Ticker

6/recent/ticker-posts

معروف افسانہ نگار سلمی صنم سے علیزے نجف کی ایک ملاقات

معروف افسانہ نگار سلمی صنم سے علیزے نجف کی ایک ملاقات


انٹرویو نگار: علیزے نجف

افسانہ نگاری کی میدان میں سلمی صنم کی اپنی ایک مستند پہچان ہے، پچھلی کئی دہائیوں سے وہ اس بساط پہ پوری طرح سرگرم ہے انھوں نے اردو ادب کے افسانوں کی صنف میں ایسے افسانے لکھے ہیں جو اپنی سادہ بیانی اور اقدار و روایات کی ترجمانی کی وجہ سے قاری کے ذہن کو متوجہ کرتے ہیں، سلمی صنم نے زندگی کی حقیقتوں کو اپنے افسانے کا موضوع بنایا ہے وہ حقیقی زندگی میں بھی اپنی افسانوں کا عکس ہیں، ان کے یہاں ایک جذبہ ایک جنون پایا جاتا ہے جس نے ان کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان کی اب تک چار کتابیں منظر عام پہ آ چکی ہیں طور پہ گیا ہوا شخص، پت جھڑ کے لوگ، پانچویں سمت، قطار میں کھڑے چہرے ان کی کتابوں کے نام ہیں قطار میں کھڑے چہرے کا پاکستان سے بھی ایک ایڈیشن شائع ہوا ہے، اس کے علاوہ کئی کتابیں زیر ترتیب بھی ہیں، سلمی صنم کی افسانہ نگاری کی کامیابی کو اس بات سے بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ ان کا شمار ان قلمکاروں میں ہوتا ہے جن کی شخصیت و فن پہ تحقیقی مقالے لکھے گئے ہیں ان کے افسانے ہند و پاک کے ادبی حلقوں میں یکساں مقبول ہیں۔ ان کی ادبی خدمات کے اعزاز میں اب تک انھیں کئی اکادمیوں کی جانب سے اعزازات سے بھی نوازا جا چکا ہے جن کی تفصیل کا وہ خود آگے ذکر کریں گی۔ اس کے علاوہ کئی علمی و ادبی اداروں سے بحیثیت ممبر کے وابستہ ہیں، ان تمام علمی و ادبی سرگرمیوں کو وہ پوری لگن کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس وقت میرے سامنے ہیں میں ان سے بحیثیت انٹرویو نگار کے مخاطب ہوں آئیے ان سے بہت کچھ جاننے کی کوشش کرتے ہیں ان کے علمی و ادبی سفر کی روداد انھیں کی زبانی سنتے ہیں ۔

علیزے نجف: سب سے پہلے آپ ہمیں خود سے متعارف کروائیں یہ بھی بتائیں کہ آپ کا تعلق کس خطے سے ہے اور اس خطے کی تاریخی حیثیت کیا ہے؟

سلمی صنم: میرا نام سلمی بانو ہے(پیدائش کے وقت والد نے میمون النساء نام رکھا تھا) قلمی نام سلمی صنم ہے۔ریاست کرناٹک کے ضلع منگلور کے ساحلی علاقے پنمبور Penambur میں پیدا ہوئی ۔آبائی گاؤں گنجعام ( سری رنگا پٹن) ہے۔سری رنگاپٹن کاویری ندی پر ایک River Island ہے جہاں حیدر علی اور ٹیپو سلطان نے اپنی حکومت قائم کی تھی اور اس کو سلطنت خداداد کا نام دیا تھا۔جب 3 سال کی تھی تو والدین گنجعام چلے آئے۔وہیں کاویری ندی کے کنارے میرا بچپن گزرا۔جب آٹھ سال کی ہوئ تو ہماری فیملی بنگلور(جو کہ میرا ننھیال تھا) منتقل ہوگئ۔اس طرح میری پرورش بنگلور میں ہوئی ۔یہیں تعلیم حاصل کی اور یہیں میرا قیام بھی ہے۔بنگلور کو وجیہ نگر کے ایک پالیگار کیمپے گوڈا نے بسایا تھا۔یہ شاہ جی بھونسلے(شیواجی مہاراج کے والد)،اورنگزیب عالمگیر، ٹیپو سلطان اور میسور کے Wodeyers حکمرانوں کی جاگیر میں شامل رہا۔یہیں دیون ہلی تعلق میں ٹیپو سلطان کی ولادت ہوئی ۔یہاں انگریزوں نے اپنی چھاؤنی قائم کی۔آزادی کے بعد جب ریاست کرناٹک کا قیام عمل میں آیا تو بنگلور اس کا دار الحکومت قرار پایا۔کبھی پارکوں کی کثرت کی وجہ سے Garden city کہلاتا تھا اب انجینئرنگ اور ٹکنالوجی کی وجہ سے Silicon City کہلاتا ہے

علیزے نجف: آپ کا تعلق ایک ایسی سرزمین سے ہے جہاں کا تعلیمی نظام دیگر ریاستوں کے مقابلے میں کافی مستحکم ہے اس کا راز کیا ہے، آپ نے اپنے بچپن میں بنگلور کا ماحول کیسا پایا اور اس نے آپ کی شخصیت سازی میں کس طرح کے اثرات مرتب کئے کیا اب بھی وہاں پہ ایسا ہی ماحول پایا جاتا ہے؟

سلمی صنم: یہاں کے شہریوں کا تعلیمی شعور بہت بیدار ہے۔سرکار نے بھی تعلیم کو خاصی اہمیت دی ہے۔محکمہ سماجی بہبود نے تعلیم کے فروغ کے لئے کئی پروگرام، اسکمیں اور وظیفے شروع کئے ہیں۔دور دراز علاقوں میں رہنے والے طالب علموں کے لئے ہوسٹلس کا انتظام ہے۔ مالی امداد، کتابیں، یونیفارم اور انعامات سرکار دیتی ہے۔غریب بچوں کے لئے Midday Meal Scheme بھی ہے۔غیر سرکاری ادارے بھی تعلیم کے فروغ میں اہم کردار ادا کررہے ہیں

آج بنگلور جگمگاتا، حسین، طلسماتی اور ہوشربا شہر ہے مگر میرے بچپن میں وہ ایسا نہیں تھا۔نہ وہ جگماہٹیں نہ وہ رنگینیاں نہ وہ ٹیکنالوجی نہ وہ آلودگی ۔نہ کوئی بھیڑ تھی نہ ٹرافک جام۔اتنے ہوٹل، ریستوران۔مال سینٹر بھی نہیں تھے۔کوئی ٹینشن، ڈپریشن، فریسٹریشن کچھ بھی نہیں تھا۔۔ یہاں کی معتدل آب و ہوا، پرسکون ماحول، چاروں طرف ہریالی، سرسبز و شادابی، پارکوں کی کثرت نے طبعیت میں نرمی، اعتدال، ٹھہراؤ، سکون اور استقلال پیدا کیا۔سیدھے سادے، مذہبی روادار، پر خلوص اور محبت بھرے لوگ تھے جنہوں نے جسمانی اور ذہنی نشونما میں بھرپور مدد کی۔دل ودماغ پر ایک بہترین تاثر چھوڑا۔میں نے بنگلور کو رینگتے، قدم بہ قدم بلند ہوتے، چلتے، پھیلتے، پھولتے دیکھا ہے۔کہاں میرے بچپن کا وہ ایک خاموش سا پرسکون سرسبز و شاداب شہر اور کہاں آج کا یہ شور اور ہنگاموں بھرا آلودگی سے بھرپور، سر بہ فلک عمارتوں سے گھرا IT Capital of India

علیزے نجف: سری رنگا پٹن ٹیپو سلطان کی ریاست ہونے کی وجہ سے ہمیشہ سے ہی مسلمانوں کے لئے ایک کشش رکھتا ہے آپ کے خاندان ٹیپو سلطان کے دربار سے منسلک تھے ان کے انسلاک کی نوعیت کیا تھی کیا ٹیپو سلطان نے اپنے دور حکومت میں کن شعبوں کو زیادہ اہمیت دی کہیں پڑھا تھا سائنسی تعلیمات میں ان کی کافی دلچسپی تھی انھوں نے اس ضمن میں کیا خاص پیش رفت کی تھی؟

سلمی صنم : ٹیپو سلطان ہفت زبان حکمران کہے جاتے ہیں۔وہ علم دوست انسان تھے انہوں نے بےشمار عالم اپنے دربار میں جمع کئے تھے۔میرے اجداد جو دینی عالم تھے ان ہی کی دعوت پر بیجاپور سے سری رنگاپٹن تشریف لائے تھے اور ان کے دربار سے بطور عالم دین وابستگی اختیار کی تھی۔ٹیپو سلطان سائنسی علوم میں خاصی دلچسپی رکھتے تھے۔انہیں برصغیر میں راکٹ سازی کا موجد کہا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے طغرق(فوجی راکٹ) تیار کروایا تھا۔انہوں نے متعدد انتظامی اختراعات بھی متعارف کروائیں جن میں ایک نیا سکوں کا نظام اور کیلینڈر، ایک نیا زمینی محصول کا نظام( جس کی وجہ سے میسور میں ریشم کی صنعت کو فروغ حاصل ہوا) شامل ہے۔انہوں نے بحری قوت کی اہمیت کو بھی سمجھا اور 20 بڑے اور 32 چھوٹے بحری جہاز تیار کروائے۔میسور کے KRS Dam کا اولین نقشہ بھی ان ہی کا ڈیزائن کیا ہوا ہے۔

علیزے نجف: آپ کے خاندان کی جڑیں بغداد سے تعلق رکھتی ہیں وہ ہجرت کر کے ہندوستان آئے تھے اور یہیں پہ آباد ہو گئے کیا آپ کے خاندان میں ایسی کوئی روایت پائی جاتی ہے جو آپ کے آباء کی سرزمین بغداد سے تعلق رکھتی ہے کیا ہجرت کی وجہ سے اباء کی روایات کا منقطع ہو جانا فطری ہے یا یہ تبدیلی بدلتے وقت کی سوغات ہوتی ہے اس تعلق سے آپ کا کیا مشاہدہ و تجربہ رہا ہے؟

سلمی صنم : ہجرت کے ساتھ روایتیں ختم نہیں ہوتیں نئی مٹی میں جذب ہو جاتی ہیں جس سے پھر نئی روایتیں جنم لیتی ہیں۔ہاں وقت ظالم ہوتا ہے۔روایتوں کو ختم کردیتا ہے یا ان کی شکل بگاڑ دیتا ہے۔صدیوں پہلے جب اجداد نے ہجرت کی تو ضرور اپنی تہذیب و ثقافت اپنے ساتھ لائے ہونگے مگر آج ہمارے اندر بغداد والی کوئی بات نہیں ہے ۔مگر وہ جو دینی علم کی خاندانی روایت تھی وہ ہمیشہ نسلوں میں قائم رہی۔ابا نے عصری تقاضوں کے پیش نظر ہمیں دنیوى تعلیم سے آراستہ کیا۔مگر دینی علم کی وہ روایت ہمارے اندر سے پوری طرح ختم نہیں ہوئی ہے۔اپنے طور پر ہم بھائی بہنوں نے دینی تعلیم حاصل کرنے کی سعی کی ہے اور یہ کوشش اب بھی جاری ہے

علیزے نجف: آپ کی تعلیمی لیاقت کیا ہے آپ نے اپنے اس سفر کا آغاز کہاں سے کیا اور اس ابتدائی دور میں کس نے بحیثیت مربی آپ کی رہنمائی کی اور یہ تعلیمی سفر آپ کے لئے کیسا رہا؟

سلمی صنم : میں نے علم حیوانیات (Zoology) میں ماسٹرز کیا ہے ابتدائی تعلیم گنجعام اور پھر بنگلور(کنٹنومنٹ) کی لطیفیہ گورنمنٹ پرائمری اسکول سے حاصل کی۔مدرسہ اسلامیہ نسواں ہائی اسکول سے میٹرک پاس کیا۔پھر مہارانیس سائنس کالج فار وومین سے بی ایس سی اور بنگلور یونیورسٹی گیان بھارتی کیمپس سے ایم ایس سی کی ڈگریاں لیں۔۔۔ننھیال کے دقیانوسی ماحول اور نیم خواندہ لوگوں کے بیچ میرے روشن خیال ابا کی ضد تھی کہ بیٹی کو گریجویٹ بناؤں گا اور اس خواب کو بھائی سید کلیم نے پورا کیا۔۔۔میرا تعلیمی سفر ہمیشہ شاندار رہا ۔کلاس میں ہمیشہ اول پوزیشن حاصل کی۔میٹرک میں اسکول کو ٹاپ کیا۔کالج اور یونیورسٹی میں پڑھائی کا بہترین مظاہرہ کیا۔امتیازی نمبروں سے ڈگریاں حاصل کیں۔

علیزے نجف: آپ کی پرورش عام روایت سے ہٹ کر آپ کے ننھیال میں ہوئی تھی آپ کی اسکولنگ کا زمانہ وہیں پہ گزرا ننھیال میں رہنے والے بچوں کے متعلق اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ وہ بےجا لاڈ پیار کی وجہ سے ضدی یا ضرورت سے زیادہ حساس ہو جاتے ہیں ہر خواہش کی تکمیل پہ ہی راضی ہوتے ہیں آپ کا اس حوالے سے کیسا تجربہ رہا ہے معاشرے میں اس طرح کی سوچ کے پیچھے کیا عناصر پائے جاتے ہیں؟

سلمی صنم : ننھیال میں پرورش پانے والے اکثر بچوں کے والدین میں تفریق ہوچکی ہوتی ہے اور وہ شدید قسم کے احساس کمتری میں مبتلا ہوتے ہیں۔اس لئے یا تو وہ ضدی ہو جاتے ہیں یا حساس مگر ہمارے ساتھ ایسا کچھ نہیں تھا۔بس ایک مفلسی تھی جس کی وجہ سے ایک محرومی کا احساس ساری زندگی پر محیط رہا۔ذلت و تحقیر بھری زندگی ہمیشہ ہمارا مقدر رہی۔وہ دقیانوسی ماحول، وہ نیم خواندہ لوگ وہ رشتہ داروں کے طعنے، کئی روح فرسا واقعات، کئی جاں گسل لمحات، کئی حوصلہ شکن باتیں کس کس کا ذکر کریں مگر اس کے باوجود ہمارا بچپن بہت نارمل بہت محفوظ اور محبتوں کے حصار میں گزرا۔ہماری پرورش ہمارے والدین نے کی اور ہمیشہ اتنا لاڈ پیار دیا کہ زندگی میں پیار کی پیاس کبھی محسوس نہ ہوئی ۔انہوں نے مجھے اور میری بہن اسماء کو کبھی بھیڑ بکریوں کی طرح دبا کر نہیں پالا بلکہ ہمیں پوری طرح کی آزادی اور خودمختاری عطا کی ۔

علیزے نجف: بات تعلیم و تربیت کی ہو رہی ہے تو میرا اگلا سوال بھی اسی ضمن میں ہوگا آج کا تعلیمی نظام کیا صحت مند معاشرے کی تشکیل کرنے میں کامیاب ہے اگر نہیں تو کیوں نہیں کیا وجہ ہے کہ اب تعلیم گاہوں کو محض انفارمیشن دینے کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے اور انسان کے اخلاقیات کو یکسر نظر انداز کردیا گیا ہے اس بارے میں آپ کیا کہنا چاہیں گی؟

سلمی صنم : ۔تعلیم کا بنیادی مقصد غور وفکر، حقائق کی کھوج اور انسانی رویوں میں مثبت تبدیلی پیدا کرنا ہے تاکہ ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل ہو مگر ہمارے نظام تعلیم کا واحد مقصد ڈگری اور پھر نوکری کا حصول ہے۔امتحانی نظام تعلیم جو برصغیر میں انگریزوں کے وقت رائج تھا آج بھی وہی چل رہا ہے۔یہ نظام تعلیم طلباء کی ذہانت پرکھنے اور ان کی صلاحیتیں اجاگر کرنے کے بجائے انہیں رٹا لگانے پر مجبور کرتا ہے ۔آج ہمارے تعلیم ادارے تجارتی مراکز بن گئے ہیں۔وہ اپنے نام اور پہچان کے لئے طلباء کو نمبروں کی دوڑ میں لگا دیتے ہیں ۔وہ آج جو بھی تعلیم دے رہے ہیں اس سے نہ تو ہماری سوچ بدل رہی ہے اور نہ ہی ہماری اخلاقیات میں کوئی سدھار آرہا ہے تو پھر صحت مند معاشرہ کیسے تشکیل ہو۔اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی سوچ بدلیں۔تعلیم کو تجارت نہ بنائیں اور نہ ہی نوکری کے حصول کا ذریعہ تب ہی کوئی بات بن سکتی ہے

علیزے نجف: اس وقت آپ تعلیمی مدارج سے گذر کر ایسے دور میں بھی داخل ہو چکی ہیں جہاں آپ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے ضمن میں اپنی ذمےداری بھی کافی حد تک انجام دے چکی ہیں اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کرتے ہوئے آپ نے موجودہ وقت کے تعلیمی نظام کو کیسا پایا اپنے طالب علمی کے دور کے تعلیمی نظام سے اسے کتنا مختلف پایا اور اس میں آپ کس طرح کی تبدیلیوں کو وقت کی سب سے بڑی ضرورت خیال کرتی ہیں اور کیوں؟

سلمی صنم : ہمارا تعلیمی نظام ( میرے طالب علمی کا دور ہو یا موجودہ) ہمیں ایک بہترین انسان اور معاشرے کا ایک کار آمد شخص بنانے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ہمارے نظام تعلیم کا واحد مقصد ہمیشہ ہی سے ڈگری اور نوکری کا حصول رہا ہے۔سائنسی علوم پڑھنے کا مقصد بھی صرف ڈاکٹر اور انجنیئر بن جانا ہے اور بس۔ہمارے تعلیمی نظام کی ایک اور خامی طبقاتی نظام تعلیم ہے یعنی انگریزی اور اردو میڈیم اسکول جس کی وجہ سے اردو میڈیم اسکول میں زیر تعلیم ذہین طلباء بھی انگریزی میں مہارت نہ رکھنے کی وجہ سے مقابلے کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔جس تیزی سے جدید سائنس و ٹیکنالوجی ترقی کررہی ہے۔اتنی تیزی سے تعلیمی نظام ترقی نہیں کررہا ہے۔وہ اب بھی روایتی طریقہ تدریس پر مبنی ہے۔ہمیں چاہیے کہ ہم اپنا نظام تعلیم حالات سے ہم آہنگ کریں جس میں تعلیمی ٹکنالوجی کا استعمال ضروری ہے۔

علیزے نجف: آپ ادبی بساط پہ ایک معتبر افسانہ نگار کی حیثیت سے اپنی شناخت بنا چکی ہیں اس ضمن میں سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ آپ کے اندر لکھنے کا رجحان کیسے پیدا ہوا اور کن کی سرپرستی میں آپ نے اس سفر کو آگے بڑھایا آپ کا پہلا افسانہ کون سا تھا اور وہ کہاں شائع ہوا تھا؟


سلمی صنم : علم کی طلب میرے genes میں موجود ہے تو لکھنے کا ہنر خون میں شامل ہے۔ بچپن میں ہمارے گھر میں نیم ادبی رسائل اور ناولوں کا مطالعہ ہوتا رہتا تھا۔امی اور خالہ دونوں مغز ماری کرتی تھیں اور خامہ فرسائ بھی۔اور اس معرکتہ الاراء فضا می بیسویں صدی، خاتون مشرق، شمع، کھلونا، روبی، ہما، شبستان جیسے رسالے پڑھ کر میرا دماغ خراب ہونا ہی تھا اور وہ ہوا بھی چودہ سال کی عمر میں کچن کی کالی کالی چھت کے نیچے بیٹھ کر ایک افسانہ لکھا" وہ دن یاد کرو" ۔افسانہ نویسی راتوں رات نہیں آئی ۔بہت جی جلایا تب کہیں جا کر ڈھنگ کا ایک افسانہ لکھ پائ جو 5 فروری 1990 کو" روشنی" کے نام سے سالار کے ادبی ایڈیشن میں شائع ہوا۔ادبی سفر میں سرپرستی تو کس کی حاصل نہیں رہی۔بس اللہ ہی کا سہارا رہا جس نے وقتا فوقتا کچھ مددگار پیدا کئے

علیزے نجف: آپ کی افسانہ نگاری کی سب سے بڑی خوبی اس کا متنوع کرداروں کی ترجمانی کرنا ہے جسے کہ آپ نے بہت بے باکی کے ساتھ برتا ہے ان کرداروں کی تخلیق میں مشاہدے و مطالعے کے ساتھ ساتھ کس حد تک تصورات کا دخل رہا ہے تخیل افسانہ نگاری کی بساط پہ کس مہرے کا کردار ادا کرتا ہے اور کیسے ؟

سلمی صنم: ادب میں گہرے مشاہدے اور عمیق مطالعے کے ساتھ جذبات، قیاسات، تخیل اور تصورات کا دخل ہوتا ہے ورنہ وہ فن پارہ نہیں بن پاتا۔تخیل کے بغیر کوئی بھی ادبی معرکہ سر نہیں کیا جاسکتا۔تخیل کے زیراثر لکھی گئی تحریر کو سچی اور حقیقی تحریر پر فوقیت حاصل ہوتی ہے وہ عقل اور دلیل کے حامل کام سے بھی بڑھ کر ہوتی ہے۔ عقلیت پسند اور حقیقت پسند بھی تصورات کو بروئے کار لا کر اپنی تحریروں کو جلا بخش سکتے ہیں۔میرے افسانے بھی اگر واقعی وہ افسانے ہیں تو ان میں تخیل کی آمیزش ہے ۔کیونکہ تخیل کی پرواز کے بغیر ادب کی چاشنی کا حصول ممکن نہیں۔

علیزے نجف: افسانہ نگاری ادب کی ایسی صنف ہے جس میں کہ کم و بیش ہر دور میں خاطر خواہ طبع آزمائی کی گئی ہے منشی پریم چند قرۃ العین حیدر عصمت چغتائی جیسے لیجنڈ افسانہ نگاروں نے اسے زندگی سے اس حد تک قریب کر دیا کہ ان کے لکھے ہوئے افسانوں سے اس دور کی طرز معاشرت کا کافی حد تک اندازہ لگایا جا سکتا ہے یہ افسانہ نگاری معاشرے کی مجموعی نفسیات کو کس حد تک متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے آپ نے اپنے افسانوں کے ذریعے اپنے قارئین کو کس طرح کا پیغام دینے کی خصوصی طور پہ کوشش کی ہے؟


سلمی صنم: کسی بھی معاشرے کی نفسیاتی صحت اس کے قلم کاروں کی سچائی اور سماجی انصاف سے وابستگی پر منحصر ہوتی ہے۔ادب میں بہت قوت ہوتی ہے وہ ایک صحت مند باشعور معاشرے کو جنم دے سکتا ہے۔زندگی کا ترجمان بن سکتا ہے۔معاشرے میں چھائے خوف وہراس، مایوسی، دکھ اور پریشانی کو مٹاسکتا ہے۔معاشرے کا راہنما بن سکتا ہے۔اس میں پھیلی ناہمواریوں کو سدھارنے سنوارنے کا کام کرسکتا ہے۔افراد کو حوصلہ بخش بنا سکتا ہے۔ان میں ہمت اور جراءت پیدا کرسکتا ہے۔ادب چاہے تو بڑی بڑی تحریکوں کو جنم دے سکتا ہے۔بڑے سا بڑا انقلاب لا سکتا ہے

۔مگر میں نے افسانے کسی بڑے مقصد کے لئے نہیں لکھے اور نہ ہی مجھے یہ کبھی گماں ہوا کہ میرے افسانے کوئی انقلاب لا سکتے ہیں یا میرے افسانوں سے کسی نظریے یا ازم کا اشتہار ہوگا یا اس سے عورت ذات کا کوئی بڑا نفع ہوگا۔میرے افسانے تو میرے محسوسات ہیں میرے دل کی آواز ہیں۔سماج کے رویوں اور برتاؤ پر میرا ردعمل ہیں۔سماج کی بعض باتوں کے متعلق میری پسند،ناپسند کا اظہار ہیں


علیزے نجف: آپ نے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے بےشمار افسانے لکھے ہیں آپ کی پانچ کتابیں بھی شائع ہو کر منظر عام پہ آ چکی ہیں اور کئی کتابیں زیر ترتیب بھی ہیں آپ کی کتابوں کے نام بڑے اچھوتے اور منفرد نوعیت کے ہیں جیسے طور پہ گیا ہوا شخص، پت جھڑ کے لوگ، پانچویں سمت، قطار میں کھڑے چہرے اور زیر ترتیب کتاب تڑپتا پتھر یہ عنوانات عام خیال و رجحان سے ہٹ کر ہیں اپنی کتابوں کا یہ نام رکھتے ہوئے آپ کی سوچ کیا تھی کیا یہ مشاورت کے ساتھ رکھا گیا تھا یا یہ آپ کا اپنا انتخاب تھا؟

سلمی صنم : کوئی مشاورت نہیں۔میں نے خود منتخب کئے ہیں۔بس یہی سوچ کر کہ میرے کتابوں کے نام ایک ذرا مختلف اور منفرد ہو اور میرے فن کی عکاسی کرتے ہوں۔


علیزے نجف: آپ کی سبھی کتابوں پہ بات کرنا تو ممکن نہیں لیکن میں چاہتی ہوں کہ آپ اپنی کتاب پت جھڑ کے لوگ کے بارے میں بتائیں کہ اس کتاب میں آپ نے افسانوں کی صورت اپنے کن خیالات کو یکجا کرنے کی کوشش کی ہے کیا پت جھڑ کا موسم لوگوں پہ کس طرح آتا ہے اس سے انسانی نفسیات کس طرح متاثر ہوتی ہے ؟

سلمی صنم: کتاب "پت جھڑ کے لوگ" میں کل 17 افسانے شامل ہیں جو کسی نہ کسی سماجی مسئلے کی ترجمانی کرتے ہیں اور جو۔سروگیسی، ایڈس، انا کا مسئلہ، جوئے کی لت، ہم جنس پرستی، ہجرت کا کرب، بےروزگاری، مزدوروں کے مسائل، ادھورے پن کا کرب، شناخت جیسے موضوعات پر مبنی ہیں۔باقی افسانوں میں خالص نسائ جذبات کا اظہار ہوا ہے۔جن میں میں نے ایک عورت کی ذہنی کشمکش، پیچیدگیوں اور نفسیاتی الجھنوں کو نمایاں کیا ہے ۔پت جھڑ کے لوگ اس مجموعے کا کلیدی افسانہ ہے جس میں ٹوٹتے بکھرتے رشتوں کی طرف اشارہ موجود ہے۔اس افسانے میں ایک بوڑھی عورت کی مجبوری، محرومی اور مظلومی کو خود کلامی کے پیرائے میں یوں پیش کیا ہے کہ افسانہ ایک بوڑھی کی آتم کتھا لگتا ہے۔

پت جھڑ کا موسم( بڑھاپا) ایک قدرتی عمل ہے جو ناگزیر ہے۔وقت کے ساتھ انسان کی جسمانی اور ذہنی صحت گرنے لگتی ہے۔اس دور میں بے وقعتی، خالی پن کا احساس، موت کا خوف، ڈپریشن وہ عوامل ہیں جو انسان کی نفسیات کو متاثر کرتے ہیں۔


علیزے نجف: آپ کی افسانہ نگاری کا ایک نمایاں پہلو یہ بھی ہے کہ آپ نے نہ صرف کتابیں لکھی ہیں بلکہ آپ کی شخصیت اور فن پہ بھی کتابیں اور تحقیقی مقالے لکھے گئے ہیں جیسے سلمی صنم شخصیت اور فن: تحقیقی و تنقیدی مطالعہ، سلمی صنم کا افسانوی مجموعہ پت جھڑ کے لوگ کا تجزیاتی مطالعہ وغیرہ اس طرح سے کیا آپ نے اپنی شخصیت کا زیادہ گہرائی سے جانا ہے، کیا یہ تحقیقی مقالے آپ کی شخصیت و فن کو اجاگر کرنے میں پوری طرح کامیاب رہے ہیں یا اب بھی کچھ پہلو تشنہ محسوس ہوتے ہیں؟

سلمی صنم: شخصیت بہت پیچیدہ ہوتی ہے۔چند مقالوں سے اس کو گہرائی سے جانا نہیں جاسکتا ۔بہت کچھ ہے جو اچھوتا ہے۔کئی پہلو ہیں جو ابھر کر سامنے نہیں آئے۔بس کوشش جاری ہے۔مگر جب بھی کوئی مقالہ لکھا جاتا ہے تو مجھے لگتا ہے میں پھر سے ان لمحوں کو جی رہی ہوں


علیزے نجف: آپ کے افسانے کی زبان اس قدر سادہ ہوتی ہے کہ ہر خاص و عام کی فہم اس سے مطابقت پیدا کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ آپ کی ادبی خدمات کو خاص ادبی حلقوں سے لے کر عوامی سطح پہ نہ صرف پزیرائی حاصل ہوئی بلکہ مختلف اعزازات سے بھی نوازا جا چکا ہے آپ کو اب تک کتنے اعزازات سے نوازا جا چکا ہے کسی بھی فنکار کو ملنے والا اعزاز اس کی نفسیات کو کس طرح متاثر کرتا ہے؟

سلمی صنم: ہر انسان اپنی ذات سے محبت کرتا ہےاور اپنی شخصیت کی تکمیل چاہتا ہے۔اس کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ دوسرے لوگ بھی اس کی شخصیت سے آگاہ ہو۔اس کی قیمت پہچانیں اور اس کی تعریف کریں۔کسی بھی فنکار کو ملنے والا کوئی بھی اعزاز اس کا حوصلہ بلند کرتا ہے۔اسے مزید آگے بڑھنے اور بہتر کام کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔اس سے اس کی روح خوش ہوتی ہے۔ایک بھرپور سرشاری کا احساس ہوتا ہے

میرے لئے میرے قارئین کی محبت ہی سب سے بڑا اعزاز ہے۔تاہم میرے علمی و ادبی کام کے اعتراف میں مجھے کئی انعامات واعززات سے نوازا جا چکا ہے جیسے۔۔۔ انعامات ۔۔

1۔ کرناٹک اردو اکادمی کا انعام۔۔دو مرتبہ
کتاب "قطار میں کھڑے چہرے اور دیگر کہانیاں پر 25 ہزار کا انعام
افسانہ "ایک مہلک سچ " پر 10 ہزار کا انعام
2۔۔۔اتر پردیش اردو اکادمی کا کل ہندانعام۔۔ دو مرتبہ
کتاب "قطار میں کھڑے چہرے اور دیگر کہانیاں" پر 20 ہزار کا انعام
کتاب "پانچویں سمت "پر 10 ہزار کا انعام
3۔۔"بہار اردو اکادمی کا کل ہند انعام
کتاب "پانچویں سمت " پر 10 ہزار کا انعام
ایوارڈز
1" عالمی ایوان ادب " یو ایے ای کی جانب سے انٹرنیشنل "خادم ریختہ ایوارڈ " برائے ادبی خدمات
2۔۔افسانہ" بانس کا آدمی" پر پاکستانی بنیاد عالمی فکشن کی جانب سے سند اور شیلڈ
3۔۔افسانہ "سائے " پر الصدا بنگلور ایوارڈ
4۔۔افسانہ "وہ لڑکا" پر روزنامہ سیاست بنگلور کا ضیاء جعفر ایوارڈ
5۔۔ افسانچہ "صلہ" پر جے کے مراز کامراز اردو اکادمی کشمیر کی جانب سے بشیر شاہ میموریل ایوارڈ
اعزازات

1.."سلمی صنم کا افسانہ "آرگن بازار کا ترجمہ "
مقالہ برائے بی ایے(انگلش)
مقالہ نگار مریم وقار احمد
نگراں۔۔Dr Annie Kuriachan
HOD,Department Of English
Women's Christian College..Chennai ..Tamil Nadu. India
2۔"سلمی صنم کے افسانوی مجموعے "پت جھڑ کے لوگ کا تجزیاتی مطالعہ" مقالہ برائے اردو بی یس۔مقالہ نگار..۔حراعثمان.
 نگراں.. ڈاکٹر نورین رزاق
۔لاہور کالج برائے خواتین
 لاہور یونیورسٹی لاہور پاکستان
3۔"سلمی صنم شخصیت اور فن: تحقیقی و تنقیدی مطالعہ "
تحقیقی مقالہ برائے ایم فل (جاری)
مقالہ نگار صبا مشتاق ۔نگراں ڈاکٹر سید بابرعلی زیدی
یونیورسٹی آف نارووال، نارووال پاکستان
4"اردو افسانے میں پاکستان اور ہندوستان کی سماجی عکاسی کا تقابلی مطالعہ "
(نسیم انجم اور سلمی صنم کے حوالے سے )
تحقیقی مقالہ برائے ایم فل
مقالہ نگار ۔۔رضوانہ اقبال
نگران ۔۔ڈاکٹر صائمہ علی
یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور پاکستان
 5..سلمٰی صنم کے افسانوی مجموعےقطار میں کھڑے چہرے اور دیگر افسانےکا تجزیاتی مطالعہ
مقالہ برائے بی یس اردو (جاری)
مقالہ نگار ۔۔عائشہ سلیم
نگراں ۔۔ڈاکٹر راؤ رفعت ریاض
گورنمنٹ گریجویٹ کالج سول لائنز خانیوال
 الحاق شدہ
 بہاوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان
6..روزنامہ "آئین ادب " پشاور پاکستان نے فن اور شخصیت پر صفحہ ترتیب دیا

علیزے نجف: اعزاز و ایوارڈ سے کسی فنکار کو سرفراز کرںا بےشک ایک قابل تحسین قدم ہے لیکن بعض اوقات اس کے حوالے سے لوگوں کا معیار اس قدر پست ہو جا رہا ہے کہ یہ اندازہ لگانا مشکل ہو گیا ہے کہ واقعی یہ اعزاز اس کے خدمات کا صلہ ہے یا تعلقات کی کرم فرمائی ہے اس کا منفی اثر واضح طور پہ ہر شعبے خاص کر ادب پہ پڑتا دکھائی دے رہا ہے آپ اس صورت حال کو کس طرح دیکھتی ہیں اور اس رویے کے پیچھے آپ کس طرح کی ذہنیت کو پاتی ہیں؟

سلمی صنم: اعزازات کی ہوس ایک حاسدانہ ذہنیت ہے۔ایسے لوگ نااہل ہوتے ہیں اور شدید قسم کی احساس کمتری میں مبتلا ہوتے ہیں۔ایک طرف تو یہ قابل لوگوں کو نیچا دکھا کر خوش ہوتے ہیں اور دوسری جانب چاپلوس اور خوشامد پسند لوگوں کو نواز کر اپنے قریب رکھنا پسند کرتے ہیں تاکہ ان پر حاوی رہیں۔

علیزے نجف: آپ کی اردو ادب کی خدمت اور اس کی بقا و ارتقاء کے لئے کی جانے والی جانفشانی کا اعتراف اردو ادب کا پورا حلقہ کرتا ہے آپ پچھلے دو سال سے ادباء و شعراء کے یوم ولادت پہ خراج عقیدت بھی پیش کر رہی ہیں جس کی مثال خال خال ہی ملتی ہے آپ نے جب یہ سلسلہ شروع کیا تو آپ کے ذہن میں کیا تھا اس حوالے سے آپ کو ادبی سطح پہ کس طرح کا ردعمل موصول ہوا اس سلسلے کا حاصل کیا رہا ہے؟

سلمی صنم: یہ مئی 2019 کی بات ہے جب میرے ایک پاکستانی(مقیم جاپان) ادبی دوست نوید امین جو شاعر پیں نے یہ ذکر کیا کہ وہ اردو ادباء اور شعراء کا تعارف اور کلام کتابی شکل میں لانا چاہتے ہیں ۔انہوں نے مجھ سے استدعا کی کہ میں اس کام میں ان کی مدد کروں ۔میں نے حامی بھرلی۔مگر مصروفیات کی وجہ سے میں اس طرف دھیان نہ دے سکی۔جب 2020 میں کووڈ اور لاک ڈاون نے گھر تک محدود کردیا تو اس کا خیال آیا۔ان ہی دنوں بھارت کے مالیگاؤں شہر سے ایک صاحب اعجاز زیڈ ہچ شعراء کے یوم ولادت/وفات پر ان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے پیمانہ غزل، ریختہ اور وکی پیڈیا سے ان کا تعارف اور کلام اخذ کرکے کسی واٹس آپ گروپ پر پوسٹ کررہے تھے۔اس کام نے مجھے متاثر کیا اور میں ان کی اجازت سے اس کو اپنی فیس بک وال پر شئیر کرنے لگی۔ایک سال تک میں نے دیکھا کہ وہ عصرحاضر کے شاعروں کو برائے نام ہی کور کررہے ہیں تو میں نے سوچا کہ یہ لوگ بھی تو اردو کے فروغ میں حصہ لے رہے ہیں تو کیوں نہ انہیں بھی متعارف کروایا جائے۔ان کے کام سے بھی قارئین واقف ہو۔ان کے یوم ولادت پر انہیں بھی خراج عقیدت پیش کی جائے۔۔۔۔مگر پچھلے دو سال سے دیکھ رہی ہوں اب تک ایسا کوئی خاص ردعمل سامنے نہیں آیا ہے ۔شاید اردو داں طبقے نے اس سلسلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا ہے کسی بھی قلمکار کی پوسٹ پر صرف سالگرہ کی مبارکباد پیش کی جاتی ہے اس کے فن اور شخصیت کو لے کر سنجیدہ بحث نہیں ہوتی۔امید ہے آگے ایسا ہوگا۔ابھی تو اس سلسلے کا آغاز ہے حاصل والی ساعت تو ابھی بہت دور ہے۔

علیزے نجف: اردو زبان و ادب کی موجودہ خستہ حالت سے چشم پوشی کرنا قطعا ممکن نہیں اگر چہ یہ اب بھی اپنے اندر ترقی کے امکانات کی ایک دنیا رکھتی ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ اس کی خستگی کو کم کرنا اور اس کی حالت کو مستحکم کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے اردو زبان کی اس زبوں حالی کے پیچھے آپ کن عناصر کو پاتی ہیں اور اس کی بہتری کے لئے کس طرح کے اقدامات کو ضروری خیال کرتی ہیں؟

سلمی صنم : آزادی اور تقسیم ملک کے بعد ہندوستان میں ناروا تعصب، سیاسی پارٹیوں کی منافرت اور اردو والوں کی سرد مہری، احساس کمتری، مصلحت آمیز خاموشی، بے حسی اور غیرذمہ داری نے اردو کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔اردو زبان کی بقا محض اردو اکیڈمیوں، شاعروں اور سیمیناروں سے ممکن نہیں ہے اس کی بقا اس کو سرکاری زبان بنانے اور روزگار سے جوڑنے میں ہے

علیزے نجف: کسی بھی زبان کے بقاء و ارتقاء اور اس کی تنزلی کے پیچھے ہم انسان ہی ہوتے ہیں زبانیں جو کہ انسانوں کی ضرورت کے لئے وجود پزیر ہوئی تھیں اس پہ کیسے فرقہ پرستی کی مہر لگا دی گئی جب کہ زبانوں سے مذہبی تعلیمات پہ قطعا کوئی اثر نہیں پڑتا اس ذہنیت کے پیچھے آپ کن عوامل کو ذمےدار سمجھتی ہیں؟

سلمی صنم: جب مذہب کی بنیاد پر ملک تقسیم ہوا تو زبانوں پر بھی فرقہ پرستی کی مہر لگ گئ۔پھر رہی سہی کسر ناروا تعصب، سیاسی پارٹیوں کی منافقت اور برسر اقتدار قوم کی برتری کا احساس نے پوری کردی۔آج یہ زبان پوری طرح فرقہ پرستی کی بھینٹ چڑھ چکی ہے

علیزے نجف: آپ نے اب تک زندگی کی بےشمار بہاریں دیکھی ہیں اور زندگی کے نشیب و فراز سے بھی گذریں ہیں آپ کو کیا لگتا ہے زندگی گزارنے کے لئے اس کو جینے کا فن سیکھنا کس قدر ضروری ہے اور یہ فن کیسے سیکھا جا سکتا ہے خود آپ کا اس حوالے سے کیسا تجربہ رہا ہے؟


سلمی صنم: زندگی ہے تو اس کو جینے کا فن ضروری ہے ورنہ انسان چین و سکون سے زندگی نہیں جی سکتا۔اسلام کی تعلیمات پر عمل کرکے اور اپنے اندر صالح اقدار پیدا کرکے یہ فن سیکھا جاسکتا ہے۔اسلام ہی وہ واحد دین ہے جو زندگی کے پر گوشے میں انسان کی صحیح رہنمائی کرتا ہے اور اس حوالے سے میرا تجربہ کامیاب رہا ہے۔

علیزے نجف: افسانہ نگاری زندگی کے اسرار و رموز کا ہی ملخص ہوتی ہے جس میں افسانہ نگار اپنے تجربات کو شامل کرتا ہے اگر میں آپ سے پوچھوں کہ آپ کا لکھا گیا کون سا افسانہ آپ کی زندگی کی سچائیوں سے عبارت ہے اور آپ اپنے تخلیق کردہ کس کردار کو اپنا عکس خیال کرتی ہیں تو آپ کیا کہیں گی ؟

سلمی صنم: ادب تشہیر ذات ہے۔میرے تخلیق کردہ کردار میرا ہی عکس ہیں اور میرے افسانے میری زندگی کی سچائیاں ہیں جنہیں میں نے دیکھا، سوچا اور محسوس کیا ہے


علیزے نجف: زندگی کی اپنی ایک رفتار ہے جو کہ ہمیشہ سے ہے لمحے گذر جاتے ہیں لیکن یادیں ایک متاع کی طرح ساتھ ہوتی ہیں یقینا یہ یادیں آپ کے بھی ہمراہ ہوں گی کیا ان میں سے کچھ خوبصورت یادوں کو ہم سے شیئر کرنا چاہیں گی؟

سلمی صنم: ۔میں جب بھی اکیلی ہوتی ہوں اور پیچھے مڑ کر دیکھتی ہوں تو یادوں کا ایک ریلہ سا آتا ہے جو مجھے بہا لے جاتا ہے۔مجھے ماضی میں پہنچا دیتا ہے۔امی اور ابا کے ساتھ گزرا وقت، بچپن کے سہانے دن، یونیورسٹی کے حسین لمحات، حج اور عمرہ کے اسفار، ہندوستان کے مختلف شہروں کی سیر، ادبی اعزازات کیا کچھ یاد نہیں آتا۔ان میں سے کچھ یادیں آپ سے شئیر کررہی ہوں

دسویں جماعت میں تھی۔یوم اطفال کے جلسے میں اساتذہ نے متفقہ طور پر صدارت کی کرسی مجھ سونپی اور اس وقت نہیں مجھے آج احساس ہوتا ہے کہ عالموں کے جس خاندان میں میرا جنم ہوا ہے اس کی لیگسی مجھے آگے لے جانا ہے

کل ریاستی افسانوی مقابلے میں میرے افسانے کو تیسرا انعام ملا(نقد انعام اور مومینٹو) بے شمار افسانے داخل کیے گئے تھے جن میں کئی سینئیر افسانہ نگاروں کے افسانے بھی شامل تھے جن کی ادبی حلقوں میں پہچان تھی نام تھا۔اور اس وقت سب کے چہروں پر ایک ہی سوال تھا یہ سلمی صنم کون ہے؟

عمرہ کے پہلے سفر میں جب پہلی مرتبہ کعبے پر نظر پڑی اور جب حج کے اراکین ادا کئے تھے تو اس وقت میری آنکھوں میں تشکر کے آنسو تھے۔اللہ مجھ پر بہت مہربان ہے کہ۔مجھ جیسی مفلس اور تہی دامن کو اپنے گھر کی زیارت نصیب فرمائ۔ اور میرا ایک روپیہ خرچ کروائے بغیر مجھے حاجی بنادیا۔

ایم ایس سی سال دوئم میں بحری جہاز سے لکشادیپ کا تعلیمی سفر کیا تھا ۔زندگی میں پہلی مرتبہ والدین سے دور گئ تھی۔وہ وسیع سمندر، وہ پاک، حسین جزیرے،وہ آبی مخلوق وہ ساحلی زندگی۔۔سب کچھ بہت خوبصورت بہت مختلف اور ہوشربا تھا۔بحیرہ عرب کے ہی ایک ساحلی علاقے میں پیدا ہوئ تھی اور پورے 22 سال لگے تھے اس سمندر کی طرف دوبارہ آنے میں آٹھ سال کی عمر میں سری رنگاپٹن سے بنگلور ہجرت کی تھی تو پھر پورے 15سال بعد ادھرجانا نصیب ہوا تھا تو دل کی عجیب کیفیت تھی۔وہاں کے ہر ذرے میں ہر نظارے میں ہر عمارت میں اپنا بچپن تلاش کررہی تھی۔


علیزے نجف: کامیاب زندگی میں اصول کا ہونا ایک مسلمہ حقیقت ہے آپ کی زندگی کو کامیاب بنانے میں کس اصول کا اہم کردار رہا ہے اور یہ اصول زندگی کے کس موڑ پہ آ کر سیکھے؟

سلمی صنم: ۔کامیاب زندگی کیا ہے؟ یہ موضوع بحث طلب ہے۔میرے نزدیک کسی مومن کی زندگی ایک کامیاب زندگی ہے۔اور میری زندگی کامیاب ہے یا نہیں یہ اللہ ہی جانے۔۔ویسے صبر و استقلال، سعی پیہم، مضبوط ارادہ اور عزم میرے اصول ہیں اور جب سے عملی زندگی میں قدم رکھا ہے ان اصولوں پر کاربند ہوں۔

علیزے نجف: یہ انٹرویو دیتے ہوئے آپ کے احساسات کیا تھے سوالات کے بارے میں کیا کہنا چاہیں گی کیا کوئی پیغام بھی دینا چاہیں گی؟

سلمی صنم : آپ کو انٹرویو دیتے ہوئے مجھے یہی لگا کہ یہ سوالات تو کسی دانشور سے کرنے چاہئیے میں تو ایک معمولی سی عورت ہوں۔آپ کی عقل و ذہانت کا بار بار احساس ہوا۔آپ کا بےحد شکریہ کہ آپ نے مجھ کم عقل کو اس لائق سمجھا اور میرا انٹرویو لیا۔اللہ آپ کی فکر کی جولانی کو قائم رکھے اور آپ کا قلم پوری آب و تاب کے ساتھ رواں رہے۔
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے۔۔۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے