Ticker

6/recent/ticker-posts

موت شاعری : موت پر اشعار - اردو پریم

موت شاعری : موت پر اشعار

موت جب آتی ہے تو زندگی کی حقیقت ختم ہو جاتی ہے۔ آج کی تحریر میں ہم موت پر متفرق اشعار پیش کرنے جا رہے ہیں۔ شعر و شاعری کے شوقین حضرت انہیں پڑھ کر محظوظ ہوں گے اور احباب کو بھیج سکیں گے۔

موت پر اشعار

.......

موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
مرزا غالبؔ

موت کا بھی علاج ہو شاید
زندگی کا کوئی علاج نہیں
فراقؔ گورکھپوری

اس گلی نے یہ سن کے صبر کیا
جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں
جونؔ ایلیا

آئی ہوگی کسی کو ہجر میں موت
مجھ کو تو نیند بھی نہیں آتی
اکبرؔ الہ آبادی

زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب
موت کیا ہے انہیں اجزا کا پریشاں ہونا
چکبستؔ برج نرائن

رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی
تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی
کیفیؔ اعظمی

زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے
ثاقبؔ لکھنوی

کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا
احمد ندیم قاسمی

کم سے کم موت سے ایسی مجھے امید نہیں
زندگی تو نے تو دھوکے پہ دیا ہے دھوکہ
فراقؔ گورکھپوری

مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی
موت آتی ہے پر نہیں آتی
مرزا غالبؔ

جو لوگ موت کو ظالم قرار دیتے ہیں
خدا ملائے انہیں زندگی کے ماروں سے
نظیرؔ صدیقی

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
خالدؔ شریف

ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
امیرؔ مینائی

قید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پاے کیوں
مرزا غالبؔ

مری زندگی تو گزری ترے ہجر کے سہارے
مری موت کو بھی پیارے کوئی چاہیئے بہانہ
جگرؔ مراد آبادی

ناامیدی موت سے کہتی ہے اپنا کام کر
آس کہتی ہے ٹھہر خط کا جواب آنے کو ہے
فانیؔ بدایونی

ماں کی آغوش میں کل موت کی آغوش میں آج
ہم کو دنیا میں یہ دو وقت سہانے سے ملے
کیفؔ بھوپالی

رونے والوں نے اٹھا رکھا تھا گھر سر پر مگر
عمر بھر کا جاگنے والا پڑا سوتا رہا
بشیر بدرؔ

شکریہ اے قبر تک پہنچانے والو شکریہ
اب اکیلے ہی چلے جائیں گے اس منزل سے ہم
قمرؔ جلالوی

لوگ اچھے ہیں بہت دل میں اتر جاتے ہیں
اک برائی ہے تو بس یہ ہے کہ مر جاتے ہیں
رئیسؔ فروغ

مانگی تھی ایک بار دعا ہم نے موت کی
شرمندہ آج تک ہیں میاں زندگی سے ہم
نامعلوم

موت ہی انسان کی دشمن نہیں
زندگی بھی جان لے کر جائے گی
عرش ؔملسیانی

زندگی اک سوال ہے جس کا جواب موت ہے
موت بھی اک سوال ہے جس کا جواب کچھ نہیں
امنؔ لکھنوی

موت سے کیوں اتنی وحشت جان کیوں اتنی عزیز
موت آنے کے لیے ہے جان جانے کے لیے
نامعلوم

بوڑھوں کے ساتھ لوگ کہاں تک وفا کریں
بوڑھوں کو بھی جو موت نہ آئے تو کیا کریں
اکبرؔ الہ آبادی

موت کا انتظار باقی ہے
آپ کا انتظار تھا نہ رہا
فانیؔ بدایونی

کون جینے کے لیے مرتا رہے
لو، سنبھالو اپنی دنیا ہم چلے
اخترؔ سعید خان

زندگی اک حادثہ ہے اور کیسا حادثہ
موت سے بھی ختم جس کا سلسلہ ہوتا نہیں
جگرؔ مراد آبادی

جانے کیوں اک خیال سا آیا
میں نہ ہوں گا تو کیا کمی ہوگی
خلیلؔ الرحمن اعظمی

گھسیٹتے ہوئے خود کو پھرو گے زیبؔ کہاں
چلو کہ خاک کو دے آئیں یہ بدن اس کا
زیبؔ غوری

بے تعلق زندگی اچھی نہیں
زندگی کیا موت بھی اچھی نہیں
حفیظؔ جالندھری

نہ گور سکندر نہ ہے قبر دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
حیدر علی آتشؔ

وہ جن کے ذکر سے رگوں میں دوڑتی تھیں بجلیاں
انہیں کا ہاتھ ہم نے چھو کے دیکھا کتنا سرد ہے
بشیر بدرؔ

نیند کو لوگ موت کہتے ہیں
خواب کا نام زندگی بھی ہے
احسن یوسف زئی

موت کہتے ہیں جس کو اے ساغرؔ
زندگی کی کوئی کڑی ہوگی
ساغرؔ صدیقی

موت کیا ایک لفظ بے معنی
جس کو مارا حیات نے مارا
جگرؔ مراد آبادی

بڑی تلاش سے ملتی ہے زندگی اے دوست
قضا کی طرح پتا پوچھتی نہیں آتی
شان الحق حقیؔ

اٹھ گئی ہیں سامنے سے کیسی کیسی صورتیں
روئیے کس کے لیے کس کس کا ماتم کیجئے
حیدر علی آتشؔ

اس وہم سے کہ نیند میں آئے نہ کچھ خلل
احباب زیر خاک سلا کر چلے گئے
جوشؔ ملسیانی

زندگی ہے اپنے قبضے میں نہ اپنے بس میں موت
آدمی مجبور ہے اور کس قدر مجبور ہے
احمدؔ امیٹھوی

اب نہیں لوٹ کے آنے والا
گھر کھلا چھوڑ کے جانے والا
اخترؔ نظمی

مجھ کو معلوم ہے انجام محبت کیا ہے
ایک دن موت کی امید پہ جینا ہوگا
مبارکؔ عظیم آبادی

ہماری زندگی تو مختصر سی اک کہانی تھی
بھلا ہو موت کا جس نے بنا رکھا ہے افسانہ
بیدمؔ شاہ وارثی

نیند کیا ہے ذرا سی دیر کی موت
موت کیا کیا ہے تمام عمر کی نیند
جگن ناتھ آزادؔ

موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لیے
محمودؔ رامپوری

زندگی سے تو خیر شکوہ تھا
مدتوں موت نے بھی ترسایا
نریش کمار شادؔ

دنیا میری بلا جانے مہنگی ہے یا سستی ہے
موت ملے تو مفت نہ لوں ہستی کی کیا ہستی ہے
فانیؔ بدایونی

انیسؔ دم کا بھروسا نہیں ٹھہر جاؤ
چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے
میرؔ انیس

موت بھی دور بہت دور کہیں پھرتی ہے
کون اب آ کے اسیروں کو رہائی دے گا
محمد علوی

زندگی فردوس گم گشتہ کو پا سکتی نہیں
موت ہی آتی ہے یہ منزل دکھانے کے لیے
حفیظؔ جالندھری

مرا گمان ہے شاید یہ واقعہ ہو جائے
کہ شام مجھ میں ڈھلے اور سب فنا ہو جائے
عاصمؔ بخشی

موت خاموشی ہے چپ رہنے سے چپ لگ جائے گی
زندگی آواز ہے باتیں کرو باتیں کرو
احمد مشتاق
رائے زنی
یوں تیری رہ گزر سے دیوانہ وار گزرے
کاندھے پہ اپنے رکھ کے اپنا مزار گزرے
مینا کماری نازؔ

تری وفا میں ملی آرزوئے موت مجھے
جو موت مل گئی ہوتی تو کوئی بات بھی تھی
خلیل الرحمن اعظمی

درد کو رہنے بھی دے دل میں دوا ہو جائے گی
موت آئے گی تو اے ہمدم شفا ہو جائے گی
حکیم محمد اجمل خاں شیداؔ

مٹی کا بدن کر دیا مٹی کے حوالے
مٹی کو کہیں تاج محل میں نہیں رکھا
منور راناؔ

بلا کی چمک اس کے چہرہ پہ تھی
مجھے کیا خبر تھی کہ مر جائے گا
احمد مشتاقؔ

موت کے ساتھ ہوئی ہے مری شادی سو ظفرؔ
عمر کے آخری لمحات میں دولہا ہوا میں
ظفرؔ اقبال

موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
مرزا شوقؔ لکھنوی

کیسے آ سکتی ہے ایسی دل نشیں دنیا کو موت
کون کہتا ہے کہ یہ سب کچھ فنا ہو جائے گا
احمد مشتاق

حد سے گزرا جب انتظار ترا
موت کا ہم نے انتظار کیا
میر علی اوسط رشک

چھوڑ کے مال و دولت ساری دنیا میں اپنی
خالی ہاتھ گزر جاتے ہیں کیسے کیسے لوگ
اکبرؔ حیدرآبادی

بہت عزیز تھی یہ زندگی مگر ہم لوگ
کبھی کبھی تو کسی آرزو میں مر بھی گئے
عباسؔ رضوی

کل اس کی آنکھ نے کیا زندہ گفتگو کی تھی
گمان تک نہ ہوا وہ بچھڑنے والا ہے
امیدؔ فاضلی

زندگی کی بساط پر باقیؔ
موت کی ایک چال ہیں ہم لوگ
باقیؔ صدیقی

نشہ تھا زندگی کا شرابوں سے تیز تر
ہم گر پڑے تو موت اٹھا لے گئی ہمیں
عرفان احمد

سنبھالا ہوش تو مرنے لگے حسینوں پر
ہمیں تو موت ہی آئی شباب کے بدلے
سخنؔ دہلوی

موت برحق ہے ایک دن لیکن
نیند راتوں کو خوب آتی ہے
جمالؔ اویسی

آخر اک روز تو پیوند زمیں ہونا ہے
جامۂ زیست نیا اور پرانا کیسا
لالہ مادھو رام جوہرؔ

کسی کے ایک اشارے میں کس کو کیا نہ ملا
بشر کو زیست ملی موت کو بہانہ ملا
فانیؔ بدایونی

عیادت ہوتی جاتی ہے عبادت ہوتی جاتی ہے
مرے مرنے کی دیکھو سب کو عادت ہوتی جاتی ہے
مینا کماری نازؔ

روتے جو آئے تھے رلا کے گئے
ابتدا انتہا کو روتے ہیں
ریاضؔ خیرآبادی

اے اجل ایک دن آخر تجھے آنا ہے ولے
آج آتی شب فرقت میں تو احساں ہوتا
امام بخش ناسخؔ

موت نہ آئی تو علویؔ
چھٹی میں گھر جائیں گے
محمد علویؔ

وداع کرتی ہے روزانہ زندگی مجھ کو
میں روز موت کے منجدھار سے نکلتا ہوں
ظفرؔ اقبال

جو انہیں وفا کی سوجھی تو نہ زیست نے وفا کی
ابھی آ کے وہ نہ بیٹھے کہ ہم اٹھ گئے جہاں سے
عبد المجید سالکؔ

موت آ جائے قید میں صیاد
آرزو ہو اگر رہائی کی
رندؔ لکھنوی

موت مانگی تھی خدائی تو نہیں مانگی تھی
لے دعا کر چکے اب ترک دعا کرتے ہیں
یگانہؔ چنگیزی

یہ ہجرتیں ہیں زمین و زماں سے آگے کی
جو جا چکا ہے اسے لوٹ کر نہیں آنا
آفتاب اقبال شمیمؔ

اے ہجر وقت ٹل نہیں سکتا ہے موت کا
لیکن یہ دیکھنا ہے کہ مٹی کہاں کی ہے
ناظم علی خان ہجرؔ

خاک اور خون سے اک شمع جلائی ہے نشورؔ
موت سے ہم نے بھی سیکھی ہے حیات آرائی
نشورؔ واحدی

وہ اگر آ نہ سکے موت ہی آئی ہوتی
ہجر میں کوئی تو غمخوار ہمارا ہوتا
اخترؔ شیرانی

بحر غم سے پار ہونے کے لیے
موت کو ساحل بنایا جائے گا
جلیلؔ مانک پوری

نہیں ضرور کہ مر جائیں جاں نثار تیرے
یہی ہے موت کہ جینا حرام ہو جائے
فانیؔ بدایونی

مری نعش کے سرہانے وہ کھڑے یہ کہہ رہے ہیں
اسے نیند یوں نہ آتی اگر انتظار ہوتا
صفیؔ لکھنوی

پتلیاں تک بھی تو پھر جاتی ہیں دیکھو دم نزع
وقت پڑتا ہے تو سب آنکھ چرا جاتے ہیں
امیرؔ مینائی

کہانی ہے تو اتنی ہے فریب خواب ہستی کی
کہ آنکھیں بند ہوں اور آدمی افسانہ ہو جائے
سیمابؔ اکبرآبادی

اپنے کاندھوں پہ لیے پھرتا ہوں اپنی ہی صلیب
خود مری موت کا ماتم ہے مرے جینے میں
حنیفؔ کیفی

نہ سکندر ہے نہ دارا ہے نہ قیصر ہے نہ جم
بے محل خاک میں ہیں قصر بنانے والے
مرزارضا برقؔ 

موت سے پہلے جہاں میں چند سانسوں کا عذاب
زندگی جو قرض تیرا تھا ادا کر آئے ہیںڑ
حیدرؔ قریشی

میں ناحق دن کاٹ رہا ہوں
کون یہاں سو سال جیا ہے
محمد علویؔ

دن ڈھل رہا تھا جب اسے دفنا کے آئے تھے
سورج بھی تھا ملول زمیں پر جھکا ہوا
محمد علویؔ

بندھن سا اک بندھا تھا رگ و پے سے جسم میں
مرنے کے بعد ہاتھ سے موتی بکھر گئے
بشیر الدین احمد دہلوی

موت کی ایک علامت ہے اگر دیکھا جائے
روح کا چار عناصر پہ سواری کرنا
خورشید رضوی

فی الحقیقت کوئی نہیں مرتا
موت حکمت کا ایک پردا ہے
شیخ ظہور الدین حاتمؔ

ہاں اے فلک پیر جواں تھا ابھی عارف
کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور
مرزا غالبؔ

نہیں بچتا ہے بیمار محبت
سنا ہے ہم نے گویاؔ کی زبانی
فقیر محمد گویاؔ

اے اجل کچھ زندگی کا حق بھی ہے
زندگی تیری امانت ہی سہی
اکبرؔ حیدری کشمیری

اک محبت بھرے سنیما میں
میرے مرنے کا سین میرے خواب
وجے شرما

دل کئی سال سے مرگھٹ کی طرح سونا ہے
ہم کئی سال سے روشن ہیں چتاؤں کی طرح
عقیلؔ نعمانی

خوب و زشت جہاں کا فرق نہ پوچھ
موت جب آئی سب برابر تھا
امداد امام اثرؔ

مصروف گورکن کو بھی شاید پتہ نہیں
وہ خود کھڑا ہوا ہے قضا کی قطار میں
نداؔ فاضلی

خاک بدن تری سب پامال ہوگی اک دن
ریگ رواں بنے گا آخر کو یہ جزیرہ
مصحفی غلام ہمدانیؔ

تابع رضا کا اوس کی ازل سیں کیا مجھے
چلتا نہیں ہے زور کسوں کا قضا کے ہاتھ
شیخ ظہور الدین حاتمؔ

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے