Ticker

6/recent/ticker-posts

حافظ ولی احمد خان اور نقوشِ اولین

حافظ ولی احمد خان اور نقوشِ اولین


انسانی معاشرہ کبھی قحط الرجال کا شکار نہیں ہو سکتا ہمیشہ ہر دور میں اعلی اخلاق و کردار کے حاملین موجود رہے ہیں جن کے کمال و خصائص انسانی ستائش اور صلے کی چاہ سے بےنیاز رہے ہیں کیوں کہ وہ ایک فرض کی طرح احسان اور نیکی کا فریضہ انجام دئیے جاتے ہیں، انسانی تاریخ کے ہر دور میں ایسے لوگوں کا ذکر ملتا ہے ہاں یہ بھی سچ ہے کہ ایسے لوگوں کا تناسب ہر دور کم زیادہ ہوتا رہتا ہے۔ یہ پیش بندی اس لئے کی ہے کہ اس وقت ایک ایسی ہی شخصیت اور ان کی کتاب کے متعلق بات کرنا مقصود ہے جن کی اردو سے محبت اور خدمت خلق کا جذبہ اگر فقید المثال نہیں تو گراں قدر ضرور ہے، ان کا نام حافظ ولی احمد خان ہے، ان کا تعلق صوبہ گجرات کے مشہور شہر احمدآباد سے ہے وہ ماویٰ انجینئرنگ ورکس احمدآباد کے ڈائریکٹر ہیں، ایک تاجر ہوتے ہوئے بھی اردو کے فروغ کے لئے ہمہ وقت مستعد رہتے ہیں۔


حافظ ولی احمد خان کی شخصیت

حافظ ولی احمد خان کی شخصیت محبین اردو میں سرفہرست ہے، وہ نہ صرف اردو کی محبت کا دم بھرتے ہیں بلکہ دامے، درمے، سخنے، ہر طرح سے اس کے فروغ کے لئے پروگرام و سیمینارز کے انعقاد میں حصہ لیتے ہیں۔ کتابیں خرید کر انھیں تقسیم کرتے ہیں، مطالعہ کرنا ان کا محبوب مشغلہ ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے کتابیں ہمیشہ خرید کر پڑھیں نہ کبھی کسی سے مانگا اور نہ ہی کبھی کسی لائبریری سے لے کر پڑھیں بلکہ وہ خود لائبریری کو کتابیں عطیہ کرتے رہتے ہیں ہر ماہ کتابیں خریدتے ہیں روزآنہ چالیس سے پچاس صفحات پڑھتے ہیں، دوسرے قارئین کے تعاون کے لئے ان کو کتابیں فراہم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہتے ہیں لفظوں سے ہی کتاب پڑھنے کی ترغیب نہیں کرتے بلکہ خود کتابیں انھیں ہدیہ کرتے ہیں تاکہ اردو کتابوں کے مطالعے کی روایت کو زندہ رکھا جا سکے۔


ان سے واقفیت کے آغاز میں جب کہ میں ان کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں جانتی تھی تو مجھے لگا ہاں ٹھیک ہے اچھے انسان ہیں اردو سے محبت کے نام پہ چند کتابیں خریدتے ہوں گے جیسا کہ اردو کی محبت کے نام پہ کچھ لوگ کرتے ہیں، لیکن جیسے جیسے میں ان کو گہرائی کے ساتھ جانتی گئی تو مجھے اندازہ ہوا کہ ایسی شخصیات کسی بھی معاشرے کا بیش قیمت سرمایہ ہوتی ہیں، اردو زبان سے محبت ان کی ہر ادا سے ازخود ظاہر ہو رہی ہے وہ نہ صرف ایک محب اردو ہیں بلکہ ایک دردمند انسان بھی ہیں جو کہ اپنے متعلقین کی مدد کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں، بچوں کی تعلیم کو فروغ دینے کے لئے انھیں ہر طرح کا مالی تعاون بھی فراہم کرتے ہیں، ادبی دورے اور کتابوں کی نشر و اشاعت ان کا مشغلہ ہے مباحثوں اور سیمیناروں میں پابندی کے ساتھ نہ صرف وہ شرکت کرتے ہیں بلکہ اس میں مقالات بھی پڑھتے ہیں۔


اس وقت میرے سامنے ان کی کتاب نقوش اولین موجود ہے جو ان کے انھیں مقالات و مضامین کا مجموعہ ہے جو وہ سیمیناروں میں پڑھتے رہے ہیں، ان کے یہ مقالات ان کے مطالعہ و مشاہدہ کا حاصل ہیں انھوں نے ایک عمر اس علمی دنیا کی سیاحی میں گذاری ہے بڑے بڑے ادباء و شعراء کی تصنیفات کے مطالعہ کے ذریعے اپنے نظریات و خیالات کو وسعت بخشی ہے، اس کتاب کے ذریعے ان کے نظریات و خیالات کو بآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔ اس کتاب کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف ایک اچھے قاری ہیں بلکہ انھیں اپنے خیالات و نظریات کو لفظوں میں پرونے پہ بھی دسترس حاصل ہے، نقوش اولین ان کی انھیں صلاحیتوں کی عکاسی کرتی ہے۔


نقوش اولین حافظ ولی احمد خان کی پہلی تصنیف

hafiz-wali-ahmad-khan-aur-naqoosh-e-awwaleen

نقوش اولین حافظ ولی احمد خان کی پہلی تصنیف ہے جو کہ پندرہ مضامین و مقالات پہ مشتمل ہے، پہلا مقالہ گجرات میں اردو ترجمہ نگاری کی روایت و اہمیت ہے ترجمہ نگاری ایک ایسا فن ہے جسے گذرتے وقت کے ساتھ اردو زبان کی بساط پہ بھی خاصی پذیرائی حاصل ہوئی ہے، اس کے ذریعے دوسری زبان کے ادب اور علوم سے استفادہ کرنے کی راہ ہموار ہوتی ہے، عالمی افق پہ پیدا ہونے والی تبدیلیوں سے آگاہی حاصل کی جا سکتی ہے اس موضوع پہ مقالہ لکھنا اردو ترجمہ نگاری کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے، حافظ ولی احمد خان نے اس مقالے میں نہ صرف گجرات کے پس منظر میں اردو ترجمہ نگاری کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے بلکہ ترجمہ نگاری کے ضمن میں دیگر مصنفین کے آرا کو بھی نقل کیا ہے اور ان کے خیالات کے ہر پہلو پہ روشنی ڈالی ہے مثال کے طور پہ فارسی کے اشعار کو مع ترجمہ بیان کیا ہے یہ ایک ایسا مقالہ ہے جو گجرات کے تناظر میں ہی نہیں بلکہ علمی افق پہ اردو ترجمہ نگاری کی اہمیت کو بیان کرتا ہے اردو زبان میں ترجمہ نگاری کی ضرورت کو بھی عیاں کرتا ہے۔

نقوش اولین میں اپنے مشاہدے و مطالعے کا نچوڑ

ولی احمد صاحب نے نقوش اولین میں اپنے مشاہدے و مطالعے کا نچوڑ پیش کیا ہے اور اردو کی موجودہ صورتحال اور اس کو درپیش چیلنجز کو بھی بیان کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے، ایک اچھا قاری وہی ہوتا ہے جو اپنے مطالعے کو حقیقی زمین سے جوڑے رکھنے کا ہنر رکھتا ہے مطلب یہ کہ وہ فلسفے و منطق کی کامل پسندی میں الجھنے کے بجائے اس میں زندگی کے حقیقی رنگ تلاش کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ولی احمد صاحب نے اپنی کتاب میں مطالعے و مشاہدے کا نچوڑ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔


چوں کہ حافظ ولی احمد خان کا تعلق احمد آباد گجرات سے ہے انھوں نے گجرات کی تعمیر و ترقی اور اس کے درپیش مسائل کا زمینی سطح پہ مشاہدہ کیا ہے، اس لئے ان کا دوسرا مقالہ بھی گجرات کے پس منظر میں لکھا گیا ہے اس کا عنوان ہے 'تعلیمی اور تربیتی اداروں کی اردو خدمات، گجرات کے حوالے سے' اس مقالے کے تحت انھوں نے ان کتابوں کا ذکر کیا ہے جو کہ اپنے موضوع کے لحاظ سے کافی اہم ہیں ان میں سے ایک کتاب رہنمائے کمپیوٹر ہے جو کہ اردو زبان میں لکھی گئی ایک جامع کتاب ہے اس کے ذریعے اردو داں طبقہ بآسانی کمپیوٹر کے استعمال کرنے کا طریقہ سیکھ سکتا ہے اس کے علاوہ انھوں نے اس مقالے میں کئی اور کتابیں جیسے فتاویٰ قادریہ، خطبات قادریہ، برکات قادریہ کا بھی ذکر کیا ہے اس میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کو مرتب کرنے والی طالبات ہیں جنھوں نے کسب علم کے ساتھ اس کو مرتب کیا ہے، حافظ ولی احمد خان نے اس مقالے کو مؤثر بنانے کے لئے ان کتابوں پہ مختصرا تبصرہ بھی کیا ہے جو کہ پڑھنے والوں کو ان کی جزئیات سے واقف کراتا ہے۔


اگر اس کتاب کے تمام ہی مقالات کو میں زیر تبصرہ لانے کی کوشش کروں تو یہ طوالت سے بوجھل ہونے کے ساتھ قارئین کے تجسس کے لئے بھی مفید ثابت نہیں ہوگا سب کچھ اس تبصرے کے ذریعے جان لیں گے تو کتاب پڑھنے کی خواہش شاید ماند پڑ جائے، اس تبصرے کا مقصد اس کتاب اور مصنف کتاب کی خوبیوں کا معروضی خاکہ پیشہ کرنا ہے باقی تفصیلی رائے تو قاری کو خود یہ کتاب پڑھ کر قائم کرنی ہوگی۔

اس کتاب میں ڈاکٹر عزیز اللہ شیرانی سے ایک ملاقات کو بھی شامل کیا گیا ہے ڈاکٹر عزیز اللہ خان شیرانی اعلی درجے کے ادیب و محقق ہیں ان کا شمار راجستھان کے کثیر التصانیف مصنفین میں ہوتا ہے، تنقید و تحقیق ان کا مرغوب میدان ہے حافظ ولی احمد خان نے اس مضمون میں ڈاکٹر عزیز اللہ شیرانی سے اردو زبان و ادب کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کی اس مقالے میں ان دونوں نے اپنے اپنے نظریات کو برملا پیش کیا عزیز اللہ خان شیرانی اردو زبان کی عظمت رفتہ کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ اب بھی اردو زبان کی حالت بہت مستحکم ہے یہ ہماری ذمےداری ہے کہ ہم اس کو پروان چڑھانے کے لئے کس طرح کی کوششیں کرتے ہیں اگر ہم اس سے محبت کا محض دعویٰ کرتے رہے لیکن خود اسے اپنی عام بول چال کا حصہ نہیں بنا سکے تو آنے والے وقت میں ہم خود اس کی قیمت چکائیں گے ہماری نسلیں اردو میں محفوظ ایک بڑے علمی سرمائے سے محروم ہو جائیں گی ولی احمد خان نے اردو زبان کو ہر گھر تک پہنچانے کے لئے عزیز اللہ خان شیرانی سے جب پوچھا کہ اسے کیسے ممکن بنایا جا سکتا ہے تو انھوں نے کہا کہ یہ بڑا مشکل سوال ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کا جواب اردو کی پوری عوام سے ہے اردو جاننے والے لوگوں سے ہے بلکہ پوری اردو عوام اور اس کے بولنے والے اس کے ذمےدار ہیں اس سوال کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ہمیں ہر سطح پہ اردو کے تئیں خلوص پیدا کرنا ہوگا کسی موقع پہ چند جذباتی تقریریں اور اردو کی حالت زار پہ دو چار متأسفانہ تحریریں لکھ دینے سے اردو کا کچھ بھلا ہونے والا نہیں بلکہ اس کے لئے ایک مصنف اور مقرر ہونے کے ساتھ ایک اچھا قاری و سامع بننے کی روایت کو پروان چڑھانا ہوگا، حافظ ولی احمد خان اور ڈاکٹر عزیز اللہ شیرانی کے یہ مکالمہ اردو زبان و ادب کی بقاء و ارتقاء کے حوالے سے نہایت اہمیت کا حامل ہے اس کتاب میں اس مضمون کی شمولیت کتاب کی اہمیت میں اضافہ کرتا ہے۔


حافظ ولی احمد خان

حافظ ولی احمد خان نے اپنی کتاب نقوش اولین کو لکھ کر لوگوں کو یہ بھی پیغام دیا ہے کہ ضروری نہیں کہ اردو زبان سے محبت باقاعدہ ادیب شاعر پروفیسر بن کر ہی کی جا سکتی ہے اردو سے محبت کرنے کے لئے بس ایک سچے احساس کی ضرورت ہوتی ہے پھر ایک بزنس مین، ایک ڈاکٹر، ایک انجینئر بھی بہت کچھ کر سکتا ہے جس کی جیتی جاگتی مثال خود حافظ ولی احمد خان ہیں وہ پیشہ سے ایک انجینئر ہیں اس کے ذریعے حاصل ہونے والی آمدنی کا ایک بڑا حصہ وہ اردو ادب کے فروغ میں خرچ کر رہے ہیں وہ بےغرض ہو کر اردو سے محبت کا حق ادا کر رہے ہیں۔


نقوش اولین میں انھوں نے مختلف اہم موضوعات کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے جیسے 'دور حاضر میں صوفیائے کرام کی تعلیمات و اہمیت، جنگ آزادی کا پس منظر، اردو میں نعت گوئی، اردو شاعری اور پیغام انسانیت، اردو افسانے کا عصری منظرنامہ، ڈاکٹر نذیر فتح پوری وغیرہ وغیرہ انھوں نے ان تمام مقالات و مضامین میں اردو ادب کے گوناگوں پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے، ان تمام مضامین کا زمینی منظرنامہ زیادہ تر گجرات سے ہی متعلق ہے، وہ ایک صنعت کار ہو کر جس طرح اردو کی بقاء و ارتقاء کے لئے متحرک و فعال رہے ہیں یہ ان کی شخصیت کی ایک ایسی خوبی ہے جو انھیں محبین اردو کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رکھے گی، اگر اس طرح کی شخصیات ہر شہر میں پیدا ہو جائے تو اردو زبان کی راہ میں حائل مشکلات خود بخود دم توڑ دیں گی۔
علیزے نجف

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے