خود کشی کے اس واقعہ نے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا
محمد قمر الزماں ندوی
کل ستائیس اگست کو مرادآباد ریلوے اسٹیشن پر مولوی صادق سنبھلی نے ٹرین کے آگے کود کر خود کشی کرلی، اس خبر کے عام ہوتے ہی سوشل میڈیا پر طوفان مچ گیا، چہ جائیکہ اس عمل کی شناعت بیان کی جاتی، اسباب و عوامل پر غور کیا جاتا، اصل واقعہ کے تہہ تک پہنچا جاتا،ساری ہمدری صرف مولوی صادق مرحوم کے ساتھ دکھانا شروع کردیا اور یہ باور کرانے کی کوشش کی جانے لگی کہ مدرسہ اور مسجد کے ناگفتہ حالات اور معاش سے تنگ آکر اس بیچارے نے اپنی جان گنوا دی، اس میں اس کا کیا قصور ہے؟ ، خود کشی کی شناعت اور اس فعل کے حرام ہونے کا ذکر ہی نہیں کیا۔۔۔۔۔۔
سارا الزام اور قصور مدرسہ اور مسجد کے ذمہ داران پر تھوپنا شروع کردیا اور منتظمین مدرسہ کو اس واقعہ کا ذمہ دار اور وجہ قرار دیا گیا، یقینا مدارس کے نظام میں کمیاں اور خامیاں ہیں، اساتذہ کی تنخواہیں اس ہوش ربا گرانی میں بہت کم ہیں، ان کے مسائل کے انبار ہیں، ( اس پر مستزاد یہ کہ کچھ ذمہ داران مدارس کے آس پاس بعض ایسے گھاگ قسم کے اساتذہ ہالہ بنائیں رہتے ہیں، جو ساری عنایات و توجہات اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں اور دوسروں کو ہمیشہ محروم کیے رہتے ہیں، اساتذہ کے عزل و نصب میں یہ بری طرح دخیل ہوتے ہیں، بعض جگہ اساتذہ کو اتنا بدلا اور ہٹایا جاتا ہے، جیسے عرب کے لوگ باندی بدلتے رہتے تھے)
یقیناً مدارس کے اساتذہ کےلیے دقتیں اور پریشانیاں ہیں،ان کی خواہشات تو دور کی بات ہے،ان کی بنیادی ضرورتیں بھی اس تنخواہ سے پوری نہیں ہو پاتیں، اس لیے ذمہ داران مدارس کو عمارتوں اور بلڈنگوں کی تعمیرات سے زیادہ اساتذہ کے مسائل اور ان کی ضروریات پر توجہ دینی چاہیے۔ لیکن اساتذہ کی بھی ذمہ داری اور فرض ہے کہ وہ اپنے اندر صبر، شکر پیدا کریں۔ اعتماد،بھروسہ،ہمت، حوصلہ اپنے اندر پیدا کریں،اور خدا کی ذات پر توکل اور یقین رکھیں، بے صبری، بے اعتمادی اور حالات سے بہت جلد متاثر اور مرعوب اور گھبرا کر ایسا کوئی فیصلہ نہ کریں جو شریعت کی نگاہ میں سنگین گناہ اور بہت بڑا جرم ہے اور جس کی معافی بھی نہیں ہے۔
کل کے اس اندوہناک واقعہ کے تمام پہلو پر نظر ڈالنے اور غور و فکر کے بعد راقم اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ اس واقعہ میں ادارہ کے ذمہ داران اور مسجد کے متولی اور مصلیان کو مورد الزام ٹہرانا درست نہیں ہے، مولوی صاحب ذہنی و اعصابی تناؤ اور ڈپریشن کے شکار تھے، مالی دشواری اور دقت و پریشانی اس واقعہ کا سبب کم ہے، مسجد اور مدرسہ اور دیگر ذرائع سے اس کی ماہنامہ آمدنی بائیس سے چوبیس ہزار تھی، جس سے ایک متوسط فیملی کا گزر بسر آسانی سے ہوسکتا ہے، معتبر ذرائع سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مرحوم کے برادران بنسبت ان کے زیادہ خوشحال اور متمول تھے، وہ لوگ بھی ان کی دامے درمے تعاون کرتے رہتے تھے۔ لیکن خواہشات کی تو کوئی انتہا نہیں ہے، اگر لاکھوں تنخواہ مل جائے اور خرچ میں توازن اور اعتدال نہ ہو تو نصف مہینہ نہیں گزر پائے گا کہ اسکا ہاتھ خالی ہوجائے گا اور ادھار اور قرض کی نوبت آجائے گی، لیکن شعور اور سوجھ بوجھ سے انسان کام لیتا ہے، تو قلیل آمدنی میں بھی مہینہ کا خرچ پورا ہوجاتا ہے اور وقت ضرورت کے لیے کچھ بچا بھی لیتا ہے، اس لیے اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اسراف اور فضول خرچی سے بچو، آمدنی کے اندر خرچ کرو اور اخراجات و خرچ کا ایک نظام اور سسٹم بناؤ۔
راقم الحروف کی تقرری مدرسہ نور الاسلام کنڈہ میں ۱۹۹۷ء یا ۱۹۹۶ء کے اختتام میں تیرہ سو روپے پر ہوئی اور آج پچیس چھبیس سال گزرنے کے بعد بھی تنخواہ پندرہ ہزار تک نہیں پہنچی ہے، یہ الگ بات ہے کہ اس مدرسہ میں اساتذہ کو بعض سہولیات اور رعایتیں ایسی ہیں ، جو دوسرے مدرسوں میں کم ہیں، لیکن الحمدللہ تحدیث نعمت کے طور پر اس کا ذکر کرتا ہوں کہ کبھی کسی کے سامنے بے چینی، بے کسی، بے بسی، بے کلی اور پریشانی کا اظہار نہیں کیا اور نہ کبھی کسی کی دولت پیسے اور عہدے اور منصب سے متاثر اور مرعوب ہوا، جہاں اور جس ماحول میں گیا اپنے عالمانہ وقار اور طمطراق سے گیا، پوری جرأت اور ہمت سے اپنی بات کو رکھا۔ اس کی گواہی وہ سارے لوگ دیں گے جو مجھ سے آشنا اور واقف ہیں۔
یہ الگ بات ہے کہ کتابوں سے اور قلمی کاوشوں سے بھی سالانہ کچھ نا کچھ آمدنی ہوتی ہے، بعض احباب اور رفقاء بھی میری محنتوں سے خوش ہوکر کبھی کبھی اکرامیہ سے نواز دیتے ہیں۔ایک رقم والدہ محترمہ کی طرف سے سالانہ ملتی ہے، جس سے عید بقرعید کے اخراجات پورے ہوجاتے ہیں، یہ اسی خدمت کا معاوضہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر ضروری خواہش بھی پوری ہوجاتی ہے۔
طالب علمی کے زمانے میں ہی ارادہ کر لیا تھا کہ فراغت کے بعد مدرسہ میں رہ کر دین کی خدمت کروں گا اور درس و تدریس کو ہی اپنی زندگی کا حصہ بناؤں گا، یہ میری ذاتی پسند اور چوائس تھی، سرکاری نوکری بھی مل رہی تھی،بلکہ زور دیا جارہا تھا کہ بورڈ مدرسہ میں رہو اور یہیں سے علم کی روشنی پھیلاؤ۔ لیکن میں نے اس کی طرف توجہ نہیں کی۔۔
والد صاحب مرحوم سرکاری ٹیچر تھے ان کہنا تھا کہ آگے جہاں تک پڑھو میری طرف سے اجازت ہے ، علی گڑھ چلے جاؤ، جامعہ ملیہ میں داخلہ لے لو۔ لیکن ہم نے اس میدان کو ترجیح دی۔ مجھے اپنے اس انتخاب پر کبھی پچھتاوا نہیں ہوا اور یک بگیر محکم بگیر کے محاورے پر عمل کرتے ہوئے ، ستائیس سال سے اس مدرسہ میں خدمت انجام دے رہا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ اس راہ کا انتخاب وہی کرے جو حالات و مسائل کو جھیل اور برداشت کرسکتا ہو، دقتوں کا سامنا کرسکتا ہو، ورنہ صحیح تو یہ ہے کہ جس کو جان و دل عزیز وہ اس گلی میں آئے کیوں؟
مضمون کا اگلا حصہ ملاحظہ کریں:
خود کشی کا بڑھتا ہوا رجحان ایک لمحئہ فکریہ
محمد قمرالزماں ندوی
استاذ:
مدرسہ نورالاسلام کنڈا پرتاپگڑھ
مندرجہ ذیل تحریر لاک ڈاؤن کے وقت کی لکھی ہوئی ہے، جس وقت حالات سے تنگ آکر خودکشی کے واقعات کثرت سے پیش آرہے تھے، آج جب مولوی صادق مرحوم کی خود کشی کا واقعہ سنا تو دل و دماغ اور قلب پر بہت اثر ہوا، متضاد خبروں نے اور پریشان کردیا، بہر حال سچائی سامنے آئی اور جو غلط فہمی پھیلائی جارہی تھی، اس پر بند لگا۔ اس واقعہ کے پس منظر میں یہ پرانی تحریر قند مکرر کے طور پر پیش کر رہے ہیں، تاکہ ہم سب اس شنیع عمل اور گناہ کے بارے میں جانیں اور لوگوں کو اس کی شناعت بتائیں اور اس کے اسباب و عوامل پر غور کرکے لوگوں کو اس سے روکنے کی کوشش کریں۔ آج کے واقعہ پر اصل تحریر دیر رات تک ہم پوسٹ کریں گے۔ م ق ن
اس وقت ملک عزیز ہندوستان اپنی تاریخ کے سب سے تاریک اور مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے، سماجی اور معاشرتی میدان میں تنزلی کی آخری کگار پر ہے۔سیاسی، معاشی اور دفاعی اعتبار سے بھی آج کی سیاست سب سے نچلے مقام پر آگئی ہے، آزاد بھارت اپنے عھد کی سب سے کمزور پوزیشن کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ سرحد پر دراندازی ہورہی ہے، چین ہمیں کمزور کرنے کی بھر پور کوشش کر رہا ہے، نیپال جیسا چھوٹا سا ملک ہمیں آنکھیں دکھا رہا ہے، کل چینی افواج کی جھڑپ میں ہمارے تین فوجی اہلکار مارے جاچکے ہیں، ملک کی معیشت چرمرا گئی ہے،بہت سےلوگ دانے دانے کو ترس رہے ہیں،روز گار بند ہیں،علمی میکدے بھی سب بند ہیں،بچے آزاد گھوم رہے ہیں،یہ سب کچھ ہو رہا ہے پھر بھی میڈیا اور صحافت کو سانپ سونگھ گیا ہے، وہ اس جانب کوئی دھیان نہیں دے رہی ہے۔حکومت منظر نامہ سے غائب ہے اور اپنی ذمہ نبھانے اور ٹھوس پالیسی اختیار کرنے سے پہلو تہی اپنا رہی ہے۔
لاک ڈاؤن اور کورونا کی مار جھیلتے جھیلتے عوام ابھی تک بدحال ہوتی جارہی ہے، غربت اور بے روزگاری نے گھریلو مسائل میں اضافہ کردیا ہے، ایک بڑی تعداد ڈپریشن کی شکار ہے، میاں بیوی اور خاندانی لڑائی میں اضافہ ہوا ہے، لوگ ٹینشن میں خود کشی تک کرنے لگے ہیں، بلکہ ان حالات میں خود کشی کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے، غربت کی وجہ سے لوگ جان دے رہے ہیں تو دوسری طرف مالدار گھرانے کے لوگ بھی ذھنی تناو، موجودہ ملکی حالات، اور مذھبی بیدھ بھاو کی وجہ سے اپنی جان گنوا رہے ہیں۔
ایسے نازک موقع پر ملک کی انتطامیہ اور ذمہ دار شہری کو سر جھوڑ کر بیھٹا چاہیے تھا، اور اس مشکل کا حل نکالنا چاہیے تھا، ایسا نہ کرکے لا یعنی اور غیر ضروری کاموں میں توانائی صرف کی جارہی ہے، ہندو مسلم فیلنگ کو ہوا دیا جا رہا ہے، مذھبی جنون کو بھڑکایا جارہا ہے اقلیتوں کو ستایا جارہا ہے ۔ انسانیت کے رشتہ کو توڑا اور کمزور کیا جارہا ہے۔ غرض یہ ملک اپنے انجام کی آخری حد تک پہونچتا جارہا ہے اور بہت کم لوگ خطرے کو محسوس کرکے حالات کی درستگی کے لیے سامنے ارہے ہیں۔
دوسروی طرف ہم لوگوں کو یہ نہیں سمجھا پا رہے ہیں کہ زندگی بہت بڑی نعمت ہے، اس نعمت کا دنیا میں کوئی بدل نہیں ہے، اس کے جانے کے بعد دنیا میں یہ پھر دوبارہ نہیں آتی۔ انسان یہ نعمت اپنی کوشش اور محنت سے حاصل نہیں کرتا، بلکہ زندگی خدا کی طرف سے ایک بڑی نعمت اور عظیم عطیہ اور گفٹ ہے، زندگی وہ عطیہ ہے جو تمام تر سائنسی ترقی کے باوجود ایک سربستہ راز ہے عقدہ لا ینحل ہے، انسان نے اپنی کوششوں سے جسم کے تمام اعضاء کی خصوصیات، اس کی فعالیت اس کی بناوٹ و ساخت اور اس کے حجم کے بارے میں بہت کچھ معلومات حاصل کرلی ہے۔ لیکن آج بھی عقل اس راز، پردہ اور گرہ کو کھولنے سے عاجز ہے اور قدرت کے راز سربستہ سے پردہ اٹھانے میں ناکام ہے کہ آخر روح کی حقیقت کیا ہے ❓۔ یہ جسم میں کیوں کر آتی ہے اور کہاں جاتی ہے۔ اور پھر کیوں داغ مفارقت دے جاتی ہے۔ آج تک سائنس اور میڈکل اس کی حقیقت سمجھنے میں ناکام ہے۔ سارے مشینی آلات بے بس ہیں۔ انسان کی یہی مجبوری اور علمی بے بسی و لاچاری اللہ کی ذات پر یقین دلاتی ہے اور ایمان میں تازگی پیدا کرتی ہے۔ اسی حقیقت کو قرآن مجید میں قل الروح من امر ربی کہا گیا ہے۔( مستفاد عصر حاضر کے سماجی مسائل)
افسوس کہ ہم نے آج تک لوگوں کو زندگی کی حقیقت اور اس کے راز سے واقف نہیں کرایا اور پیدا کرنے والے کی مرضی اور پلانگ سے لوگوں کو آگاہ نہیں کیا۔ ہم لوگوں کو یہ نہیں سمجھا سکیں ہیں اور یہ نہیں بتا سکیں ہیں کہ انسان اپنے جسم کا خود مالک نہیں ہے بلکہ یہ اللہ کی ایک امانت ہے اور ممکن حد تک اس کی حفاظت اس کی ذمہ داری ہے، اور خود اس کو کسی بھی حال میں ضائع اور ہلاک نہیں کرسکتا۔ اگر جسم بیمار ہو تو اس کی حفاظت اور دوا 💊 معالجہ اس کی ذمہ داری ہے اور حفظان صحت کے اصول کی رعایت کرنا اس کا فرض ہے۔ اور یہ توکل کے خلاف بھی نہیں ہے۔ انسان کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ کوئی ایسی چیز ہرگز استعمال نہ کرے جو انسانی زندگی کو خطرہ میں ڈال سکتی ہو۔ کسی ایسی چیز کا کھانا جائز نہیں ہے جس سے صحت کمزور ہو۔ اسلام تو اللہ کی عبادت اور بندگی میں ایسے غلو کو پسند نہیں کرتا جو انسان کی صحت کو برباد کردے اور اس کی تازگی کو چھین لے۔
اسلام کی نگاہ میں خود کشی بہت بڑا گناہ اور سنگین جرم ہے۔ ایسا گناہ جو دنیا سے محرومی کا سبب ہے اور آخرت کی بربادی کا بھی سبب ہے۔ قرآن مجید نے خود کشی سے منع کیا، لا تقتلوا انفسکم۔ کہیں کہا گیا لا تقتلوا اولادکم خشیة املاک۔
آقا مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اپنے اپ کو پہاڑ سے گرا کر خود کشی کی آگ میں وہ اسی طرح گرتا رہے گا۔ جس نے زہر پی کر خود کشی کیا تو وہ دوزخ میں ہمیشہ اسی طرح زہر خورانی کرتا رہے گا۔ الخ( بخاری )
آج پوری دنیا میں بے چینی اور بے کلی بڑھی ہے، لوگ اپنے کرتوتوں کی وجہ سے ڈپریشن کے شکار ہوئے ہیں۔ خدا فراموشی کے شکار ہوئے ہیں، زندگی کی الجھنیں، اتنی بڑھا لی ہیں کہ پیدا کرنے والے کو صرف بھولے ہی نہیں ہیں بلکہ فطرت سے اور قدرت سے جنگ اور بغاوت پر اتارو ہوگئے ہیں،جس کی پاداش میں اس قدر حواس باختہ اور مایوس ہوگئے ہیں کہ اپنے ہاتھ ✋ ہی سے اپنی جان گنوا رہے ہیں۔
پہلے یہ مرض اور بیماری والمیہ مغربی ملکوں کا تھا، لیکن اب ہندوستان اور مشرقی ممالک بھی ان سے پیچھے نہیں ہیں۔ ہندوستان میں خود کشی کے واقعات دن بدن بڑھتے جارہے ہیں لاک ڈاؤن کے بعد تو یہ سلسلہ اور زور پکڑ رہا ہے۔ مقام افسوس ہے کہ کہ مسلمان بھی اس کا شکار ہونے لگے ہیں جن کے پاس ایمان ہے، جو زندگی کی حقیقت اور اپنے پیدائش کے مقصد سے واقف ہیں۔ لیکن جب کسی کا ایمان کمزور ہوتا ہے اور اللہ کی ذات سے بھروسا اٹھ جاتا ہے اور دنیا کا خوف اس کو ستانے لگتی ہے تو وہ بھی اس جرم کا ارتکاب کرنے لگتا ہے۔
اس وقت ملک جس دور سے گزر رہا ہے۔ معیشت اور بے روزگاری جس طرح بڑھی ہے اور جس طرح لوگ بے چین و مضطرب ہیں، ڈپریشن کے شکار ہیں اگر لوگوں کو زندگی کی حقیقت اور مقصد سے آگاہ نہیں کیا گیا، ان کے ذھنی تناو کو کم نہیں کیا اور ذھنی ڈپریشن سے نہیں بچایا گیا تو بعید نہیں کہ خود کشی کا رجحان اور سلسلہ بڑھ جائے گا اور پھر یہ سلسلہ رکنے کا نام نہ لے گا۔
لہذا ضرورت ہے کہ ہم سب خود کشی کے اخلاقی اور سماجی نقصانات سے لوگوں کو آگاہ کریں۔ سماجی خدمات کے زریعے لوگوں کی ضرورتوں کو پوری کریں۔ مقروضوں کے ساتھ نرمی کا سلوک کریں۔ تنگ دستوں اور فقط حال لوگوں کے مسائل کو سمجھیں۔ خاندان میں کوئی اگر کسی وجہ سے ڈسٹرب اور پریشان ہے تو اس کی ضرورت کو سمجھیں ان کی ہر طرح سے مدد کریں ان کو صحیح مشورہ دیں ۔ زندگی ایک امانت ہے اس کی حقیقت سے پوری انسانیت کو آگاہ کریں، اس حقیقت کو سمجھانے کے لیے جلسے ورک شاپ اور سمینار کریں، اسلام نے جائز اور ضروری حد تک جس تفریح اور مزاح کی اجازت دی ہے اس پر خود بھی عمل کرین اور دوسروں کو بھی ترغیب دیں۔ خوشگوار زندگی گزارنے کے راز سے لوگوں کو واقف کریں۔( مستفاد از کتاب عصر حاضر کے سماجی مسائل از مولانا خالد سیف اللہ رحمانی)
0 تبصرے