ویشالی کے نیر تاباں شاہد محمود پوری
(نقوشِ ویشالی کے آئینے میں)
ازقلم مظفرنازنین،کولکاتہ
سب سے پہلے میں شاہد محمودپوری صاحب کی بے حد شکرگزار ہوں کہ انہوں نے اپنی شاہکار تخلیق ’’نقوشِ ویشالی‘‘ بذریعہ ڈاک بھیجا۔
سرزمین ویشالی کا شمار ہندوستان کے ایسے خطے سے ہوتا ہے جہاں شیریں زباں اردو پھولی، پھلی، پروان چڑھی اور یہاں سے بیشتر ادباء،شعراء، علماء اور اکابرین ملت نے جنم لیا۔ اسی سرزمین پر شاہد محمودپوری صاحب کی پیدائش 15اکتوبر1952ء کو ہوئی۔ انہیں ’’ویشالی کا نیر تاباں‘‘ کہاجائے تو غلط نہیں ہوگا۔ جو انسان جہاں پیدا ہوتا ہے اس سرزمین سے اسے خاصی محبت، الفت اور رغبت ہوتی ہے۔ انسان تو کیا جانوروں اور پرندوں میں بھی جذبۂ حب الوطنی کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔ بقول شاعر ؎
اہلِ وطن سے پوچھو تم خوبیاں وطن کی
بلبل ہی جانتی ہے آزادیاں چمن کی
شاہد محمودپوری صاحب کا ذہن بھی جذبۂ حب الوطنی سے سرشار ہے اور موصوف نے اپنے اس جذبے کو الفاظ کے گوہر سے پروکر صفحہ قرطاس پراتاردیا ہے اور ان کا یہ جذبہ ’’نقوش ویشالی‘‘ کی شکل میں منظر عام پر آیا۔ سرورق انتہائی خوبصورت ہے اور سرورق پر اشوک کی لاٹ و آنند استوپ، کولہوا گرام کی خوبصورت تصویر ہے جو پُرکشش اور جاذب نظر بھی ہے۔ ’’نقوشِ ویشالی‘‘ بہت ضخیم کتاب ہے جو 304صفحات پر مشتمل ہے ۔ اس کی اشاعت 2020ء میں ہوئی۔
موصوف نے اس کتاب کو تمام عالم دین، خطیب و امام، اساتذہ کرام، ادباء، شعراء و صحافیوں کے نام انتساب کیا ہے جنہوں نے تبلیغ دین، وعظ، نصیحت، کردر سازی، اردو زبان و ادب کے فروغ و ارتقاء میں اپنی بیش بہا خدمات پیش کی ہیں۔ اس کتاب میں پیش لفظ اور تاثرات کو چھوڑ کر108عنوانات ہیں۔ فہرست مضامین پر ایک نظر ڈالیں تو یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ شاہد محمودپوری صاحب جو بذات خود M Sc. Chemistry ہیں، جس طرح انہوں نے ویشالی کا تجزیہ کیا ہے، اس حقیقت کا غماز ہے کہ موصوف نے بالخصوص Analytical Chemistry کا گہرا مطالعہ کیا ہے۔ کیونکہ تمام عنوانات ویشالی ضلع کے مختلف پہلوئوں کو روشناس کراتے ہیں۔ فہرست کو دیکھ کر ’ویشالی‘ کے تاریخی، جغرافیائی، معاشرتی، ثقافتی، مذہبی حیثیت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ بلکہ کہہ سکتے ہیں کہ ’’نقوشِ ویشالی‘‘ ایک بہترین گائیڈ ہے۔ اس کتاب کو پڑھ کر گھر بیٹھے سرزمین ویشالی کا سیر کیا جاسکتا ہے۔ اس کتاب میں چند گرانقدر علمی و ادبی شخصیات کی تقاریظ شامل ہیں، جن میں پٹنہ سے راشد احمد صاحب جو موقر روزنامہ ’قومی تنظیم‘ کے ایڈیٹر ہیں۔ ریحان غنی صاحب اور جنید میر صاحب ایس سی ای آر ٹی پٹنہ بہار کے تاثرات شامل ہیں۔
صفحہ 12پر ریحان غنی صاحب کا تاثر بعنوان ’’تاریخ ساز کتاب‘‘ ہے۔ بلاشبہ زیر نظر کتاب ’’نقوشِ ویشالی‘‘ کی تاریخی اہمیت ہے۔ صفحہ 13پر موصوف یوں رقم طراز ہیں ’’نقوشِ ویشالی کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں مصنف نے ویشالی کے تعلق سے ایسی کوئی تفصیل نہیں چھوڑی ہے جو ایک عام آدمی جاننا چاہتا ہے۔‘‘ بلاشبہ اس کتاب میں ویشالی کے تعلق سے مفصل معلومات درج ہیں۔ ویشالی میں کتنی ندیاں، کتنے دیارے، کالج، ہائی اسکول کی پوری فہرست مل جائے گی۔ صفحہ 14پر راشد احمد صاحب (پٹنہ) فراق گورکھپوری کے اس شعر کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں ؎
’’آنے والی نسلیں تم پر فخر کریں گی ہم عصرو
جب بھی ان کو دھیان آئے گا تم نے فراق کو دیکھا ہے
میں اسے اپنی تعلی پر قبول کرتا ہوں کہ میں نے شاہد محمودپوری کو صرف دیکھا نہیں ہے بلکہ ان کے ساتھ وقت گذارا ہے۔ ان سے کسب فیض کیا ہے۔ زمین پر کام کیسے ہوتا ہے، خاموشی سے پہاڑوں کو کاٹ کر ندیاں کیسے نکالی جاتی ہیں، ستاروں پر کمندیں کیسے ڈال دی جاتی ہیں، عزم و حوصلہ سے پہاڑوں کی چوٹیوں کو قدموں کے نیچے کیسے ڈال لیا جاتا ہے، نظریں نیچی کرکے اپنا احتساب کیسے ہوتا ہے اور نظریں اٹھاکر افق کے اس پار تک کیسے دیکھا جاتا ہے، شاہد محمودپوری سے سیکھا جاسکتا ہے۔‘‘
مندرجہ بالا خوبصورت اقتباس راشدبھائی کے اس تقریظ سے اخذ شدہ ہے جس کا عنوان ہے ’’نقوش ویشالی- سمندر یا کوزے میں سمندر‘‘جس میں موصوف نے بہت ہی حسین پیرائے میں لطیف اور دلکش انداز میں شاہد محمود پوری صاحب کی خوبیوں کا ذکرکیا ہے جس سے یہ صاف ظاہر ہے کہ شاہد صاحب اپنی ذات سے انجمن ہیں۔ وہ گوناگوں دلچسپیوں کے مالک ہیں جنہیں سرزمین ویشالی سے انسیت ہے، لگائو ہے، خاصی رغبت اور محبت ہے اور اس کتاب کی تخلیق بھی وہی کرسکتے ہیں کیونکہ سرزمین ویشالی میں ان کا خاصا وقت گذرا ہے اور یہاں کی تہذیب اور ثقافت کو انہوں نے قریب سے دیکھا ہے۔
صفحہ17پر جنید میر ایس سی ای آرٹی پٹنہ بہار کا تاثر بعنوان ’’نقوشِ ویشالی اور شاہد محمودپوری‘‘ ہے۔ انہوں نے لکھا ہے ’’نقوش ویشالی ایک تاریخ بھی ہے اور ساتھ ساتھ آئندہ نسلوں کے لئے ایک اثاثہ بھی جس سے وہ اپنے مستقبل کو سجائیں و سنواریں اور ترقی کی منزلوں کو طے کریں‘‘۔ یہ کتاب ’’نقوشِ ویشالی‘‘ شاہد صاحب کی چوتھی کتاب ہے جو اردو ڈائرکٹوریٹ، محکمہ کابینہ سکریٹریٹ حکومت بہار کے مالی تعاون سے شائع ہوئی۔ اس سے قبل ان کی تین کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔
(۱) ویشالی ضلع میں اردو تعلیم (سن اشاعت 2006ء)
(۲) نقوشِ افکار (2015)
(۳) نقوشِ عمل (2017)
ان تمام کتابوں کی ادبی حلقے میں خوب پذـیرائی ہوئی۔
شاہد محمود پوری صاحب کو ان کی دیرینہ علمی اور ادبی خدمات کے اعتراف میں 2008میں عزت مآب وزیراعلیٰ بہار نتیش کمارنے اپنے دست مبارک سے کرشن میموریل ہال پٹنہ میں میڈل اور مومنٹو سے نوازا اور ویشالی ضلع کے محکمہ تعلیم کی جانب سے یوم اساتذہ 5ستمبر2012ء کے موقع پر ڈی ایم ویشالی کے دست مبارک سے شال اور توصیفی سند سے نوازا گیا۔
موصوف جوائنٹ سکریٹری انجمن ترقی اردو بہار، پٹنہ، صدر انجمن ترقی اردو ویشالی، جنرل سکریٹری اردو ٹیچرس یونین بہار، جنرل سکریٹری بہار رابطہ کمیٹی ویشالی، تنظیمی سکریٹری اردو ٹیچرس یونین ویشالی، جیسے منصب جلیلہ پر فائز ہیں۔
صفحہ62سے70تک ویشالی ضلع کے بینک کے نام اور موبائل نمبر درج ہیں۔ صفحہ84سے 179تک ویشالی کے ہائی اسکولوں کی فہرست درج ہے۔ جہاں اسکولوں کے نام، پتے درج کئے گئے ہیں۔ بلاشبہ اس سے نئی نسل جن کا تعلق ویشالی سے ہے مستفیض ہوں گے۔
صفحہ241سے258تک ویشالی ضلع کے قابل دیدمقامات ہیں جو سیاحو ںکے لیے بہترین گائیڈ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کتاب کے آخری حصے میں صفحہ259پر شاہد محمودپوری صاحب کی کتاب ’’نقوشِ عمل‘‘ پر پروفیسر محمود نہسوی کا تبصرہ ہے جو 23دسمبر 2018ء کو موقر روزنامہ ’’قومی تنظیم‘‘ میں شائع ہوا اور ریحان غنی صاحب کا تبصرہ مورخہ 4نومبر 2018ء کو ’’پندار‘‘ پٹنہ میں شائع ہوا۔
کتاب کے آخری حصے میں ماضی کی حسین تصاویر ہیں اور کچھ قابل دید مقامات کی تصاویر بھی ہیں۔ جن میں بطورِ خاص بھگوان مہاویر کا مجسمہ، جو جین مندر باسوکنڈ گرام ویشالی میں نصب ہے۔مہاتما بدھ کا مجسمہ جو وشوشانتی استوپ ویشالی میں ہے اور کچھ خاص پروگرام کی حسین تصاویر بھی اس کتاب پر چار چاند لگاتی ہیں جن میں صفحہ 279 پر گرانقدر عملی و ادبی شخصیت پروفیسر ڈاکٹر علیم اللہ حالی صاحب اور قدآور شخصیت سینئر صحافی و ادیب جناب راشد احمد جو بلاشبہ آسمانِ صحافت کے درخشاں ستارہ ہیں کی حسین تصویریں ہیں،جو شیریں زبان اردو پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ راشد صاحب محتاج تعارف نہیں۔ موصوف صحافی، ادیب اور اسکالر ہیں بلکہ اپنی ذات سے دبستان ہیں۔ میں نے پوری کتاب ’’نقوشِ ویشالی‘‘ کا بغور مطالعہ کیا اور پہلے تو شاہد صاحب کی بے حد شکرگزار ہوں کے انہوں نے یہ کتاب مجھے بطورِ تحفہ عنایت کی۔
المختصر یہ کہاجاسکتا ہے کہ ’’نقوشِ ویشالی‘‘ ایک بہترین گائیڈ ہے جو ویشالی کی تاریخی، جغرافیائی، ثقافتی، تہذیبی اور معاشرتی حیثیت سے روشناس کراتی ہے۔ کسی کو ویشالی کے قابل دید مقامات کی سیر کرنی ہے تو میرا مشورہ ہے کہ شاہد محمودپوری صاحب کی اس کتاب کو پڑھ کر سیر کرنے جائیں۔ پورے طور پر لطف اندوز ہوں گے۔ تاریخ اور جغرافیہ کے اسکالر کے لئے بہترین گائیڈ ہے۔
In short I can say "Naqoosh Vaishali" is an important literary contribution of Shahid Mahmoodpuri Saheb through which student of Geography, History & Archaeology will be benifitted. Its also an important guide for the inhabitants of Vaishali.
میں اس شاہکار تخلیق کے لئے شاہد محمودپوری صاحب کو تہہ دل سے پُرخلوص مبارک باد پیش کرتی ہوں اور ان کی صحت کے ساتھ طویل عمر کی دعا گو ہوں۔
٭٭٭
Dr. Muzaffar Naznin
36, Sir Syed Ahmed Road,
Kolkata - 7000014.
0 تبصرے