آتش کی غزل گوئی خواجہ حیدر علی آتش کی شاعری کی خصوصیات
Aatish ki Ghazal Goi
آتش کی حالات زندگی
خواجہ حیدر علی آتش خواجہ علی بخش کے بیٹے تھے۔ بزرگوں کا وطن بغداد تھا جو تلاش معاش میں شاہجہان آباد چلے آئے۔ نواب شجاع الدولہ کے زمانے میں خواجہ علی بخش نے ہجرت کر کے فیض آباد میں سکونت اختیار کی۔ آتش کی ولادت یہیں 1778ء میں ہوئی۔ بچپن ہی میں باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ اس لیے آتش کی تعلیم و تربیت با قاعدہ طور پر نہ ہو سکی اور مزاج میں شوریدہ سری اور بانکپن پیدا ہو گیا۔
آتش نے فیض آباد کے نواب محمد تقی خاں کی ملازمت اختیار کرلی اور ان کے ساتھ لکھنو چلے آئے۔ نواب مذاق سخن بھی رکھتے تھے۔ اور فن سپاہ گری کے بھی دل دادہ تھے۔ آتش بھی ان کی شاعرانہ سپاہیانہ صلاحیتوں سے متاثر ہوئے۔ لکھنو میں علمی صحبتوں اور انشاء و مصحفی کی شاعرانہ معرکہ آرائیوں کو دیکھ کر شعر و سخن کا شوق پیدا ہوا۔ اور مصحفی کے شاگرد ہو گئے۔ تقریباً 29 سال کی عمر میں باقاعدہ شعر گوئی کا آغاز ہوا۔
لکھنو پہنچنے کے کچھ عرصہ بعد نواب تقی خاں کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد انہوں نے کسی کی ملازمت اختیار نہیں کی۔ آخری وقت میں بینائی جاتی رہی۔ 1846ء میں انتقال ہوا۔ آتش نے نہایت سادہ زندگی بسر کی۔ کسی دربار سے تعلق پیدا نہ کیا اور نہ ہی کسی کی مدح میں کوئی قصیدہ کہا۔ قلیل آمدنی اور تنگ دستی کے باوجود خاندانی وقار کو قائم رکھا۔ دبستان لکھنو کی صحیح نمائندگی کا جہاں تک تعلق ہے اس سلسلے میں امام بخش ناسخ اور آتش کا موازنہ کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر سید عبداللہ محاکمہ کرتے ہوئے آتش کو ترجیح دیتے ہیں۔ اور لکھتے ہیں : ” میں تو یہ کہوں گا کہ لکھنوی ادب اور شاعری کا صحیح نمائندہ آتش ہی تھا ناسخ نہ تھا۔ کیونکہ آتش کے کلام میں اسی زندگی کی لطافتوں کی روح کھیچ کر اس طرح جلوہ گر ہو گئی ہے جس طرح شراب کے جوہر میں شراب روح کی طرح کشید ہو کر سراپا لطافت بن جاتی ہے۔ اور اگر غور کیا جائے تو آتش کی شاعری لکھنوی شاعری کی ہی روح لطیف ہے۔ آتش ہی لکھنو کا وہ بڑا شاعر تھا جس نے لکھنو کے مشاعروں کے لیے بھی لکھا اور اپنے لیے بھی شاعری کی اور اس کی یہی شاعری ہے جس میں لکھنو کا وہ ادب پیدا ہو گیا ہے جس کی حیثیت مستقل ہے۔“
ڈاکٹر خلیل الرحمن اعظمی نے بھی اپنی تصنیف ”مقدمہ کلام آتش، میں نقطہ پیش کیا ہے کہ ”آتش ہی لکھنوی دبستان کی نمائندگی کا حق رکھتے ہیں وہ لکھتے ہیں کہ ناسخ کے پاس صرف کرتب تھا استادی اور زبان دانی کا دعویٰ تھا۔ لیکن آتش اس کے علاوہ بھی بہت کچھ تھے۔ وہ وجدان اور احساس جمال کے مالک تھے ۔۔۔۔ آتش کا کلام سونے پر سہاگہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ ناسخ، تخلیقی قوت کے فقدان کی وجہ سے ذہنی ورزش کی طرف مائل رہے۔ اس لیے ان کا کلام زندگی سے دور جا پڑا اور اس میں کوئی رس باقی نہ رہا۔
بقول رام بابو سکسینہ ” میر و غالب کے بعد اگر کسی کا مرتبہ ہے تو وہ آتش ہے۔“
ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی بھی اس خیال کے حامی ہیں کہ آتش کو ناسخ پر فوقیت حاصل ہے۔
کلیم الدین احمد اپنے مخصوص انداز میں لکھتے ہیں: ” ہر ذی فہم واقف ہے کہ آتش شاعر تھے اور ناسخ شاعری کے لیے تخلیق نہیں کیے گئے تھے۔
آل احمد سرور نے لکھنؤ کے ادب پر تنقید کرتے ہوئے آتش و ناسخ پر بھی رائے زنی کی ہے، ”ناسخ کی شاعری میں نشتریت سرے ہی سے نہیں وہ جس طرح باقاعدہ ورزش کرتے ہیں اسی طرح ڈھلے ڈھلائے شعر کہتے ہیں۔ ناسخ خودار انسان تھے انہوں نے کبھی اپنے آپ کو ذلیل نہ کیا مگر شاعر وہ بہت معمولی تھے۔ آتش کے یہاں جذ بہ بھی ہے۔ گرمی بھی ہے۔ اور گداز بھی وہ دربار سے متعلق نہیں تھے۔
گویا یہ بات طے ہو گئی ہے کہ آتش ہی ایک ایسے سخنور ہیں جو ہر معیار کے مطابق دبستان لکھنؤ کے نمائندہ کے طور پر تسلیم کیے جا سکتے ہیں۔ اور اردو شاعری کے ہر بڑے نقاد کی رائے بھی یہی ہے۔
آتش کی شاعری کی خصوصیات
آتش کی شاعری میں دہلویت اور لکھنویت کا امتزاج
آتش کو اگرچہ بجا طور پر لکھنوی دبستان کا نمائندہ شاعر تسلیم کیا جاتا ہے لیکن اس کے باوصف اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ وہ صرف لکھنوی دبستان کے شاعر نہیں بلکہ دبستان دہلی اور لکھنو کے سنگم پر کھڑے ہیں۔ ان کے ہاں خارجی اور داخلی دونوں کیفیتیں ملتی ہیں۔ چنانچہ حسن صورت کی تعریف کے ساتھ ساتھ حسن سیرت کی توصیف بھی ملتی ہے۔ گویا ان کے یہاں لکھنویت کا رنگ اور دہلویت کی خوشبو دنوں موجود ہیں۔
آتش کی شاعری میں دہلوی اثرات
کسی نے مول نہ پوچھا دل شکستہ کا
کوئی خرید کے ٹوٹا پیالہ کیا کرتا
آئے بھی لوگ بیٹھے بھی اٹھ بھی کھڑے ہوئے
میں جا ہی ڈھونڈتا تیری محفل میں رہ گیا
بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو ایک قطرہ خوں نہ نکلا
آتش کی شاعری میں لکھنوی اثرات
ہر شب شب برات ہے ہر روز روز عید
سوتا ہوں ہاتھ گردن مینا میں ڈال کے
شب وصل تھی چاندنی کا سماں تھا
بغل میں صنم تھا خدا مہرباں تھا
آتش کی غزل گوئی
آتش کی شاعری اس کے کردار کا مرقع ہے۔ اس کے کلام میں وہی سرور و نزہت ہے جو جنگل کی مست ہوائوں میں ہے، وہی روانی ہے جو بہتے دریائوں میں ہے، وہی موسیقی ہے جو ستاروں کی چمک اور کل نظام فطرت میں ہے۔ وہ ایک آزاد شاعر تھے جو شعر کہتے وقت یہ بھول جاتا ہے کہ اس کا مذہب کیا ہے۔
بقول آل احمد سرور : آتش کے یہاں جذبہ بھی ہے، گرمی بھی اور گداز بھی۔ “ آتش کے کلام میں گرمی بہت ہے۔ غالباً تخلص کی رعایت سے اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔ لیکن اس میں کلام نہیں کہ ایسے اشعار بھی موجود ہیں جن میں تلخیاں اور تکلیف دہ حالات کی کار فرمائی نمایاں طور پر موجود ہیں۔ آتش نے زمانے کے اس خلفشار، ذہنی انتشار اور مذہبی کیفیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس قسم کے اشعار پڑھیے ؟
بخت بند نے مجھے ہر چند مٹایا آتش
رہ گیا نام مرا گنبد گرداں کے تلے
مشتاق درد عشق جگر بھی ہے دل بھی ہے
کھائوں کدھر کی چوٹ بچائوں کدھر کی چوٹ
آتش کی شاعری میں داخلیت
آتش کی شاعری کی لے بنیادی طور پر اگرچہ لکھنؤ کی شعراء کی رنگین مزاجی، فارغ البالی اور عیش پرستی سے مختلف ہے اور یہ فرق بڑی حد تک افتاد طبع اور درویشانہ زندگی کے سبب ہے لیکن اس کے باوجود ان کے ہاں داخلیت کی جانب واضح رجحان ملتا ہے۔ جو لکھنو کی مخصوص فضا کا پیدا کردہ ہے۔ اس بناء پر کیفی اعظمی ان کو داخلیت کا حامل شاعر قرار دیتے ہیں۔ جو انہوں نے اپنی شاعری میں زندگی کے محسوسات و تجربات کو حسین پیرائے میں بیان کیا ہے۔
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزار ہا شجر سایہ دار راہ میں ہے
نہ پوچھ حال مرا چوب خشک صحرا ہوں
لگا کے آگ مجھے کارواں روانہ ہوا
آتش کی شاعری میں رجائیت
آتش کے کلام کا بڑا حصہ رجائیت اور زندگی کی قوت سے لبریز ہے ان کا تصور زندگی مکمل طور پر عشرت و انبساط کا پہلو لیے ہوئے ہے۔ ان کے ہاں غم و درد کا ذکر بہت کم ہے اور جو تھوڑا بہت ہے بھی وہ زندگی سے بیزاری اور مایوسی نہیں سکھاتا ہے بلکہ ان کا توانا اور پر جوش لہجہ مشکلات کا مردانہ وار مقابلہ کرنے پر ابھارتا ہے۔ آتش کی زندگی کے تاریک اور حزینہ پہلو کی ترجمانی نہیں کرتے بلکہ اس کے روشن اور تابناک پہلو کو پیش نظر رکھتے ہیں ان کے ہاں قلندرانہ شان نظر آتی ہے۔ ایک سرمستی کی کیفیت ملتی ہے ان کی شخصیت میں جو شجاعت اور جوانمردی اور قوت و عظمت تھی اس کا بھر پور اظہار ان کے اشعار میں ملتا ہے۔ مثلاً
تھکیں جو پائوں تو چل سر کے بل نہ ٹھہر آتش
گل مراد ہے منزل میں خار راہ میں ہے
دل بے تاب کو فریاد و فغاں کرنے دو
پہلے غماز ہی کو قصہ بیاں کرنے دو
آتش کی شاعری کی انفرادیت
آتش کی غزل میں جو سپاہیانہ للکار ، معرکہ آرائی، بلند آہنگ اور آتش نوائی ملتی ہے وہ شعرائے کرام کی تمام مانوس آوازوں سے مختلف اور الگ ہے۔ انہوں نے غزل کی عام تشبیہات اور پامال استعاروں سے ہٹ کر براہ راست تغزل کا جادو جگایا ہے۔ غزل کی علامت کو آتش نے ایک نیا مزاج اور نیا آہنگ دیا۔ آتش کا کلام اپنے مخصوص لب و لہجہ اور انفرادی انداز بیان کی وجہ سے صاف پہنچانا جاتا ہے۔
سن تو سہی جہاں میں ہے تیر افسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا
پیامبر نہ میسر ہو تو خوب ہوا
زبان غیر سے کیا شرح آرزو کرتے
آتش کے انفرادی رنگ کا ثبوت وہ بے شمار اشعار ہیں جو ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ اور ہماری روزمرہ کی گفتگو کا حصہ بن چکے ہیں دیکھیے:
ع بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
ع میں جاہی ڈھونڈتا تیری محفل میں رہ گیا
ع ہم سے خلاف ہو کے کرے گا زمانہ کیا
ع بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
آتش کی شاعرانہ مصوری
آتش کے کلام کی ایک اور بڑی خوبی جس کی تعریف اکثر نقاد شعر و ادب نے کی ہے ان کی شاعرانہ مصوری ہے۔ آتش نے شاعری کو کئی جگہ مصوری سے تعبیر کیا ہے۔ ان کے بارے میں آل احمد سرور لکھتے ہیں کہ :
آتش، مصحفی کے شاگرد تھے انہی کے اثر سے آتش کے یہاں حسن کا ایک ایسا شوخ اور رنگین احساس ملتا ہے جو ان کے اشعار میں ہماری عشقیہ شاعری کا ایک نا قابل مسخر سرمایہ بنا دیتا ہے۔ آتش حسن کی عکاسی بھی کرتے ہیں مگر دراصل ان کے یہاں حسن کی مصوری ہے۔ مصور جب تصویر کھینچتا ہے تو نقش میں نقاش کا تخیل اور احساس کی ایک نئی زندگی بھر دیتا ہے۔ اب تصویر صرف خطوط اور رنگوں کا مجموعہ نہیں رہتی بلکہ منہ سے بولنے لگتی ہے۔ آتش کے بہترین اشعار ان رنگین احساس کا نگار خانہ ہیں۔“
مراہر شعر اک اک عالم تصویر رکھتا ہے
مرقع جان کر ذی فہم دیوان مول لیتے ہیں
نظر آتی ہے ہر سو صورتیں ہی صورتیں مجھ کو
کوئی آئینہ خانہ کارخانہ ہے خدائی کا
آتش کی غزل میں قوت متخیلہ
آتش اپنی قوت متخیلہ کے زور سے اشعار میں ایسی رنگارنگی، دلکشی اور رعنائی بھر دیتے ہیں جو قاری کے ذہن کو متاثر کیے بغیر نہیں رہتی۔ آتش کا دیوان پڑھیے تو احساس ہوتا ہے کہ عام طور پر آتش اپنی غزلوں کے مطلع سے ہی ہمیں اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں۔ ان کے مطلع نہایت زوردار ہوتے اور پہلی ہی آواز میں ہم پر ایسا اثر چھوڑتے ہیں جو پوری غزل پر حاوی ہوتا ہے۔ غزل میں ایک ہی فضا ایک ہی موڈ اور کیفیات کی وحدت کے لیے مطلعوں سے بہت مدد ملتی ہے۔ دراصل آتش کی مصوری بھی ان کے تخیل کی رنگینی کی مرہون منت ہے۔ مثلاً
ایسی وحشت نہیں دل کی کہ سنبھل جائوں گا
صورت پیرہن تنگ نکل جائوں گا
تصور سے کسی کے کی ہے میں نے گفتگو برسوں
رہی ہے ایک تصویر خیالی روبرو برسوں
آتش کی شاعری میں تشبیہات و استعارات
فن شعر میں تشبیہ و استعارہ کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ اس سے شعر کے حسن و دلکشی میں بے حد اضافہ ہوتا ہے۔ تشبیہات و استعارات زندگی کے ٹھوس مادی حقائق اور تلخ تجربات کو جمالیاتی پیکر میں ڈھالنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ آتش نے اپنے تجربات و احساسات کے اظہار کے لیے جہاں بھی اس وسیلے کی تلاش کی ہے وہاں اُن کے ہاں اپنی شخصیت کے وجدانی اور جمالیاتی، عناصر کی مدد سے تشبیہات و استعارات کے حسن کاری نمایاں طور پر موجود ہے۔
یہ آرزو تھی تجھے گل کے روبرو کرتے
ہم اور بلبل بے تاب گفتگو کرتے
کسی نے مول نہ پوچھا دل شکستہ کا
کوئی خرید کے ٹوٹا پیالہ کیا کرتا
دور سے کوچئہ دلدار کو کھڑا تکتا ہوں
نہ تو دیوار کا تکیہ ہے نہ در کا پہلو
آتش کی شاعری میں لفظی صنعت گری
آتش نے جہاں جہاں فارسی زبان استعمال کی ہے۔ وہاں بھی ذوق سلیم کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا ان کی لفظی صنعت گری کے باوجود شعر کے حسن اور تاثیر کو قائم رکھا ہے۔
وقار عظیم اس بارے میں لکھتے ہیں، لکھنوی شاعری کی پوری عمارت لفظوں کی بنیاد پر کھڑی ہے لفظی صنعت گری نام ہے اور اس صنعت گری کے برتنے میں کمال حاصل کر لینا شاعرانہ کمال کی دلیل ہے۔۔۔۔۔ آتش کی شاعری کا خاصہ بڑا حصہ اس طرح کی لفظی بازی گری کا نمونہ ہے۔“
جو دیکھے تیری زنجیر زلف کا عالم
اسیر ہونے کی آزاد آرزو کرتے
وہ بادہ کش ہوں مری آواز پا کو سن کر
شیشوں نے سر حضوری ساغر جھکا دیے
خواجہ حیدر علی آتش عشقیہ شاعری
آتش بنیادی طور پر عشق و عاشقی کے شاعر ہیں لیکن ان کی عشقیہ شاعری میں وہ رکاکت اور ابتذال نہیں جو عام لکھنوی شعراء کے ہاں موجود ہے۔ اس کے برعکس ان کے ہاں تہذیب اور نفاست کا احساس ہوتا ہے وہ محبوب کے کاکل و رخسار کا ذکر کرتے ہیں اور اپنے احساسات و جذبات کی بھی ترجمانی ان کے ہاں ملتی ہے لیکن عامیانہ پن سے وہ اپنے دامن کو آلودہ نہیں ہونے دیتے۔ ان کا محبوب شائد بازاری نہیں اسی لیے ان کی شاعری میں جنسیت کی کارفرمائی کا احساس تو ہوتا ہے لیکن اس میں ابتذال اور سوقیانہ پن نہیں ہے بلکہ جنس کا صحت مند تصور ان کے ہاں ملتا ہے۔ آتش کا محبوب بھی کوئی تخیلی مخلوق نہیں بلکہ ہماری ہی دنیا کا جیتا جاگتا انسان ہے جو خود بھی محبت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کی محبت میں ہوسناکی نہیں بلکہ اس میں سچائی اور خلوص کی آنچ موجود ہے۔
چمن میں شب کو وہ شوخ بے نقاب آیا
یقین ہو گیا شبنم کو آفتاب آیا
خواہاں ترے ہر رنگ میں اے یار ہمیں تھے
یوسف تھا اگر تو تو خریدار ہمیں تھے
اتش کی اخلاقی شاعری
آتش کو اخلاقی شاعری کا بادشاہ کہا گیا ہے۔ اور اسی خصوصیت نے ان کے کلام میں ایسے اشعار کا بیش بہا خزانہ جمع کر دیا ہے اور وہ ایسی سچائیوں کا آئینہ بھی بنتے ہیں کہ سننے والوں نے انہیں خرز جاں بنایا ہے۔ آتش کے ایسے شعروں کو آتش کے رندانہ اور قلندرانہ مزاج اور لکھنو کے پاکیزہ اور شائستہ تہذیبی مزاج کی ہم آہنگی کی بدولت ضرب المثل کی حیثیت اور مقبولیت حاصل ہو گئی ہے۔ چند اشعار پیش خدمت ہیں،
وفا سرشت ہوں شیوہ ہے راستی میرا
نہ کی وہ بات جو دشمن کو ناگوار ہوئی
مرصع سازی اور اتش کی شاعری
آتش کے نزدیک شاعری مرصع سازی ہے جس طرح مرصع ساز نگینوں کو جوڑ کر حسن پیدا کرتا ہے۔ اسی طرح شاعر الفاط کی بندش سے نگینوں کو جڑنے کا کام لیتا ہے۔ آتش کے کلام میں بھی ترشے ہوئے الفاظ آبدار موتی کی طرح لڑی میں پر توے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ اور اکثر اشعار میں روانی، موسیقیت کی حد تک پہنچ گئی ہے۔
بندش الفاظ جڑنے میں نگوں سے کم نہیں
شاعری بھی کام ہے آتش مرصع ساز کا
آتش کے نشاطیہ لہجے
آتش کی شاعری میں نہ شدید غم ہے نہ لکھنو جیسی خوشی اور سر مستی ہے ان کی شاعری میں معتدل قسم کا انبساط، سرور اور ایک خاص قسم کی راحت کا احساس ہے ان کے یہاں مہذب قسم کی زندہ دلی ہے پر امید ہونے کے ساتھ ساتھ عمل کی تعلیم اور تلقین پائی جاتی ہے۔
ہوائے دور مئے خوشگوار راہ میں ہے
خزاں چمن سے ہے جاتی بہار راہ میں ہے
آتش کی شاعری کا مجموعی جائزہ
تذکرہ نویسوں اور نقاروں نے آتش کے کلام کی تعریف کی ہے۔ استاد مصحفی نے اپنے شاگرد کو عظیم شاعر کہا ہے۔ آزاد اور بدالسلام ندوی نے آتش کی شاعری میں سادگی اور روانی اور ترنم کا بیان خاص طور پر کیا ہے۔
تاریخ ادب اردو میں رام بابو سکسینہ لکھتے ہیں،
میر و غالب کے بعد اگر کسی کا مرتبہ ہے تو وہ آتش ہیں۔ "مزید لکھتے ہیں کہ :۔ آتش کے ہاں صفائی اور محاورات کا بہترین تصرف ہے۔ “
بقول فراق : آتش کے یہاں دو طرح کے اشعار ہیں ایک وہ جن میں آتش کی انفرادی گرما گرمی اور کڑک اور دوسرے وہ جن میں آتش نے مصطفی کے رنگ کو چمکایا ہے۔ “
آخر میں ڈاکٹر ابولیث صدیقی کی رائے بھی سنتے ہیں، آتش کے یہاں عام لکھنوی، رنگ کے اشعار کافی ہیں لیکن اکثر اشعار میں درد و تاثر ہے“
0 تبصرے