Ticker

6/recent/ticker-posts

رموز اوقاف کا بیان | رموز اوقاف کی تعریف

رموز اوقاف کا بیان | رموز اوقاف کی تعریف

کسی بھی زبان میں کلام یا جملوں کو ایک دوسرے سے الگ سمجھنے اور جدا جدا کرنے کے لئے جو علامات استعمال کی جاتی ہیں انہیں رموز اوقاف کہتے ہیں۔ جملے کے درست مطلب جاننے اور لکھنے کے لئے رموز اوقاف کا علم ہونا اور استعمال کرنے کے صحیح طریقے جاننا بے حد ضروری ہوتا ہے۔ اردو زبان میں رموز اوقاف کی ایک علامت جسے وقفہ کہتے ہیں اس کا استعمال دیکھیے ”ٹھہرو مت جاؤ“ کے دو مطلب لیے جا سکتے ہیں ”ٹھہرو، مت جاؤ“ اور ”ٹھہرو مت، جاؤ“۔ صرف ایک علامت کے آگے پیچھے کر دینے سے پورا مطلب تبدیل ہو جاتا ہے۔ رموز اوقاف میں بہت سی علامات ہوتی ہیں جن کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔

رموز اوقاف کی تعریف

اپنے خیالات دوسروں تک پہنچانے کے لیے زبان کی ضرورت ہوتی ہے۔ کسی بھی زبان کی تین حالت ہوتی ہے۔ پہلا بول کر دوسرا اشاروں میں اور تیسرا تحریری شکل میں اپنی باتیں لکھنا۔ ہم اپنی بول چال کے دوران چہرے کے تاثرات، لب و لہجے کے تغیرات، آواز کے زیر و بم اور بات کے دوران مناسب جگہوں پر وقفے دے کر اپنی بات کو مجید موثر بناتے ہیں لیکن تحریری شکل میں اپنی تحریر کو زیادہ سے زیادہ موثر بنانے کے لیے تحریر کے دوران میں چند علامتوں اور نشانات کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اِنہیں نشانات اور علامتوں کو رموز اوقاف کہا جاتا ہے۔

رمز کی جمع رموز ہے جس کے معنی اشارہ کرنے کے ہیں اور اوقاف وقف کی جمع ہے جس کے معنیٰ ہے ٹہرنا یا رکنا ہے۔ رموز اوقاف سے مراد ہے ٹہرنے کا اشارہ یا علامات۔ یہ وہ اشارے اور علامتیں ہیں جو معنیٰ کو بہتر طور پر واضح کرنے کے لیے تحریر کے دوران استعمال کی جاتی ہیں۔ ان کے ذریعے پڑھنے والا عبارت کو تسلسل و آسانی سے سمجھتا جاتا ہے اس کے علاوہ اس کی وجہ سے پڑھنے کے دوران ٹھہرنے اور سانس لینے کے لیے مناسب مواقع بھی ملتے جاتے ہیں۔ جس سے پڑھنے والوں کو مطالعہ کے دوران آسانی ہوتی ہے۔

رموز اوقاف کی علامات


سکتہ:

اس کی علامت یہ (،) ہے، اس علامت کو ایک جملے کے الفاظ یا مرکبات کے درمیان استعمال کیا جاتا ہے اس پر تھوڑا ٹھہرنا چاہیے۔

وقفہ:

اس کی علامت (؛) اس علامت کو مفرد جملہ کے اختتام پر لگائی جاتی ہے۔ سکتہ کی نسبت یہاں زیادہ ٹھہرنے کا حکم ہے۔

وقف کامل:

اس کی علامت یہ (۔) ہے اس پر ٹھہرنا ہوگا۔

علامت حذف:

اس کی علامت یہ (°)ہے، اگر عبارت میں کسی چیز کا ذکر نہ کرنا ہو تو اس علامت کا استعمال کرتے ہیں۔

علامت استفہام:

اس کی علامت یہ (؟) ہے یہ علامت سوالیہ جملے کے آخر میں آتی ہے۔

علامت تعجب یا ندا:

اس کی علامت یہ (!) ہے۔ کسی تعجب یا حیرانگی یا جذبات کے اظہار کے بعد یہ علامت استعمال کی جاتی ہے۔

علامت تفصیلہ:

اس کی نشانی یہ (:) ہے، کسی جملے کے مفہوم کو واضح کرنا ہو تو یہ علامت استعمال کی جاتی ہے۔ مثلا یہ وقت: جو گزر رہا ہے اسے واپس نہیں لایا جاسکتا۔

علامت ترک:

اس کی نشانی یہ (.) ہے، عبارت میں کسی لفظ کے چھوٹ جانے پر استعمال کی جاتی ہے۔

علامت ذیل:

اس کی نشانی یہ (:-) ہے اور ذیل کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔

علامت اقبتاس:

اس کی نشانی یہ (” “)ہے، یہ علامت کسی عبارت کے شروع میں اور آخر میں لگائی جاتی ہے۔

علامت شعر:

یہ علامت (؀) نثر کے درمیان شعر کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔

علامت مصرع:

نثر کے درمیان مصرع آ جائے تو یہ علامت (ع) استعمال کرتے ہیں۔

علامت صفحہ:

یہ علامت(؃) کسی عبارت میں صفحہ کے حوالہ کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔

علامت قوسین:

اسے خطوط وحدانی بھی کہتے ہیں۔ اس کی نشانی یہ تین خطوط [{()}] ہیں۔ کسی شے کی وضاحت کے لیے استعمال ہوتی ہے۔

علامت حاشیہ:

کسی جملے یا لفظ کا مطلب حاشیہ میں لکھنا ہو تو یہ (؂) علامت استعمال کی جاتی ہے۔

علامت تخلص یا بیت:

شاعر کے تخلص پر استعمال ہوتی ہے اس کی نشانی یہ ؔ ہے۔

علامت خط:

کسی جملہ معترضہ کو اصل جملے سے الگ کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے، اس کی علامت یہ(-) ہے۔

علامت الخ:

یہ علامت الی آخرہ کا مخفف ہے، عبارت کے کچھ الفاظ لکھ کر کچھ نقطے ڈال کر آخر میں الخ(۔۔۔۔الخ) لکھ دیتے ہیں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے