Ticker

6/recent/ticker-posts

مولانا دلت سماج کی مٹنگ میں

مولانا دلت سماج کی مٹنگ میں ١


تحریر: توصیف القاسمی (مولنواسی) مقصود منزل پیراگپوری سہارنپور موبائل نمبر 8860931450

مسلمانوں کے زوال کا ایک بہت بڑا سبب یہ بھی ہے کہ ان کے ٹکڑوں میں بنٹے ہوئے قائدین جو نظریہ قائم کرلیتے ہیں ان کے اندھے مریدین اسی کو حرف آخر سمجھتے ہیں، ان کے حواری اس نظریے کے علاوہ دیگر قائدین و دانشوران حضرات کی پلاننگ اور منصوبہ بندی کو نا صرف غلط ٹہراتے ہیں بلکہ ان کا مذاق بھی اڑاتے ہیں اور پیشگی طور پر ان کی جد وجہد اور پلاننگ پر ”کچھ نہیں ہوگا “ کا فیصلہ صادر کردیتے ہیں۔ میں نے آر ایس ایس اور ہندتوا نظریات کے خلاف دلت سماج ( مولنواسی سماج ) میں ہونے والی تبدیلیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک جگہ یہ کہہ دیا تھا کہ اگر ملک کو ہندو راشٹ بننے سے کوئی روک سکتا ہے تو وہ پسماندہ طبقات ہی ہیں یعنی Sc St OBC سماج، میری اس بات پر جماعت اسلامی ہند سے منسلک ایک صاحب نے خندۂ استہزاء بلند کیا اور کہا This is joke of the day یعنی یہ آج کے دن کا لطیفہ ہے۔ میں نے کہا کہ آپ ہی بتائیں ملک کو ہندو راشٹ بننے سے کیسے روکا جائے ؟ اس پر وہ خاموش ہوگئے اور بہت کچھ سوچنے کے بعد بھی کوئی فارمولہ نہیں بتا پائے۔


یہ ایک حقیقت ہے کہ ملک کو ہندو راشٹ بننے سے اگر کوئی طاقت روک سکتی ہے تو وہ پسماندہ طبقات ہیں اور اگر ملک ہندو راشٹ بنتا ہے تو اس کی وجہ بھی پسماندہ طبقات ہی ہیں۔ موجودہ منظر نامے میں مسلمان تو کسی گنتی میں نہیں ہیں اسی طرح سیکولر ہندو بھی یعنی گاندھی وادی حضرات بھی ہندتوا کی رو میں بہہ گئے اور ان میں اس قدر ہمت بھی نہیں ہے کہ وہ شدت پسند ہندتوا کے خلاف کوئی واضح موقف اختیار کرسکیں، یہ ہی حال دیگر سیاسی پارٹیوں کا ہے، جبکہ اس منظر نامے کے خلاف پسماندہ طبقات کے نوجوانوں نے واضح موقف اختیار کیا ہے وہ صاف لفظوں میں کہتے ہیں کہ ”برہمن ودیسی ہیں اور ہندو دھرم پاکھنڈ ہے “ ان کا نعرہ ہے کہ بول پچاسی مولنواسی برہمن ودیسی، یعنی بھارت میں رہنے والے 85/ فیصد حضرات پشتینی بھارتی ہیں، برہمن بنیا ٹھاکر جو کہ بمشکل 15/ فیصد ہیں وہ ودیسی ہیں اور یہ کہ ”ہندو“ تو ہم کو مسلمانوں سے لڑانے کے لئے کہا جاتا ہے، باقی حق حقوق کے وقت برابری کے وقت مندر میں داخلے کے وقت ہم اچھوت Unteachable ہوجاتے ہیں ہم نیچ ہوجاتے ہیں ہم ناپاک ہوجاتے ہیں، اسی لیے یہ لوگ بہت بڑے پیمانے پر ہندو دھرم چھوڑ کر بودھ مذہب اختیار کر رہے ہیں یہ تعداد دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ بعض مسلم اسکالرز سوال کرتے ہیں کہ یہ لوگ اسلام قبول کیوں نہیں کرتے ؟ جواب مسلمانوں نے منصوبہ بند طریقے کبھی اس کی کوشش ہی نہیں کی نہ مسلم دور حکومت میں اور نہ ہی بعد میں، دوسرے آر ایس ایس کے وجود سے بہت پہلے اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کو اس کا خدشہ تھا کہ کہیں پسماندہ طبقات بہت بڑے پیمانے پر اسلام کی طرف راغب نہ ہوجائے ؟ اس لیے ان لوگوں نے بہت عیاری سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف انتہائی منظم طریقے سے غلط فہمیاں پیدا کرنی شروع کردی تھی اور ہندودھرم میں اصلاح شروع کردی تھی، اور ہمارے مفکرین اس طرف سے بالکل غافل رہے۔


خیر قارئین کرام! آپ یقین جانیے پسماندہ طبقات میں یہ تبدیلی مکمل طور پر آر ایس ایس اور ہندتوا کے خلاف ہے تو دوسری طرف مکمل طور پر مسلمانوں کے حق میں ہے۔ ان تبدیلیوں کو مندرجہ ذیل مشن اور پلاننگ سے بھی سمجھیے۔

2022 سے بامسیف نے ایک مشن شروع کیا ہؤا ہے جسکا نام ہے Door to Door BS4 mission, 24 اس مشن کی تشریح یہ ہے کہ گھر گھر تک بھارتیہ سنودھان ( آئین ہند) پہنچانا ہے آئین پر بولنے والے تیار کرنے ہیں،ہر ہر فرد کو بنیادی قانونی معلومات فراہم کرنی ہے اور چوبیس گھنٹے یہ کام کرنا ہے، ان لوگوں کا کہنا ہے کہ آر ایس ایس نے آئین ہند کے خلاف ہندتوا کے نام پر ایک بھیڑ جمع کرلی ہے اب ہماری ذمے داری ہے کہ ہم آئین ہند کی حمایت میں سیکولرازم کی بقاء کے لئے عوامی بیداری لائیں، اسی مشن کے تحت گزشتہ دوسال سے یہ لوگ لگاتار محلوں گلیوں میں چھوٹے چھوٹے پروگرام لگاتے آرہے ہیں، میں بھی ایسے کتنے ہی پروگراموں میں شامل ہوا ہوں۔


پسماندہ طبقات میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے زیر اثر ان لوگوں میں مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں سے محبت کے جذبات بیدار ہوگئے جبکہ نفرت کا بہاؤ ”منووادیوں“ کی طرف ہوگیا اسی کا اثر ہے کہ منی پور فسادات میں ان لوگوں نے ملک بھر میں عیسائیوں کی حمایت میں احتجاج درج کرائیں ہیں اور میمورنڈم وغیرہ دیے ہیں، اسی طرح 4/ اکتوبر 2022 کا ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوا جس میں گجرات کے ضلع کھیڑا کے گاؤں اڈھیلا میں گربا نامی پروگرام میں پتھراؤ کے الزام میں پولیس نے چار مسلم نوجوانوں کو بجلی کے کھمبوں سے باندھ کر سرعام پٹائی کی، وہاں پر موجود ہندوؤں کے مجمع نے تالیاں بجائی۔


اس معاملے میں بھی مولنواسی سنگھ نے مسلمانوں کی حمایت میں میمورنڈم دیا تھا۔ ابھی حال ہی میں 31/ جولائی 2023 کو نوح میوات میں فرقہ وارانہ فسادات بھڑکے تو وہاں کی کھاپ پنچایتوں نے اور جاٹوں نے مسلمانوں کی حمایت کا اعلان کیا، اس تبدیلی کے پیچھے بامسیف اور پسماندہ طبقات کی لگاتار محنت ہے جو وہ بہت ہی منظم طریقے سے یہ کہہ کر کر رہے ہیں کہ ”ہندو تو ہم مسلمانوں سے لڑانے کے لئے بنایا جاتا ہے“۔


مولنواسی حضرات ( پسماندہ سماج ) ہندتوا کے خلاف کس طرح بیدار ہورہاہے اس کو سمجھنے کے لیے میں یہاں پر تین یوٹیوب چینل کا ذکر کر رہا ہوں، ان تینوں ہی چینلوں پر ہندو ازم اور ہندتوا کے خلاف نظریاتی بحثیں ہوتی ہیں، آر ایس ایس اور بی جے پی کے چمچے جو بھی چرکی چھوڑتے ہیں اسکا یہ لوگ علمی اور نظریاتی تعاقب کرتے ہیں، ایک چینل کا نام ہے Jago Panch (جاگو پنچ) دوسرے کام نام ہے Mnt news network اور تیسرے کا نام ہے knocking news، یہ چینل تو نظریاتی بنیادوں پر کام کر رہے ہیں ان کے علاوہ ان چینلوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جو روز مرہ کے ایکشن اور ری ایکشن کے طور پر کام کرتے ہیں۔


کرنے کا کام


مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ جہاں پر بھی ہیں اپنے آس پاس کے ایسے سنگٹھنوں کوتلاش کریں جو آر ایس ایس اور بی جے پی کی ذہنیت کے خلاف واضح موقف رکھتے ہوں، ان سے تعلقات قائم کریں ان کی میٹنگوں میں شریکِ ہوں، اپنے یہاں پر ان کی میٹنگیں لگوائیں، ہم میں سے ہر سمجھدار مسلمان کو یہ کام کرنا چاہیے ایسا کرنے سے ان شاءاللہ مسلمان ”ہندوؤں اکثریت majority میں ہیں“ کے جھوٹے بھرم کو توڑ سکتے ہیں اور یہ ایک حقیقت بھی ہے کہ بھارت میں ہندو اکثریت میں نہیں ہے، ہماری غلطی یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کے علاوہ 6743 ذاتوں میں بٹے ہوئے سماج کو ہندو سمجھتے ہیں، ہم سکھوں کو بھی ہندوؤں کی قطار ہی میں رکھ دیتے ہیں، عیسائیوں کو بھی ہندوؤں کی لائن میں لگادیتے ہیں، دلت سماج جو ہزاروں سال سے برہمنوں کے چنگل سے نکلنا چاہ رہا ہے اس کو بھی ہندو ہی سمجھتے ہیں۔ خیال رہے کہ جب میں دلت سماج سے اتحاد کی بات کرتا ہوں تو میری مراد ہرگز ووٹ دینا نہیں ہوتا، ووٹ تو صرف اور صرف آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کو دیجئے۔ میری مراد پسماندہ طبقات کے ساتھ سماجی اور معاشرتی اتحاد ہوتا ہے، میری مراد ”مظلوموں کا اتحاد“ ظالم منوواد کے خلاف ہوتا ہے۔


دوسرے، ہماری تمام بڑی تنظیموں کو چاہیے کہ اپنے لائحہ عمل میں پسماندہ طبقات سے وسیع تعلقات قائم کرنے کے لئے باقاعدہ ونگ قائم کریں ان کے ساتھ اسٹیج شیر کریں ان کے مسائل کی آواز بنیں اور اپنے مسائل کے لئے ان کو آواز بنائیں پھر اس ونگ کی ماہانہ باقاعدہ رپورٹ شائع کریں۔ یونیفارم سول کوڈ کے معاملے میں جس طرح سکھوں عیسائیوں اور دلتوں نے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی حمایت کی ہے اس کے بہت گہرے اثرات مرتب ہونگے، یقیناً یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ اب یونیفارم سول کوڈ کے معاملے میں آر ایس ایس کے سامنے صرف مسلمان نہیں ہیں بلکہ سکھ عیسائی اور پسماندہ طبقات بھی فریق بن آگئے۔


تیسرے، بی جے پی آر ایس ایس نے گزشتہ دو سال سے ”پسماندہ مسلم“ کا شوشہ چھوڑا ہؤا ہے، بی جے پی اس شوشے کو اچھالنا چاہتی ہے اور اس چرکی سے بی جے پی اپنے دو مسئلے حل کرنا چاہتی ہے، ایک تو بی جے پی پسماندہ طبقات کے کھسکتے ووٹ کی بھرپائی کرنا چاہتی ہے، دوسرے ہندو دھرم میں بدترین اور ذلت آمیز ”طبقاتی نظام“ کے جواب کے طور پر بھی ”پسماندہ مسلم“ کا راگ الاپا گیا ہے۔ اب دانشورانِ ملت پر ضروری ہے کہ بی جے پی اور آر ایس ایس کے مذکورہ ”زہریلے تیر“ کا منہ توڑ جواب دیں اور پوری طاقت سے اعلان کریں کہ زمین پر بسنے والے تمام انسان آدم و حوا کی اولاد ہیں۔

چوتھے، ہماری تنظیموں کو چاہیے کہ پورے بھارت میں ان جرآت مند حضرات کو انعام و اکرام دینے کا انتظام کرے جو ہندتوا کے خلاف سخت موقف رکھتے ہیں یا غیر مسلم ہونے کے باوجود مسلمانوں کی ہمدردی کرتے ہیں اور اپنی جان پر کھیل کر یا اپنی نوکریوں کو داؤ پر لگا کر مسلمانوں کی حمایت کرتے ہیں۔
13/ اگست 2023

مولانا، دلت سماج کی مٹنگ میں ٢

تحریر : توصیف القاسمی (مولنواسی) مقصود منزل پیراگپوری سہارنپور موبائل نمبر 8860931450

گذشتہ تقریبا ایک ماہ سے بامسیف پورے بھارت میں آئین ہند کی حمایت میں آئین ہند کی وکالت کرنے والے اور آئین ہند پر بولنے والے افراد تیار کررہاہے، اس پورے مشن کا نام ہے Door to Door BS4 mission 24 اس پلان تشریح کچھ اس طرح کے ہے کہ Door to Door کے معنی مطلب ہیں گھر گھر پہنچ کر کوئی کام انجام دینا، B سے مراد بھارتیہ S سے مراد ہے سنودھان، 4 سے مراد آئین ہند کی تمہید کے وہ چار بنیادی الفاظ ہیں جو S سے شروع ہوتے ہیں اور جن کے اردگرد پورا بھارتیہ سنودھان گھومتا ہے، mission کے معنی مہم اور پلان کے ہیں، 24 سے مراد ہے چوبیس گھنٹے یہ کام کرنا ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ گھر گھر پہنچ کر آئین ہند کی بنیادی جانکاری دینی ہے، آئین ہند کی حمایت میں عوام کو کھڑا کرنا ہے، آر ایس ایس اور بی جے پی کے ہندوراشٹ اور ہندتوا کے خطرناک پلان سے عوام کو واقف کرانا ہے۔ بھارت میں آئین ہند کی تمہید Preamble پڑھنا اور اس کو اپنے پروگراموں میں دہرانا اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ ہمارا ملک آئین ہند کے تحت ہے ناکہ ہندتوا کے، ابھی حال ہی میں 16/ ستمبر 2023 کے راشٹریہ سہارا اخبار کے مطابق کرناٹک کی راجدھانی بینگلور میں کانگریس نے آئین ہند کی تمہید پڑھنے کے لیے میگا تقریب کا انعقاد کیا جس میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ پہنچے اخبارات کے مطابق اس تقریب میں آئین ہند کی تمہید پڑھنے کے لیے 2/ کروڑ 28/ لاکھ لوگوں نے رجسٹریشن کرایا تھا۔

دوسری طرف ہم مسلمان ہیں ملک کو سیکولر بنانے کے لیے ہم خوب چیختے چلاتے ہیں، ہمارے علماء کرام کا کہنا ہے کہ ملک کا سیکولر دستور ہماری جد وجہد کا نتیجہ ہے، مسلمان ہندو راشٹ کے سخت خلاف ہیں، مسلمانوں کی مجلسوں پروگراموں اکابر و اصاغر سب پر ہندو راشٹ کا اندیشہ خوفناک حد تک چھایا رہتا ہے مگر میں نے آج تک مسلمانوں کا کوئی پروگرام ایسا نہیں دیکھا جس میں آئین ہند کی تمہید پڑھی گئی ہو ؟ اور ہندو راشٹ کے خلاف زمینی اور عوامی سطح پر محنت کرنے کا کوئی پلان بنایا ہو ؟ پسماندہ طبقات کی تنظیمیں آئین ہند کی تمہید Preamble of constitution عام کرنے کے لئے اسکو اپنے عوام کو سمجھا رہی ہے، مہمانوں کو گفٹ دے رہی ہے مگر ہمارے یہاں ہندو راشٹ کے خلاف اس طرح کی کوئی تیاری نہیں۔ اچھی طرح سمجھ لیں اکابر کو چمکانے کے لیے روایتی Traditional طرح کے بڑے بڑے پروگرام کرلینے سے اور دھواں دھار تقاریر کرلینے سے ہرگز مسئلہ حل نہیں ہوگا، کیوں کہ آزادی کے وقت عطاء اللہ شاہ بخاری جیسے بڑے بڑے خطباء اور ان کے پروگرام تالیوں کی نظر ہوگئے اور محمد علی جناح کی پالیسیاں جیت گئی، مسلمانوں کی طاقت بری طرح بکھر گئیں اور ہم کو آج تک یہ ہی بتلایا گیا ہے کہ ہمارے اکابر نے ہواؤں میں گرہ لگائی۔ غیر مسلم تنظیموں کو دیکھیے تو آپ پائیں گے کہ وہ عوام کے رابطے میں رہتی ہیں ان کے پروگرام ہائی کمان سے لیکر گاؤں کی سطح تک مسلسل ہوتے رہتے ہیں مذہب سے لیکر نوکریوں اور ثقافت وغیرہ تک الگ عنوان سے ہلچل رہتی ہے، جس سے افراد بھی تیار ہوتے ہیں رابطے بھی بڑھتے ہی عوام تک معلومات بھی منتقل ہوتی ہے نئے سوال جنم لیتے ہیں پرانے سوالوں کے جواب تلاش کیے جاتےہیں، مسائل پر بحث ہوتی ہے حل تلاش کیے جاتے ہیں۔

جیوتی با پھولے، بھیم راؤ امبیڈکر، پیریار کاشی رام وغیرہ سے لیکر بامسیف تک پسماندہ طبقات کے تمام مفکرین ”ہندو دھرم“ اور ”ہندتوا“ سے سخت نفرت اور دشمنی کی بنیاد پر کھڑے ہوئے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے آر ایس ایس کا ہندتوا مکمل طور پر ”اسلام“ اور ”مسلم دشمنی“ پر ٹکا ہؤا ہے، دونوں کے درمیان فرق اس بات کا ہے کہ پسماندہ طبقات کے مفکرین کے پاس ہندتوا سے نفرت اور دشمنی کی ٹھوس بنیادیں ہیں اور جائز وجوہات ہیں جبکہ آر ایس ایس کے پاس اسلام یا مسلم دشمنی کی کوئی جائز وجہ نہیں سوائے بالادستی اور اجتماعی حسد کے۔ ہندتوا طاقتیں بھارت کو ہندوراشٹ بنانے کے لیے پسماندہ طبقات کو بھی اور مسلمانوں کو بھی ”ہندو“ ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہیں جبکہ پسماندہ طبقات سیکولرزم کی بقاء کے لئے جہاں تمام اقلیتوں کو اپنے ساتھ ملانا چاہتی ہیں وہیں ”ہندو“ لفظ سے ہی سخت نفرت ہے۔ مذکورہ بالا تجزیہ بتلاتا ہے کہ ملک کے سیکولرازم کو بچانے کے لیے پسماندہ طبقات کا ساتھ دینا زیادہ بامعنی اور نتیجہ خیز ثابت ہوگا آر ایس ایس کے ساتھ ہاتھ ملانے سے۔

بامسیف افراد سازی پر بہت توجہ دے رہی ہے کوئی بھی نظریہ ہو جب تک اس نظریے کو انتہائی وفادار افراد نہیں ملیں گے اس وقت تک وہ نظریہ دانشوروں کے دماغ سے نکل کر معاشرے کا جز نہیں بنے گا اسی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے مختلف پروگراموں کے اندر بار بار بتایا گیا کہ پورے ملک کے اندر BS4 کے 120 کلسٹر منعقد کرنے ہیں اور ہر کلسٹر سے 300 افراد تیار کرنے ہیں اس طرح سے پورے ملک سے 36 ہزار افراد ایسے تیار ہوجائیں گے جو آئین ہند پر مدلل گفتگو کرسکیں گے، آئین ہند کی موجودگی سے ہماری زندگی میں کیا بدلاؤ آیا ہے ؟ اسکو عوام کے ذہنوں میں اتار سکیں، آئین ہند کی حفاظت کیوں ضروری ہے ؟ اسکو عوام کو سمجھا سکیں۔ ہندو راشٹ بننے سے کیا نقصان ہے ؟ اسکو واضح کرسکیں۔ آر ایس ایس تو اپنے ہندتوا نظریات کے حامل وفادار افراد گذشتہ ایک صدی سے تیار کر رہا ہے، حقیقت یہ ہے کہ آر ایس ایس جو ناقابلِ تسخیر معلوم ہوتی ہے اس کے پیچھے آر ایس ایس کے تربیت یافتہ افراد ہی کی محنت ہے۔

قارئین کرام! سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا ہماری کوئی بھی قیادت یا تنظیم اس طرح کی بامعنی پلاننگ کر رہی ہے ؟ ہمارے یہاں تو ”مفروضہ اکابر “ کے دو دو گھنٹوں کے بیانات پر ہی پروگرام شروع ہوتے ہیں اور ان ہی کے بیانات پر پروگرام ختم، ہمارے یہاں ہمیشہ اکابر اداروں پر قابض رہے ہیں۔ رہا افراد کی تیاری کا مسئلہ ؟ تو وہ وارثین پیدا کرکے حل کردیا جاتاہے۔ اچھی طرح سمجھ لیں پالیسی بناکر بڑے سے بڑے دشمن کو بھی مات دی جاسکتی ہے۔ بامسیف کے افراد عام طور پر اپنے تنظیمی پروگرام اتوار Sunday کے دن منعقد کرتے ہیں اور اگر دو یا تین دن کے پروگرام ہوں تو اتوار کا خیال ضرور رکھتے ہیں، ایک صاحب سے میں نے اس سلسلہ میں معلوم کیا، وہ کہنے لگے کہ جناب بامسیف میں زیادہ تر افراد نوکری پیشہ ہیں جن کو عام طور پر اتوار کے دن ہی چھٹی ملتی ہے، تو ہم اپنی چھٹی کا دن اپنی قوم کے لیے بابا صاحب امبیڈکر کے مشن کو آگے بڑھانے کے لیے لگا دیتے ہیں اس سے نقصان بھی نہیں ہوتا اور کام بھی ہوجاتا ہے۔ قارئین کرام مسلمانوں میں سے بہت سے افراد بالخصوص أہل مدارس جمعہ کو چھٹی رکھتے ہیں اور بہتوں کی اتوار کو رہتی ہے، تو کیا ہم تیار ہیں کہ اپنی قوم کے اندر تعلیمی، معاشی، سیاسی اور تنظیمی بیداری لانے کے لیے اپنی چھٹیاں قربان کردیں ؟
18/ ستمبر 2023

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے