Ticker

6/recent/ticker-posts

اسلام میں وعدے کا مقام و مرتبہ : خطاب جمعہ ۲۵/ نومبر

خطاب جمعہ۔۔۔۔ ۲۵/ نومبر

اسلام میں وعدے کا مقام و مرتبہ

(۱)
محمد قمر الزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام، کنڈہ، پرتاپگڑھ
رابطہ نمبر ۶۳۹۳۹۱۵۴۹۱

دوستو، بزرگو اور بھائیو!!!
اسلام میں وعدے کی بڑی اہمیت ہے، اس پر بہت زور دیا گیا ہے،ایفائے عہد کی تلقین جگہ جگہ کی گئی ہے، قرآن و حدیث میں وعدے سے متعلق اور ایفائے عہد کے حوالے سے کافی تفصیلات موجود ہیں۔ ایسا اس لیے ہے کہ معاشرے کی تعمیر و تشکیل میں جہاں اور بہت سی چیزیں اہمیت رکھتی ہیں، ان میں ایک اہم چیز ایفائے عہد بھی ہے، اس کے ذریعہ سماج اور سوسائٹی میں ایک ایسا توازن پیدا ہوتا ہے، جس سے ماحول خوشگوار بن جاتا ہے اور وقتی رنجش ہو یا دائمی اس کا ازالہ ہوجاتا ہے۔ مثلاً ایک آدمی کسی بات پر وعدہ یا معاملہ کرے، لیکن بروقت اس کی تکمیل نہ کرسکے تو ایسی صورت میں ایک قسم کی بدمزگی اور دوری پیدا ہو جاتی ہے۔

انسان سماجی زندگی میں ایک دوسرے سے لین دین کرتا ہے، اس کا محتاج ہوتا ہے، اس لین دین میں اکثر اوقات باہم عہد و پیمان کی نوبت آتی ہے، اس لیے شاید ہی کوئی آدمی ہو، جس کو زندگی کے مختلف مواقع اور مراحل میں خود وعدہ کرنے یا دوسروں کے وعدہ پر بھروسہ کرنے کی نوبت نہ آتی ہو، وعدہ کرنے والے پر سامنے والا بھروسہ اور اعتماد کرتا ہے اور بعض موقع پر اس اعتماد پر خود بہت سے معاملات طے کر گزرتا ہے۔

اسی لیےاسلام میں ایفائے عہد کوغیر معمولی اہمیت دی گئی ہے،۔ اسلام میں بڑی تاکید کے ساتھ عہد کو پورا کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور عہد شکنی کی مذمت کی گئی ہے۔ ارشاد ربانی ہے و افوا بالعھد، ان العھد کان مسئولا، (نبی اسرائیل) عہد کو پورا کرو، کیونکہ قیامت کےدن عہد کے بارے میں انسان جواب دہ ہوگا۔

قرآن پاک میں ان لوگوں کی تعریف کی گئی ہے جو وعدہ کو پورا کرتے ہیں اور جو اپنے وعدہ کا پاس و لحاظ کرتے ہیں، و الذین ھم لاماناتھم و عھدھم راعون۔ خود اللہ تعالی نے اپنی اس صفت کا بار بار ذکر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرتے۔ ولن یخلف اللہ وعدہ (الحج ۶)

اللہ کے نبی اسماعیل علیہ السلام کی خوبی اور تعریف بیان کرتے ہوئے، قرآن کہتا ہے انہ کان صادق الوعد (مریم ۵۴)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشادات کے ذریعہ وعدہ کی اہمیت اور وعدہ خلافی کی برائی کو بیان فرمایا،، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس میں تین باتیں پائی جاتی ہوں وہ منافق ہے، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے اگر امانت رکھی جائے, تو خیانت کرے (بخاری شریف حدیث نمبر ۳۳)

نفاق کفر کی ہی ایک قسم ہے اور وعدہ خلافی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نفاق قرار دیا، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وعدہ خلافی کس قدر شنیع اور مذموم حرکت ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل کے ذریعہ ایفائے عہد کی ایسی مثال قائم کی ہے کہ دنیا میں اس کی مثال نہیں مل سکتی۔ روایت میں آتا ہے کہ عبد اللہ بن ابی الحمساء اس حدیث کے راوی ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول ﷺ کی بعثت سے پہلے آپ سے معاملہ کیا، یعنی خرید و فروخت کی، آپ کی کچھ چیز باقی رہ گئی، میں نے وعدہ کیا کہ میں یہ چیزیں لے کر آتا ہوں، میں بھول گیا، یہاں تک کہ آج اور آیندہ کل کا دن گزر گیا، تیسرے دن میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی جگہ پر تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف اس قدر فرمایا، تم نے مجھے مشقت میں ڈال دیا، میں یہاں تین دن سے تمہارا انتظار کر رہا تھا۔ (ابو داؤد حدیث نمبر ۴۹۹۶)

وعدہ کا مفہوم اور اس کی وسعت کا جاننا بھی ضروری ہے، عہد ایک تو وہ معاہدہ ہے جو طرفین کے درمیان کسی معاملے میں انجام پاتا ہے، اس کا پورا کرنا فرض ہے اور اسکے خلاف کرنا غدر اور دھوکا و فراڈ ہے، جوکہ حرام ہے۔ دوسرا وہ جس کو وعدہ کہا جاتا ہے کہ کوئی شخص کسی سے یک طرفہ وعدہ کرلیتا ہے، اس کا پورا کرنا بھی شرعا لازم اور واجب ہے۔ حدیث میں آتا ہے،،العد ة دین،،وعدہ ایک قسم کا قرض ہے کہ جس طرح قرض کا ادا کرنا واجب ہے اسی طرح وعدہ کا پورا کرنا بھی واجب ہے۔ عام طور پر ہم لوگ عہد کے معنی صرف قول و قرار کے سمجھتے ہیں حالانکہ کہ اسلام میں اس کا مفہوم اور دائرہ بہت وسیع ہے، اس کا تعلق حقوق اللہ حقوق العباد معاشرت سیاست تجارت معاملات اخلاق تمام سے ہے۔ جس کی رعایت اور پابندی انسان پر شرعا عقلا قانوناً اور اخلاقا ضروری ہے۔

وعدے کی پابندی نہ کرنے والے پر بڑی وعیدیں ہیں، اسلام نے صرف ایفائے عہد کی تعلیم و تلقین پر ہی بس نہیں کیا ہے، بلکہ اس کی پابندی نہ کرنے کی صورت میں اللہ کے عذاب کی بھی وعیدیں آئی ہیں۔ ارشاد خدا وندی ہے،، وہ لوگ جو اللہ کے عہد اوراپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں، ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ اللہ قیامت کے روز نہ ان سے بات کرے گا، نہ ان کی طرف دیکھے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا، بلکہ ان کے لیے تو سخت درد ناک سزا ہے۔) آل عمران ۷۷)

آنحضرتﷺ نے فرمایا اللہ تعالی حشر کے میدان میں جہاں تمام اولین اور آخرین اکھٹا ہوں گے، عہد شکنی کرنے والے کے پاس ایک جھنڈا بطور علامت لگا دے گا اور کہا جائے گا کہ یہ فلاں ابن فلاں کی غداری کا نشان ہے۔(مسلم کتاب الایمان)۔

انہیں وعیدوں کی بنا پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین عہد شکنی سے بہت زیادہ بچتے تھے اور ایفائے عہد کی آخری سانس تک کوشش کرتے تھے، ایفائے عہد،اور وعدہ کی پابندی کی یہ تعلیم اور درس انہیں معلم انسانیت اور ہادی عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملی تھی، سارے صحابہ نے اپنی عملی زندگی میں اسے برت کر دیکھایا، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت آیا تو فرمایا کہ قریش کے ایک شخص نے میری بیٹی کے لیے نکاح کا پیغام دیا تھا اور میں نے اس سے کچھ ایسی بات کہی تھی جو وعدہ سے ملتی جلتی ہے، تو میں ایک تہائی نفاق یعنی نفاق کی تین میں سے ایک علامت کے ساتھ اللہ سے ملنا نہیں چاہتا، اس لیے میں تم لوگوں کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اس سے اپنی بیٹی کا نکاح کیا۔) احیاء العلوم ۳/۱۳۲/ عصر حاضر کے سماجی مسائل ۱۶۹)


ان واقعات اور تفصیلات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہےکہ سلف میں ایفائے عہد کا جذبہ کتنا تھا اور وعدہ پورا کرنے کو کتنا ضروری سمجھتے تھے، اور عہد شکنی سے کس قدر ڈرتے تھے، دوست ہو یا دشمن اپنا ہو یا بیگانہ مسلمان ہو یا غیر مسلم ہر ایک کے ساتھ وہ عہد کی پابندی ضروری سمجھتے تھے۔ اس سلسلے میں صلح حدیبیہ کے موقع پر حضرت ابو جندل رضی اللہ عنہ کے واقعہ کو پیش کیا جاسکتا کے کہ عہد کے مطابق ان کو مکہ کے کافروں کے پاس واپس کر دیا گیا۔

نوٹ /مضمون کا آخری حصہ کل شام کو ارسال کیا جائے گا ۔
 مہمان خانہ دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے