Ticker

6/recent/ticker-posts

قلبی واردات کا شاعر : انور ایرج

قلبی واردات کا شاعر : انور ایرج


ہر فنکار کی ایک انفرادی اور اجتماعی شخصیت ہوتی ہے ۔ لہذا وہ اپنے گرد و پیش میں رونما ہونے والے حالات و واقعات کے اثرات قبول کرتا ہے، ساتھ ہی ساتھ اپنے اسلاف کے ماضی اور حال کے شعور سے بھی کسب فیض کرتا ہے ۔ یہی وہ عمل ہے جو رفتہ رفتہ اس کے اظہار اور افکار میں تخلیقات و تصورات میں ڈھلتا جاتا ہے اور صرف تخلیقی اظہار کی صورت میں سامنے آتا ہے ۔ میرے نزدیک یہ اظہاریہ انور ایرج کی شاعری کا وصف خاص ہے ۔


ان کی شاعری کا مطالعہ جب کرتا ہوں وہ تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کی شاعری انہیں گردو پیش کے ماحول میں پروان چڑھی ہے ۔ ان کی شاعری بند کمرے میں بند آنکھوں کا کوئی خیالی تجربہ یا مشاہدہ نہیں بلکہ کھلی آنکھوں کے تجربات و مشاہدات کی منہ بولتی تصویر ہے ۔ ان کے یہاں داخلی و خارجی کیفیات کی کشمکش ہو یا اضطراب و بے چینی کی کوئی مختلف نوعیت ہو، وہاں شعور کی پختگی اور ادراک کی بالیدگی کا احساس ضرور ہوتا ہے ۔ جہاں وہ اپنی داخلی کیفیت کو تخلیقی عمل سے گزارتے ہیں وہاں رومان کی بہترین صورت سامنے آتی ہے ۔


دو چار اشعار اس حوالے سے مولانا فرمائیں:

میری آنکھوں میں غم کا گوشوارہ کون دیکھے گا
منافع چھوڑ کر اپنا خسارہ کون دیکھے گا

پہلے مصرعے کی طرح زیست ادھوری ٹھری
لکھ کے اولی کوئی بھول گیا ثانی لکھنا

آنکھوں میں اداسی کا جو صحرا ہے میری جاں
اندر سے وہی ٹوٹ کے بکھرا ہے میری جاں

قصہ کسی کو غم کا سناتے نہیں ہیں ہم
کہائے ہیں کتنے زخم دکھاتے نہیں ہیں ہم

اس طرح کے اور بھی کئی اشعار آپ کو مل جائیں گے جو نہ صرف داخلی کیفیات کی بہترین ترجمانی کرتے ہیں ۔ بلکہ رومانی شاعری کی عمدہ مثال پیش کرتے ہیں ۔ انور ایرج کی شاعری کسی اصول یا کسی رجحان و ازم سے بندھی شاعری نہیں ' بلکہ تمام حدود کو توڑتی ہوئی کھلی فضا کی شاعری ہے ۔ انہوں نے اپنی تخلیقی اظہار کے لئے کسی ازم یا رجحان کا سہارا نہیں لیا، وہ جس کیفیت اور کرب سے گزرتے ہیں اسے الفاظ کے پیکر میں ڈھال کر پیش کر دیتے ہیں ۔ قاری اسے کس رجحان یا نظریئے کی عینک سے دیکھیں گے یہ دیکھنے والے پر منحصر کرتا ہے ۔ یہ مسئلہ شاعر کا نہیں ہر مکتبہ فکر کے افراد کسی شعر کا تجزیہ اپنی فکری معنی مطلب کے اعتبار سے اخذ کریں گے اور اسی اعتبار سے اس کی توضیحات و تاویلات پیش کریں گے ۔


فکر و احساس میں بالیدگی، وسعت و جامعیت ہو تو اس کی اثر انگریزی سے کون بچ سکتا ہے، لطافت، شعریت، معنویت اور تاشیریت اگر عمدہ شاعری کی پہچان ہے تو بلاشبہ موصوف کی شاعری میں یہ اوصاف بدرجہ اتم موجود ہیں ۔ ان کی شاعری میں زیریں سطح پر شعور کی رو ( Stream of Conseiousness) اور حسی خود کا ریت ( Autumatism Sensory ) کا احساس ہوتا ہے ۔ کسی شاعر کے یہاں جمالیاتی ترسیل ( Aesthetic Communicate ) کی قوت موجود نہ ہو ۔ ایرج کی بیشتر شاعری میں یہ جمالیاتی حس ( Asthetic Sense ). آپ ضرور محسوس کریں گے ۔ ان کی شاعری میں رنگوں، آوازوں اور لفظوں کی باہمی آویزش سے ایک قسم کی غنائیت کا احساس جا بجا ہوتا ہے ۔ خصوصا غزلیہ شاعری میں محسوس سے غیر محسوس اور معلوم سے نامعلوم تک رسائی کا سرا قاری کے ہاتھ ہیں تو وه اس کے جمالیاتی یا فنی حسن سے خد نہیں اٹھا سکتا ۔ میں بنا کسی توضیح و تشریح کے چند اشعار پیش کرنے کی اجازت چاہوں گا ۔


میں حقیقتوں کی دلیل ہوں نا خیال ہوں نہ گمان ہوں
میں علامتوں کی صدا نہیں میں شکستہ دل کا بیان ہو

میں نیندیں بیچ کر اپنی تیری تعبیر لایا ہوں
میرے اس رتجگے کا استخارہ کون دیکھے گا

بے صدا لفظ کے امکان کا منظر دیکھو
میری خاموشی سے گویائی کے پر جلتے ہیں

ہم خود کو ان سے جوڑ گھٹتے چلے گئے
جب منقسم ہوئے ہیں تو حاصل نہیں رہے


انور ایرج صرف داخلی کیفیات کے شاعر نہیں، ان کی شاعری صرف ذات کی نوحہ گری نہیں بلکہ شاعری کا ایک بہت بڑا حصہ عصری مسائل اور اس کے تقاضوں کی بھرپور ترجمانی کرتا ہے ۔ رونما ہونے والے حادثات و واقعات سے وہ بے خبر نہیں ۔ قومی اتحاد کا پارہ پارہ ہو جانا، سیاسی جبرو استحصال، انسانی قدروں کا زوال، مکاری و عیاری اور منافرت و منافقت کی بڑی حقیقی تصویر کشی ان کی شاعری میں موجود ہیں اس حوالے سے بھی چاہوں گا کہ تین شیر آپ کے مطالعہ کے لئے پیش کرتا چلوں:


شاداب رہے گا ملک یہ کیسے اس کو دییمک لگتا ہے
ہر شاخ پہ الو کون بٹھاتا، ہم بھی سوچیں،تم بھی سوچو

جنگ آزادی میں انگریز کے تلوے چاٹے
وه تو گاندھی کا طرفدار نہیں ہو سکتا

پرندہ پڑھ کہو ایرج یہاں کیا مار سکتا تھا
جو تیرے سب تمہارے تھے، حکومت بھی تمہاری تھی

محولا بالا اشعار کا آپ جائزہ لیں تو یہ احساس ضرور ہوگا کہ موصوف کے اشعار میں رومانویت ترقی پسندیديت اور جدیدیت کے وہ سارے Tools موجود ہیں جو ان کے مکتبہ فکر کا مخصوص وطیرہ رہا ہے ۔ شاعری خون جگر کے ساتھ ایک مجتہدانہ رویہ بھی چاہتی ہے ۔ اجتہاد و انفراد کا معاملہ آسان نہیں ہوتا برسوں میں بڑی ریاضت کے بعد یہ معاملہ طئے ہوتا ہے ۔ اس کے لئے مسلسل مطالعہ اور مشق سخن درکار ہے ۔ موصوف اگر دلجمعی کے ساتھ شاعری کريں تو اجتہاد و انفراد کی راہ ان کے لئے دشوار بھی نہیں، اس منزل کی طرف وه گامزن ہیں اور وہ منزل بہت قریب بھی ہیں ۔

ثاقب كلیم
خادم اردو کٹیہار بہار
موبائل نمبر :- ۷۸۷۰۳۴۵۰۵۶

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے