Ticker

6/recent/ticker-posts

ہمارے مدارس اسلامیہ

توجہ کے حامل دو موضوع


تحریر : توصیف القاسمی (مولنواسی) مقصود منزل پیراگپوری سہارنپور موبائل نمبر 8860931450

حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے مدارس اسلامیہ نصاب تعلیم، انتظام، اہتمام، مدرسوں کی بے ہنگم کثرت، چندے کی لوٹ کھسوٹ، وقف کی املاک پر وحدہ لا شریک مہتمموں کے حرام قبضوں اور ان کی دادا گیری کے اعتبار سے انقلابی تبدیلیوں کے متقاضی ہیں اس خوفناک صورتحال پر دفتر کے دفتر لکھے جاچکے مگر لکیر کے فقیر أہل مدارس ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ میرے خیال میں اسباب کی اس دنیا میں مہتمموں کی دادا گیری اور عیاشی پر نکیل کسنے کے لئے آخری طور پر دو ہی راستے بچیں ہیں، ایک یہ کہ عوام اپنے محلے کے ان مدرسوں کو چندہ دے جن میں باقاعدہ کمیٹی اور حساب و کتاب اور تعلیم و تربیت کا مضبوط نظام ہو اور ہرگز ہرگز وہ مدرسے ذاتی نہ ہوں، اپنے محلے کے مدرسے کے علاوہ نہ تو دوسرا مدرسہ کھولنے دیا جائے اور ناہی دیگر علاقوں کے مدارس کا تعاون کیا جائے، ہر علاقہ اپنے مدرسے کی کفالت کرے۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ حکومت اس معاملے میں دخل دے اور جائز قانونی کاروائی کرے۔ افسوس کہ دونوں ہی طریقے ناممکن العمل ہیں !


ہمارے مدارس اسلامیہ

خیر جن دو امور کی طرف أہل علم کی توجہ دلانا مقصود ہے ان میں سے ایک ہے مدارس نسواں کے لیے نصاب کی تیاری، دوسرا ہے مدارس اسلامیہ میں طلبہ کے لیے کھیل کود کے نظام مفقود ہونا۔

مدارس نسواں میں جو نصاب تعلیم رائج ہے وہ طالبات کے اعتبار سے مکمل طور پر غیر متعلق ہے، مروجہ نصاب تعلیم میں طالبات کی نسوانیت، امور خانہ داری، معیاری ماں اور معیاری بیوی بننے کا کوئی خیال نہیں رکھا گیا، بس علماء کرام کی لکھی گئی کتابیں نصاب کا حصہ بنادی گئی، مروجہ نصاب تعلیم میں خاص ”زاویہ عورت“ کو نظر انداز کردیا گیا۔ خاص اسی موضوع پر ہمارا ایک مفصل مضمون بھی شائع ہوچکا۔

جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ دوسرا اہم موضوع جو ذمے داران اور أہل علم کی توجہ چاہتا ہے وہ ہے ہمارے مدارس اسلامیہ میں ”منظم کھیل کود“ کا فقدان، ہمارے مدارس اسلامیہ کی تعمیری منصوبہ بندی کچھ اس طرح سے کی گئی ہے کہ ان میں کھیل کود کے میدان کی ضرورت ہی نہیں سمجھی گئی، تعلیمی اوقات بھی کچھ اس طرح سے متعین اور مرتب کیے گئے ہیں کہ طلباء کو چوبیس گھنٹوں میں سے مسلسل دو گھنٹے بھی کھیل کود کے لیے نہیں ملتے، مدارس اسلامیہ کی طرف سے کھیل کود میں حسن کارکردگی پر انعام و اکرام کا تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا، مدارس اسلامیہ آپس میں دیگر تعلیمی اداروں سے اس قسم کا کوئی رابطہ نہیں رکھتے کہ جس میں خود مدارس اسلامیہ کی اپنی ”کھیل کی ٹیمیں“ ہوں اور وہ کھیلوں کے میدان میں بھی ہارنے اور جیتنے کے عادی بنیں، اس کے برخلاف مدارس اسلامیہ کے طلباء کو تعلیمی پریشر، اساتذہ اور مہتمم کی بے جا گھیرا بندی، غذائیت سے بھرپور خوراک کی کمی، والدین کی شکل میں قدرتی نگہداشت سے محرومی، پیٹ خراب اور نوجوانی کے جنسی أمراض وغیرہ مسائل گھیرے رکھتے ہیں۔


اس میں کوئی شک نہیں کہ جائز کھیل کود اور ورزش کا جتنا تعلق صحت و تندرستی سے ہے اتنا ہی ذہن و دماغ اور جسم کی بالیدگی و نشو و نما سے بھی ہے، کھیل کود سے منہ چرانے والا بچہ اکثر و بیشتر تعلیم سے بھی منہ موڑتا ہے، کھیل کود مقصد زندگی تو نہیں ہے مگر حصۂ زندگی Part of life ضرور ہے۔ بچوں کی نفسیات کے ماہر ڈاکٹر عبد الرؤف نے ایک چھوٹی سی کتاب لکھی ہے جسکا نام ہے ”بچوں کی تربیت“ اس کتاب میں کھیل کی اہمیت بتلاتے ہوئے لکھا ہے کہ ”کھیلوں کے ذریعے فالتو توانائی کا اخراج ہوتا ہے دوسری جگہ لکھا ہے کہ بچہ کھیلوں کے ذریعے آئندہ بالغ زندگی کی تیاری کرتا ہے، تیسری جگہ لکھا ہے کہ کھیل کے حیاتیاتی نظریہ کے مطابق انسان کو زندہ رکھنے کے لئے کھیل لازمی شغل ہے چوتھی جگہ لکھا ہے کہ کھیل بذات خود زندگی ہے، پانچویں جگہ لکھا ہے کہ طبی مطالعہ کے مطابق ہماری جسمانی نشوونما زیادہ پٹھوں کی حرکت پر منحصر ہے کھیلوں کے ذریعے جسم میں بیماری کے خلاف لڑنے کے لئے کافی قوت (قوات مدافعت) جمع ہوجاتی ہے “۔

انسان ماضی کے جن حسین و خوبصورت لمحات کو یاد رکھتا ہے اور ان لمحات کی یادوں کے ذریعے تنہائی میں مسکراتا بھی ہے بلاشبہ ان لمحات میں کھیل کود اور حلقہ یاراں میں گزارے ہوئے اوقات سرفہرست ہیں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے