Ticker

6/recent/ticker-posts

قصبہ سمریاواں ضلع سنت کبیر نگر کا ایک یادگار سفر

قصبہ سمریاواں ضلع سنت کبیر نگر کا ایک یادگار سفر

(۱)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمدقمر الزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام، کنڈہ، پرتاپ گڑھ

سفر انسان کی ضرورت بھی ہے اور تفریح بھی، یہ انسانی زندگی کا ایک حصہ اور لازمہ ہے، جس سے کسی کو مفر نہیں، حالانکہ سفر کو مثل سقر اور " قطعة من العذاب " بھی کہا گیا ہے، لیکن اسی کے ساتھ ساتھ سفر وسیلہ ظفر بھی یے، اور" سیروا فی الارض" کا حکم ربانی ہے، جس پر عمل پیرا ہو کر نئے نئے جہاں کی تلاش و جستجو میں ہمیشہ ادھر ادھر پھرتا ہے، اور جدید حقائق اور انکشافات کرتا ہے۔

سفر کو قدیم عہد ہی سے انسانی ضرورت سمجھا گیا ہے، قرآن مجید میں سفر کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے، اور انبیاء کی زندگی میں بھی ہجرت اور اسفار کی تفصیلات ملتی ہیں، قرآن مجید میں جگہ جگہ ایسی آیتیں ملتی ہیں، جن میں سفر کرنے، چل پھر کر حالات و کوائف کو دیکھنے، سمجھنے اور گزشتہ قوموں کے حالات جان کر عبرت حاصل کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سفر کا واقعہ سورہ کہف میں اور ذو القرنین کے سفر کا واقعہ بھی اسی سورہ میں خاص انداز سے اور قدرے تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔


سفر سے علم اور تجربہ میں اضافہ ہوتا ہے، حقائق معلوم ہوتے ہیں، انسانوں کے مزاج و مذاق، عادات واطوار اور ماحول و طرز زندگی کو سمجھنے کا ذریعہ بھی سفر بنتا ہے ۔

جس طرح سفر انسانی فطرت کا لازمہ اور ایک حصہ ہے اسی طرح روداد سفر ہم نفسوں کو سنانا ایک ایسا فطری اور طبعی ذوق ہے کہ کوئی فرد بشر اس سے بے نیاز نہیں، یہ الگ بات ہے کہ کوئی اسے کارگزاری کے نام زبانی بیان کرتا ہے اور کوئی اسے سفر نامہ کی شکل میں تحریری پیش کرتا ہے، اور قارئین سے داد تحسین بھی حاصل کرتا ہے۔


شاید دنیاکےجانداروں میں حضرت انسان کا یہ شرف اور امتیاز ہے کہ خلد سے نکلنے کے وقت سے ہی اس کا سفر شروع ہو چکا تھا۔ ظاہر ہےکہ جب انسانی دلچسپیوں سے سفر اور سفر نامہ لکھنے اور سنانے کی خواہش اس درجہ قریب ہے تو راقم الحروف اپنے کو اس سے الگ اور مستثنیٰ کیسے کرسکتا ہے، یہ اور بات ہے کہ کسی کے سفر نامہ میں ادب اور ادب کی چاشنی ہوتی ہے اور کسی کا سفر نامہ اور سفری کارگزاری اس سے خالی ہوتی ہے، اب یہ تو ہمارے قارئین طے کریں گے کہ احقر کا سفر نامہ کس زمرہ میں آتا ہے، امتحان کی کاپی آپ کے پاس ہے نمبرات آپ ہی دیں گے، بہر حال یہ تمہید طولانی اسی تلاش میں ایک سنجیدہ کوشش ہے، شاید میرے اس سفر نامہ میں بھی قارئین کو کچھ مل جائے جو اس علاقہ اور خطہ کے لوگوں کو خاص طور پر یکجا مرتب شکل میں نہ مل سکے، ہمارا یہ سفر نامہ مذکورہ تمہید و تعارف کے بعد کس حد تک معلومات افزا اور دلکش ہے، اور ہم اس میں کس حد تک کامیاب ہوسکے؟ اس کا اندازہ آپ قارئین کو اس سفر نامہ کے مطالعہ 📚✏ ہی سے ہوگا اور ہم آپ قارئین کے قیمتی آراء کا انتظار بھی کریں گے، اس لیے سفر نامہ، مسافر کے ذوق جستجو اور اس کے مقصد سفر کا آئینہ ہوتا ہے، سفر نامے میں خود مسافر کا عکس اور اس کی تصویر جھلکتی ہے، اس کے معیار خیر و شر رجحانات و خیالات کا عکس نمایاں ہوتا ہے، بادیہ پیمائی اور رہ نوردی، منزل کے مناظر، مکانوں اور مکینوں سے واسطہ، راستے کےتلخ و شیریں تجربات کا بیان ضمنا آتا ہے۔


بہر حال یہ سفر تھا متحدہ ضلع بستی کے ایک مشہور معروف گاؤں و قصبہ "سمریاواں " کا ۔ جو اب ضلع سنت کبیر نگر کا حصہ اور بلاک ہے، اس سفر میں شریک سفر اور میر سفر میرے رفیق مکرم اور میرے علمی و تالیفی کاموں میں بہت ہی معاون مفتی رحمت اللہ ندوی تھے، جو اپنی سنجیدگی، متانت اور صلاحیت و صالحیت میں ممتاز ہیں، دوستوں اور احباب میں بعض انہیں یعقوب ثانی بھی کہتے ہیں، فکر صالح کے ترجمان ہیں ایسی گفتگو اور تحریر سے ہمیشہ بچتے ہیں کہ جس کے بعد عذر و معذرت پیش کرنے کی نوبت آئے، سفر میں انسان کے مزاج ومذاق اور عادت و اخلاق کا پتہ چل جاتا ہے، الحمدللہ مجھے بارہا ان کے ساتھ سفر کا موقع ملا، وہ اتنا خیال رکھتے ہیں کہ راقم کبھی شرمندہ اور پانی پانی ہوجاتا ہے، سفر کے ساتھ رفیق سفر بہتر مل جائے تو اسے بھی خدائی انعام سمجھنا چاہیے۔


اس سفر کے داعی اور محرک ہمارے بہت اچھے دوست، ہمارے قدر داں جناب مولانا محمد منیر ندوی صاحب بہرائچی مہتمم مدرسہ عربیہ سمریاواں تھے، جو اپنی استقامت، عزم اور حوصلہ میں اپنی مثال آپ ہیں، جو بیک وقت سنجیدگی اور اور ظرافت کے جامع ہیں، جہاں جیسا وقت ہوتا ہے وہی رخ اور لہجہ اختیار کر لیتے ہیں، انسانی دلوں کو جیتنے کا ہنر کوئی ان سے سیکھئے، لیکن ہاں مداہنت اور مرعوبیت اور چاپلوسی کا شائبہ بھی نہیں، ورنہ تو لوگ اس کے لیے بے ضمیر بھی ہوجاتے ہیں، ہیں تو عہدہ کے اعتبار سے مہتمم لیکن عرف اور ماحول میں لوگ ان کو ناظم صاحب ہی کے نام سے پکارتے ہیں، بیک وقت طلبہ، اساتذہ اور عوام کے محبوب اور منظور نظر، ہر ایک کی زبان سے ان کی تعریف ہی سنی۔ اسی طرح سفر کے محرک عزیزی غفران احمد ندوی تھے جو اپنی طلاقت لسانی اور شاندار نظامت کے لیے پوروانچل میں مشہور ہیں اور یقینا زبان و بیان کی بے پناہ قدرت خدا کی طرف سے انہیں ملی ہے، ایسا لگتا کہ کہ خدا نے یہ دولت ان پر انڈیل دی ہے،

بہر حال انہیں دو حضرات کی دعوت اور پیہم اصرار کے بعد یہ سفر ہوا اور کئی سالوں کی خواہش اور تمنا داعی و مدعو دونوں کی پوری ہوئی۔

( نوٹ: ہم آگے کی قسطوں میں سفر کی تفصیلات پیش کریں گے۔)


قصبہ سمریاواں ضلع سنت کبیر نگر کا ایک یادگار سفر

(2)
۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد قمر الزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام، کنڈہ، پرتاپ گڑھ

سمریاواں کا یہ سفر دو روزہ بلکہ سہ روزہ تھا، ۲۵/ جنوری ۲۳ء بروز بدھ گیارہ بجے دن بس کے ذریعہ پہلے لکھنؤ کے لیے رخت سفر باندھا، ساڑھے تین بجے لکھنؤ سے ٹرین تھی اوروہیں سے مولانا رحمت اللہ ندوی کی رفاقت میں آگے کی منزل طےکرنی تھی، سوا تین بچے چار باغ اسٹیشن پہنچا، کچھ ظہرانہ کیا اور ظہر و عصر کی نماز ایک ساتھ،،مسجد عائشہ،، نزد چار باغ اسٹیشن ادا کی، کبھی کبھی راقم بھی جمع حقیقی پر عمل کرلیتا ہے، جب سے پبلک پیلس پر نماز پڑھنے پر پابندی لگ گئی ہے۔ ورنہ راقم کا یہ معمول کبھی نہیں رہا البتہ جمع صوری پر ہمیشہ سفر میں معمول رہا،متعد علماء احناف حالات اور سفر میں ہونے والے تجربات کی بناء پر جمع بین الصلاتین حقیقی کے نہ صرف قائل،بلکہ عامل رہے ہیں،علامہ عبدالحی فرنگی محلی رح نے بھی اجازت دی ہے،علامہ سید سلیمان ندوی رح کا بھی یہی موقف ہے، دیگر حضرات بھی اس زمرہ میں شامل ہیں، اس لئے اتنی شدت اختیار کرنا کہ جان اور عزت کو خطرہ لاحق ہوجائے،یا نماز ہی قضا کرنی پڑ جائے، مناسب معلوم نہیں ہوتا۔

علامہ سید سلیمان ندوی مسائل فقہ میں مجتہدانہ نظر رکھتے تھے، وہ عصری رجحانات پر غور و فکر کرتے تھے اور مسائل میں رائے قائم کرنے میں بڑی احتیاط اور تدبر سے کام لیتے تھے،، وہ جمع بین الصلواتین حقیقی قائل تھے اس کے لیے ان کے پاس قرآن و حدیث سے دلائل تھے۔ بین الصلواتین کے بارے میں سید صاحب رح نے حنفی مسلک کی وضاحت کی ہے، لیکن آپ کا تحقیقی رجحان دوسری طرف ہے، آپ تحریر فرماتے ہیں،،

(اوقات نماز سے متعلق) ,, اوپر آیتوں پر غور کی نظر ڈالنے سے ایک عجیب نکتہ حل ہوتا ہے، پہلی آیتوں میں ظہر اور عصر کی نمازیں مجمل ہیں، یعنی دونوں کو ایک لفظ،، قبل الغروب،، یا،، اصیل،، یا طرفی النہار،، کے ذریعہ بیان کیا گیا ہے، آخری آیت میں جو سورئہ روم کی ہے، ظہر و عصر کی نمازوں کا نام تصریح کے ساتھ آیا ہے، مگر شام کی نماز میں اجمال ہے، یعنی مغرب و عشاء دونوں کو،، حین تمسون،، یعنی جب رات کرو کے ذریعہ سے ادا کیا گیا ہے، اس لیے اس جانب ایک لطیف اشارہ نکلتا ہے کہ یہ دونوں مل کر ایک بھی ہیں اور علیحدہ بھی ہیں، اس بناء پر کسی اشد ضرورت اور سفر کی بے اطمنانی کے وقت ظہرو عصر کو ایک ساتھ اور مغرب و عشاء کو ایک ساتھ ملا کر بھی ادا کرسکتے ہیں، اور صبح کی نماز چونکہ ہر آیت میں علیحدہ ذکر کی گئی ہے، اس لیے اس کا دوسری نماز سے ملانا جائز نہیں ہے، احادیث میں جمع بین الصلواتین کے عنوان سے آنحضرتﷺ کی عملی مثالیں اس نکتئہ قرآنی کی تشریح میں موجود ہیں،،۔ (علامہ سید سلیمان ندوی کے چند فقہی مقالات مرتبہ مولانا رحمت اللہ ندوی، ص، ۲۱۸/ بحوالہ سیرة النبی، الفیصل لاہور ۵/ ۷۲-۷۳)

جمع بین الصلواتین حقیقی کے بارے میں فقہاء میں باہم اس کے متعلق اختلاف ہے کہ دو نمازوں کو یکجا کن صورتوں میں پڑھا جاسکتا ہے، احناف کے نزدیک حقیقی طور پر صرف ایک موقع پر حج میں عرفات میں ۹/ ذی الحجہ کو ظہر اور عصر دونوں ظہر کے وقت ادا کی جاتی ہیں، کیونکہ اس دن عصر کا وقت خاص حج کی دعاؤں کے لیے ہے، بقیہ نمازوں میں حنفیہ کے نزدیک حقیقی یکجا نہیں بلکہ محض صورة دو دو نمازیں ایک ساتھ ادا کی جاسکتی ہیں، اس کی صورت یہ ہے کہ ایک نماز اخیر وقت میں اور دوسری اول وقت میں پڑھی جائے۔ حنفیہ کے علاوہ دوسرے فقہاء کے نزدیک سفر میں حقیققة دو نمازیں یکجا ایک وقت میں پڑھی جاسکتی ہیں اور آنحضرتﷺ نے ایسا کیا ہے، شیعوں میں دو نمازوں کو ایک ساتھ پڑھنے کا عام رواج ہے،،۔( حاشیہ سیرة النبی ۵/۷۲-۷۳/علامہ سید سلیمان ندوی رح کے چند فقہی مقالات، ص، ۲۱۸)

الغرض پلیٹ فارم نمبر ایک پر لکھنؤگورکھپور انٹر سٹی وقت پر لگ چکی تھی، سی تھری میں اپنی کرسی پر بیٹھ گیا، رفیق گرامی رحمت اللہ ندوی سے پہلے بات ہوگئی تھی، انہوں کہہ دیا تھا کہ ہم بادشاہ نگر اسٹیشن سے بیٹھیں گے، تقریبا بیس منٹ کے زائد پر ٹرین وہاں پہنچی اور رحمت اللہ ندوی صاحب بھی آگئے،ہلکی بارش بھی ہورہی تھی، علیک سلیک کے بعد خیر خیریت معلوم کی اور کچھ دیر تک مختلف موضوعات پر باتیں ہوتی رہیں،مولانا چونکہ وقت کے بہت پابند ہیں، اس لیے میری ہی ایک کتاب کا مسودہ دیکھنے میں مشغول ہوگئے، اور میں موبائل میں مختلف چیزیں پڑھتا رہا، ماہنامہ" الرشاد" اعظم گڑھ کا ایک شمارہ جو اپنے ساتھ لے لیا تھا، اس کے مطالعہ 📚✏ میں مشغول ہوگیا۔ مولانا عبد الماجد درباری پر مولانا نعیم الدین صدیقی ندوی اعظم گڑھ کا مضمون تھا، بہت ہی دلکش اور پر از معلومات، بہت اچھا لگا،مولاناکےطرزتحریر پر سر دھننے لگا اور رشک کرنے لگا، کاش! یہی انداز اور اسلوب اور دلکشی میری تحریر میں بھی پیدا ہو جاتی۔

مغرب سے پہلے پہلے گاڑی بارہ بنکی پہنچی، عصر بعد چائے کی میری لت اورعادت بہت خراب ہے، اگرفجر بعد اور عصربعدمجھے چائے نہ ملے تو جیب میں ہزاروں کی رقم ہو میں اپنے کو غریب اور مسکین محسوس کرتا ہوں، ندوہ کے دوران طالب علمی سے ہی میری یہ عادت ہے، پتہ نہیں چائے کی یہ خواہش میری کب ختم ہوگی۔

بہر حال چائے پینے کی سخت خواہش ہورہی تھی لیکن اب میٹھی چائے بالکل نہیں پیتا، دل میں آیا چلو صبر کرلیتے ہیں، مدرسہ عربیہ تعلیم القرآن، سمریاواں جاکر چائے نوشی کرلیں گے۔ لیکن حدیث میں آتا ہے کہ میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ رہتا ہوں، اچانک کیا دیکھتا ہوں کہ بارہ بنکی اسٹیشن پر جیسے ہی گاڑی رکی ایک نو فارغ ندوی عزیزم مسعود احمد بارہ بنکوی سلمہ چائے کا تھرمس، کلہڑ اور نمکین وغیرہ لےکر ڈبے میں داخل ہوئے، معلوم ہوا کہ پہلے سے ان کو ہم لوگوں کی آمد کا پتہ تھا، وہ مولانا کے شاگرد تھے۔اللہ کا شکر ادا کیا، جیسی چائے چاہ رہا تھا ویسی ہی مل گئی، شکر برائے نام۔ وہ عزیز گاڑی کھلتے ہی نیچے اتر گیا اور ہم لوگ عصرانہ سے محظوظ ہونے میں مصروف ہوگئے۔

ٹرین ایک گھنٹہ تاخیر سے بستی پہنچی، اسٹیشن پر میزبان برادرم فضیل احمد ندوی کے اسکول سے کچھ ٹیچر ڈرائیور کے ساتھ پہلے سے موجود تھے،باہر آکر ہم گاڑی پر سوار ہوئے اور تقریباً تیس چالیس منٹ میں سمریاواں مدرسہ پہنچ گئے، منیر بھائی، غفران میاں اور تمام اساتذہ سراپا انتظار تھے۔ طے یہ پایا کہ پہلے عشائیہ سے فارغ ہولیا جائے اور پھر نماز پڑھ کر آرام کیا جائے۔اسی پر عمل ہوا، اس رات نئی جگہ کی اور تکان کی وجہ سے نیند بہت کم آئی۔ صبح فجر کی نماز سے فارغ ہوا، مدرسہ کی مسجد جو اصلا قصبہ کی جامع مسجد ہے، جہاں جمعہ میں اطراف و اکناف سے ہزاروں لوگ نمازِ جمعہ اداکرنےآتے ہیں، مسجد انتہائی عالی شان، کشادہ اور جامع ہے، ایسی ہی مسجد پر "جامع "کے لفظ کا اطلاق ہوتا ہے، صرف دو پائے پر اتنی عظیم الشان مسجد کھڑی ہے، تعجب اور حیرت ہوتی ہے اس انجنئیرنگ پر۔

پروگرام کی پوری ترتیب پہلے سے مرتب تھی۔ اسی کے مطابق پورا دن مصروف رہا۔ پہلے سے یہ اطلاع تھی اور عوام الناس کو بھی اطلاع کردی گئی تھی کہ مدرسہ میں ترنگا پھہرانے اور جمہوریہ کے عنوان پر تقریر کے بعد " الحراء گلوبل اکیڈمی" میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کرنی ہے اور یہ پروگرام دو بجے تک چلے گا۔

مدرسہ تعلیم القرآن میں پرچم کشائی مفتی رحمت اللہ ندوی کے بدست ہوئی،پھر مجھے کچھ کہنے کا موقع ملا، یوم جمہوریہ،دستورسازی،اس کی اہمیت اور بر تری نیز ترنگا کے تینوں رنگ کی وضاحت پر کچھ باتیں گوش گزار کیں۔
اس کے بعد رحمت اللہ ندوی نے اپنے خطاب میں کہا :

آج ضرورت ہے کہ ہم اپنی تاریخ کا مطالعہ کریں اور اس سے وابستہ رہیں،جو قومیں اپنی تاریخ کو فراموش کردیتی ہیں، وہ خود فراموش ہو جاتی ہیں اور ان کا وجود مٹ جاتا ہے، آج تاریخ کو مٹانے اور تبدیل کرنے کی کوشش ہورہی ہے اور دستور سے چھیڑ چھاڑ کیا جارہا ہے، بلکہ موجودہ دستور کے متوازی دستور مرتب ہوچکا ہے،صرف نفاذ کا انتطار ہے،اس لئے دستور بچانے کی بھی ضرورت ہے۔

جمہوریت کا نام اور عنوان بڑا دلکش اور دل فریب ہے،لیکن اس میں فریب ہی فریب ہے،جب جمہوریت کی تاریخ پڑھیں گے تو معلوم ہوگا کہ کس طرح عوام کو اس نام پر دھوکہ دیا گیا ہے اور ان کے حقوق کی پامالی کی گئی ہے۔

اس جمہوری نظام میں جو سپنے دکھائے گئے تھے،وہ خواب پریشاں ثابت ہوئے،اور یہ سپنا ادھورا ہی رہا۔

ہمارے عزیز طلبہ کو جمہوریت کی تاریخ کا بھی مطالعہ کرناچاہئے، اور شاہی نظام،اور جمہوری نظام کے ثمرات اور نقصات سے واقف ہونا چاہئے۔

یہ خلاصہ تھا، موصوف کی تقریر کا۔
اس کے بعد مدرسہ کے طلبہ اور اساتذہ مسجد میں اپنا بقیہ پروگرام کرنے چلے گئے اور ہم ناشتہ کی میز پر آگئے،اس کے بعد ہمیں الحراء گلوبل اکیڈمی کے پروگرام میں شرکت کے لئے جانا تھا،اس اکیڈمی کے مینجر برادرم فضیل احمد ندوی ہیں،جو مولانا کفیل احمد ندوی، استاد دارالعلوم ندوہ العلماء لکھنؤ کے برادر خورد ہیں۔ (جاری)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے