوازن امت ہے

امت مسلمہ ایک معتدل ومتوازن امت ہے۔’’وکذلک جعلناکم أمۃ وسطاً لتکونوا شھداء علی الناس ویکون الرسول علیکم شھیداً‘‘ (بقرہ: ۱۴۳)۔ یہ ایک عقیدے اور پیغام کی حامل امت ہے۔کوئی نسلی، یا علاقائی اور لسانی امت نہیں کہ اس کا کسی خاص قوم یا متعین نسل سے تعلق ہو، یا مشرق ومغرب کے کسی ملک یا خطہ سے نسبت ہو، یاکسی ایک مخصوص زبان سے متعلق ہو؛بلکہ یہ ایک عالمی امت ہے، جس کے تمام افراد کو رنگ ونسل اور زبان ووطن کے اختلاف وتنوع کے باوجود ایک عقیدے، ایک شریعت، مشترک اقدار اور ایک قبلے نے باہم متحد کردیا ہے۔اور ’’إنما المؤمنون إخوۃ‘‘کے ربانی اور ’’المسلم أخو المسلم‘‘ (سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں کے) نبوی فرمان نے باہم شیروشکر بنادیا ہے۔یہاں رنگ ونسل اور علاقائی ولسانی بنیاد پرکوئی تفریق اور بھید بھاؤ نہیں ہوتا۔’’تقوی‘‘ کو تفوق کی وجہ اور برتری کا سبب قرار دیا گیا ہے۔

اسلام سب کو ایک کلمہ پر متحد کرتا ہے

اسلام سب کو ایک کلمہ پر متحد کرتا ہے اور انسانوں کو توڑنے والے رنگ ونسل اور زبان وعلاقے کے امتیازات اور طبقاتی تفریق کو مٹاتا ہے، اور علانیہ سب کو ایک امت قرار دیتا ہے، جن کو ایک گہری اخوت باہم مربوط رکھتی ہے، اور اس اخوت کی اساس ایک رب، ایک کتاب، ایک رسول اور ایک نظام پر ایمان ہے۔درحقیقت یہی اساس اس کی شیرازہ بندی کرتی ہے اور اس کے باہمی تعلقات کو مستحکم کرتی ہے۔ ’’وأن ھذا صراطی مستقیماً فاتبعوہ ولاتتبعوا السبل فتفرق بکم عن سبیلہ، ذلکم وصاکم بہ لعلکم تتقون ‘‘(انعام:۱۵۳)۔

یہ امت خیر الامم کے لقب سے ملقب ہے۔امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور اللہ پر مضبوط ایمان اس کی شناخت اور وظیفۂ حیات ہے۔معلوم ہوا کہ یہ امت ایک ربانی پیغام اور عالمی، انسانی نیز اخلاقی منصب کی حامل امت ہے۔

واضح رہے کہ ’’معروف‘‘ ایک جامع اصطلاح ہے۔ اس میں اعتقادیات سے متعلق تمام امور حق، مثلاً:راست بازی، رائے میں اصابت، افعال میں خیر اور اعمال میں درستگی، سب شامل ہیں۔

اس کے برعکس ’’منکر‘‘ کی اصطلاح، عقائد سے متعلق تمام امور باطلہ، قول میں کذب بیانی، رائے میں سطحیت، افعال میں شراور اعمال میں زیغ وضلال، سب کو محیط ہے۔

امت مسلمہ کے گوناگوں امتیازات کے باوجود یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تاریخ کے مختلف ادوار میں اسے طرح طرح کی آزمائشوں، امتحانات، حملوں اور یورشوں کا سامنا رہا ہے، جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ان حملوں کے نتیجے میں اس کا وجود بالکلیہ ختم ہوجائے گا؛مگر اللہ تعالی نے ہردور میں اس کے تحفظ وبقاء کے اسباب پیداکئے اور ایسے رجال برپاکئے، جنہوں نے امت کو ازسر نوزندہ کیا اور اس میں ایک نئی روح پھونک دی۔

آج جب کہ اس امت کو نوع بہ نوع یورش و یلغار کا سامنا ہے، اور ان حملوں کا نشانہ اس کا تشخص، عقائد، نظریۂ دین وزندگی، نظریۂ فرد واجتماع، تصورخالق ومخلوق اور تصور دنیا وآخرت ہے، اور مقصد ان سب کو تبدیل کردینا ہے۔ایسے میں اس نئے طاغوت کے مقابلے میں یہ امت صرف اسی طرح کھڑی رہ سکتی ہے کہ اپنے رب کی رسی کو مضبوطی سے تھام لے اور اپنے نہ ٹوٹنے والے مستحکم ستون سے پوری طرح چمٹ جائے۔ ( مستفاد مقدمہ از کتاب امت محمدیہ۔ امتیازات وخصوصیات مولفہ راقم الحروف)

امت مسلمہ کا حقیقی فرد بننے کے لئے یہ ضروری ہے

امت مسلمہ کا حقیقی فرد بننے کے لئے اور صحیح معنی امتی کہلانے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنی طاقت قوت اور صلاحیت کے حساب سے امت کی خدمت کریں۔ قرآن مجید میں ایک جگہ امت محمدیہ کی خصوصیت کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا : یہ وہ لوگ ہیں جب ان سے لوگوں نے کہا کہ کفار تمہارے مقابلہ میں اکٹھا ہو رہے ہیں اس لئے تم ان سے ڈر کر رہو تو اس بات نے ان کے ایمان میں اضافہ کر دیا اور ان لوگوں نے کہا؛ ہمارے لئے اللہ ہی کافی ہیں اور بہترین کار ساز ہیں ( سورہ آل عمران ۱۷۳)

اس آیت میں در اصل غزوئہ احد کے بعد کا ذکر ہے کہ جب اہل مکہ نے یہ دیکھا کہ بظاہر فتحیاب ہونے کے باوجود وہ یوں ہی لوٹ گئے تو دوبارہ حملہ کرنے کی ہمت نہیں کر پائے لیکن یہ سازش رچی کہ مسلمانوں کو خوف زدہ کرنے کے لئے یہ خبر دیں کہ اہل مکہ بڑے پیمانے پر حملہ کرنے کے لئے اکھٹا ہو رہے ہیں۔ ان کا ارادہ اور منشاء یہ تھا کہ اس طرح مسلمان ڈر جائیں لیکن مشرکین اور اہل مکہ اس سازش میں کامیاب نہ ہوسکے اور مسلمانوں نے جرات و ہمت کے ساتھ جواب دیا کہ اللہ ہمارے لئے کافی ہے۔

آج یہی صورت حال ہمارے سامنے ہے کہ مخالف طاقتیں ہمیں ڈرانا چاہ رہی برادران وطن میں سے ایک طبقہ اس کے لئے طرح طرح کی سازشیں رچ رہا ہے کہ ہم کسی طرح خوفزدہ ہوجائیں اور ہم ہیں کہ ان کی سازشوں کا شکار ہو جارہے ہیں اگر مسلمان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرح ڈر اور خوف کے ماحول سے نکل کر ہمت و حوصلہ اور جرآت و بہادری کے اوصاف سے متصف ہوجائیں اور ایمانی جرآت کا مظاہرہ کرتے ہوئے علی الاعلان یہ کہہ دیں کہ ہمارے لئے ہمارا اللہ کافی ہے تو دشمنوں کا سارا خوف اور بھرم جو ہم پر طاری ہے وہ چکنا چور ہو جائے اور مسلمان ذلیل و خوار اور رسوا ہونے سے بچ جائیں۔ جب تک ہم ایمانی جرآت کا مظاہرہ نہیں کریں گے ہم امت مسلمہ کے حقیقی سپاہی اور پاسباں کی فہرست میں شامل نہیں ہو سکیں گے۔

ہم جب تک اللہ کا خوف اپنے اندر پیدا نہیں کریں گے باطل سے ڈرتے اور دبتے رہیں گے۔ پکے اور سچے مومن کی پہچان یہ ہے کہ وہ صرف اللہ سے ڈرتے ہیں۔ اللہ تعالٰی نے بحیثیت امت، مسلمانوں کو اس کا پابند بنایا ہے کہ وہ صرف اللہ سے ڈریں اور غیروں کے ڈر اور خوف کو اپنے دل میں جگہ نہ دیں۔ ارشاد خداوندی ہے : تو ان سے نہ ڈر اور مجھ ہی ڈرتے رہو۔

ہماری اصلاح کا نسخہ اور بیماری کا صحیح علاج وہی ہے جس کی جانب امام مالک رح نے اشارہ فرمایا ہے۔

امام دار الہجرت حضرت مالک بن انس رحؒ کا ارشادہے: ’’لایصلح آخر ھذہ الأمۃ إلا بما صلح بہ أولھا‘‘ (اس امت کے آخر دور کی اصلاح صرف اسی طریقے سے ہوسکتی ہے، جس سے اس کے پہلے دورکی اصلاح ہوئی تھی)[ اور دور اول کی اصلاح کتاب وسنت سے ہوئی تھی]، اس کو حرز جاں بنالیاجائے اور ’’واعتصموا بحبل اللہ جمیعاً ولاتفرقوا‘‘ کو شعار بنایاجائے۔

آج ضرورت ہے کہ مسلمان ان صفات و خصوصیات کو اپنے اندر پیدا کریں جو اس امت کی پہچان ہے امت محمدیہ کا حقیقی فرد بننے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی طاقت اور صلاحیت کے حساب سے امت کی رہبری و قیادت کریں اور دعوت و اصلاح کا کام کریں لوگوں میں ملی تہذیبی اور سیاسی شعور پیدا کریں اگر ہم نے امت محمدیہ کے یہ اوصاف اور پہچان اپنے اندر پیدا نہیں کیا تو ملت کے فرد اور امت محمدیہ کے نمائندہ ہونے کا دعوی محض کھوکلا دعوی ہوگا۔ اس حقیقت کو ہم یوں سمجھ سکتے ہیں کہ اگر آپ نے دنیا کی کوئی جماعت اور تحریک میں شمولیت اختیار کی اور اس کی حقیقی روح کے آپ محافظ ترجمان اور مبلغ بن گئے تو صحیح معنوں میں آپ اس جماعت اور تحریک کے فرد کھلائیں گے اور اگر آپ نے اپنا صحیح رول اور کردار ادا نہیں کیا آپ کی اس سے وابستگی محض رسمی رہی تو اس تنظیم کا آپ سے کچھ بھلا نہ ہوگا اور نہ ہی آپ دنیا کی نگاہ میں اس تنظیم سے منسوب ہونے کے حقیقی حقدار ہوں گے، ٹھیک اسی طرح ہم میں سے اکثر لوگ ایمان والے ہیں مومن ہیں لیکن امت مسلمہ کی جو حقیقی روح اور اسپرٹ ہے اس سے خالی اور عاری ہیں۔ خدا کرے یہ اوصاف و کمالات ہمارے اندر پیدا ہوجائے آمین۔

نوٹ / دوران سفر کولکاتہ ۲۳ / جون بیبوتی اکسپريس پر بعد نماز مغرب یہ مضمون تیار کیا گیا ہے، دو دن کا یہ سفر ہے، خصوصی دعا کی اپنے قارئین سے درخواست ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے