Ticker

6/recent/ticker-posts

ستنا شہر کا سفر نامہ

ستنا Satna شہر کا سفرنامہ (16)


تحریر : توصیف القاسمی (مولنواسی) مقصود منزل پیراگپوری سہارنپور موبائل نمبر 8860931450

بامسیف کی ذیلی تنظیم مولنواسی سنگھ نے اپنا راشٹریہ مہا ادھیویش ( قومی اجلاس عام ) مدھیہ پردیش کے شہر SATNA میں 3/4/5/ فروری 2023 کو R S Resort میں منعقد کیا جس میں تنظیم کے عہدے داروں کی شرکت لازمی تھی، دہلی اسٹیٹ کے صدر ہونے کی حیثیت سے میں بھی اس مہا ادھیویش میں شریک ہوا۔راقم کے ساتھ محمد وسیم نامی نوجوان بھی شریک سفر تھے اور مولنواسی سنگھ دہلی اسٹیٹ کے جنرل سیکرٹری سریندر کمار اور ان کے بیوی بچے بھی شریک سفر تھے انکا ڈبہ Couch ٹرین میں پیچھے کی طرف تھا اور ہمارا آگے کی طرف AC کوچ تھا، ہم لوگ نظام الدین ریلوے اسٹیشن سے بذریعہ مہاکوشل ایکسپریس ستنا شہر پہنچ رہے تھے۔


ٹرین اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی مگر ہم اندرون ٹرین اکتاہٹ محسوس کر رہے تھے، بغیر کسی پیشگی منصوبے کے ہم دونوں ہی ساتھی اکتاہٹ بھگانے کے عالمی فارمولے میں لگ گیے یعنی ہم نے موبائل نکال لیے۔ اچانک مجھے یاد آیا کہ آج کا اخبار نہیں دیکھا، اخبار پڑھنے کی عادت بھی شراب و کباب کی لت سے کم نہیں، جس دن اخبار نہ دیکھو تو دماغ بار بار یاد دلاتا رہتا ہے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسا کہ انسانی دماغ اور اخبار کے درمیان کوئی قوت کشش Magnetic power کام کر رہی ہو، خیر میں نے اخبار نکالا اور پڑھ ڈالا کچھ خبریں انتہائی اندوہناک تھی، مثلاً کیرانہ بلاک کے گاؤں پنجیٹھ میں سلمیٰ نامی خاتون نے اپنے خاوند سے فون پر جھگڑا کرنے کے بعد اپنے تین بچوں کو دودھ میں زہر ملا کر دے دیا نتیجتاً تینوں بچے منتشا مصباح اور سعد ہلاک ہوگیے، بڑی بیٹی نے دودھ پینے سے منع کردیا چھوٹا بیٹا نانی کے یہاں تھا، اخبار کے مطابق قاتل ماں کے چہرے پر ذرا بھی شکن یا پچھتاوا دیکھنے کو نہیں ملا۔


انسان خونخواری پر اتر آئے تو بربریت کی کوئی حد باقی نہیں رہتی، جنون عورت پر کچھ زیادہ ہی سوار ہوتا ہے قہر و جبروت کے لئے ہٹلر کا نام پرانا ہوگیا، اب اس قسم کی عورت و مرد کے ناموں کو زبان و ادب حصہ بنادینا چاہیے۔اخبار کا سرورق front page ہنڈن برگ کی رپورٹ کے نتیجے میں اڈانی گروپ کی ایسی تیسی ہونے کی خبروں سے بھرا ہؤا تھا یہ رپورٹ اڈانی گروپ پر بجلی بن کر گری جس نے آربی آئی سمیت تمام بینکوں اور ایجنسیوں کے کان کھڑے کردیے، بڑی بڑی تجارتی کمپنیوں نے اڈانی گروپ کے ساتھ لین دین بند کردیا وغیرہ وغیرہ۔ اڈانی گروپ مودی حکومت کا قارون سمجھا جاتا ہے اپوزیشن مودی حکومت سے سوال کر رہا ہے اور مودی حکومت بالکل خاموش ہے، یعنی ”ایک چب سو کو ہرائے گا“۔ دوسری خبر تھی کہ ہندو سینا بی بی سی پر پابندی کے لئے سپریم کورٹ پہنچ گئی تفصیلی خبر کے مطابق عرضی گزار نے اندرا گاندھی سرکار کے اس فیصلے کا بھی ذکر کیا جس کے تحت 1970 میں بی بی سی پر 2/ سال کے لئے پابندی لگادی تھی۔ میرے خیال میں اگر سپریم کورٹ اس فیصلے کو نظیر بنا کر اب 2023 میں کوئی فیصلہ دیتا ہے تو مودی حکومت پر سب سے مضبوط سوال جوعوام میں ”گودی میڈیا سے مشہور ہے“ پر آخری سپریم مہر ثابت ہوگی، یعنی بی بی سی پر پابندی انتہائی ٹیڑھی کھیر ہے۔


ٹرین میں بیٹھتے ہی ایک ہندو نوجوان جس کے ماتھے پر ہلدی کا قشقہ لگا ہؤا تھا دیکھنے میں کٹر ہندو لگ رہا تھا مگر اس نے آگے بڑھ کر غیر متوقع طور پر سلام کلام کیا اور بتایا کہ میں بھی ستنا جارہا ہوں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہندو مسلم کی ہنگامہ آرائی صرف اور صرف ٹی وی چینلوں پر ہے بھارت کی سرزمین ابھی بھی بدستور پرامن ہے۔ اسی سفر کے ایک اور واقعہ کو دیکھیے، آج کل ٹی وی چینلوں پر نماز پڑھنے کو لیکر بڑے بڑے ہنگامہ دکھائے جاتے ہیں مگر مجھے ذاتی طور پر کبھی ایسا تجربہ نہیں ہوا، ہمارے سامنے والی سیٹ پر بھاگوت پانڈے نامی غیر مسلم بھائی اپنے بیوی بچوں کے ساتھ براجمان تھے ہم نے نماز پڑھنے کے لئے ان کی سٹوں کے درمیان والی جگہ کو استعمال کیا جسکو ان ہوں نے بخوشی قبول کرلیا۔ ٹرین میں نماز ادا کرنے کے معاملے میں ہمارے عبوسا قمطریرا والے نمازی راستے کا بالکل خیال نہیں کرتے جوکہ سراسر گناہ ہے۔


ایک اور تیسرا واقعہ دیکھیے ابھی گزشتہ 23/ دسمبر 2022 کو میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ بذریعہ ٹرین غازی آباد سے سہارنپور جارہا تھا اسٹیشن پہنچتے ہی ہماری ٹرین آئی اور چل پڑی دیکھتے ہی دیکھتے ٹرین نے رفتار پکڑ لی، جلدی جلدی میں چھوٹی بیٹی خدیجہ ٹرین میں چڑھ گئی اور سامان بھی رکھ دیا گیا بیوی ایک بچہ عبداللہ اور میں باہر ہی رہ گیے، میں سٹپٹا سا گیا ! کیا کروں ؟ بیٹی ٹرین میں ہے، عبد اللہ اور اس کی امی اسٹیشن پر ہے آخر میں کس کا پیچھا کروں ؟ کسی مسافر نے کہا کہ گارڈ کا ڈبہ آئے گا اس کو بولو وہ ٹرین رکوادیگا، گارڈ کا ڈبہ آیا میں نے لجاجت کے ساتھ گارڈ کو بتایا تو اس نے کچھ کرختگی دکھاتے ہوئے ٹرین رکوادی اور ہم بخیر و عافیت ٹرین میں بیٹھ گئے اور اپنے گھر پہنچ گئے، سوچنے والی بات یہ ہے کہ کسی نے بھی مجھے مسلمان سمجھ کر نہ دھتکارا اور نہ میری درخواست کو ٹھکرایا بلکہ سب نے رحم اور تعاون کی نظر سے دیکھا، ریلوے اسٹاف نے بھرپور تعاون کیا پولیس افسران نے متانت و سنجیدگی کے ساتھ اپنی ضابطے کی کارروائی کی۔ ضرورت ہے کہ غیر مسلموں کی طرف سے پیش آمدہ اس قسم کے اعلیٰ ظرفی کے واقعات مسلمانوں کو بہت بڑے پیمانے پر بتلائیں جائیں اور ان واقعات کو پھیلایا جائے، کیوں کہ کچھ حادثات کی وجہ سے مسلمانوں میں بالخصوص مدارس اسلامیہ کے طبقے میں سخت مایوسی پائی جاتی ہے، مایوسی گناہ ہونے کے ساتھ ساتھ دیگر بہت سی کج فکری وغیرہ کو جنم دیتی ہے۔ مسلمانوں کو جاننا چاہیے کہ بھارت کی آبادی ایک ارب 35 کروڑ بتائی جاتی ہے، اتنی بڑی آبادی میں کچھ اتفاقی حادثات کا پیش آجانا ملک کے عمومی کردار کو طے نہیں کرتا۔؟


ہم ستنا اسٹیشن اتر کر صبح سویرے پانچ بجے RS resort پہنچ گئے سامان وغیرہ رکھا بستر بجھایا فجر کی نماز ادا کی اور سوگئے، آٹھ بجے اٹھے ضرورت بشری سے فارغ ہوئے ناشتہ کیا اور پنڈال پہنچ گئے، ذمے داروں نے بتایا کہ 9/ بجے سے مولنواسی سنگھ کے صوبائی صدور State president کا پروگرام شروع ہوگا تو دہلی کے صدر ہونے کے ناطے میں اپنی تقریر کی تیاری میں لگ گیا، 11/ بجے کے قریب میرا نمبر آیا اور میں نے اپنی بات رکھی پوری تقریر MNT news channel یوٹیوب پر موجود ہے، مختصراً میں نے کہا کہ ”مسلمان مکمل طور پر آپ کا ساتھ دینے کے لئے تیار ہیں مگر آپ کا وجود کہاں ہے؟ دوسرے ہندتوا کے نام پر مسلمانوں کے خلاف سب سے پہلے آپ کے ہی جوان ہتھیار اٹھاتے ہیں، تیسرے بابا صاحب امبیڈکر اور جیوتی با پھلے کے مین کاز کے ساتھ ایک فیصد مولنواسی سماج نہیں کھڑا ہوا ہے “


قارئین کرام ! یہاں پروگرام کی ترتیب سمجھ لینا ضروری ہے، یہ پروگرام تین دن پر مشتمل تھا، پہلے دن ریلی نکالی گئی حلف اٹھائے گئے، ترانے پڑھے گئے کچھ اہم ذمے داروں کے پروگرام ہوئے۔ دوسرے دن صوبائی صدور اور جنرل سکریٹری حضرات اور مولنواسی سنگھ کے بینر تلے متحرک خواتین کے بیانات ہوئے ہوئے تیسرے دن، وکلاء ونگ طلباء تنظیم اور بامسیف کے اعلیٰ عہدے داروں کے بیانات ہوئے، سوال وجواب کی نشست قائم ہوئی، میں نے سوال کیا کہ مسلم سماج بھی آج کل ریزرویشن کی مانگ کر رہا ہے، کیا آپ کا سنگھٹن اس معاملے میں مسلمانوں کی حمایت کریگا ؟ اسپیکر صاحب نے جواب دیا کہ ہم معاشی پسماندگی کی بنیاد پر ریزرویشن کی حمایت کریں گے، مذہب کی بنیاد پر نہیں۔ پروگرام صبح میں 9/ بجے شروع ہوکر رات کو 11/ بجے تک جاری رہتا رات میں 10/ بجے کے بعد کچھ ثقافتی پروگرام پیش کیے جاتے، ہر سیشن کے مقرر الگ ناظم الگ، اسٹیج پر صرف وہی بیٹھیں گے جنکا خطاب ہونا تھا خطاب ہوتے ہی اسٹیج چھوڑنا لازم تھا، بقیہ پوری قیادت سامعین کے ساتھ ہی تشریف فرما تھی۔


ناشتے اور کھانے کا انتظام تھا تین دن کے کھانے کے لیے 300 روپے کا ٹوکن متعین کیا ہؤا تھا، اس پروگرام میں سات بکس اسٹال لگائے ہوئے تھے جن میں دلت سماج کے مفکرین کی بے شمار کتابیں ہندو دھرم پر ان کی تنقیدیں، سرکاری رپورٹس کے ہندی ترجمے، آئین ہند و قانون وغیرہ بہت سی اہم کتابیں موجود تھی، کتابیں قوموں کا حافظہ ہوتی ہیں جس قوم کے پاس جتنا مضبوط زیادہ اور متنوع کتابی ذخیرہ ہوگا وہ قوم اتنی ہی مضبوط ہوگی۔ ہماری بدقسمتی دیکھیے کہ بھارت کے پس منظر میں ہم زمانے سے ہم آہنگ کتابی ذخیرے سرکاری رپورٹس کے اردو ترجمے سے اور اس کی تیاری سے محروم ہوگئے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا بڑے سے بڑا قائد بھی حقائق کی بنیاد پر اعدادوشمار کے ساتھ آدھے گھنٹے نہیں بول سکتا، ہمارے جلسے جلوسوں میں ”فضائل اعمال“ اور ”منتخب احادیث“ جیسی کتابیں خوب بکتی ہیں مگر مسلم تنظیموں کی کارکردگی اور ان کے آئین، ہمارے مسائل کی فہرست، ذمے داران کے انٹرویوز رپورٹس کے ترجمے کمیشنس کے تعارف وغیرہ چیزیں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔


ستنا Satna شہر کا سفرنامہ (17)

آخری قسط

تحریر : توصیف القاسمی (مولنواسی) مقصود منزل پیراگپوری سہارنپور موبائل نمبر 8860931450
.....گذشتہ سے پیوست

میرا احساس و مشاہدہ یہ ہے کہ یہ طبقہ مساوات اور عزت نفس کی تلاش میں آج بھی وہیں کھڑا ہے جہاں ہزار سال پہلے تھا انقلابات جہاں نے ان لوگوں کی کچھ چیزوں کو بدلا ضرور ہے مگر مکمل طور پر کایا پلٹ نہیں ہوسکی۔ طویل مسلم سلطنت سمیت کسی نے بھی ان لوگوں کے اصل درد کو نہیں سمجھا، آج مسلمان مؤرخین بھی سینہ چوڑا کرکے مسلم بادشاہوں کی رواداری کے قصے سناتے ہیں مسلم بادشاہوں کو یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ جن برہمنوں اور راجپوتوں کو تم مذہبی رواداری کی بنیاد پر بڑے بڑے عہدوں پر فائز کر رہے ہو انہوں نے اپنی ہی قوم کے ایک بہت بڑے طبقے کو مذہبی جنجال میں پھنسا کر جانوروں سے بھی بدتر کیا ہوا ہے، مسلم بادشاہوں پر لازم تھا کہ وہ ہندو دھرم اور قوم کا گہرائی سے مطالعہ کرتے اور بزور شمشیر اس استحصالی نظام اور طبقے کو کچل دینتے، آج بھارت کے جو حالات ہیں مسلم سلاطین کی سیاسی ناکامی کا نتیجہ ہیں۔


اتراکھنڈ کے چمولی سےپروگرام میں شرکت کرنے آئی ہوئی ایک خاتون سریشی نے بتایا کہ میں نے ایک مسلم نوجوان کو پینے کے لئے پانی دیا تو اس نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ ”تم نیچ ہو“ پھر میں شدت احساس کی وجہ سے بہت روئی، خاتون یہ بتاکر آبدیدہ سی ہوگئی، خاتون کی تسلی کے لیے میرے پاس شرمندگی اور آنسوؤں کے علاوہ کچھ نہیں تھا میں بمشکل اتنا کہہ سکا کہ اس مسلم نوجوان نے نہ اسلام کو پڑھا اور نہ ہی پیغمبر اسلام کو۔ آج پسماندہ طبقات کے مفکرین انگریزوں کو تو اپنا محسن مانتے ہیں مگر مسلم سلاطین کو نہیں۔


5/ فروری کو شام میں ہماری واپسی تھی عصر کی نماز ہم نے مرکزی مسجد نذیر آباد میں ادا کی تبلیغی جماعت کے ایک ساتھی درمیانہ بات کر رہے تھے وہ صحابہ کرام کی دنیوی معاملات میں سادگی اور اخروی نجات کے حریص ہونے کو سمجھا رہے تھے مگر عجیب و غریب اور منگھڑت واقعات بتارہے تھے، پھر ہم جماعت اسلامی کے آفس آگئے جماعت اسلامی کا آفس صدیق گیٹ نذیر آباد کے بالکل سامنے ہے وہاں سامان وغیرہ رکھا، مغرب کی نماز کا ٹائم ہوچکا تھا آفس سے ہم مکہ مسجد آگئے یہاں مغرب کی نماز ادا کی اس مسجد کے امام مولانا محمد قاسم صاحب ہیں جو امام ہونے کے ساتھ ساتھ اسی مسجد کے برابر میں قائم مدرسہ بیت العلوم کے مہتمم بھی ہیں مدرسہ میں اس وقت 30کے قریب حفظ کے طلبہ ہیں مولانا قاسم صاحب 1995 سے یہاں پر کام کررہے ہیں مولانا دارالعلوم دیوبند سے 1980 میں فارغ ہوئے، نماز سے فارغ ہونے کے بعد واپس آفس آگئے جہاں جماعت اسلامی کارکنان ہمارا انتظار کر رہے تھے جماعت اسلامی ستنا کے تعلق سے مکمل مضمون شائع ہوچکا ان افراد کی کارکردگی بات چیت وہاں پر لکھ دی گئی۔


رات میں 9/ بجے ہماری ٹرین تھی نیاز احمد اپنی گاڑی سے ہم کو ستنا اسٹیشن لے آئے، اسٹیشن پر دہلی سے آئے ہوئے بہت سے غیر مسلم حضرات سے ملاقات ہوئی جوکہ مہا ادھیویش میں شریک ہونے کے لیے یہاں آئے تھے، کافی رات ہوچکی تھی ٹرین میں بیٹھ کر ہم جلدی ہی سوگئے، صبح میں 4/ بجے کے لگ بھگ آنکھ کھلی تو ٹرین گوالیار اسٹیشن کے آؤٹر پر رکی ہوئی تھی سامنے والی سیٹ پر بیٹھے مسافر اترنے کی تیاری کر رہے تھے، ان سے بات چیت کی تو معلوم ہوا دونوں میاں بیوی مسلمان ہیں شوہر کا نام تاج محمد تھا دونوں ہی کسی کالج میں ٹیچر تھے مسلمانوں کے حوالے سے بات کی تو انہوں نے بتلایا کہ مسلمان فیس ادا کرنے میں بہت ٹال مٹول کرتے ہیں دوسرے مسلم اسٹوڈنٹس پر کام کا وزن بہت ہوتا ہے ان کو اسکول بھی جانا ہوتا ہے ٹیوشن بھی اور پھر مسجد یا مدرسہ میں دینی تعلیم کے لئے بھی، کچھ اسٹوڈنٹس اپنے والدین کے ساتھ کام بھی کرتے ہیں نتیجتاً وہ کہیں کے بھی نہیں رہ پاتے، میں نے کہا جب بچہ اسکول جارہا ہے تو الگ سے ٹیوشن کی کیا ضرورت ہے؟


وہ کہنے لگے کہ آج کل ٹیوشن تو ضروری ہے، میرے خیال میں ٹیچر حضرات نے اسکول و کالج میں محنت سے نہ پڑھا کر ناجائز طور پر ٹیوشن کا فنڈا پیدا کیا ہؤا ہے، اس سے ماں باپ اور اسٹوڈینٹ دونوں پر زائد از ضرورت وزن پڑجاتا ہے، تبلیغی جماعت کے تعلق سے انہوں نے بتلایا کہ کہ تبلیغی جماعت میں لگ کر بھی بہت سے مسلمان برباد ہوگئے یہ لوگ” اللہ ہی سب کچھ کریگا“ کہہ کر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جاتے ہیں اور کسی غیبی مدد کا انتظار کرنے لگ جاتے ہیں کام دھام اور بیوی بچوں کو چھوڑ کر چار چار ماہ کے لیے نکل جاتے ہیں ہمارے ایک رشتے دار نے اپنا پورا گھرانہ بیوی بچے اسی طرح سے برباد کرلیے، یہ سچ ہے کہ مروجہ تبلیغی جماعت میں لگ کر بہت سے لوگ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھے بہتوں نے اپنے گھر بار اجاڑ لیے بہت سے نکمے ہوگئے، تبلیغی جماعت کے ذمے داران پر فرض کے درجے میں ضروری ہے کہ مذکورہ ہلاکت خیز روش کے بارے میں بھی سوچیں اور حل تلاش کریں، خیر یہ لوگ گوالیار اسٹیشن پر اتر گئے۔


یہ لوگ اترے تو ان کی جگہ ایک شادی شدہ مسلم نوجوان جوڑے نے لے، ان کے مسلمان ہونے کا مجھے اس وقت علم ہوا جب میں فجر کی نماز کی تیاری کر رہا تھا اس خاتون نے نماز ادا کرنے میں تعاون کیا اور اپنے معصوم بچے سے بولی کہ ” بیٹا خاموش ہوجاؤ انکل اللہ (نماز) پڑھ رہے ہیں“ نماز کے بعد میں ہندی میں ”ستنا کا اتہاس“ نامی کتاب دیکھ رہا تھا کچھ تعلیم یافتہ غیر مسلم حضرات — جوکہ مہا ادھیویش میں بھی شریک تھے اور انڈین آرمی سے ریٹائرڈ تھے— بات کرنے آگئے یہ لوگ اخلاص اور سچے دل کے ساتھ اسلام کو جاننا چاہتے تھے، انہوں نے سوال کیا کہ اسلام کی بنیادی تعلیم کیا ہے ؟ میں نے جواب دیا کہ اسلام کی تمام تعلیمات احکام اور نظریات تین بنیادی نظریوں کے اردگرد گھومتے ہیں وہ یہ کہ توحید یعنی اللہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں، دوسرے رسالت یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے اپنے کچھ خاص بندے بھیجیں ہیں جن میں سے آخری نبی حضرت محمد ہیں، تیسرے آخرت یعنی انسان دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور اپنے عمل کے مطابق جزا یا سزا پائے گا۔


آخرت کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہ تصور تو آواگون کے نام سے ہندوؤں میں بھی ہے، میں نے کہا کہ اسلام کے نظریہ آخرت اور آواگون میں کوئی جوڑ نہیں، ہندوؤں کے تصور آواگون میں انسان دوبارہ زندہ تو ہوتا ہے مگر وہ ذہن و دماغ کے اعتبار سے بالکل الگ ہوتا ہے دوسرے یہ کہ وہ اسی دنیا میں اپنے اعمال کے اعتبار سے 84/ ہزار مرتبہ تک اچھے برے، انسان اور غیر انسان کے روپ میں جنم لیتا رہتا ہے اسکو پتا بھی نہیں ہوتا کہ وہ کس جرم کی سزا پارہا ہے یا کس عمل کی جزا پارہا ہے، جبکہ اسلام کے تصور آخرت میں بعینہ وہی انسان اپنے سابقہ ذہن و دماغ کے ساتھ زندہ ہوگا اور ایک ہی مرتبہ زندہ ہوگا اسکو نہ صرف معلوم ہوگا کہ وہ کس جرم کی سزا پارہا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ اس انسان کو ثبوت و گواہی اور اعتراف جرم کے مراحل سے بھی گزاریں گے، میں یہ سب باتیں کرہی رہا تھا کہ ایک دوسرا غیر مسلم ساتھی جو ہندتوا سے متأثر تھا اسکو ہندو مت پر تنقید برداشت نہیں ہورہی تھی وہ معلوم کرنے لگا کہ اسلام بھی کئی طرح کا ہے تم کون سے اسلام سے تعلق رکھتے ہو ؟ کون سے مسلم ہو ؟ احمدی ہو یا بریلوی یا دیوبندی ؟ میں نے کہا کہ اسلام تو ایک ہی ہے قرآن بھی ایک ہے اور میں صرف مسلم ہوں۔ اس نے کہا پھر بھی ؟ وہ وقفے وقفے سے تقریباً دس مرتبہ یہ ہی سوال دہراتا رہا اور میں ہر مرتبہ یہ ہی جواب دیتا رہا کہ میں صرف مسلم ہوں اور کچھ نہیں، انسانوں کی تقسیم در تقسیم، اونچ نیچ ہندو دھرم میں ہے اسلام میں نہیں، اچانک وہ مسلم خاتون بگڑ گئی کہ جب ایک مرتبہ کہہ دیا گیا کہ I am muslim تو آپ بار بار کیوں پوچھتے ہو، کہ کون سے مسلمان ہو ؟ آپ کی سمجھ میں بات نہیں آرہی ؟ ہم صرف مسلمان ہیں اس کے علاوہ کچھ نہیں، ہمارے یہاں پر ”یہ، وہ“ کچھ نہیں ہوتا ہم صرف مسلمان ہیں ہم ایک اللہ کو پوجتے ہیں اور بس۔ نوجوان مسلم خاتون کی ڈانٹ کے بعد اس نے پھر نہیں پوچھا کہ تم کون سے مسلم ہو ؟


وہ شخص ہماری گفتگو میں بار بار دخل دینے لگا، کافر، چار شادی اور ایکس مسلم X-muslim کی طرف بات چیت کا رخ موڑنے کی کوشش کرنے لگا۔ دلت سماج کے لوگوں نے میری حمایت کرتے ہوئے رام چرتر مانس کے اس اشلوک پر سوال اٹھائے جس میں شودروں کا ذلت آمیز تذکرہ کیا گیا ہے اور آج کل میڈیا میں زیرِ بحث ہے پھر کیا تھا وہ شخص آپے سے باہر ہونے لگا اور تلسی داس کے اس دوہے کو منطقی جواز Logical justification فراہم کرنے کی ناکام کوشش کرنے لگا، اس نے کہا کہ رام جی نے صبری کے جھوٹے بیر بھی کھائے تھے میں نے کہا یہ واقعہ جھوٹا ہے، میرے یوں کہنے سے اس کی بیوی بھی سخت ناراض ہوگئی کہنے لگی کہ آپ نے رام جی کا اپمان ( توہین ) کیا ہے، پورے کوچ میں ہماری ہی آوازیں بلند ہورہی تھی موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے میں نے کہا کہ دیکھو بہن اگر آپ کو برا لگا ہے تو میں معافی مانگتا ہوں اور اب میں بالکل نہیں بولوں گا، میرے خاموش ہونے سے دلت سماج کے لوگوں نے مورچہ سنبھال لیا اور رام جی پر، رام چرتر مانس وغیرہ پر خوب سوال اٹھائے، ہندو دھرم کو پاکھنڈ کہا کتابوں کو کالپنک ( تصوراتی ) کہا، ان کی تیز و تند تنقید کے آگے وہ شخص اور اس کی بیوی بالکل خاموش ہوگئے تھے۔ اس واقعے سے مسلمانوں کو سمجھنا چاہیے کہ اگر ہماری قیادت منصوبہ بند طریقے سے پسماندہ طبقات کی سیاسی و سماجی شخصیات و تنظیموں کے ساتھ اپنے روابط بڑھائیں ان کے مسائل کو سمجھیں ان کو تعاون دین تو جارح ہندتوا Aggressive hindutva کو پا بہ زنجیر کیا جاسکتا ہے۔ مگر انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہماری قیادت اور تنظیمیں ( جمعیت علمائے ہند اور جماعت اسلامی ) آر ایس ایس کی طرف جھکنے لگی، جس کا نتیجہ مستقبل میں یہ نکلے گا کہ اب کی بار مسلمان پسماندہ طبقات کے نشانے پر آجائیں گے۔


خیر ہم بخیر وعافیت 6/ فروری کو صبح 11/ بجے نظام الدین ریلوے اسٹیشن پر پہنچ گئے، سہارنپور کے لئے جن شتابدی ایکسپریس ٹرین نئی دہلی سے پکڑنی تھی جو کہ 3:30 تھی میں نے اپنے ساتھی وسیم سے کہا کہ تم اپنے گھر کی راہ لو اور میں کچھ دیر کے لیے نظام الدین” ایوان غالب“ جاؤں گا پھر وہاں سے نئ دہلی کے لئے نکل جاؤں گا۔ نوجوان ساتھی وسیم کے چلے جانے کے بعد میں ایوان غالب آگیا لائبریری میں اخبارات اور کتابیں وغیرہ دیکھ رہا تھا جنرل پرویز مشرف کی موت کی خبر سے اخبارات بھرے ہوئے تھے، جنرل پرویز مشرف مسلمانوں میں سیکولر طبقے اور مذہبی طبقے کے درمیان جاری کشمکش کا نشان عروج تھا جو ختم ہوگیا، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، اس تعلق سے مضمون بعنوان ”جنرل پرویز مشرف نشان عبرت “ لکھ دیا گیا ہے۔


ایوان غالب میں سویڈن کے رہنے والے فیصل خان اپنی محترمہ کے ساتھ آئے، بات چیت کی تو معلوم ہوا وہ بہت اچھی اردو بولتے ہیں، مرزا غالب اور مولانا رومی کے بڑے مداح ہیں انہوں نے بتلایا کہ وہ اصلا افغانستان کے ہیں۔ میں نے معلوم کیا کہ طالبان حکومت کیسی ہے ؟ انہوں نے کہا بیس سال سے افغانستان نہیں گیا ہوں، سویڈن میں ہی ایک غیر مسلم خاتون سے شادی کرلی یہ جو میرے ساتھ ہے یہ میری غیر مسلم بیوی ہے، میں نے کہا کہ ان کو اسلام کی دعوت دو، کہنے لگے کہ مسلمانوں کے حالات ایسے نہیں ہیں کہ کوئی اسلام قبول کرے مسلمان ہر جگہ بم بلاسٹ کرتے رہتے ہیں دیکھو ابھی پاکستان کے پشاور شہر کی مسجد میں بم دھماکہ ہوا وغیرہ وغیرہ۔ میں حیران ہوگیا کہ یہ شخص اپنے آپ کو مولانا رومی سے متاثر بھی بتلاتا ہے اور غیر مسلم عورت کو بیوی بناکر رکھتا ہے یعنی عملی طور پر زانی اور فکری طور پر مولانا رومی، انسان کا معاملہ بہت عجیب ہے وہ فکری تضادات کے درمیان زندہ رہ سکتا ہے مگر عملی تضاد اس سے برداشت نہیں ہوتا، حقیقت یہ ہے کہ اسی قسم کے مسلمان اسلام اور مسلمانوں سے پریشان ہیں۔ ایوانِ غالب میں دو ڈھائی گھنٹے اخبار و کتب دیکھنے کے بعد میں نئ دہلی پہنچ گیا اور بذریعہ ٹرین سہارنپور۔


یہاں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ستنا شہر کا مختصر تعارف بھی کرادیا جائے، ستنا مدھیہ پردیش کا ایک چھوٹا سا شہر ہے یہ شہر اتنا قدیم ہے کہ یہاں کے بارے میں مشہور ہے کہ رام جی جب چترکوٹ بنواس کے لئے جارہے تھے تو اسی ستنا شہر سے ہوکر گزرے تھے، ستنا شہر قدیم ہونے کے باوجود بہت بڑا شہر نہیں ہے، یہ شہر آج جو بھی کچھ ہے وہ ریلوے کی بدولت ہے یہاں پر 1865 میں ریلوے اسٹیشن بنا اس کے بعد ہی شہر کی ترقی ہوئی اور یہ شہر ملک و بیرون میں مشہور ہونے لگا یہاں کی اہم کاشت السی linseed ہے، یہ شہر بہت ہی پرسکون ہے شور وغل نہیں سڑکوں پر بالکل رش نہیں، شہر کھلا کھلا سا ہے گھنی آبادی نہیں بلند وبالا عمارتیں نہیں پورے شہر میں ایک ہی بلند عمارت دور سے نظر آتی ہے شہر میں کہیں کہیں قدیم طرز کے مٹی کے مکان آج بھی نظر آتے ہیں جگہ جگہ کھیل کے میدان اور تال تلیاں نظر آتی ہیں۔


ستنا شہر کی مشہور مٹھائی کھرچن ہے جو دودھ کی بنتی ہے، ستنا شہر میں پان اور تمباکو کھانے کا رواج آج بھی عروج پر ہے، آبادی کے تناسب سے زائد شراب کے ٹھیکے کھلے ہوئے ہیں معلوم کرنے پر بتایا گیا کہ یہاں شراب بیچنے کے لائسنس بہت آسانی سے مل جاتے ہیں، شہر کے اندر برلا Birla سمنٹ فیکٹری اور آس پاس میں مزید پانچ سیمنٹ فیکٹریاں ہیں ان فیکٹریوں میں کام کرنے والے انجینیر اور مزدور اس شہر میں بڑی تعداد میں رہتے ہیں جو اکثر و بیشتر دوسرے شہروں کے ہیں، اس شہر میں باقاعدہ مسلمانوں کی آمد انیسویں صدی کے کسی درمیانی دہے سے ہوئی ہے یہ مسلمان عام طور پر آس پاس کے اضلاع سیدھی، ریوا اور اترپردیش وغیرہ کے اضلاع سے طلب معاش میں آئے اور پھر یہیں کے ہوکر رہ گئے اب 2023 میں یہاں 10/ فیصد کے قریب مسلم آبادی ہے اور شہر خاص کے اندر 23/ مساجد ہیں چار مدرسے اور مسلمانوں کے کچھ اسکول بھی ہیں، نذیر آباد، کھونتی، کمپنی باغ، گھڑیا ٹولہ، وغیرہ مسلمانوں کے بڑے محلے ہیں، آزادی سے پہلے اس شہر کے اندر مسلم لیگ بھی رہی ہے، مسلمانوں کی سیاسی ناکامی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ حقائق کی بنیاد پر پالیسی نہیں بناتے بلکہ خواب و خیال یا کرامات کی بنیاد پر پالیسی بناتے ہیں، غور کرنے کا مقام ہے کہ ستنا شہر خود بھی اور چاروں طرف سے بھی غیر مسلم اکثریت سے گھرا ہوا ہے ایسے میں وہاں مسلم لیگ کی بات کرنا خود کشی کے مترادف تھا، اس زمانے میں جہاں جہاں بھی مسلم لیگ اٹھی وہ تمام تر علاقے مسلم اقلیت اور ہندو اکثریت کے تھے، نتیجتاً تقسیم ملک کے بعد یہ مسلم اقلیتیں مقامی ہندو اکثریت کے نشانے پر آگئی اور زبردست جانی و مالی نقصان پہنچا۔ سقوط حیدرآباد کے معاملے میں بھی مسلمان مذکورہ قسم کی بدترین خیال پرستی وکرامت پرستی سے باہر نہ نکل سکے، مسلمانوں کے دو انتہائی خیر خواہ اور مخلص قائدین مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے حیدرآباد کے مسلمانوں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ مسلح جد وجہد کی راہ نہ اپنائیں اور بھارتی حکومت سے معاہدہ کرلیں، یہاں پر تم لوگ بمشکل 15/ فیصد ہو ؟ آخر ہندو اکثریت مسلمانوں کے زیرِ نگیں کیوں رہے گی ؟‌ اور ہندو اکثریت والی ریاست کو بھارت کیوں چھوڑے گا ؟ مگر افسوس! وہاں کے جذباتی قائدین تو دہلی کے لال قلعے پر جھنڈے گاڑنے کا خواب دیکھ رہے تھے اور اپنے مخلص قائدین کا مذاق اڑا رہے تھے، نتیجتاً بھارتی فوج نے 1948میں فوج روانہ کردی ( جسکو مسلم مؤرخین سقوطِ حیدرآباد کہتے ہیں اور ہندو مؤرخین پولیس ایکشن کہتے ہیں) ظلم وتشدد کی نئی تاریخ لکھی جانے لگی، حیدرآباد کے ”جذباتی مجاہدین“ مسلم عوام کو بھارتی فوج کی دندناتی گولیوں اور بم بارود کی گھن گرج میں چھوڑ کر باڈر کراس کرکے پاکستان بھاگ گئے اور بھارت نے حیدرآباد کا بزور بازو اپنے ساتھ الحاق کرلیا، جذباتی قائدین کے خواب و خیال حقیقت نہ بن سکے نہ ہی کسی کرامت کا ظہور ہوسکا، قومی پالیساں حقائق کی بنیاد پر بنائی جاتی ہیں ناکہ خواب و خیال کی بنیاد پر۔

آج ستنا شہر کے مسلمانوں میں جو اسلامیت نظر آتی ہے اس میں بہت بڑا تعاون اور کردار مولانا نور محمد بنگالی صاحب مرحوم کا ہے انہوں نے 1905 سے لیکر تقریباً 1965 تک شہر میں دینی تعلیم اور دعوت کا کام انجام دیا انہوں نے ستنا شہر میں مدرسہ ”انجمن اسلامیہ“ قائم کیا جو آج کل ایک کالج بن گیا ہے اور اس کے نصاب تعلیم میں دینیات کا عنصر آج بھی موجود ہے، یہاں کے لوگ مولانا نور محمد بنگالی مرحوم کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ان کا مقبرہ ستنا شہر میں موجود ہے۔ (ختم شد )

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے