خطاب جمعہ۔۔۔۔۔۔۔۔۳۰/دسمبر
کاش امت کو اپنے مقام اور ذمے داری کا احساس ہوجائے!
محمد قمرالزماں ندوی
جنرل سیکریٹری/ مولانا علاءالدین ایجوکیشنل سوسائٹی، جھارکھنڈ
6393915491
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ امت جس کی نسبت اللہ کے سب سے اخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے، اور یہ اس کے لئے فخر و ناز کی بات ہے، ایک منتخب، معزز اور افضل امت ہے، اس کی افضلیت کا ذکر قرآن میں بھی ہے، حدیث میں بھی اور بعض قدیم کتابوں میں بھی، مسلمانوں نے بھی اپنی افضلیت کو بیان کیا ہے اور بہت سے غیر مسلموں نے بھی اس کی شان میں قصیدہ خوانی کی ہے۔ اس کے فضائل بے شمار ہیں۔ اس کی ایک بہت بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ سب سے آخری امت ہے اور اسی کے وجود پر اب دنیا کی بقا منحصر ہے۔ جس دن اس امت کا وجود ختم ہوجائے گا اس امت کا کوئی فرد باقی نہیں رہے گا، اسی دن اس دنیا کا بستر لپیٹ دیا جائے گا۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ آج امت کی نئ نسل اپنی خوبیوں اور امتیازات و خصوصیات سے ناواقف ہے، اور اسے اپنی ذمہ داریوں کا احساس اور اندازہ بھی نہیں ہے۔ وہ زندگی کے میدان میں عام امتوں کی طرح عمل کرنے میں مشغول ہے، جب کہ اسے چاہیے تو یہ تھا کہ دوسروں کو آئینہ دکھاتی، ان کے لئے مشعل راہ بنتی اور ان کے لئے اچھی تصویر پیش کرتی، مگر وہ دوسروں کی خوشہ چینی میں مشغول ہوکر اپنی حیثیت عرفی کو پامال کر رہی ہے، اور یہ حقیقت ہے کہ جب کسی کو اپنی خوبیوں اچھائیوں اور فضائل کا احساس اور اپنی ذمہ داریوں کا ادراک نہیں ہوتا ہے، تو عملی میدان میں وہ ناکام ثابت ہوتی ہے، لہذا اگر کسی کو اچھے عمل اور بلند کردار پر آمادہ کرنا ہو تو اسے اس کی خوبیاں یاد دلانا اور اس کی خصوصیات و قابلیتوں سے اسے واقف کرانا بڑا موثر ہوتا ہے۔
یہ کون نہیں جانتا کہ اللہ تبارک و تعالٰی نے بنی اسرائیل کو سیادت و قیادت سے معزول کرکے اس امت کو یہ منصب و مقام اور رتبئہ بلند عطا کیا تھا، اسے قیامت تک کے لئے مثالی اور رہنما امت بنایا تھا، جس کی ذمہ داریاں بڑی جامع اور ہمہ گیر تھیں، جو دنیا کی دیگر قوموں پر نگراں و نگہبان اور گواہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس دنیا میں ہونے والی ہر حرکت و عمل کا جائزہ لینا اور ہر بگاڑ کو سدھارنے اور فساد کو دور کرنے کی کوشش کرنا، اس کے مفوضہ فرائض میں داخل و شامل ہے، مگر کیا یہ حقیقت نہیں کہ یہ امت بھی انہیں بیماریوں اور انہیں خامیوں اور کمیوں میں مبتلا ہوگئ ہے، جن میں بنی اسرائیل مبتلا ہوئے تھے، اور جس کے نتیجہ میں انہیں قیادت عالم کے منصب سے معزول و دستبردار کر دیا گیا تھا۔ اور آج یہی صورت حال امت محمدیہ( امت مسلمہ) کے ساتھ بھی ہے، کہ اسے بھی اس کے منصب سے ہٹاکر در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا ؟ جواب بالکل واضح ہے کہ اس کا بنیادی سبب افراد امت مسلمہ کا اپنے مقام و مرتبے اور اپنے فرائض و واجبات کو فراموش کر دینا ہے، جب ان میں اپنی حیثیت کا احساس و ادراک نہیں رہا تو ہر فساد میں ملوث ہونا بھی ان کے لئے کوئی عار کی بات نہ رہی۔ ضرورت ہے کہ امت کو اس کے مقام و مرتبے اور انکی خصوصیات و امتیازات سے واقف کرایا جائے اور اسے اس کی ذمے داریاں یاد دلائی جائیں، کہ یہی اس مرض لا علاج کا علاج ہے۔
آج یہی چاہا جا رہا ہے کہ امت مسلمہ کے افراد کو جو ادھر ادھر بھٹک رہے ہیں اور جنھیں اپنے امتیازات و خصوصیات سے ذرا وقفیت نہیں، احساس دلایا جائے کہ وہ کس درخت کی شاخیں اور کس دریا کی نہریں اور لہریں ہیں۔ دور حاضر میں اس کام کی اہمیت اس لئے بھی اور بڑھ گئی ہے کہ امت کا نوجوان آج احساس کمتری و کہتری میں مبتلا ہے۔ اور شاید اسے اندازہ نہیں کہ وہ جن قوموں کی طرف نگاہ حرص سے دیکھتا ہے، ان کی حیثیت اس کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں، وہ ان کا امام اور مقتدا ہے، نہ کہ حاشیہ بردار اور خوشہ چیں۔ اس میں اور اس کی امت میں جو خصائص اور خوبیاں ہیں، دیگر قوموں میں ان کا عشر عشیر بھی نہیں۔
دوستو اور بزرگو!
اللہ تعالی نے اس امت کو اگرچہ تمام امتوں کے آخر میں رکھا ہے ؛لیکن یہ ’’مسک الختام‘‘ ہے، اور اپنی بہت ساری خصوصیات وامتیازات کی وجہ سے تمام امتوں پر فائق اور ممتاز ہے۔حدیث شریف میں ہے ’’نحن الآخرون السابقون یوم القیامۃ‘‘ کہ ہم دنیا میں وجود کے اعتبار سے تو آخری ہیں؛مگر دخولِ جنت یا گواہی کے لحاظ سے قیامت کے دن سبقت لے جانے والے ہیں۔(متفق علیہ)۔
امت مسلمہ ایک معتدل ومتوازن امت ہے۔’’وکذلک جعلناکم أمۃ وسطاً لتکونوا شھداء علی الناس ویکون الرسول علیکم شھیداً‘‘ (بقرہ: ۱۴۳)۔ یہ ایک عقیدے اور پیغام کی حامل امت ہے۔کوئی نسلی، یا علاقائی اور لسانی امت نہیں کہ اس کا کسی خاص قوم یا متعین نسل سے تعلق ہو، یا مشرق ومغرب کے کسی ملک یا خطہ سے نسبت ہو، یاکسی ایک مخصوص زبان سے متعلق ہو؛بلکہ یہ ایک عالمی امت ہے، جس کے تمام افراد کو رنگ ونسل اور زبان ووطن کے اختلاف وتنوع کے باوجود ایک عقیدے، ایک شریعت، مشترک اقدار اور ایک قبلے نے باہم متحد کردیا ہے۔اور ’’إنما المؤمنون إخوۃ‘‘کے ربانی اور ’’المسلم أخو المسلم‘‘ (سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں کے) نبوی فرمان نے باہم شیروشکر بنادیا ہے۔یہاں رنگ ونسل اور علاقائی ولسانی بنیاد پرکوئی تفریق اور بھید بھاؤ نہیں ہوتا۔’’تقوی‘‘ کو تفوق کی وجہ اور برتری کا سبب قرار دیا گیا ہے۔ اسلام سب کو ایک کلمہ پر متحد کرتا ہے اور انسانوں کو توڑنے والے رنگ ونسل اور زبان وعلاقے کے امتیازات اور طبقاتی تفریق کو مٹاتا ہے، اور علانیہ سب کو ایک امت قرار دیتا ہے، جن کو ایک گہری اخوت باہم مربوط رکھتی ہے، اور اس اخوت کی اساس ایک رب، ایک کتاب، ایک رسول اور ایک نظام پر ایمان ہے۔درحقیقت یہی اساس اس کی شیرازہ بندی کرتی ہے اور اس کے باہمی تعلقات کو مستحکم کرتی ہے۔ ’’وأن ھذا صراطی مستقیماً فاتبعوہ ولاتتبعوا السبل فتفرق بکم عن سبیلہ، ذلکم وصاکم بہ لعلکم تتقون ‘‘(انعام:۱۵۳)۔
یہ امت خیر الامم کے لقب سے ملقب ہے۔امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور اللہ پر مضبوط ایمان اس کی شناخت اور وظیفۂ حیات ہے۔معلوم ہوا کہ یہ امت ایک ربانی پیغام اور عالمی، انسانی نیز اخلاقی منصب کی حامل امت ہے۔
واضح رہے کہ ’’معروف‘‘ ایک جامع اصطلاح ہے۔ اس میں اعتقادیات سے متعلق تمام امور حق، مثلاً:راست بازی، رائے میں اصابت، افعال میں خیر اور اعمال میں درستگی، سب شامل ہیں۔
اس کے برعکس ’’منکر‘‘ کی اصطلاح، عقائد سے متعلق تمام امور باطلہ، قول میں کذب بیانی، رائے میں سطحیت، افعال میں شراور اعمال میں زیغ وضلال، سب کو محیط ہے۔
امت مسلمہ کے گوناگوں امتیازات کے باوجود یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تاریخ کے مختلف ادوار میں اسے طرح طرح کی آزمائشوں، امتحانات، حملوں اور یورشوں کا سامنا رہا ہے، جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ان حملوں کے نتیجے میں اس کا وجود بالکلیہ ختم ہوجائے گا؛مگر اللہ تعالی نے ہردور میں اس کے تحفظ وبقاء کے اسباب پیداکئے اور ایسے رجال برپاکئے، جنہوں نے امت کو ازسر نوزندہ کیا اور اس میں ایک نئی روح پھونک دی۔
آج جب کہ اس امت کو نوع بہ نوع یورش و یلغار کا سامنا ہے، اور ان حملوں کا نشانہ اس کا تشخص، عقائد، نظریۂ دین وزندگی، نظریۂ فرد واجتماع، تصورخالق ومخلوق اور تصور دنیا وآخرت ہے، اور مقصد ان سب کو تبدیل کردینا ہے۔ایسے میں اس نئے طاغوت کے مقابلے میں یہ امت صرف اسی طرح کھڑی رہ سکتی ہے کہ اپنے رب کی رسی کو مضبوطی سے تھام لے اور اپنے نہ ٹوٹنے والے مستحکم ستون سے پوری طرح چمٹ جائے۔
امت مسلمہ کا حقیقی فرد بننے کے لئے اور صحیح معنی امتی کہلانے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنی طاقت قوت اور صلاحیت کے حساب سے امت کی خدمت کریں۔ قرآن مجید میں ایک جگہ امت محمدیہ کی خصوصیت کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا : یہ وہ لوگ ہیں جب ان سے لوگوں نے کہا کہ کفار تمہارے مقابلہ میں اکٹھا ہو رہے ہیں اس لئے تم ان سے ڈر کر رہو تو اس بات نے ان کے ایمان میں اضافہ کر دیا اور ان لوگوں نے کہا؛ ہمارے لئے اللہ ہی کافی ہیں اور بہترین کار ساز ہیں ( سورہ آل عمران ۱۷۳)
اس آیت میں در اصل غزوئہ احد کے بعد کا ذکر ہے کہ جب اہل مکہ نے یہ دیکھا کہ بظاہر فتحیاب ہونے کے باوجود وہ یوں ہی لوٹ گئے تو دوبارہ حملہ کرنے کی ہمت نہیں کر پائے لیکن یہ سازش رچی کہ مسلمانوں کو خوف زدہ کرنے کے لئے یہ خبر دیں کہ اہل مکہ بڑے پیمانے پر حملہ کرنے کے لئے اکھٹا ہو رہے ہیں۔ ان کا ارادہ اور منشاء یہ تھا کہ اس طرح مسلمان ڈر جائیں لیکن مشرکین اور اہل مکہ اس سازش میں کامیاب نہ ہوسکے اور مسلمانوں نے جرات و ہمت کے ساتھ جواب دیا کہ اللہ ہمارے لئے کافی ہے۔
آج یہی صورت حال ہمارے سامنے ہے کہ مخالف طاقتیں ہمیں ڈرانا چاہ رہی برادران وطن میں سے ایک طبقہ اس کے لئے طرح طرح کی سازشیں رچ رہا ہے کہ ہم کسی طرح خوفزدہ ہوجائیں اور ہم ہیں کہ ان کی سازشوں کا شکار ہو جارہے ہیں اگر مسلمان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرح ڈر اور خوف کے ماحول سے نکل کر ہمت و حوصلہ اور جرآت و بہادری کے اوصاف سے متصف ہوجائیں اور ایمانی جرآت کا مظاہرہ کرتے ہوئے علی الاعلان یہ کہہ دیں کہ ہمارے لئے ہمارا اللہ کافی ہے تو دشمنوں کا سارا خوف اور بھرم جو ہم پر طاری ہے وہ چکنا چور ہو جائے اور مسلمان ذلیل و خوار اور رسوا ہونے سے بچ جائیں۔ جب تک ہم ایمانی جرآت کا مظاہرہ نہیں کریں گے ہم امت مسلمہ کے حقیقی سپاہی اور پاسباں کی فہرست میں شامل نہیں ہو سکیں گے۔
ہم جب تک اللہ کا خوف اپنے اندر پیدا نہیں کریں گے باطل سے ڈرتے اور دبتے رہیں گے۔ پکے اور سچے مومن کی پہچان یہ ہے کہ وہ صرف اللہ سے ڈرتے ہیں۔ اللہ تعالٰی نے بحیثیت امت، مسلمانوں کو اس کا پابند بنایا ہے کہ وہ صرف اللہ سے ڈریں اور غیروں کے ڈر اور خوف کو اپنے دل میں جگہ نہ دیں۔ ارشاد خداوندی ہے : تو ان سے نہ ڈر اور مجھ ہی ڈرتے رہو۔
ہماری اصلاح کا نسخہ اور بیماری کا صحیح علاج وہی ہے جس کی جانب امام مالک رح نے اشارہ فرمایا ہے۔
امام دار الہجرت حضرت مالک بن انس رحؒ کا ارشادہے: ’’لایصلح آخر ھذہ الأمۃ إلا بما صلح بہ أولھا‘‘ (اس امت کے آخر دور کی اصلاح صرف اسی طریقے سے ہوسکتی ہے، جس سے اس کے پہلے دورکی اصلاح ہوئی تھی)[ اور دور اول کی اصلاح کتاب وسنت سے ہوئی تھی]، اس کو حرز جاں بنالیاجائے اور ’’واعتصموا بحبل اللہ جمیعاً ولاتفرقوا‘‘ کو شعار بنایاجائے۔
آج ضرورت ہے کہ مسلمان ان صفات و خصوصیات کو اپنے اندر پیدا کریں جو اس امت کی پہچان ہے، امت محمدیہ کا حقیقی فرد بننے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی طاقت اور صلاحیت کے حساب سے امت کی رہبری و قیادت کریں اور دعوت و اصلاح کا کام کریں لوگوں میں ملی تہذیبی اور سیاسی شعور پیدا کریں اگر ہم نے امت محمدیہ کے یہ اوصاف اور پہچان اپنے اندر پیدا نہیں کیا تو ملت کے فرد اور امت محمدیہ کے نمائندہ ہونے کا دعوی محض کھوکلا دعوی ہوگا۔ اس حقیقت کو ہم یوں سمجھ سکتے ہیں کہ اگر آپ نے دنیا کی کوئی جماعت اور تحریک میں شمولیت اختیار کی اور اس کی حقیقی روح کے آپ محافظ ترجمان اور مبلغ بن گئے تو صحیح معنوں میں آپ اس جماعت اور تحریک کے فرد کھلائیں گے اور اگر آپ نے اپنا صحیح رول اور کردار ادا نہیں کیا آپ کی اس سے وابستگی محض رسمی رہی تو اس تنظیم کا آپ سے کچھ بھلا نہ ہوگا اور نہ ہی آپ دنیا کی نگاہ میں اس تنظیم سے منسوب ہونے کے حقیقی حقدار ہوں گے، ٹھیک اسی طرح ہم میں سے اکثر لوگ ایمان والے ہیں مومن ہیں لیکن امت مسلمہ کی جو حقیقی روح اور اسپرٹ ہے اس سے خالی اور عاری ہیں۔ خدا کرے یہ اوصاف و کمالات ہمارے اندر پیدا ہوجائے۔ آمین
حضرات!
یہ بات بالکل واضح ہوگئی کہ اللہ تعالٰی نے اس امت کو بے شمار خصوصیات و امتیازات سے نوازا ہے، قرآن و حدیث میں جگہ جگہ اس کا تذکرہ موجود ہے۔ اس امت کی ایک بڑی خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کے اخیر کے لوگ نیکی اور اجر و ثواب کا کام کرکے پہلے لوگوں کے مقام کے برابر ہوجائیں گے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مثل امتی مثل المطر لا یدری اولہ خیر ام آخرہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ترمذی )
کہ میری امت کا حال بارش جیسا ہے، جس کے بارے میں نہیں کہا جاسکتا کہ اس کا اول اچھا ہے یا آخر اچھا ہے۔
علماء اور محدثین نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ یہ تو درست ہے کہ قرن اول کو دوسرے قرون کے مقابلہ میں بزرگی اور فضیلت ہے۔ لیکن دور آخر میں بھی امت مسلمہ میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جن کا شمار خدا کے مقرب ترین بندوں میں ہوگا وہ اسلام کی عظیم خدمت انجام دیں گے۔ خدا کے ایسے صادق و مخلص بندے اپنے دور کی عزت و آبرو ہوں گے۔
اس حدیث میں گویا آخری زمانے میں پیدا ہونے والے مسلمانوں کو تسلی دی گئ ہے کہ وہ اپنے کو کمتر نہ سمجھیں، کیونکہ ممکن ہے کہ ان کی کوششوں سے اسلام اور مسلمانوں کو زیادہ فائدہ پہنچے۔
اس حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ اپنی افادیت کے اعتبار سے امت کا کون سا طبقہ بہتر ہوگا، اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا، کیونکہ یہ امت ہمیشہ زرخیز اور بافیض رہے گی، البتہ فضیلت کے معاملے میں سب کا اتفاق ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا طبقہ جو مسلمانوں کا اول حصہ تھا، سب سے افضل ہے۔ اس کے بعد تابعین اور پھر تبع تابعین کا؛ کیوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سب سے بہتر زمانہ میرا ہے، پھر میرے بعد آنے والے لوگوں کا زمانہ بہترین زمانہ ہوگا، اور ان کے بعد ان لوگوں کا زمانہ جو ان کے جانشین ہوں گے۔ ( بخاری کتاب فضائل الصحابہ رقم : ۲۶۵۰)
ایک دوسری روایت حضرت امامہ رضی اللہ عنہ سے ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛ طوبی لمن رآنی و طوبی سبع مرات لم یرنی و آمن بی (رواہ احمد) کہ مبارک بادی ہے اس شخص کو جس نے مجھ کو دیکھا اور مجھ پر ایمان لایا اور میری دعوت کی تصدیق کی۔
اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے متاخرین کے لئے سات بار مبارکباد کے الفاظ استعمال کئے ہیں اس کا صحیح علم تو خدا اور خدا کے رسول کے سپرد ہے۔ البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ کسی بات کو زیادہ سے زیادہ بلیغ انداز میں بیان کرنے کے لئے اور اس کی تکثیر کی خاطر چونکہ سات ہی کا عدد بابرکت اور متعارف ہے۔ اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذات رسالت پناہ پر ایمان بالغیب رکھنے والوں کو سات بار مبارکباد دی۔ اس لئے اس عدد سے تکثیر مراد لینی چاہیے نہ کہ تحدید۔ ( مظاہر حق)
ان تفصیلات سے ایک بات بالکل واضح ہوگئ کہ اللہ تعالی نے جس کو جس دور میں پیدا کیا اس کو اللہ تعالی کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اللہ تعالی کی حکمت و مصلحت اسی میں تھی کہ اس کو اس دور اور زمانے میں پیدا فرمایا، انسان کو کبھی یہ جملہ اپنی زبان پر نہیں لانا چاہئے کہ اللہ تعالی نے ہمیں اس دور میں کیوں پیدا فرمایا جہاں قدم قدم پر برائیاں ہیں فساد ہے۔ یہ جملہ انسان کو کفر تک پہنچا دینے والا ہے۔ انسان کو ہر حال میں اللہ تعالی کا شکر گزار ہونا چاہیے۔
مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتھم نے اصلاحی خطبات میں ایک جگہ لکھا ہے انسان کو یہ افسوس اور حسرت نہیں کرنی چاہیے کہ ہم عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں کیوں نہیں پیدا ہوئے۔ اگر اس دور میں پیدا ہوتے اور ایمان کی توفیق نہ ملی ہوتی تو کیا ہوتا۔ ابو جہل اور ابو لہب کے ساتھ ہوتے تو پھر کیا ہوتا۔
اس لئے ایمان والے کو چاہئے کہ اللہ تعالی کی رضا اور خوشنودی کے اپنے کو ہر حال میں تیار رکھے اللہ کے فیصلے پر راضی برضا رہے اور یہ یقین بھی کہ اللہ تعالی نے جنت اولین اور آخرین سب کے لئے بنائی ہے بس شرط یہ ہے کہ ایمان پر خاتمہ نصیب ہو جائے۔
(نوٹ اس تقریر کو راقم نے اپنی کتاب امت محمدیہ۔ امتیازات و خصوصیات کی روشنی میں تیار کیا ہے، گرامی قدر مفتی رحمت اللہ ندوی کا پیش لفظ' بھی شامل ہے)۔
0 تبصرے