ویلن ٹائن ڈے یوم محبت یا جنسی استحصال؟
مجیب الرحمٰن جھارکھنڈ
آج ہمارا معاشرہ جن جن رسوم و رواج بدعات و خرافات اور جن جن برآئیوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے ان میں سے ایکویلن ٹائن ڈے بھی ہے خوب زور و شور کے ساتھ اس کو منایا جاتا ہے شریعت کی تمام حدوں کو پار کر کے کفر کے دلدل میں قدم رکھ دیا جاتا ہے، جبکہ غیر قوموں کی مشابہت ہمارے لئے باعت عذاب ہے۔
ذیل میں اس کا پس منظر پیش کیا جارہا ہے اور پھر اس کی حقیقت پر بھی روشنی ڈالی جائے گی۔
قارئیں کرام! 14؍ فروری کو خاص طور پر یورپ میں یوم محبت کے طور پر منایا جاتا ہے اس تاریخ کو منائے جانے والے ویلنٹائن ڈے کی تاریخ ہمیں روایات کے انبار میں ملتی ہے اور روایات کا یہ دفتر اسرائیلیات سے بھی بدتر ہے جس کا مطالعہ مغربی تہذیب میں بے حیائی و بے شرمی کی تاریخ کے آغاز کا اشارہ دیتا ہے، اس بے ہودہ تہوار کے بارے میں کئی قسم کی روایات رومیوں اور ان کے وارث عیسائیوں کے وہاں معروف اور مشہور ہیں، جن میں سے کچھ یہ ہیں۔
شہنشاہ کلاڈیسس دوم کے دور میں سرزمین روم مسلسل جنگوں کی وجہ سے جنگوں کا مرکز بنی رہی اور یہ عالم ہوا کہ ایک وقت کلاڈیسس کی اپنی فوج کے لئے مردوں کی بہت کم تعداد آئی جس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ روم کے نوجوان اپنی بیویوں کو چھوڑ کر دور دراز لڑنے کے لئے جانا پسند نہیں کرتے تھے، اس کا حل بادشاہ نے یہ نکالا کہ ایک خاص عرصہ تک کے لئے شادیوں پر پابندی لگادی تا کہ نوجوانوں کو فوج میں جانے کے لئے آمادہ کیا جاسکے۔ اس موقع پر سینٹ ویلنٹائن نے سینٹ ماریوس کے ساتھ مل کر خفیہ طور پر نوجوان جوڑوں کی شادی کروانے کا اہتمام کیا؛ لیکن ان کا یہ عمل چل نہ سکا اور بادشاہ کلاڈیسس کے حکم پر سینٹ ویلنٹائن کو گرفتار کرلیا گیا اور تکلیفیں دے کر ۱۴؍ فروری ۲۷۰ء میں قتل کردیا گیا، اس طرح ۱۴؍ فروری سینٹ ویلنٹائن کی موت کے باعث اہل روم کے لئے معزز و محترم دن قرار پایا۔
اس سلسلہ میں ایک واقعہ یہ بھی ملتا ہے کہ ویلنٹائن نام کا ایک معتبر شخص برطانیہ میں بھی تھا، یہ بشپ آف ٹیرنی تھا جسے عیسائیت پر ایمان کی جرم میں14؍ فروری کو پھانسی دی گئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ قید کے دوران بشپ کو جیلر کی بیٹی سے محبت ہوگئی اور وہ اسے محبت بھرے خطوط لکھا کرتا تھا، اس مذہبی شخصیت کے ان محبت ناموں کو ویلنٹائن کہا جاتا ہے۔
چوتھی صدی عیسوی تک اس دن کو تعزیتی انداز میں منایا جاتا تھا لیکن رفتہ رفتہ اس دن کو محبت کی یادگار کا رتبہ حاصل ہوگیا اور علاقہ میں اپنے منتخب محبوب اور محبوبہ کو اس دن محبت بھرے خطوط، پیغامات، کارڈز اور سرخ گلاب بھیجنے کا رواج پاگیا۔
اس کے بعد امریکہ اور جرمنی میں بھی منایا جانے لگا، برطانوی کاؤنٹی ویلز میں لکڑی کے چمچ ۱۴؍فروری کو تحفے کے طور پر دیئے جانے کیلئے تراشے جاتے تھے اور خوبصورتی کیلئے ان کے اوپر دل اور چابیاں بنائی جاتی تھیں جو تحفہ وصول کرنے والے کیلئے اس بات کا اشارہ ہوتا کہ تم میرے بند دل کو اپنی محبت کی چابی سے کھول سکتے ہو۔
ویلنٹائن ڈے کے بارے میں تاریخ دو مختلف موقف بیان کرتی ہے یہ دونوں موقف ایک ہی شخص سینٹ ویلنٹائن کے حوالے سے اکٹھے ہیں۔ اس دن کے حوالے سے یہ تمام خرافات تاریخ کے اوراق میں موجود ہیں، تاریخی شواہد کے مطابق ویلنٹائن کے آغاز کے آثار قدیم رومن تہذیب کے عروج کے زمانے سے چلے آرہے ہیں۔ ۱۴؍فروری کا دن وہاں رومن دیوی، دیوتاؤں کی ملکہ ’’جونو‘‘ کے اعزاز میں یوم تعطیل کے طور پر منایا جاتا تھا، رومی ’’جونو‘‘ ملکہ کو صنف نازک اور شادی کی دیوی کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ جبکہ ۱۵؍فروری ’’لیوپرکس‘‘ دیوتا کا دن مشہور تھا اور اس دن رومی جشن زرخیزی مناتے تھے اس دن وہ رنگارنگ میلوں کا اہتمام کرتے۔ جشن کی سب سے مشہور اور خاص چیز نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کے نام نکالنے کی رسم تھی، اس کا طریقہ کچھ اس طرح تھا کہ نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کے نام لکھ کر ایک برتن میں ڈال دیتے اور نوجوان لڑکے باری باری اس برتن سے پرچی نکالتے اور پھر پرچی پر لکھا نام جشن ختم ہونے تک اس نوجوان کے ساتھ رہتا تھا پھر آخر میں دونوں شادی کے بندھن میں بندھ جاتے تھے یا اگر شادی نہیں ہوسکی تو عمر میں اس سے جنسی تعلق قائم کرنے کا مجاز ہوتا۔
یہ اس کا پس منظر ہے مختلف روایات ہیں جن میں سے چند کا یہاں ذکر کیا گیا ہے۔
اب ذرا اس کی حقیقت کی طرف غور کریں اس سے ہونے والے نقصانات کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ یہ کتنی مہلک وبا ہے جو ہمارے معاشرہ میں سرایت کرچکی ہے، اول تو یہ غیروں کی مشابہت ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غیروں کی مشابہت سے بالکلیہ منع فرمایا ہے بلکہ اس طرح فرمایا۔۔
جو جس قوم کی مشابہت اختیار کریگا اس کا شمار اسی میں ہوگا۔۔ کیا کسی مومن کو زیب دیتا ہے کہ وہ ایمان چھوڑ کر غیروں میں شامل ہو جائے، ؟؟ غور کریں۔۔۔
دوسری بات ۔۔ ہمارا آئیڈیل محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، ہم انہیں کے پیروکار ہیں، اور انہیں کے راستہ پر چلنے میں ہمارے لئے کامیابی ہے، حضور صلی االلہ علیہ وسلم نے ہمارے لئے دو تہوار کا تعین کیا ۔۔ ایک عید الفطر اور دوسرے عیدالاضحی، ان دو تہواروں کو چھوڑ کر ہمیں اور کسی تہوار کو منانے کی ضرورت نہیں ہے، پھر ہمنے رومیوں کے تہوار کیوں منانے لگے۔۔ سوچیں۔۔۔
تیسری بات ۔۔ شریعت ہمیں حیا اور پردہ کی تعلیم دیتی ہے، پے حیائی اور بے پردگی سے ہمیں دور رہنے کی تعلیم دیتی ہے جبکہ ویلن ٹائن ڈے ہمیں پے حیائی سکھاتی ہے، اس دن بے حیائی کا ننگا ناچ ہوتا ہے، بے شرموں کی محفلیں لگتی ہیں، اور پھر نہ جانے کیسے کیسے تماشے ہوتے ہیں، واضح ہو کہ حیا اور ایمان کا چولی دامن کا ساتھ ہے ان میں سے جو ایک گیا تو کچھ بعید نہیں کہ دوسرا بھی ختم ہو جائے گا، اپ آپ پر ہے یا تو بے حیا بن جائیے یا پھر ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھئے،۔ غور کریں۔۔۔
آخری بات یہ کہ اس دن محبت نہیں بلکہ نفرت باٹی جاتی ہے،، عزتیں پامال ہوتی ہیں، عفت وعصمت کا جنازھ نکلتا ہے، اور پھر عمر بھر انسان زنا کاری میں زندگی گزارتا ہے، ہر طرح سے عورتوں کا جنسی استحصال ہوتا ہے، محبت کے جھانسے میں کتنے گھر تباہ ہوجاتے ہیں، اگر محبت ہی کرنا ہے تو صرف ایک دن کیوں محبت کا کوئی وقت نہیں ہوتا، عمر بھر محبت کی جاتی ہے، لیکن جائز طریقے سے، زنا شریعت میں بہت بڑا جرم ہے، اور اس کے لئے سخت عذاب ہے۔
لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم غیروں کے طریقوں کو چھوڑ کر اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں کو اپنائیں، ہر قسم کے رسوم و بدعات سے پچیں، اپنی اصلاح کی فکر کریں اور دوسروں کی بھی فکر کریں۔
ہمنے اللہ اور اس کے رسول کی باتوں کو ٹھکرایا نتیجہ یہ ہوا کہ آج ہم ہر طرف سے ٹھکرائے جارہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح سمجھ عطا فرمائے
0 تبصرے