Ticker

6/recent/ticker-posts

اسلام میں نیکی اور بدی کا تصور

اسلام میں نیکی اور بدی کا تصور

اسانغنی مشتاق رفیقی، وانم باڑی

اسلام ہی وہ واحد دین ہے جو نیکی اور بدی کا واضح تصور دیتا ہے۔ اس کے نزدیک نیکی عین فطرت ہے اور بدی انسانیت کی دشمن، بظاہر وہ کتنی ہی خوشنما کیوں نہ نظر آئے۔ ان دو کے علاوہ اسلام کسی بیچ والے راستے کا قائل نہیں ہے، انسان یا تو نیکی کے راستے پر ہوگا یا بدی کے، وہ بیک وقت نیکی اور بدی والے راستے پر مشترکہ نہیں چل سکتا۔ نیکی میں عبادات اور بندگی کے علاوہ حق اور انصاف اور اسی طرح بدی میں شرک اور کفر کے علاوہ ناانصافی اور ظلم سر فہرست آتے ہیں۔ ہر وہ کام اور فیصلہ جس سے رائی کے دانے برابر بھی کسی کی حق تلفی ہو کسی کے ساتھ نا انصافی ہو بدی میں ہی شمار ہوگا، چاہے اس کام اور فیصلے کا تعلق دین کے شعبے سے ہو یا کسی دنیاوی ادارے سے۔ یہ کہنا کہ چونکہ اس عمل یا فیصلے سے دین کے کسی راست حکم کی خلاف ورزی نہیں ہوتی منافقت ہے کیونکہ دنیا کا کوئی بھی عمل ہو، وہ یا تو اچھا ہوگا یا برا، بین بین نہیں ہو گا، اگر برا ہوا تو یہی بدی ہے اور اگر اچھا ہوا تو یہی نیکی ہے۔

نیکی اور بدی کے اس واضح تصور کے باوجود اگر اپنے آپ کو مسلمان کہلانے والا کوئی شخص اس کی تاویل پیش کرتا ہے اور بدی کو بیچ والا راستہ بتا کر یا دنیاوی معاملہ کہہ کر اپنے آپ کو سچ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے تو یقین جانئے یا تو وہ اسلام کے تعلیمات سے ناواقف ہے یا اس کا دل سیاہ ہوچکا ہے جو وہ اس واضح نصیحت اور سچائی کو بھی قبول نہیں کر رہا ہے۔ کسی انسان کے دل کا سیاہ ہوجانا بد ترین بد بختی کی علامت ہے، کیونکہ جس کسی کا دل سیاہ ہوجاتا ہے اللہ کے نزدیک وہ رذیل ترین مخلوق میں شمار کیا جاتا ہے، اس کے دل پر مہر لگ جاتا ہے اور وہ نصائح قبول کرنے کے لائق نہیں رہتا۔ انا ور ہٹ دھرمی کے پردے اس کی بصارتوں پر تان دئے جاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ حق اور سچائی کو پہچاننے سے قاصر ہوجاتا ہے اور ناانصافی کو انصاف سمجھ کو گھمنڈ کرنے لگتا ہے۔ اللہ رب العزت نے اپنے کلام میں انہیں کے متعلق یوں ارشاد فرمایا ہے

وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ ۖ لَهُمْ قُلُوبٌ لَّا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَّا يَسْمَعُونَ بِهَا ۚ أُولَٰئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ (الاعراف:179)

ترجمہ: اور ہم نے ایسے بہت سے جن اور انسان دوزخ کے لئے پیدا کئے ہیں جن کے دل ایسے ہیں جن سے نہیں سمجھتے اور جن کی آنکھیں ایسی ہیں جن سے نہیں دیکھتے اور جن کے کان ایسے ہیں جن سے نہیں سنتے، یہ لوگ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ یہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں، یہی لوگ غافل ہیں۔

یعنی انسان جب نیکی اور بدی کی صاف وضاحت کے باوجود محض اپنی انا اور تکبر کی وجہ سے نصیحت نہیں سنتا، حق اور انصاف کے تقاضے پورے نہیں کرتا، اس کی مثال چوپایوں کی طرح ہے جن کا کوئی شعور نہیں ہوتا اور جو نیکی اور بدی کا تصور نہیں رکھتے، انہیں حرام حلال کی کوئی تمیز نہیں ہوتی اور نہ خونی رشتوں کی کوئی پہچان، قرآن کے نزدیک ایسا انسان چوپایوں سے بھی زیادہ گمراہ ہوتا ہے اور اللہ کے نزدیک غافل۔ اللہ سے غافل ہوجانے کا انجام دنیا و آخرت میں بد ترین رسوائی کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے۔

قرآن پاک میں اللہ رب العزت نے ایک اور جگہ ارشاد فرمایا ہے


کلا بل ران علی قلوبھم ما کانو یکسبون (14:83)

"ہرگز نہیں، بلکہ دراصل ان لوگوں کے دلوں پر ان کے برے اعمال کا زنگ چڑھ گیا ہے"۔

یعنی انا اور تکبر میں جس بدی کے وہ مرتکب ہوتے رہتے ہیں، اس کی وجہ سے ان کے دلوں پر زنگ چڑھ گیا ہے، اب وہ نصیحت سننے کے قابل نہیں رہے چاہے ان کے سامنے قرآن و سنت سے کتنے ہی واضح دلائل کیوں نہ پیش کردو، صاف صاف اور ایک عام انسان کو سمجھ میں آنے والے دلائل سے بھی ان کے آگےاتمام حجت کیوں نہ قائم کردو یہ اپنی ہی بات پر اڑے رہیں گے۔

سچ فرمایا صادق الامین نے سلامتی ہو ان پر ان کے آل پر کہ


"جب کوئی انسان گُناہ کرتا ہے تو اُس کے دل پر ایک سیاہ نُقطہ بن جاتا ہے، جب دوسری بار گُناہ کرتا ہے تو دُوسرا سِیاہ نُقطہ بنتا ہے یہاں تک کہ اُس کا

دِل سِیاہ ہوجاتا ہے۔ نتیجۃً بَھلائی کی بات اُس کے دِل پر اثر انداز نہیں ہوتی۔ " (اَلدُّرُّالْمَنْثور ج۸ص۴۴۶)

کتنی عجیب بات ہے جب اتنے واضح آیات اوراحادیث کے باوجود خود کو دین دار اور مذہبی باور کرانے والے افراد نیکی اور بدی کے علاوہ خود لئے اپنی دانست میں ایک بین بین راستہ منتخب کرکے دین کے شعائر کا مذاق اڑاتے ہیں بلکہ اس سے آگے بڑھ کر سماج اور سوسائٹی کے نام نہاد خدائی فوجدار بننے میں ذرا برابر بھی شرم محسوس نہیں کرتے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے