Ticker

6/recent/ticker-posts

سونار بنگلہ : پڑوسی ملک بنگلہ دیش کا ایک سفر

سونار بنگلہ : پڑوسی ملک بنگلہ دیش کا ایک سفر

سونار بنگلہ،،۔۔۔قسط نمبر (١)

(پڑوسی ملک بنگلہ دیش کا ایک سفر)

از ----آفتاب ندوی دھںباد - جھا رکھنڈ -----
(سونار بنگلہ ) یہ لفظ بنگلہ دیش کے قومی ترانہ میں آیاھے، شائد ٹیگور۔( وفات1941) دنیا کا۔اکلوتا شاعر ھے جو۔بیک وقت دو ملکوں کے قومی۔ترانے کا خالق ھے، ھمارے۔ملک ھندوستان کا قومی ترانہ،،جن گن من،،کے خالق بھی ربندر ناتھ ٹیگور ہیں اور بنگلہ دیش کا قومی ترانہ،، امر شونار بنگلہ،، بھی ٹیگور ھی کا ھے،یہ ترانہ بنگالی ٹھاکر نے 1906میں تقسیم بنگال کے وقت لکھا تھا، 1971میں۔مشرقی پاکستان۔جب۔بنگلہ دیش کے نام سے۔ایک آزاد خود مختار ملک کی حیثیت سے ۔دنیا کے ‌نقشہ پر ابھرا تو،،امر شونار بنگلہ،، کو قومی ترانہ کے طور پر اپنا لیا گیا، ,,آمی تومائے بھالو باشی،،اے میرے سونا جیسے بنگال تم مجھے بہت عزیز ھو،،جس طرح جن گن من کو 1911میں۔کنگ جارج پنجم کی۔ھندوستان آمد کے موقع پر ٹیگور نے لکھا تھا اور آزادی سے پھلے کانگریس کے جلسوں میں اسے۔پڑھا جانے لگا تھا پھر آزادی کے بعد اس نظم کو ھندوستان کا قومی گیت کادرجہ دیدیا گیا، ھندی کو قومی زبان راشٹریہ بھاشا سمجھا جاتا ھے اگرچہ قانونی طور پر اسکی یہ حیثیت نہیں ھے،کارو بار حکومت کیلئے ۔قانونی طور پر یہ راج بھاشا ھے، لیکن ھمارا قومی ترانہ۔بنگلہ زبان میں ہے، بنگالیوں کے علاوہ بہت کم۔لوگ اسکو۔سمجھتے ہیں، اقبال کا ترانہ،، سارے جھاں سے اچھا ھندو ستاں ھمارا،، ایک عام فہم نظم ھے،۔کم از کم ھندی علاقوں کے سارے لوگ اسے سمجھتے ہیں، اسے بعض اسباب کی بناپر قومی گیت کا درجہ نہیں مل سکا، اسکا پہلا قصور یہ ھیکہ یہ ترانہ اس اقبال کا ھے جو۔دوقومی نظریہ کا علمبردار سمجھا جاتا ھے حالانکہ وہ۔۔حدود وثغور کی تنگنائیوں سے بہت بلند ھوگیا تھا، جس کے ترانۂ ملی،، چین وعرب ھمارا ہندوستاں ھمارا، مسلم ہیں۔ھم، وطن ھے سارا جہاں ھمارا،، نے مسلم دنیا کو اخوت۔و مساوات کے جذبات واحساسات سے سرشار کردیا، نیز اس ترانہ سے دین۔اسلام اور مسلمانوں ۔کے ایک عالمی مذہب وعالمی قوم۔ھونے۔کااحساس ۔بیدار ھوا،

1947میں انگریزوں نے ھندوسان کو دوحصوں میں تقسیم کرکے غلام ہندوستان کو آزاد کردیا، لاکھوں انسانوں کی لاش۔پر دو آزاد ملک وجود میں۔آگئے، لیکن اہل نظر دیکھ رھے تھے کہ دو نہیں ۔تین ملک وجود میں آئے ہیں، ھند و ستان، پاکستان، مشرقی پاکستان 1971 میں۔اسی کو۔بنگلہ دیش کا نام۔دیا گیا

بنگلہ دیش کا قومی شاعر نذر الاسلام ( وفات1976) ھے جو ۔ایک۔طرحدار اور۔انقلابی شاعر ھے، قاضی نذر الاسلام۔انڈین۔مغربی بنگال کے آسنسول شہر سے قریب ایک گاؤں کے رھنے والے تھے، اس انقلابی شاعر۔سے۔بنگلہ بولنے والے تمام۔ھندو مسلمان یکساں عقیدت رکھتے ہیں،۔درگاپور مغربی بنگال میں قاضی نذر الاسلام ایرپورٹ اور ایک یونیورسٹی اسکے نام سے موسوم۔ھے، نذرالاسلام سے عقیدت ومحبت کے اظہار میں مغربی بنگال انڈیا بنگلہ دیش سے آگے نکل گیا، اسکی ۔قبر بنگلہ دیش کی راجدھانی۔ڈھاکہ میں ڈھاکہ یونیورسٹی۔کی جامع مسجد کے زیر سایہ ھے، اس۔نے اپنے بنگلہ شعر کے ذریعہ درخواست کی تھی،، مجھے مسجدکے پاس دفن کرنا۔بھائی، تاکہ قبر سے مؤذن کی اذان سن سکوں، اور میری قبر کے پاس سے نمازیوں کا گزر ھو ا ور مقدس قدموں کی چاپ کو میں محسوس کروں اس طرح مجھ گنہگار کو عذاب۔سے رہائی مل جائیگی،،،۔

سونار بنگلہ۔ قسط نمبر (٢)

(پڑوسی ملک بنگلہ دیش کا ایک سفر،

از۔۔۔۔۔۔۔ آفتاب ندوی دھنباد۔۔ جھارکھنڈ،

گزشتہ سے پیوستہ،

اسی سونار گاؤں سے گزشتہ ماہ دعوت نامہ ملا کہ آج سے پچیس سال پہلے سوناجیسے ملک کی اقتصادی راجدھانی چاٹگام شھر میں انٹرنیشل اسلامک یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا تھا، قائم کرنے والے دھن کے ایسے پکے، عزم و ارادہ کے ایسے پہاڑ اور سعی پیہم اور جہد مسلسل کے ایسے بندے تھے اور ہیں کہ پچیس سال میں دنیا کی پرائیوٹ یونیورسٹیوں میں اسے ایک ممتاز مقام کا مستحق بنادیا، بانیوں اور ذمہ داروں کو خیال ھواکہ دنیا کے مختلف خطوں میں قوم مسلم کی تعلیم وتربیت اور اسے اقوام عالم میں اسکی حیثیت عرفی کے مطابق باعزت مقام دلانے کے مقصد سے فکر وسعی کرنے والوں کو زحمت دی جائے تاکہ وہ دیکھیں بھی کہ مال وزر سے تہی دامن اللہ کے جند بندوں نے محض توفیق الہی اور مخلص بندگان خدا کی اعانت وہمت افزائی سے تعلیم وتربیت کا کیسا تاج محل تعمیر کیا ھے، اور مستقبل کیلئے اپنےمفید مشوروں اور تجربات سے بھی جامعہ کے ذمہ داروں کو نوازیں،،

سلور جبلی میں انڈیا سمیت اکیس ملکوں سے ماھرین تعلیم، اہل ثروت معاونین، حکومتوں، دانش گاہوں اوراین جی اوزکے عہدیداران شریک ھوئے، برطانیہ کی نمائندگی مشہور محدث، اسکالر اور عظیم مصنف ڈاکٹر محمد اکرم صاحب ندوی مدظلہ نے کی جبکہ انڈیا کی نمائندگی حضرت مولانا سید محمد رابع صاحب مدظلہ ناظم ندوۃ العلماء کے نواسے مولانا سید خلیل حسنی اور راقم کے حصہ میں آئی، یونیورسٹی کی انتظامیہ کا مقصد اس سلور جبلی سے ابتک کی کارکردگی اور تعلیمی و تعمیری ترقیوں سے بطور خاص تعاون کرنے والوں کو واقف بھی کرانا تھا اور آگے کے منصوبوں کیلئے ان سے مدد کی درخواست بھی کرنی تھی، یونیورسٹی کے ذمہ داران اپنے مقصد میں سو فیصد کامیاب ھوئے، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی چاٹگام ایک ٹرسٹ کے ماتحت وزیرنگرانی چلنے والی ایک پرائیوٹ یونیورسٹی ھے،،

اسکا ایک بورڈ ھےجسکے چیرمین ممتاز عالم دین ڈاکٹر ابو رضاء محمد نظام الدین ندوی ہیں، یہی بورڈ یونیورسٹی کے ھر طرح کے کام کاج کی ذمہ دار ھے، ایک دوسری جنرل کمیٹی بھی ھے، اسکے صدر معجزات اور سائنس کے مشہور سعودی عالم محقق اور داعی شیخ عبد اللہ بن عبد العزیز مصلح صاحب ہیں، اس کمیٹی کے ارکان میں چوٹی کے دانشور، تعلیمی میدان کے ایکسپرٹ اور اہل خیر شامل ہیں، ان میں ایک معقول تعداد کاتعلق بیرونی ملکوں سے بھی ھے،،

عزیز مکرم مولاناسید خلیل حسنی اور میرا ٹکٹ کلکتہ سے چاٹگام کا 28 اکتوبر 2022 بروز جمعہ بنگلہ دیشی ایر لائنس سے تھا، خلیل حسنی 26اکتوبر کو کلکتہ پہنچ گئے تھے، میں 27 اکتوبر کی شام کو کلکتہ پہنچا، خلیل حسنی صاحب کا کلکتہ میں فرفرہ شریف میں قیام رہا، اور کلکتہ میں انکے متعدد پروگرام ھوئے،

کلکتہ سے چاٹگام (چٹو گرام ) چاٹکام سے ڈھاکہ اسی طرح ڈھاکہ سے کلکتہ تک کی دوری تقریبا وہی ھے جو دلی سے لکھنؤ کی ھے،ھوائی جہاز سے صرف ایک گھنٹہ کا سفر، ھماری فلائٹ ہندوستانی وقت کے مطابق ساڑھے بارہ بجے دن میں اڑان بھر کر بنگلہ دیش کے وقت کے مطابق دو پہر کے دوبجے چاٹگام ایرپورٹ پہنچی، امیگریش اور سامان لینے میں تقریبا آدھا گہنٹہ لگا، لیکن جب ھم لوگ باھر نکلے تو استقبال کرنے والا کوئی بھی باھرموجود نہیں تھا، تعجب ھوا، کیونکہ اس سے پہلے بھی یونیورسٹی کے پروگرام میں میری شرکت ھوچکی ھے، اس کا انتظام معیاری اور چست ھوتا ھے، باھر ایک صاحب سے موبائل مانگ کر یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر نجم الحق ندوی کو فون کیا، یہ اپنی ٹیم کے ساتھ ایرپورٹ کے وی آئ پی ایریا میں موجود تھے، دوچار منٹ ھی میں پہنچ گئے، اور ھم لو گوں کو وی آئی پی ھال میں لے گئے،وھاں یونیورسٹی کے متعدد اسٹوڈنٹس اور اساتذہ کے ساتھ خود یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلر ڈاکٹر محمد مسرور مولی موجود تھے، مولی صاحب اس ا نداز سے ملے کہ میں سوچنے لگا کہ اس سے پہلے ان سے کہاں ملاقات ھوئی ھے،اسکے بعد بھی ان سے باربار ملاقات ھوئی، ھر ملاقات میں وہی خندہ پیشانی، وہی اپنائیت اور تواضع، انکا آفتاب بھائی کہکر مخاطب کرنا بہت بہلا معلوم ھوتا،،

یہاں چائے /کافی سے ضیافت کی ابتداء ھوئی،سفر اور باھر کچھ دیر انتظار کے بعد کافی بہت اچھی لگی, ذہنی وجسمانی تھکاوٹ کا احساس جاتا رھا، ایرپورٹ سے ھوٹل جہاں تمام مہمانوں کے ٹھرنے کا انتظام تھا تقریبا تیس پینتیس کیلو میٹر دور تھا، ایرپورٹ سے ھوٹل جس سڑک سے ھم لوگ لے جائے گئے اسے شہر سے باھر باھرنکالا گیا ھے، ھوٹل سے بہت قریب ھونے کے بعد شھر میں داخل ھوئے، چاٹگام کا پرانا نام اسلام آباد ھے، یہ بنگلہ دیش کا دوسرا بڑا شہر ھے، اوریہی شہر اقتصادی راجدھانی بھی ھے، ساٹھ لاکھ سے او پر آبادی ھے، یہاں ملک کا سب سے بڑا سی پورٹ ھے، کرن فلی یہاں کا مشہور دریا ھے، یہی دریا پانی جہازوں کو خلیج بنگال تک چھوڑنے اور باھر سے آنے والے جہازوں کو اندر لے کر آتا ھے،

سونار بنگلہ۔ قسط نمبر (٣)

(پڑوسی ملک بنگلہ دیش کا ایک سفر،
از۔۔۔۔۔۔۔ آفتاب ندوی دھنباد۔۔ جھارکھنڈ،
گزشتہ سے پیوستہ

اگرچہ خود خلیج بنگال بھی چاٹگام کی قدم بوسی کرتا ھے، چاٹگام ساحلی شہر ھے، یہ ایک قدیم بندرگاہ ھے، قدیم زمانہ میں چین کیلئے عربوں کا یہ راستہ رھا ھے، اور تاریخ بتاتی ھے کہ زمانۂ نبوت ہی میں مہاجرین حبشہ میں سے صحابئ جلیل حضرت ابو وقاص رضی اللہ عنہ نے حبشہ ہی سے ملک چین کاسفر کیا، ھوسکتا ھے ادھر ہی سے گئے ھوں اوریہاں جہاز لنگر انداز ھواھو اور اترے بھی ھوں، پھر جب مالابار میں تابعین کے ذریعہ اسلام کی روشنی پہنچی تو عجب کیا کہ اسی زمانہ میں بنگال کے علاقوں میں بھی نور ایمان پہنچا ھو، راج شاہی علاقہ کے ایک بدھ مندر میں سونے کا ایک سکہ دریافت ھوا ھے جو شہنشاہ ھارون رشید کے زمانہ کا ھے، قریبی زمانہ تک ھندو ستان سے حجاج کے قافلے چاٹگام ھوکر حجاز جایا کرتے تھے، بانئ ندوۃ العلماء مولانا سید محمد علی مونگیری بھی اپنے رفقاء کے ساتھ آج سے سواسوسال پہلے 1318 ہجری میں چاٹگام ہی سے حج کیلئے روانہ ھوئے تھے، کہا جاتا ھے کہ عربوں نے اس دریا کو گنگا سمجھا اور اس شہر کو شط غنغا کہا، یہی شط غنغا شیتاغونغ اور چاٹگام ھوگیا، آجکل اسے چٹو گرام کہا جاتا ھے، ایرپورٹ سے ھوٹل تک کا راستہ بڑا خوبصورت و دل فریب تھا، درمیان میں جہاں پہاڑ کاٹ کر سڑک نکالی ‌ گئی ھے طبیعت چاہ رھی تھی کہ گاڑی رکواکر کچھ وقت اسکے سحر انگیز مناظر سے قلب کو فرحت وانبساط ا ور دماغ کو تازگی وسکون بخشا جائے، جو دلکش قدرتی مناظر راستہ میں گزرے اسکی تصویر کشی کیلئے کسی ادیب کا قلم چاہئے، میرا سیدھا سادہ قلم انکی خوبصورتی و رعنائی کا ایک فیصد بھی آپکو نہیں دکھا سکتا، درمیان میں انتھائی حسین پہاڑی راستہ آیا، پہاڑ کو کاٹ کر سڑک نکالی گئ ھے کہیں کہیں تیس تیس پینتیس پینتیس فٹ یا اس سے زیادہ پہاڑکو کاٹا گیا ھے، کہیں کہیں ایسا لگتا ھے جیسے دونوں طرف اونچی اونچی دیوار کھڑی کردی گئ ھے اور ان دیواروں پر سبزہ بچھا دیا گیا ھو، گاڑی جب کسی ایسی جگہ سے گزرتی تولگتا کسی سرنگ میں ھم گھس رھے ہیں، کبھی نشیب تو کبھی فراز، قدرت کی صناعیوں کے بیچ میں کہیں کہیں انسانی کاریگری بھی دیکھنے کو ملتی، لیکن انسانی ھاتھوں اور مشینوں کا استعمال صرف پہاڑوں کا سینہ چیر کر راستہ بنانے ہی کیلئے ھواھے، اسی طرح کے خوبصورت، پرکشش، ولولہ انگیز اور فرحت بخش مرغزاروں سے گزرتے ھوئے کئ بار بے تابانہ گاڑی سے اتر کر قدرت کے لگائے ھوئے چمنستانوں سے لطف اندوز ھونے کا جی چاہا، میرے دوست ڈاکٹر ابو رضا ء محمد نظام الدین ندوی کے اس دعوی کو کسی نہ کسی درجہ میں ماننا پڑا کہ بنگلہ دیش کے بعض خطے سوئیزر لینڈ سے زیادہ خو بصورت ہیں، انسان قدرتی مناظر کی نقل اتارنے کی کتنی کوشش کرتا ھے، کتنا خرچ کرتا ھے اور کیسے کیسے جتن کرتا ھے پھر بھی قدرتی مناظر کے سامنے مصنوعی مناظر کوئی قیمت نہیں رکھتے، ایک کمرہ کو آرام دہ اور ٹھنڈا بنانے کیلئے کیا کچھ نہیں کرنا پڑتا ھے، لیکن سخت گرمی، لو اور امس میں اللہ منٹوں میں ھواکے ایک جھونکے سے موسم کو خوشگوار اور فرحت بخش بنادیتے ہیں،،

آفتاب ندوی دھںباد


ان مناظر کو دیکھ کر مجھے جھارکھنڈ کے بہت سے علاقے نگاہوں کے سامنے آگئے، ریاست جھارکھنڈ کو بھی قدرت کی فیاضیوں سے وافر حصہ ملا ھوا ھے، خوبصورت ڈیم، قدرت کی صناعیوں کے شاہکار جھرنے، ہرے بھرے جنگلات، بلند سرسبز شاداب پہاڑ اور پہاڑیاں اور ان پر بل کھاتی اوپر چڑھتی ںیچے اترتی صاف شفاف سڑکیں، جہارکھنڈ میں ایسی بل کھاتی سڑکوں کو جلیبیا روڈ کہا جاتا ھے، میں نے سوچا اگر جھارکھنڈ سرکار مار کیٹنگ کرتی اور جھارکھنڈ کی وزارت سیاحت اسکا پرپیگنڈہ کرتی تو ریاست کی آمدنی کے ذرائع میں سیاحت ایک اہم ذریعہ ھوتی، ساؤتھ انڈین کھانوں کی ساری قسمیں جھارکھنڈ میں پائی جاتی ہیں، انکے نام صرف الگ ھیں، لیکن اس حوالہ سے جھا رکھنڈ کا کہیں نام نہیں آتا ھے، جھارکھنڈ میں امن وامان کی صورت حال اگر سدھر جائے اور یہاں موجود خوبصورت مقامات کی تشہیر کی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ریاست جھارکھنڈ سیرو سیاحت کا ایک اہم مرکز نہ بنے، امن وامان کی صورتحال بہتر نہ ھونے کا لیکن ایک فائدہ بھی ھے کہ اس طرح کی جگہیں پکنک اسپاٹ بن جانے کے بعد بہت سی خرابیوں اور سماجی برائیوں کا اڈہ بن جاتی ہیں، جھارکھنڈ اس طرح کا سینٹر بننے سے بہت حد تک بچا ھوا ھے،، مشہور وممتاز وبزرگ عالم دین مولانا سید محمد رابع صاحب حسنی ناظم ندوۃ العلماء وصدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ایک مرتبہ جھارکھنڈ میں اسی طرح کے قدرتی مناظر کو دیکھ کر کہنے لگے کہ شائد جنت میں اسی طرح کے مناظر ھونگے، اس دورہ میں مولانا مدظلہ کے برادر خورد مشہور عربی صحافی اور ماھر تعلیم مولانا واضح رشید ندوی بھی ساتھ میں تھے،، جمشید پور میں ایک خوبصورت علاقہ سے گزرتے ھو ئے کہنے لگے ایسا محسوس ھورھا ھے جیسے ھم لوگ سوئزر لینڈ میں ہیں،، 

جاری، 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے