Ticker

6/recent/ticker-posts

رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے اخلاق عالیہ اور اوصاف کریمہ!

رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے اخلاق عالیہ اور اوصاف کریمہ!


تحریر : نازیہ اقبال فلاحی
معلمہ : مدرسہ دارالقرآن الکریم بابوآن ارریہ، بہار

رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم بلند اخلاق کے مالک تھے، قرآن کریم میں آپ کے صفات کریمہ اور اخلاق عالیہ کے بلند مقام پر فائز ہونے کی گواہی دی گئی ہے۔ " و انک لعلی خلق عظیم "، آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سب سے زیادہ فراخ دل، کشادہ قلب، راست گفتار، نرم طبیعت اور معاشرت و معاملات میں نہایت درجہ کریم تھے، بہت خوددار، باوقار اور شان و شوکت کے حامل تھے، ہر وقت آخرت کی فکر میں اور امور آخرت کی سوچ میں رہتے، بلا ضرورت کلام نہ فرماتے تھے، گفتگو فرماتے تو الفاظ کو دہن مبارک سے اچھی طرح ادا فرماتے، آپ کی گفتگو بہت واضح اور دو ٹوک ہوتی تھی۔

آپ نرم مزاج اور نرم گفتار تھے، نہ بے مروت تھے، نہ کسی کی اہانت کرتے اور نہ ہی اس کو اپنے حق میں پسند کرتے، نعمت خواہ کتنی ہی قلیل ہو اس کی قدر کرتے اور اس کو بہت زیادہ جانتے تھے، اور اس کی برائی نہ کرتے تھے، کھانے پینے کی چیزوں کی نہ برائی کرتے نہ تعریف، دنیوی امور کے لیے آپ کو غصہ نہ آتا تھا، لیکن جب کسی شرعی حکم کی پامالی ہوتی تو اس وقت آپ کے جلال کے سامنے کوئی چیز نہ ٹہر سکتی تھی، اپنی زبان مبارک کی حفاظت کرتے، لایعنی چیزوں میں زبان نہ کھولتے تھے، لوگوں کی دلداری کرتے کہ لوگ متنفر نہ ہو جائیں، کسی قوم و برادری کا معزز شخص آتا تو اس کا اکرام و احترام کرتے اور اس کی ترغیب بھی دیتے تھے۔

لوگوں کے بارے میں محتاط تبصرہ فرماتے، اپنے ساتھ رہنے والوں کے حالات سے واقفیت رکھتے، اور لوگوں سے ان کے معاملات کے بارے میں دریافت فرماتے تھے، آپ کے قریب جو لوگ رہتے تھے وہ سب سے اچھے اور منتخب افراد ہوتے تھے، آپ کی نگاہ میں سب سے افضل و معزز وہ ہوتا تھا جو خیر خواہی اور اخلاق میں سب سے فائز ہوتا، جو غم خواری و ہمدردی اور دوسروں کی مدد و معاونت میں سب سے آگے ہوتا، اٹھتے بیٹھتے خدا کا ذکر کرتے، اپنے حاضرین مجلس اور ہم نشینوں میں ہر شخص کی طرف بھر پور توجہ دیتے، آپ کا شریک مجلس یہ سمجھتا تھا کہ آپ کی نگاہ میں کوئی اور ہے نہیں، کوئی آپ سے بات کرتا نہایت صبر و سکون سے اس کی بات سنتے، کوئی سائل آپ کے پاس آتا تو اس کی مدد کرتے، اگر مدد کرنے کے لیے کچھ نہ ہوتا تو نہایت نرم لہجے میں جواب دیتے، تمام لوگ حق کے معاملہ میں آپ کی نظر میں برابر تھے، آپ کی مجلس علم و معرفت، حیا اور صبر و امانت داری کی مجلس ہوتی تھی، نہ کسی کی آواز بلند ہوتی نہ کسی کے عیوب بیان کیے جاتے، نہ کسی کی عزت و ناموس پر حملہ ہوتا، نہ کمزوریوں کی تشہیر کی جاتی، سب ایک دوسرے کے مساوی ہوتے، صرف تقوی کی بنیاد پر فضیلت و برتری حاصل ہوتی تھی، بڑوں کا احترام اور چھوٹوں کے ساتھ شفقت اور رحم دلی کا معاملہ فرماتے تھے۔

آپ خود ارشاد فرماتے تھے۔ " ادبنی ربی فاحسن تادیبی "، میری تربیت اللّٰہ تعالٰی نے فرمائی اور بہترین تربیت فرمائی ہے، کبھی ارشاد فرمایا " ان اللّٰہ بعثنی لتمام مکارم الاخلاق و کمال محاسن الافعال"، اللّٰہ تعالٰی نے مجھے مکارم اخلاق اور محاسن اعمال کی تکمیل کے لیے مبعوث فرمایا ہے۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا سے آپ کے اخلاق کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے فرمایا " کان خلقہ القرآن"، یعنی آپ کے اخلاق قرآن پاک کا مجسم نمونہ تھے، عفو و درگزر، تحمل و بردباری، کشادہ قلبی اور قوت برداشت میں آپ کا جو مقام تھا وہاں تک اہل ذہانت کی ذہانت، اور شعراء کے خیالات و تصورات کی رسائی نہیں ہو سکتی۔

حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی نوازش و کرم اور بڑے سے بڑے دشمن کے ساتھ دلداری اور احسان کا ایک نمونہ وہ تھا جو منافقین کے سردار عبد اللّٰہ بن ابی سلول کے معاملہ میں اختیار کیا، یہ شخص وہ تھا جس نے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے خلاف کھلی دشمن کے الفاظ استعمال کیے، اور آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے خلاف خفیہ سازشوں میں شریک رہتا تھا، اور سب مسلمان اس کے رویے سے واقف تھے، اس کے مرنے پر اس کے مومن بیٹے کی خواہش پر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وہاں تشریف لے گئے اور اپنی قمیص مبارک اس کو پہنائی، اس سے زیادہ حیرت انگیز واقع فتح مکہ کا ہے، صلح حدیبیہ میں حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے کفار مکہ کی جن شرائط کو منظور کر لیا، ان میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ جو قبیلہ جس کا فریق چاہے ساتھ دیں، اس سلسلے میں بنو خزاعہ نے مسلمانوں کا ساتھ دیا، لیکن مشرکین مکہ نے کچھ عرصے میں معاہدہ پامالی کرتے ہوئے بنو خزاعہ کا قتل عام کیا اور نقض عہد کر دیا، اس بنا پر مسلمانوں پر ضروری ہو گیا کہ وہ اپنے حلیف کا بدلہ لیں اور ان کی مدد کریں اور اس کی ہی صورت تھی کہ مکہ جا کر مسئلہ حل کیا جائے، اس ضرورت کے پیشِ نظر یہ واقعہ وجود میں آیا، اور اسی واقعے میں آپ نے " لا تثریب علیکم الیوم اذھبوا انتم الطلقاء"۔ ٫٫ آج کے دن تم پر کوئی ملامت نہیں، جاؤ تم سب آزاد ہو، ،۔

یہ اور اس کی طرح کے بیسوں واقعات آپ کے اخلاق عالیہ کے شاہد ہیں۔

اللّٰہ تعالٰی ہم کو اخلاق عالیہ سے متصف کرے، اور اخلاق رذیلہ سے بچائے اور ہمارا خاتمہ بالخیر فرمائے۔ آمین!

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے