Ticker

6/recent/ticker-posts

برہانپور کا ایک علمی سفر اور وہاں کی سیر

برہانپور کا ایک علمی سفر اور وہاں کی سیر

(۷)
محمد قمر الزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام، کنڈہ، پرتاپگڑھ

آہو خانہ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
برہانپور کے آثار قدیمہ اور تاریخی مقامات میں ایک مشہور مقام اور جگہ آہو خانہ بھی ہے۔ جو زین آباد میں واقع ہے، زین آباد برہانپور کے مشرقی نواح میں ایک چھوٹی سی بستی ہے، جسے نصیر الدین خان فاروقی والی خاندیش نے فتح قلع آسیر کے بعد اپنے پیر و مرشد زین الدین شیرازی کے نام پر ۸۰۳ھج مطابق ۱۴۰۰ء میں دریائے تاپتی کے دوسرے کنارے آباد کیا تھا، زین آباد کسی زمانے میں کپڑے کی تجارت اور کاغذ سازی کا مرکز تھا۔ آہو خانہ فاروقی سلاطین کے دور میں بہترین شکار گاہ تھی۔

جب اکبر نے ۱۶۰۱ء میں قلع آسیر گڑھ فتح کیا، تو اپنے بیٹے دانیال کو برہانپور کا حاکم مقرر کیا، دانیال شکار کا بہت شوقین تھا، نیز شراب و کباب کا عادی تھا، لیکن اکبر کو جب اسکا علم ہوا تو دانیال کو شراب سے روکنے کے پوری کوشش کی، عبد الرحیم خان خاناں کو دانیال کا اتالیق مقرر کیا اور فرمان شاہی لکھ کر بھیجا کہ دانیال کو شراب نوشی سے روکا جائے، لیکن تمام تر تدبیروں کے باوجود وہ مختلف بہانوں اور حیلوں سے شراب نوشی کرتا رہا۔ بہر حال اپنے دور گورنری میں دانیال آہو خانہ میں رہا اور اس نے اپنی پسند کے مطابق کتنے خوبصورت محل، متعدد حوض، نہریں اور پھولوں کے تختے تعمیر کرائے۔ اس کے چاروں طرف حصار بندی کرکے شکار گاہ کو محفوظ کردیا تھا، جو آج بھی اچھی حالت میں موجود ہے۔ ۱۰۱۳ھج مطابق ۱۶۱۵ء میں بتیس سال کی عمر میں وہ انتقال کرگیا۔ اسے شاہدہ روڈ پر دلاور خانہ کے نزدیک ایک عظیم الشان گنبد میں دفن کردیا گیا۔

عہد جہانگیری میں عبد الرحیم خان خاناں نے بڑی جانفشانی کے بعد کھرنی اور دیگر قسم کے درخت 🌳🌲🌴 ایران سے لاکر لگائے۔، دور شاہجہانی میں ایرانی طرز پر اس باغ کی از سرنو ترتیب دی گئی۔ شاہجہاں نے محل اور بارہ دری کے حسن و زیبائش میں گراں قدر اضافہ کیا۔ جہاں اکثر بیگمات مغلیہ اس باغ کی سیر کو آتی تھیں اور یہاں کے حسین اور دلفریب مناظر سے لطف اندوز ہوتی تھیں۔

تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ شاہجہاں نے اس باغ کو اپنی دختر شہزادی عالم آراء کے نام منسوب کردیا تھا۔ اس لیے تاریخ میں اسے باغ عالم آراء یا باغ زین آباد کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس باغ کو سیراب رکھنے کے لیے شاہجہاں نے محل گل آراء سے آہو خانہ تک سات میل لمبی زمین دوز پختہ نہر بنائی۔ اس کے ذریعہ آہو خانہ میں پانی آتا تھا۔ آہو خانہ کے باہر اس پانی کو جمع کرنے کے لیے اکیس فٹ گہرا سیڑھی دار حوض بنایا گیا۔ اسی جگہ سے چھوٹی چھوٹی نہروں اور مٹی اور چونے کے بنے نلوں کے ذریعہ پانی باغ کے مختلف حصوں تک پہنچتا تھا۔ اب یہ حوض خشک پڑا ہے اور اس درو و دیوار پر حسرت برستی ہے۔ غرض اس جگہ کو مغل شہزادوں نے اپنے اپنے زمانے میں بہت ہی دلفریب، دیدہ زیب اور پرکشش بنایا تھا، جس کی رعنائی خوبصورتی اور دلفریبی آج بھی جھلکتی ہے۔ باغ عالم آراء کی فصیل سے بلند دروازے سے کچھ آگے آدھا کلو میٹر کے فاصلے پر ایک نہایت ہی عبرت خیز عمارت ہے، جس کی ویرانی ہی اس کی خوبصورتی اور اس کی کشش کا ذریعہ ہے۔ یہ تاج کی بیگم ممتاز محل کا عارضی مدفن ہے، جس کے ارد گرد بوسیدہ عمارت، قدیم بوسیدہ مسجد اور ایک حوض ہے، اس عارضی مدفن کے منقش درو دیوار محراب اورطاقوں سے مغلیہ شان و شوکت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ان پر بنے ہوئے مختلف اقلیدسی اشکال، دائرے، مربع، مستطیل اور مثلث وغیرہ میں بنائی نمونوں میں گل کاری کی گئی تھی۔ جن کی تازگی آج بھی مسحور کن ہے۔ شاہجہاں کے عہد کی شان تعمیر اور کمال صناعی کی شاہد یہ دیواریں آج بھی۔۔ شکوہ سنج گردش لیل و نہار ہیں

آہو خانہ ابتداء ہی سے مغل شہزادوں کی سیر و تفریح کا مرکز رہا ہے، اورنگ زیب عالمگیر کے زمانہ شہزادگی کی عشق و محبت کی داستان بھی اسی آہو خانہ سے جڑی ہوئی ہے۔

تذکرہ نویسوں نے لکھا ہے، تاریخ کے حافظہ میں محفوظ ہے کہ جس دور میں اورنگ زیب کے خالو خان زمان خاں برہانپور کے گورنر تھے۔ اسی دوران اورنگ زیب اپنی خالہ محترمہ کے گھر 🏡🏠🏨 برہانپور آیا تھا، اس وقت اورنگ جوان تھے اور عنفوانان شباب کا زمانہ تھا۔ وہ اپنی خالہ سے ملنے آہو خانہ پہنچے، اورنگ زیب باغ میں چہل قدمی کررہے تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ آموں کے جرمھٹ میں خادمائیں سیر و تفریح کررہی ہیں۔ اس جمگھٹ میں ایک خادمہ نے آم کے درخت سےبڑے ہی شوخی بھرے انداز سے آم توڑا۔ اس حسین اور دلفریب و پرکشش منظر اور خادمہ کے حسن اور ناز و انداز دیکھ کر اورنگزیب دل وجان سے اس پر فریفتہ ہوگئے اور تھی بھی وہ بلا کی حسین، اس کا نام ہیرا بائی زین آبادی تھا۔ وہ مغنیہ تھی اور فن موسیقی پر مہارت رکھتی تھی۔ اورنگ زیب نے اس سے اپنی محبت کا اظہار کیا۔ مگر اس نے ان سنی کردی۔ اورنگ زیب اس کے رویہ سے اور بے چین و بے قرار ہوگیا،وہ ہیرا بائی سے بار بار ملتا اور اپنی محبت کا اظہار کرتا۔ ہیرا بائی چوں کہ بلا نوش تھی وہ شراب کی عادی تھی۔ اس نے یہ جاننے کے لیے کہ واقعی شہزادہ مجھ سے محبت کرتا ہے اس نے امتحانا اورنگ زیب کو شراب نوشی کے لیے آمادہ کیا۔ شراب کا ایک جام بھر دیا۔ چونکہ اورنگ زیب کو اس سے بے پناہ محبت ہوگئی تھی۔ اس نے انکار نہیں کیااور شراب سے بھرا ہوا پیالہ ہونٹوں سے قریب کیا۔ ہیرابائی نے فورا اس کے ہاتھ سے پیالہ چھین لیا اور بولی میرا مقصد صرف تمہاری محبت کا امتحان لینا تھا، تمہیں عذاب کے گڑھے میں گرانا نہیں۔

وقت گزرتا گیا۔ مگر کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ اچانک ہیرا بائی کی موت ہوگئ، اس حادثہ سے اورنگ زیب کو دلی صدمہ پہنچا اور اس کے درد دل سے یہ صدا نکلی۔۔۔

نالہ ہائے خانگی دل راتسلی نیست
در بیاباں می تواں فریاد خاطر خواہ کرد

بعد ازاں ہیرا بائی کو اورنگ زیب کے ایک باغ میں دفن کردیا گیا۔ اس طرح اورنگ زیب کی داستان محبت عہد شباب میں ختم ہوگئی۔ بعد میں تو ان کی زندگی ایسی تبدیل ہوئی اور خود ان کی تربیت ایسی ہوئی کہ بعض نے خلیفہ راشد کا لقب دیا، ان کی دینداری، انصاف پسندی علم اور علماء پروری اور مذھبی رواداری نیز تواضع و خاکساری حرام و حلال میں احتیاط، حکومت کی دولت سے احتیاط و اجتناب کی مثالیں روز روشن کی طرح عیاں ہے، ان کی صلاحیت اور صالحیت کا اعتراف سارے مورخین کرتے ہیں، ان کی علمی و دینی خدمات ہی کا نتیجہ ہے کہ ان کے دور اقتدار میں ان کے حکم اور مشورہ سے ملا نظام الدین برہان پوری نے جید علماء اور فقیہ کی ایک ٹیم کے ذریعہ فتاویٰ ہندیہ مرتب کیا جو فقہ حنفی کی ایک عظیم انسائیکلوپیڈیا ہے، جو فتاویٰ عالمگیری کے نام سے مشہور ہے، اورنگ زیب عالم کا یہ وہ کارنامہ ہے جو آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے،۔

فی الحال آہو خانہ محکمہ آثار قدیمہ کی زیر نگرانی ہے، محکمہ کی طرف سے شکستہ دیواروں اور محلوں کی وقفہ وقفہ سے درستگی ہوتی رہتی ہے، صفائی کے لیے بھی کچھ عملہ ہیں، مگر اس تاریخی مقام اور اہم اور حسین جگہ کے لیے اتنا ہی کافی نہیں ہے، بلکہ اس جگہ کے لیے جس کا تاریخ سے گہرا تعلق اور ربط ہے، صوبائی اور مرکزی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اس جگہ کو اور زیادہ پرکشش بنایا جائے، اور شکستہ تعمیر کو دوبارہ بہتر حال میں لایا جائے، اس کے ارد گرد پارک اور باغات لگائے جائیں، اس کی احاطہ بندی کی جائے اور اس کو سیاحوں کے لیے اور پرکشش بنایا جائے تاکہ حکومت کی آمدنی کا یہ مزید ذریعہ بن سکے اور قوم ملک کو اس آمدنی کے ذریعہ مستحکم کیا جاسکے، اگر ایسا کیا گیا تو حکومت کی آمدنی کا بہترین ذریعہ بھی ہوسکتا ہے۔
(جاری)

نوٹ۔ اس مضمون کی تیاری میں مختلف مراجع سے استفادہ کیا گیا ہے، جس میں آثار برہان پور نامی کتاب بھی ہے، اورنگ زیب عالمگیر رح کا واقعہ بھی اسی کتاب میں درج ہے، مجھے اصل مرجع نہیں مل سکا، اصل مرجع ملنے پر تحریر کردی جائے گی۔۔ تاریخ میں چونکہ ہر رطب و یابس کو جمع کردیا گیا ہے، ممکن ہے عالمگیر رح کا یہ واقعہ حقیقت سے دور ہو، محض زیب داستاں کے لیے اس کو بیان کردیا گیا ہو۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے